ترجمه آیات و احادیث خطبۂ استسقاء
حدیثِ اوّل: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے روایت کی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے منبر کے لئے حکم دیا، پس وہ عید گاہ میں رکھا گیا، اور لوگوں سے ایک دن کا وعدہ فرمایا کہ (فلاں روز) سب باہر چلیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ پھر حضور ﷺ باہر تشریف لے گئے جب کہ آفتاب کا کنارہ ظاہر ہوا، منبر پر تشریف فرما ہوئے اور تکبیر پڑھی اور اللہ کی حمد کی، پھر ارشاد فرمایا: تحقیق تم لوگوں نے شکایت کی ہے اپنے شہروں میں قحط ہونے کی اور بارش میں وقت مقررہ سے دیر ہو جانے کی اور اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا کہ اس سے دعا مانگو اور تم سے وعدہ کیا کہ وہ قبول فرماوے گا۔ پھر فرمایا: سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہان کا پروردِگار نہایت مہربان بہت رحم کرنے والا ہے، قیامت کے روز کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے، (تجھے کسی کی حاجت نہیں) اور ہم سب (تیرے) محتاج ہیں (اے اللہ) ہم پر بارش نازل فرما دے، اس کو ہمارے لئے ایک مدت تک قوت اور حاجت برآری کا وسیلہ بنادے، پھر آپ نے دونوں ہاتھ اُٹھا لئے، پس اُٹھائے رہے یہاں تک کہ ظاہر ہو گئی بغلوں کی سفیدی، پھر لوگوں کی طرف اپنی پشت مبارک پھیر لی، اور اپنی چادر الٹ دی اور اٹھاۓ ہوۓ تھے دونوں ہاتھوں کو، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور (منبر سے) اُترے، پس دو رکعت پڑھیں، بس (اُسی وقت) الله تعالیٰ نے ایک بادل ظاہر کیا وہ گرجا اور چمکا، پھر اللہ کے حکم سے برسا۔ بس آپ اپنی مسجد تک نہ پہنچے تھے کہ نالے بہہ پڑے اور جب آپ نے لوگوں کو سایہ کی طرف جلدی کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ہنسے، یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں، پھر آپ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے اور بیشک میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ (ابو داؤد)
فائدہ :حضرت مؤلف رحمہ اللہ نے خطبہ میں اختصار کی وجہ سے بقدرِ ضرورت روایت کی ہے، ترجمہ میں پوری روایت لی گئی ہے اور اس روایت میں نماز سے پہلے خطبہ پڑھنا مذکور ہے مگر دوسری روایتوں میں نماز کے بعد خطبہ پڑھنا وارد ہوا ہے اور اسی کو ترجیح دی گئی ہے، چنانچہ ابن ماجہ وغیرہ میں روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ استسقاء کے لئے ایک جگہ تشریف لے گئے، پس ہم کو دو رکعت پڑھائیں بغیر اذان اور بغیر اقامت کے، پھر خطبہ پڑھا اور دعا مانگی اللہ تعالیٰ سے اور دعا کے وقت قبلہ کی طرف رُخ کیا، دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر اپنی چادر اُلٹ دی، پس داہنی جانب کو بائیں شانے پر کر دیا اور بائیں جانب کو دائیں شانے پر کر لیا۔ اُس کی سند کو آثار السنن میں حسن کہا ہے۔
حدیثِ دوم: اور رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا بھی مانگی کہ اے اللہ ہم کو سیراب فرما ایسی بارش سے جو فریاد رسی کرنے والی ہو، جس کا انجام اچھا ہو، ارزانی کرنے والی ہو، نفع دینے والی ہو، ضرر دینے والی نہ ہو، جلدی آنے والی ہو، دیر لگانے والی نہ ہو۔ (ابو داؤد)
حدیثِ سوم: نیز آپ نے اس طرح بھی دعا مانگی تھی: اے اللہ! اپنے بندوں کو اور اپنے چوپایوں کو سیراب فرما اور اپنی رحمت کو پھیلا، اور اپنے مُردہ (خشک) شہروں کو زندگی (سرسبزی) عطا فرما۔ (ابو داؤد)
حدیثِ چہارم: نیز یہ فرمایا: اے اللہ! سیراب فرما ہم کو بارش سے جو فریاد رس ہو، ارزانی کرنے والی ہو، فراغت کا پانی ہو، کڑک والے بادل سے، عام ہو، تمام زمین کو گھیرے ہوئے ہو، خوب بہنے والی ہو، ہمیشہ نفع دینے والی ہو، اے اللہ! ہم کو بارش سے سیراب فرما اور ہم کو مایوسوں میں سے نہ بنا۔ اے اللہ! بلا شبہ بندوں کو اور بستیوں کو اور جانوروں کو ایسی مشقت اور تنگی ہے کہ تیرے سوا کسی سے اس کی شکایت نہیں کرتے، اے اللہ ہمارے لئے کھیتی اُگا دے اور تھنوں میں دودھ جاری کر دے اور ہم کو آسمان کی برکتوں سے سیراب کر دے اور ہمارے لئے برکتیں پیدا فرما دے، اے اللہ! ہم سے مشقت کو اور بھوک (اور فاقہ) اور عریانی کو اُٹھا دے اور ہم پر سے بلا کو دور کر دے، تیرے سوا اس کو کوئی دور نہیں کر سکتا، اے اللہ! ہم تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، بیشک تو غفار ہے، پس ہمارے اُوپر آسمان کے پانی کو بکثرت بہا دے۔ (زاد المعاد عن الشافعی)
حدیثِ پنجم: اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے لئے ایک دن مقرر کیا کہ اس میں سب عید گاہ کی طرف نکلیں، پس آنحضرت ﷺ تشریف لے گئے جب کہ سورج طلوع ہوا اور آپ کی حالت یہ تھی کہ مزین نہ تھے (بلکہ معمولی کپڑے پہنے ہوئے تھے) اور انکساری کے حال میں اور (دل سے) عاجزی کر رہے تھے اور (نماز و خطبہ کے بعد) آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور تضرّع و زاری کے ساتھ دعا شروع فرمائی اور ہاتھ خوب اٹھائے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو گئی، پھر لوگوں کی طرف پشت پھیری اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور اُس وقت اپنی چادر مبارک بھی پلٹی اس حال میں کہ آپ قبلہ رُو تھے۔ پس (چادر کی) داہنی جانب بائیں (شانہ مبارک) پر کر لی اور بائیں جانب داہنے پر اور نیچے کی سمت اوپر کر لی اور اوپر کی سمت نیچے کر لی اور (پھر) قبلہ رُو دعا مانگنے لگے اور لوگ بھی اسی طرح دعا مانگتے رہے۔ (زاد المعاد عن الشافعی)
آیتِ مبارکہ: اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ایسی شان والا ہے کہ بسا اوقات بارش برسا دیتا ہے لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے اور وہی کارساز قابلِ حمد ہے۔
الحمد للہ! کہ یہ رسالہ نافعہ آج بتاریخ 13 رجب 1348ھ شب دو شنبہ میں اتمام کو پہنچا۔ وَ الْحَمْدُ لِلہِ أَوَّلًا وَّ اٰخِرًا 28 جمادی الثانیہ 1352 شب پنج شنبہ میں نظرثانی سے فراغت ہوئی۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
احقر عبدالکریم گمتھلوی عفی عنه،
مقیم خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون، ضلع مظفر نگر