ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ عید الفطر
حدیثِ اوّل: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر قوم کے لئے ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ (متفق عليہ)
حدیثِ دوم: اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب ان کی عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُن کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے، پس ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! کیا بدلہ ہے اس شخص کا جس نے اپنے کام کو پورا کر دیا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! ان کا بدلہ یہ ہے کہ ان کا ثواب پورا دیا جائے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے: میرے بندے اور بندیوں نے میرے فرض کو پورا کر دیا جو ان پر ہے، پھر نکلے فریاد کرتے ہوئے، قسم ہے عزت و جلال کی اور اپنے کرم کی اور علو (شان) کی اور اپنے مرتبہ کے بلند ہونے کی، میں ضرور ان کی دعا قبول کروں گا۔ پھر اپنے بندوں سے (خطاب) فرماتا ہے کہ لوٹ جاؤ تم، تحقیق میں نے تم کو بخش دیا اور بدل دیا تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے۔ (آنحضرت ﷺ نے) ارشاد فرمایا: پس وہ (نماز کے بعد) بخشے ہوئے لوٹتے ہیں۔ (بیہقی فی شعب الایمان) اور صدقۂ فطر کا مسئلہ اوپر گزر چکا ہے۔ اس جگہ دو مسئلے اور لکھے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ:
حدیثِ سوم: آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد چھ روزے شوّال کے رکھے تو ایسا ہو گیا جیسا کہ ہمیشہ (یعنی سال بھر) روزے رکھے۔ (مسلم)
فائدہ: اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک نیکی کے بدلے میں دس نیکیاں ملتی ہیں، پس رمضان کے روزہ رکھنے سے دس ماہ کے روزوں کا ثواب مل چکا، چھ روزے اور رکھے تو بقیہ دو ماہ کا ثواب حاصل ہو گیا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے:
حدیثِ چہارم: حضور ﷺ عیدین کے خطبہ میں تکبیر بکثرت پڑھا کرتے تھے۔ (ابن ماجہ)
آیاتِ مبارکہ: اور ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شانہ نے کہ بیشک نجات پائی اُس شخص نے جس نے زکٰوۃ دی (یعنی صدقہ فطر ادا کیا) پھر اللہ کا نام لیا (یعنی تکبیر پڑھی) پھر نماز پڑھی۔ (عبید بن حمید اور ابن المنذر نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے زکوٰة سے مراد صدقۂ فطر اور نماز سے عید مراد ہونا نقل کیا ہے (کذا فی الدر المنثور) اور حضرت مؤلف سلمہ نے فرمایا ہے کہ اس تفسیر پر اگر ﴿ذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ﴾ (الاعلی: 15) سے راستے میں تکبیر کہنا مراد لیا جاوے تو بعید نہیں ہے۔)
اضافہ (الف): اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ رسول الله ﷺ (مدینہ میں) تشریف لائے اور اُن (اہلِ مدینہ) کے لئے دو دن تھے (جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے) پس آپ نے دریافت فرمایا: یہ دو دن کیا ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ اُن میں ہم کھیل کود کیا کرتے تھے زمانۂ جاہلیت میں، پس رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم کو اللہ نے اُن دونوں کے بدلے میں اُن سے اچھے دو دن عطا فرمائے ہیں: بقر عید کا دن، اور عید کا دن۔ (ابو داؤد)
(ب) اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب عید کا دن ہوتا ہے تو فرشتے راستے کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پس پکارتے ہیں کہ اے مسلمانوں کے گروہ! چلو ربِ کریم کی طرف جو احسان کرتا ہے بھلائی کے ساتھ، پھر اس پر بہت ثواب دیتا ہے (یعنی خود ہی توفیقِ عبادت دیتا ہے، پھر خود ہی ثواب عنایت کرتا ہے) اور تحقیق تم کو قیامِ لیل کا حکم دیا گیا، پس تم نے قیام کیا، اور تم کو روزے رکھنے کا حکم دیا گیا، پس تم نے روزے رکھے اور اپنے پروردگار کی اطاعت کی، پس تم انعام حاصل کرو، پھر جب نماز پڑھ چکتے ہیں تو مُنادِی پکارتا ہے: آگاه ہو جاؤ! بیشک تمہارے رب نے تم کو بخش دیا، پس لوٹو تم اپنے گھروں کی طرف کامیاب ہو کر، پس وہ یوم الجائزہ ہے اور اس دن کا نام آسمان میں ’’یوم الجائزہ‘‘ اور انعام کا دن رکھا جاتا ہے۔ (جمع الفوائد عن الكبير)