ضروری احکامِ عیدین

ضروری احکامِ عیدین

بہ مصلحت حاضرین کے خطبہ کے ساتھ عیدالفطر میں صدقۂ فطر کے اور عید الاضحٰی میں قربانی کے مسائلِ خطبہ سے فارغ ہو کر منبر سے نیچے اتر کر بیان کر دے(1. تَقْرِيْرُ الْمَرَامِ أَنَّهٗ رَوٰى مُسْلِمٌ عَنْ جَابِرٍ فِیْ قِصَّةِ يَوْمِ الْفِطْرِ: "ثُمَّ خَطَبَ النَّبِیُّ ﷺ النَّاسَ، فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ، فَأَتَی النِّسَاءَ فَذَکَّرَهُنَّ…" (الصحیح لمسلم، کتاب صلوۃ العیدین، رقم الحدیث: 885)، وَ رَوَى الْبُخَارِیُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ بَعْدَ وَعْظِ النِّسَاءِ: "ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَ بِلَالٌ إِلٰى بَيْتِهٖ…" (الصحیح للبخاری، ابواب العیدین، باب: العلم الذی بالمصلی، رقم الحدیث: 977)، فَقَوْلُهٗ: "فَرَغَ وَ نَزَلَ وَ انْطَلَقَ إِلٰى بَيْتِهٖ" نَصٌّ فِیْ كَوْنِ هٰذَا التَّذْكِيْرِ بَعْدَ الْخُطْبَةِ، وَأَنَّهٗ لَمْ يَكُنْ عَلَى الْمِنْبَرِ وَ أَنَّهٗ لَمْ يَعُدْ إِلَى الْمِنْبَرِ، وَ لَمَّا كَانَ هٰذَا الْكَلَامُ غَيْرَ الْخُطْبَةِ لَخُلُوِّهٖ عَنِ الْخِطَابِ الْعَامِّ الَّذِیْ هُوَ مِنْ خَوَاصِّ الُخُطْبَةِ ثَبَتَ بِهٖ أَنَّ غَیْرَ الْخُطْبَةِ لَا يَنْبَغِيْ أْنْ يَّكُوْنَ فِیْ أَثْنَاءِ الْخُطْبَةِ وَ لَا عَلٰى هَيْئَةِ الْخُطْبَةِ، وَ لَا شَكَّ أَنَّ التَّذْكِيْرَ بِالْهِنْدِيَّةِ لَيْسَ مِنَ الْخُطْبَةِ الْمَسْنُوْنَةِ فِیْ شَیْءٍ، لِأَنَّ مِنْ خَوَاصِّهَا الْمَقْصُوْدَةِ كَوْنَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِعَدْمِ نَقْلِ خِلَافِهَا عَنْ صَاحِبِ الْوَحْیِ أَوِ السَّلَفِ، فَلَمَّا لَمْ يَكُنْ هٰذَا التَّذْكِيْرُ بِالْهِنْدِيَّةِ خُطْبَةً مَّسْنُوْنَةً كَانَ أَوْفَقُ بِالسُّنَّةِ كَوْنَهَا بَعْدَ الْفَرَاغِ عَنِ الْخُطْبَةِ وَ تَحْتَ الْمِنْبَرِ وَهُوَ الْمَرَامُ۔) اور یہ ہیئت سنت کے زیادہ موافق ہے۔

احکامِ صدقۂ فطر:

ہر مرد و عورت مسلمان جسکے پاس بقدرِ نصاب چاندی یا سونا یا اسی قدر مالیت کا اسباب ضروری حاجت سے زائد ہو اس پر صدقۂ فطر واجب ہے اگرچہ وہ اسباب تجارت کا نہ ہو، اگرچہ روزے کسی وجہ سے نہ رکھے ہوں، اگر گیہوں دیوے تو نصف صاع واجب ہے جو انگریزی تول سے پونے دو سیر ہوتا ہے اور اگر جَو دیوے تو اس کا دو چند دیوے(2. دو چند کا مطلب یہ ہے کہ جس برتن میں پونے دو سیر گیہوں آ جاویں اس برتن کو دو دفعہ بھر کر دے۔) اور اگر علاوہ اس کے کچھ اور غلّہ دیوے جیسے چنا، جوار وغیرہ تو اتنا دیوے کہ اس کی قیمت مذکورہ گیہوں یا جَو کے برابر ہو، نابالغ اولاد کی طرف سے بھی اور مجنوں اولاد کی طرف سے بھی اگرچہ وہ بالغ ہو فطره دینا واجب ہے جب کہ وہ اولاد مالکِ نصاب نہ ہو، ورنہ خود اس کے مال سے ادا کرے۔ جو لڑکا عید کی صبح صادق کے بعد پیدا ہوا ہو اور جو شخص قبل صبح مر گیا اس کا فطرہ نہیں ۔ اور مستحب یہ ہے کہ عید کے دن عید گاہ جانے سے پہلے ادا کرے اور یہ بھی جائز ہے کہ بعد میں یا کچھ دنوں پہلے دے دے، مگر رمضان سے پہلے نہ دے۔ ایک آدمی کا فطرہ ایک فقیر کو یا تھوڑا تھوڑا کئی (فقیروں) کو یا کئی آدمیوں کا ایک کو دے۔ یہ سب جائز ہے اور جس کو زکٰوة دے سکتے ہیں اس کو فطرہ بھی دے سکتے ہیں۔

احکامِ قربانی

ہر مرد و عورت مسلمان مقیم جس کے پاس بقدر نصاب چاندی یا سونا یا اتنی ہی مالیت کا اسباب ضروری روز مرہ کی حاجت سے زائد ہو اس پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے قربانی کرے۔ اونٹ، بکرا، دنبہ، بھیڑ، گائے، بھینس نر ہو یا مادہ سب درست ہے، گائے بھینس دو برس سے کم نہ ہو اور بکری ایک برس سے کم کی نہ ہو اور دنبہ چھ مہینے کا بھی درست ہے جب کہ خوب فربہ ہو اور سال بھر کا معلوم ہوتا ہو۔(1. اور بھیڑ میں اختلاف ہے کہ بکری کے حکم میں ہے یا دنبہ کے۔) اونٹ، گائے بھینس میں سات آدمی تک شریک ہو سکتے ہیں، مگر کسی کا حصّہ ساتویں حصّے سے کم نہ ہو۔ جانور قربانی کا بے عیب ہو، لنگڑا، اندھا، کانا اور بہت لاغر اور کوئی عضو تہائی سے زائد کٹا نہ ہو، خصی (یعنی بدھیا کی) اور جس کے سینگ نکلے ہی نہ ہوں قربانی درست ہے۔ اور پوپلی جس کے دانت نہ رہے ہوں اور بوچی جس کے پیدائشی کان نہ ہوں جائز نہیں۔ دسویں تاریخ بعد نماز عید سے بارہویں کی غروب سے پہلے پہلے وقت ہے اور دیہاتی کوردہ کے باشندوں کو جائز ہے کہ قبل نماز عید ذبح کر لیں، بعد اس کے نماز کے لئے جائیں۔ اگر قربانی شرکت میں کریں تو محض اندازے سے گوشت تقسیم کرنا جائز نہیں۔ تول کر پورا پورا بانٹیں، کسی طرف سے ذرا بھی کمی بیشی نہیں، ہاں جس حصّے میں کلّے پائے بھی ہوں اس میں کمی چاہے جتنی ہو جائز ہے۔ بہتر ہے کہ کم تہائی گوشت خیرات کرے۔ قربانی کی کوئی چیز قصاب کو اُجرت میں دینا جائز نہیں۔ اس کی رسی جھول سب تصدق کر دینا افضل ہے۔ کھال کا بیچنا اپنے خرچ میں لانے کے لئے درست نہیں، ہاں اگر قیمت خیرات کرنے کے لئے بیچے تو خیر۔ قربانی کے ذبح کے وقت دعا پڑھنا ایسا ضروری نہیں کہ بدوں اس کے قربانی ہی نہ ہو، جس کو یاد نہ ہو ''بِسْمِ اللهِ اَللہُ أَکْبَرُ'' کہہ کر ذبح کر لے۔(2. اور مستحب ہے کہ ذبح سے پہلے یہ آیتیں پڑھے: ﴿إِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيْفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾(الأنعام: 79) ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۖ وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (الأنعام: 162-163) اور "بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُ أَكْبَرُ" کہہ کر ذبح کرے، پھر بعدِ ذبح یہ کہے: "اَللّٰھُمَّ مِنْكَ وَ لَكَ، اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ" اس جگہ جس کی طرف سے قربانی کی جائے، اس کا نام لے۔ (کنز العمال، کتاب الحج من قسم الأفعال، باب: واجبات الحج و مندوباتہ، رقم الحدیث: 12685))

ضمیمہ از ناظم اشاعت در خطبۂ نکاح و دعائے عقیقہ

اکثر حضرات وقت پر ان دونوں چیزوں کو تلاش کیا کرتے ہیں سہولت کے لئے ان کو بھی جامع خطب سے درج کرا دیا گیا۔