دفتر 1 مکتوب 105: اس بیان میں کہ بیمار جب تک تندرست نہ ہو جائے اُسے کوئی غذا فائدہ نہیں دیتی اور اس کے مناسب بیان میں

دفتر اول مکتوب 105

حکیم عبد القادر؂1 کی طرف صادر فرمایا، اس بیان میں کہ بیمار جب تک تندرست نہ ہو جائے اُسے کوئی غذا فائدہ نہیں دیتی اور اس کے مناسب بیان میں۔

چونکہ اطِباء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ مریض جب تک بیماری سے صحت یاب نہ ہو جائے، کوئی غذا اُسے فائدہ نہیں دیتی اگرچہ مرغِ متنجن ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ (بیماری کی حالت میں) غذا مرض کو بڑھا دیتی ہے مصرع:

ہر چہ گیرد علتی علت شود

ترجمہ:

ہر غذا بیمار کے حق میں ہے مضر

لہذا پہلے مرض کو دُور کرنے کی فکر کرتے ہیں اس کے بعد آہستہ آہستہ مناسب غذاؤں سے اصلی قوت و طاقت کی طرف لاتے ہیں۔ پس آدمی جب تک قلبی امراض میں مبتلا ہے ﴿فِيْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ﴾ (البقرة: 10) ترجمہ: ”ان کے دلوں میں روگ ہے“۔ کوئی عبادت و اطاعت اس کو فائدہ نہیں دیتی بلکہ مضر ثابت ہوتی ہے۔ "رُبَّ تَالٍ لِّلْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ یَلْعَنُہٗ"؂2 ترجمہ: ”بعض لوگ قرآن کریم اس طرح پڑھتے ہیں کہ قرآن کریم اُن پر لعنت کرتا ہے“۔ نیز "وَ رُبَّ صَائِمٍ لَّیْسَ لَہُ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّا الْجُوْعُ وَ الظَّمَأُ"؂3 ترجمہ: ”بہت سے روزے دار ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا“ (کیونکہ وہ جھوٹ اور غیبت وغیرہ سے پرہیز نہیں کرتے) حدیث صحیح مشہور ہے۔

قلبی امراض کے اطباء (یعنی مشائخ کرام) بھی پہلے مرض دوُر کرنے کا حکم فرماتے ہیں، اور اس مرض سے مراد ما سوائے حق کی گرفتاری بلکہ اپنی خواہشاتِ نفس میں پھنسا رہنا ہے کیونکہ ہر شخص جو کچھ چاہتا ہے اپنے (نفس کے لئے) چاہتا ہے، اگر بیٹے کو دوست رکھتا ہے تو بھی اپنے فائدے کے لئے، اور اسی طرح مال و دولت اور ریاست و سرداری چاہتا ہے تو بھی اپنے لئے، پس در حقیقت اس کا معبود اس کی اپنی نفسانی خواہش ہے، جب تک نفس کی اس قید سے خلاصی نہ ہو جائے نجات کی امید بہت مشکل ہے۔ پس عقل مند علماء اور صاحبِ بصیرت حکماء پر لازم ہے کہ اس مرض کے ازالے کی فکر کریں۔

در خانہ اگر کس است یک حرف است

ترجمہ:

گھر میں کوئی ہو تو بس اک بات کافی ہی اُسے

؂1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے، غالبًا علامہ عبد القادر بن ابی محمد بغدادی ثم الاجینی مراد ہے جو منطق اور حکمت کے ممتاز علماء میں سے تھے۔ سنہ 1021ھ میں وفات پائی۔ (نزھۃ الخواطر، جلد: 5، صفحہ نمبر: 232)

؂2 اس حدیث کو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے إحیاء العلوم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ (معرب)

؂3 اس حدیث کو ابن حجر، نسائی اور ابن ماجہ نے کم و بیش الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔