ان خطبوں کی تقسیم سال بھر کے جمعوں پر۔
جمعوں پر ان کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ کل خطبے علاوہ عیدین و استسقاء کے پچاس ہیں، اور بعادتِ مستمرہ سالِ قمری میں اتنے ہی جمعے ہیں، لیکن ایک جمعہ کا کم یا زیادہ ہو جانا شرعاً یا حساباً بھی نا ممکن نہیں۔
پس ان خطبوں کو جس مہینہ کے جس جمعہ سے بھی شروع کیا جائے گا خطبوں کے ساتھ سال بھی ختم ہو جاتا ہے، لیکن اگر بطریقِ شاذ ایک جمعہ گھٹ جائے، یا کسی سال کی کسر جمع ہو کر ایک جمعہ بڑھ جائے تو اگر کسی مصلحتِ طبعیہ سے سال کی ابتدا کا خطبہ محفوظ رکھنا ہو تو پہلی صورت میں اخیر کا خطبہ چھوڑ دے، اور دوسری صورت میں اخیر کا خطبہ مکرر پڑھ لے۔
اور اگر اس کا محفوظ رکھنا نہ ہو تو سلسلہ سے پڑھتا چلا جائے اور درمیان سال کے بھی سلسلہ توڑنے کی حاجت نہیں، البتہ ان میں جو خطبے کسی خاص وقتی عمل کے متعلق ہیں جیسے صوم و حج و قربانی وغیرہ، جب ان اعمال کا وقت قریب آوے سلسلہ توڑ کر اس وقتی خطبہ کو پڑھ دیا جائے، اور پھر سلسلہ کی طرف عود کر لیا جاوے۔
ایسے وقتی خطبے مسلسل خطبات کے بعد بھی رکھے گئے ہیں، یعنی خطبۂ ثامنہ و ثلاثون کے بعد، اور ان کے وقتی ہونے کو ہر خطبہ کے شروع میں اردو عبارت میں لکھ دیا گیا ہے، تاکہ غیر عربی دان خطیب بھی آسانی سے اس کو معلوم کر سکے، اور خطبۂ عیدین و استسقاء چوں کہ جمعہ کے ساتھ خاص نہیں، وہ اس ترتیب اور اس ترکیب سے جدا ہیں، کیونکہ عین ان اوقات میں پڑھے جاتے ہیں، نہ کہ مثلِ خطباتِ جمعہ کے ان اوقات کے قریب ہیں، اس لئے وہ بالکل ہی آخر میں ملحق ہیں، اور خطبۂ ثانیہ ان سب کا ایک ہی ہے جو ان سب کے اخیر میں ہے۔ اور ان خطبوں میں ایک لطیفہ بھی ہے کہ یہ سب تقریباً برابر ہیں حتٰی کہ ثانیہ بھی، اور عیدین اور استسقاء کا بھی، یعنی تخمیناً سورۂ مرسلات کے برابر، صرف عیدین کے خطبوں میں تکبیرات کی مقدار زائد ہے، جن کا عدد
عید الفطر میں آٹھ ہے اور عید الاضحٰی میں دس، چنانچہ فقہاء نے اضحٰی میں بہ نسبت فطر کے تکثیرِ تکبیرات کو مندوب کہا ہے۔ فقط