خطبہ 8: نوافل کے بیان میں

ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ ہشتم

نوافل کے بیان میں

حدیثِ اوّل: حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا بنده میرا قُرب، نوافل کے ساتھ حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو محبوب بنا لیتا ہوں۔ (بخاری)

فائدہ: اس سے بڑھ کر کیا دولت ہو سکتی ہے۔

حدیثِ دوم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اپنے اوپر رات کے قیام (یعنی تہجّد) کو لازم پکڑ لو کیونکہ وہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ (چلا آتا) ہے اور تم کو تمہارے رب سے قریب کرنے والا ہے اور گناہوں کو مٹاتا ہے اور بُری بات سے روکتا ہے۔ (ترمذی، ابن خزیمہ)

حدیثِ سوم: ارشاد فرمایا آنحضرت ﷺ نے: اے عبد اللہ! (یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے ہیں) فلاں شخص جیسا نہ ہونا کہ وہ رات کو اُٹھتا تھا پھر اس کو ترک کر دیا، بلکہ ہمیشہ پابندی سے تہجّد پڑھتے رہو۔ (متفق علیہ)

حدیثِ چہارم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ دین آسان ہے اور نہیں مبالغہ کرتا کوئی شخص دین میں مگر اُس پر دین غالب آتا ہے (یعنی جو شخص مبالغہ کرتا ہے وہ تھک کر رہ جاتا ہے) پس تم میانہ روی اختیار کرو اور اعتدال پر رہو اور خوش رہو اور مدد چاہو صبح و شام اور کچھ اخیر رات کی اندھیری میں (یعنی ان تین اوقات میں نفل عبادت کر لیا کرو، اس سے بہت زیادہ نفع ہوتا ہے۔) (بخاری)

فائدہ : کس قدر سہولت فرما دی گئی ہے، پھر بھی کوئی ہمَّت نہ کرے تو اس کا کیا علاج؟

حدیثِ پنجم : ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جو شخص اپنے وظیفے سے سوتا رہ جاوے یا اُس میں سے کچھ رہ جائے، پھر اُس کو فجر اور ظہر کے درمیان کسی وقت پڑھ لے تو اس کے واسطے اتنا ہی ثواب لکھا جاتا ہے کہ گویا اُس نے رات ہی کو پڑھا۔ (مسلم)

فائدہ: ضعیفُ العُمر پر کتنی رحمت ہے!۔

آیت مبارکہ: ارشاد فرمایا حق تعالیٰ نے: ذکر کر اپنے رب کا (خواہ) اپنے دل میں، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور (خواہ) پکار سے کم (یعنی معتدل آواز کے ساتھ )، صبح و شام کے وقت اور غافلوں میں سے مت ہو۔

فائدہ: اس میں ذکر، جہرِ مُفرط (یعنی حد سے زیاده) ممنوع ہے۔ حدیث شریف میں اُس کی مُمَانَعت آئی ہے اور ذکرِ جہر میں اس کی رعایت بھی ضروری ہے کہ کسی کو تکلیف و تشویش نہ ہو اور ایسے وقت اور ایسی جگہ کرے کہ کسی کا حرج نہ ہو۔

اضافہ: اور حدیث میں آیا ہے کہ اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا۔ (یہ قیامت کے حساب کا ذکر ہے اور قبر میں سب سے پیشتر پیشاب کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس سے بچاؤ کیا تھا یا نہیں؟) پس اگر وہ (یعنی نماز) ٹھیک رہی تو کامیاب اور با مراد ہو گیا اور اس میں کمی رہے گی تو وہ ناکام اور بے مراد رہے گا۔ اور اگر اس کے فرضوں میں کچھ کمی رہ جائے گی تو حق تعالیٰ شانُہٗ ارشاد فرماۓ گا کہ دیکھو کیا میرے بندے کے واسطے کوئی نفل ہے؟ پس (اگر نفل ہوئے تو) اُن کے ساتھ وہ کمی پوری کی جائے گی جو فرضوں میں رہ گئی ہو۔ پھر اِسی طرح اُس کے سب اعمال کا حساب کیا جاوے گا کہ نفل سے فرضوں کی کمی کو زکوٰة اور روزہ وغیرہ میں بھی پورا کیا جاوے گا۔ ( ابوداؤد)