ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ عید الاضحٰی
حدیثِ اوّل: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بنی آدم کا کوئی عمل بقر عید کے دن خدا تعالیٰ کو (قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں اور بے شک خون (قربانی کا) زمین پر گرنے سے پیشتر ہی جنابِ الٰہی میں قبول ہو جاتا ہے، پس خوش کرو اس (قربانی) کے ساتھ اپنا دل۔
(ترمذی)
حدیثِ دوم: اور صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اے رسولِ خدا! قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے (خدا کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو ذبح کیا اور ہم ایک بکری وغیرہ کو ذبح کرتے ہیں، مگر اسی پر ہم کو اُن کا پیروکار قرار دیا گیا) عرض کیا: پس ہمارے لئے اُن میں کیا ہے اے اللہ کے رسول؟ ارشاد فرمایا کہ ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے، عرض کیا (بھیڑ وغیرہ کی) اُون میں کیا ملتا ہے (اے اللہ کے رسول)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اُون میں بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ (ابن ماجہ)
حدیثِ سوم: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ: جس شخص نے وُسعت پائی قربانی کرنے کی (یعنی صاحبِ نصاب ہو اور) پھر بھی قربانی نہیں کی، پس وہ ہماری عید گاہ میں نہ آوے (کس قدر دھمکی ہے قربانی نہ کرنے والے کے واسطے)۔ (الحاکم مرفوعاً مع التصحیح و موقوفاً و لعله اشبہ و ہو مع ذلك مرفوع حکماً)
حدیثِ چہارم : اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ قربانی بقر عید سے دو دن بعد تک بھی جائز ہے۔ (مالک)
حدیثِ پنجم: اور حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے بھی اسی طرح روایت ہے۔ (مالک)
آیتِ مبارکہ: اور حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: اللہ کے پاس نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اُن کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اسی طرح اُن جانوروں کو تمہارا زیرِ حکم کر دیا جاتا ہے۔ تم اس بات پر اللہ کی تعریف بیان کیا کرو کہ اُس نے تم کو (قربانی وغیرہ کی) توفیق دی اور (اے محمد!) اخلاص والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔
اضافہ (الف): اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: اے فاطمہ! اپنی قربانی کی طرف اُٹھ، پس اس کے پاس حاضر ہو، کیونکہ تیرے لیے (اس کا عوض) یہ ہے کہ اس کے خون سے جو اوّل قطره ٹپکے اُس کے بدلے تیرے گزشتہ گناہ بخش دیئے جاویں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے رسول خدا! کیا یہ بات خاص ہم اہل بیت کے واسطے ہے یا ہمارے اور سب مسلمانوں کے واسطے ہے۔ (ترغیب عن البزار و ابی الشیخ)
فائدہ: اگر وہاں کوئی غیر محرم نہ ہو تو عورت کو بھی قربانی کے پاس کھڑا ہونا مستحب ہے اور اگر وہاں غیر محرم ہو تو پھر پردہ ضروری ہے۔
(ب) اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس شخص نے قربانی کی، دل کی خوشی کے ساتھ طلبِ ثواب کے لئے، وہ قربانی اس کے واسطے (دوزخ کی) آگ سے آڑ ہو گی۔ (ترغيب عن کبیر الطبرانی)