خطبہ 9: کھانے پینے میں میانہ روی کے بیان میں

ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ نہم

کھانے پینے میں میانہ روی کے بیان میں

آیت: ارشاد فرمایا حق تعالیٰ نے: کھاؤ پیو اور اِسراف مَت کرو۔

فائدہ: ’’اِسراف‘‘ اس کو کہتے ہیں کہ گناہ کے کاموں میں خرچ کیا جاوے۔ اور اُسی میں وہ خرچ بھی داخل ہے جو بلا ضرورتِ شدید طاقت سے زیادہ جائز کاموں میں خرچ کیا جاوے، کیونکہ اُس کا انجام بے صبری اور حِرص و بد نیتی ہوتی ہے۔

حدیثِ اوّل: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ زُہد (یعنی دنیا سے بے رغبتی) حلال کو حرام قرار دینا نہیں ہے اور نہ مال کو ضائع کرنا ہے، لیکن زہد یہ ہے کہ جو تیرے پاس موجود ہے اِس سے بے رغبتی، اُس سے زیادہ نہ ہو، جو اللہ جلّ شَانُہٗ کے پاس ہے۔ (ترمذی)

فائدہ: مطلب یہ ہے کہ جو سمجھے گا کہ خدا تعالیٰ سب کاموں کا بنانے والا ہے تو دنیا میں اُس کا قلب مشغول نہ ہو گا، اصل زُهد یہ ہے۔ اور جو لوگ حلال چیزوں کا استعمال ترک کر دیتے ہیں یا مال کو ویسے ہی اُڑا دیتے ہیں اِس کا نام زہد نہیں ہے۔

حدیثِ دوم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ رُوحِ اَمِین نے میرے دل میں یہ اِلقاء کیا کہ کوئی جاندار نہیں مرے گا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہ کر لے۔ خبردار! بس اللہ سے ڈرو اور طلبِ مَعَاش میں مِیانہ رَوِی اختیار کرو اور رزق میں دیر ہونا تم کو اس بات پر ہرگز بَرانگِیختہ نہ کرے کہ اُس کو اللہ کی نافرمانیوں کے ذریعہ طلب کرنے لگو، کیوں کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ حاصل نہیں کیا جاتا مگر اس کی فرمانبرداری کے ذریعہ سے۔ (بیہقی)

فائدہ: اگر نافرمانی کی حالت میں روزی ملے تو وہ نعمت نہیں، بلکہ وہ دو جہاں میں وبالِ جان ہے، یہاں تو اُس کی وجہ سے چَین نہیں مل سکتا اور آخرت میں نافرمانی پر عذاب ہو گا۔

حدیثِ سوم: حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! تحقیق جب گوشت کھاتا ہوں مجھے (نفسانی) اِشتِعال ہو جاتا ہے اور (اِسی لئے) میں نے گوشت کو (اپنے اُوپر) حرام کر لیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوْا...﴾ الآيۃ (المائدة: 87) یعنی اے ایمان والو! حرام نہ ٹھیراؤ اُن پاک چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے اوپر حلال کی ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ (ترمذی، ابونعیم)

فائدہ: اِس میں اِس کی ممانعت ہے کہ حلال چیز کے ساتھ اِعتِقادًا یا عملًا حرام کا برتاؤ کیا جاوے، یعنی اس کو حرام سمجھنے لگے، البتہ اگر کسی وجہ سے مثلاً بیماری یا رِیاضَت و مُجَاہَدہ وغیرہ کے باعِث حلال چیز کا استعمال ترک کر دیا جائے اور اُس ترک کو ثواب نہ سمجھے، بلکہ نفس کا علاج سمجھے تو مُضائِقہ نہیں۔

حدیثِ چہارم: فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ شُکر کرنے والا مثلِ روزه دار صابر کے ہے۔ (احمد)

آیت: ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ شانہ نے کہ جن چیزوں کے بارے میں تمہارا جھوٹا دعویٰ ہے اُن کی نسبت، اپنی زبانوں کے جھوٹ بنانے سے، یوں مت کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہو گا کہ اللہ پر جھوٹ باندھ بیٹھو گے، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے۔

اضافہ: (الف) نیز حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا﴾ الآيۃ (البقرۃ: 168) یعنی اے لوگو! جو چیزیں زمین میں موجود ہیں اُن میں سے حلال پاک چیزوں کو کھاؤ اور شیطان کے قَدَم بَقَدم مَت چلو۔ بیشک وہ تمہارا صَرِیح دشمن ہے اور ارشاد فرمایا: ﴿وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَ جَنّٰتٍۢ﴾ الآيۃ (الانعام: 141) یعنی اور وہی ( اللہ ہے) جس نے باغات پیدا کیے اور وہ بھی جو ٹَٹِّیوں پر چڑھائے جاتے ہیں (جیسے انگور) اور وہ بھی جو ٹَٹِّیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی میں کھانے کی مختلف طور کی چیزیں ہوتی ہیں اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے کے مُشابِہ بھی ہوتے ہیں اور (کبھی) نہیں بھی ہوتے، اُن سب کا پھل کھاؤ جب وہ نکل آوے اور اس میں جو حقِّ (شرع سے واجب ہے) وہ اُس کے کاٹنے اور توڑنے کے دن ادا کر دیا کرو اور حَد سے مَت گزرنا، یقینًا حَد سے گزرنے والوں کو وہ یعنی اللّٰہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔

(ب) اور سوره فرقان میں ہے: ﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوْا﴾ الآيۃ (الفرقان: 67) یعنی وہ (اللہ کے خاص بندے) جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ زیادتی کرتے ہیں نہ تَنگی اور (بلکہ اُن کا خرچ) اس کے درمیان اِعتِدال پر ہوتا ہے۔

(ج) ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ بالیقین اللہ تعالیٰ بندے سے خوش ہوتا ہے اس بات پر کہ وہ لقمہ کھاتا ہے تو اس پر شکر کرتا ہے اور (پانی) کا گُھونٹ پیتا ہے تب اس پر شکر کرتا ہے۔ (مسلم)