دفتر اول مکتوب 102
ملا مظفر1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ سودی قرض میں صرف زیادتی والی رقم ہی حرام نہیں بلکہ مجموعی رقم حرام ہے، مثلًا کسی شخص نے دس تنکے (ٹکے) بارہ تنکے کے عوض قرض لئے تو اس صورت میں مجموعی رقم بارہ تنکے حرام قرار پائیں گے نہ کہ صرف زیادتی والے دو تنکے، اور اس کے متعلقات میں۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ وَ سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) آپ نے ایک دن فرمایا تھا کہ سودی قرض میں صرف زیادتی والی رقم ربا ہے اور بس (یعنی) دس تنکے قرض کے عوض بارہ تنکے (لینے دینے) کی صورت میں صرف یہی دو تنکے زیادتی والے حرام ہیں۔ لیکن جب بعض کتبِ فقہیہ کی طرف رجوع کیا گیا تو ظاہر ہوا کہ شریعت میں ہر وہ معاملہ جس میں زیادتی ہو وہ بھی ربا (سود) ہے۔ پس اس طرح کا سودی قرضہ بھی حرام ہے اور جو کچھ حرام کے ذریعے حاصل کیا جائے گا وہ بھی حرام ہو گا اور وہ دس ٹکے بھی ربا اور حرام ہوں گے۔
کتاب جامع الرموز اور روایات کتاب ابراہیم شاہی کے بھیجنے سے مقصود اسی معنی و مطلب کا اظہار تھا۔ باقی رہی احتیاج کی بات، سو میرے مخدوم! ربا (سود) کی حرمت تو نصِ قطعی سے ثابت ہے جو حاجت مند اور غیر حاجت مند سب کو شامل ہے، یہاں محتاج کو اس قطعی حکم سے خارج کر دینا حکم قطعی کو منسوخ کر دینے کے مترادف ہے۔ رہی قنیہ2 کی روایت، تو وہ ہرگز اس درجے کی نہیں کہ حکمِ قطعی کو منسوخ کر سکے۔ مولانا جلال الدین لاہوری جو کہ علمائے لاہور میں بڑے پایہ کے علماء میں سے ہیں، فرماتے تھے کہ قنیہ کی بہت سی روایات قابلِ اعتماد نہیں ہیں اور کتبِ معتبرہ کی مخالف ہیں۔ اگر قنیہ کی اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو بھی احتیاج کی اس صورت کو اضطرار و مخمصہ کی حالت پر محمول کرنا چاہیے تاکہ آیتِ کریمہ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ﴾ (المائدۃ: 3) ترجمہ: ”ہاں جو شخص شدید بھوک کے عالم میں بالکل مجبور ہو جائے (اور اس مجبوری میں ان حرام چیزوں میں سے کچھ کھالے)“۔ اس حکم قطعی کے ساتھ مختص ہو جائے کیونکہ ارزوئے قوت آیت ہی آیت کے برابر ہو سکتی ہے؎
کہ رستم را کشد ہم رخش رستم
ترجمہ:
رستم کو بس اُسی کا گھوڑا اُٹھا سکے ہے
اور اگر محتاجی کو عام کر دیا جائے (یعنی اضطرار کی قید نہ لگائی جائے) تو پھر حرمتِ ربا کی کوئی صورت بھی نہ نکل سکے گی۔ کیونکہ جو شخص بھی (اپنی جیب سے) زیادہ رقم دینا قبول کرتا ہے اس کی علت کوئی نہ کوئی احتیاج ضرور ہوتی ہے کیونکہ کوئی شخص بھی بلا وجہ اپنے نقصان کا مرتکب نہیں ہوا کرتا۔ پس اس صورت میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے نازل فرمائے ہوئے حکم کا کوئی خاص فائدہ مرتب نہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی کتاب عزیز جس میں فائدے ہی فائدے ہیں، اس قسم کی وہمی باتوں سے پاک ہے۔ اگر بفرضِ محال عام محتاجی کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو ہم کہتے ہیں کہ احتیاج بھی منجملہ ضروریات میں سے ہے اور ضرورت بقدر اندازۂ ضرورت پوری کی جاتی ہے، پس اس سودی رقم سے کھانا پکانا اور لوگوں کو کھلانا ہرگز ضرورت و احتیاج میں داخل نہیں ہے اور نہ کوئی ضرورت اس سے متعلق ہے، اسی لئے تَرکہ میت میں سے میت کی ضروری چیزیں مستثنیٰ ہیں، صرف کفن و دفن (کے اخراجات) کو میت کے ترکہ میں منحصر کیا ہے، اور اس کی روحانیت (ایصالِ ثواب) کے لئے کھانا پکانا بھی احتیاج و ضرورت میں داخل نہیں، حالانکہ میّت صدقہ و خیرات کی بہت محتاج ہوتی ہے۔ پس صورتِ متنازع فیہ میں غور فرمائیں کہ سودی قرض لینے والے (در حقیقت) محتاج ہیں یا نہیں۔ اور احتیاج و ضرورت کی صورت میں سودی رقم سے جو کھانا کسی جماعت کے لئے پکایا جائے اس جماعت کو وہ کھانا حلال بھی ہے یا نہیں؟ کُنبے والوں اور سپاہیوں کو حیلۂ احتیاج بتانا اور اس بہانہ سے سودی روپیہ لینا اور اس کو جائز و حلال سمجھنا دین داری سے بعید ہے۔
چاہیے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس جماعت کو جو اس بَلا (سودی قرضہ) میں مبتلا ہیں منع کرنا چاہیے اور اس حیلے کی غلطی سے (حکمت و موعظت کے ساتھ) اُن کو آگاہ کرنا چاہیے۔ ایسا کام کیوں کیا جائے جس میں ان ممنوعات کا ارتکاب کرنا پڑے، آخر معاش (حاصل کرنے کے) ذرائع اور بہت ہیں، اس سپاہ گری پر ہی معاش منحصر نہیں ہے۔ چونکہ آپ صلاح و تقوٰی سے آراستہ ہیں اس لئے آپ کو وہ روایت بھیجی جا رہی ہے جس میں حلال و طیب کھانے کی تاکید ہے۔
آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ اس زمانے میں شبہ سے خالی غذا کا میسر آنا مشکل ہے، یہ بات درست ہے لیکن جہاں تک ہو سکے مشتبہ چیزوں سے بچنا چاہیے، بے طہارت کھیتی باڑی کے ذریعۂ معاش کو آپ نے پاکیزگی کے خلاف سمجھا ہے، ہندوستان میں اس سے بچنا ممکن نہیں (جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے) ﴿لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾ (البقرة: 286) ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“۔ لیکن سودی (رقم سے تیار کئے ہوئے) کھانے کو نہ کھانا بہت آسان کام ہے۔ حلال کو حلال اور حرام کو حرام جاننا بہت ضروری ہے اس کا انکار کفر تک پہنچا دیتا ہے، ظنیات میں ایسا نہیں ہے، بہت سے کام حنفيہ کے نزدیک مباح ہیں جو شافعیہ کے ہاں مباح نہیں، اور اس کے بر خلاف بھی موجود ہے۔ (یعنی شافعیہ کے ہاں مباح اور حنفیہ کے ہاں غیر مباح)
ہم جس مسئلے میں گفتگو کر رہے ہیں اس میں اگر کوئی شخص مشکوک ضرورت مند کے لئے سودی قرض کے حلال ہونے میں جو بظاہر نص قطعی کے حکم کے خلاف ہے، توقف کرے تو اُسے گمراہ قرار نہیں دینا چاہیے اور اس کو مجبور نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اعتقاد میں اس کو حلال جانے، کیونکہ صحت و صواب اسی کی جانب راجح و متیقن ہے (جو سودی قرض کی حرمت کا قائل ہے) اور اس کا مخالف خطرے میں ہے۔
آپ کے احباب میں سے کسی نے بیان کیا ہے کہ ایک روز مولانا عبد الفتاح نے آپ کے سامنے کہا کہ اگر سود کے بغیر قرض مل جائے تو بہتر ہے پھر سود پر قرض لینے کی کیا ضرورت ہے، تو آپ نے اُن (مولانا موصوف) کو ڈانٹا اور کہا "تم حلال چیز کا انکار کرتے ہو؟" میرے مخدوم! اس قسم کی باتوں کی حلالِ قطعی میں تو گنجائش ہے لیکن یہ سودی قرضہ (آپ کے خیال کے مطابق) اگر حلال بھی ہو تو بھی یقینًا اس کا ترک اولیٰ ہے، کیونکہ اہلِ تقوٰی رخصت (اجازت) کا حکم نہیں کرتے بلکہ عزیمت (ارادہ) پر دلالت کرتے ہیں۔
لاہور کے مفتیوں نے احتیاج و ضرورت کی وجہ سے اس کے حلال ہونے کا حکم دے دیا ہے (لیکن) احتیاج کا دامن بڑا وسیع ہے اگر اس کو پھیلایا جائے تو کوئی چیز سود نہیں رہتی، اور حرمتِ ربا کا حکم (نعوذ باللہ) عبث و بے فائدہ ہو جائے گا جیسا کہ قبل ازیں (اوپر) بیان کیا جا چکا ہے، لیکن آپ کو یہ بات خوب ملحوظ رکھنی چاہیے کہ دوسروں کو (اس سودی رقم سے) کھانا کھلانا احتیاج کی کس قسم سے ہے جو قرض لینے والے کو مجبور کرتی ہے؟ بہر حال قنیہ کی روایت بھی احتیاج والے کو سودی قرض لینے کی اجازت دیتی ہے دوسروں کے لئے اس کی اجازت نہیں دیتی۔
اگر کوئی کہے کہ کسی محتاج نے اس کھانے کو شاید کفارۂ قسم یا کفارۂ ظہار یا روزے کا کفارہ ادا کرنے کی بنا پر پکایا ہو اور اس میں شک نہیں کہ وہ اس کفارہ کی ادائیگی کا حاجت مند ہے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی محتاج (کفارہ میں مساکین کو) کھانا کھلانے کی استطاعت نہیں رکھتا تو (شرع شریف کے مطابق) روزے رکھے نہ کہ سودی قرض لے (اور کھانا کھلائے) اور اگر اسی قسم کی اور کوئی احتیاج پیش آ جائے تو تھوڑی سی توجہ اور تقوٰی کی برکت سے وہ احتیاج (بغیر سودی قرض کے ) پوری ہو سکتی ہے (حق تعالیٰ کا ارشادہے) ﴿وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا 0 وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق: 2-3) ترجمہ: ”اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہو گا“۔ آپ پر سلام ہو اور اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔
1 ملا مظفر کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے مزید حالات معلوم نہ ہو سکے۔
2 کشف الظنون میں ہے کہ "قنیۃ المنیۃ علی مذہب أبی حنیفہ" الشیخ الإمام ابی الرجا نجم الدین مختار بن محمود الزابدی حنفی المتوفی 658ھ کی تصنیف ہے۔ علماء کے ہاں وہ اس روایت کے ساتھ مشہور ہے اور یہ کہ اس کا مصنف معتزلی ہے۔