دفتر اول مکتوب 109
حکیم صدر1 کی طرف صادر فرمایا۔ قلب کی سلامتی اور ما سوائے حق کے نسیان کے بیان میں۔
اہل اللہ (اولیاء) امراضِ قلبیہ کے اطباء ہیں، اور امراضِ باطنیہ کا ازالہ ان بزرگوں کی توجہ سے وابستہ ہے۔ ان کا کلام دوا ہے اور ان کی نظر شفا ہے (ان کے متعلق حدیث شریف میں ہے) "ھُمْ قَوْمٌ لَّا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ"2 ترجمہ: ”یہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والے بد بخت نہیں ہوتے“۔ (نیز) "وَ هُمْ جُلَسَآءُ اللهِ"3 ترجمہ: ”یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے ہم نشین ہیں“۔ (نیز فرمایا) "بِھِمْ یُمْطَرُوْنَ وَ ھُمْ یُرْزَقُوْنَ"4 ترجمہ: ”انہی لوگوں کی برکت سے بارش ہوتی ہے اور انہی کے طفیل (مخلوق کو) رزق دیا جاتا ہے“۔
باطنی امراض کی جڑ اور معنوی علّتوں (اندرونی بیماریوں) کا سردار (سب سے بڑی بیماری) دل کا غیرِ حق تعالیٰ کے ساتھ گرفتاری (پھنسا رہنا) ہے۔ جب تک اس گرفتاری سے مکمل طور پر آزادی حاصل نہ ہو جائے سلامتئ (ایمان) محال ہے۔ کیونکہ شرکت کو حضرت جل سلطانہٗ کی بارگاہِ عالی میں ہرگز دخل نہیں ہے۔ ﴿أَلَآ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر: 3) ترجمہ: ”یاد رکھو کہ خالص بندگی اللہ ہی کا حق ہے“۔ پس کیا حال ہو گا (اس شخص کا) جو شریک کو (حق تعالیٰ کی محبت پر) غالب کر لے۔ نہایت بے حیائی کی بات ہے کہ غیر اللہ کی محبت کو حق تعالیٰ کی محبت پر اس طرح غالب کر لیا جائے کہ حق تعالیٰ کی محبت اس کے مقابلے میں معدوم یا مغلوب ہو جائے۔ "اَلْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ"5 ترجمہ: ”حیا ایمان کی ایک فرع (شاخ ہے)“ میں شاید اسی حیا کی طرف اشارہ ہے۔
اور قلب کے گرفتار نہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ (دل) ما سوا کو کلّی طور پر بھول جائے اور تمام اشیاء کو اس طرح فراموش کر دے کہ اگر تکلف سے بھی اشیاء کو یاد کرنا چاہے تو اس کو یاد نہ آئیں۔ پس اشیاء کے ساتھ گرفتاری کی اس مقام میں کیا گنجائش ہے۔ اسی حالت کو اہل اللہ فنا سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہ فنا اس راہ میں قدمِ اول ہے اور یہ مقام انوار قدم کے ظہور کا مبدا ہے اور معارف و حکم کے ورود کا منشا ہے وَ بِدُوْنِھَا خَرْطُ الْقِتَادِ (اس کے علاوہ بے فائدہ رنج اٹھانا ہے) بیت:
ہیچ کس را تا نگردد او فنا
نیست رہ در بارگاہِ کبریا
ترجمہ:
جس کو حاصل ہی نہیں راہِ فنا
کس طرح پائے وہ راہِ کبیریا؟
1 مکتوبات میں آپ کے نام یہی ایک مکتوب ہے۔ مسیح الزماں مرزا صدرالدین فخر الدین شیرازی اکبری دور میں ہندوستان آئے اور جہانگیر کے زمانے میں تمام اطباء میں ممتاز ہوئے۔ حکمت و حذاقت میں شہرت پائی۔ سنہ 1061ھ میں انتقال ہوا۔ (نزھۃ الخواطر، جلد: 5، صفحہ نمبر: 179، و مآثر الأمراء، جلد: 1، صفحہ نمبر: 574)
2 تا 5 بخاری و مسلم۔