خطبہ 48: عید الفطر کے احکام میں

ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ چہل و ہشتم

عید الفطر کے احکام میں

حدیثِ اوّل: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: خاک آلود ہو جائے اُس شخص کی ناک کہ جس پر رمضان آیا، پھر وہ ختم ہوا اس سے پیشتر کہ اُس شخص کی بخشش کی جاوے۔ (ترمذی)

حدیثِ دوم: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: جو شخص بیدار رہا عیدین کی دونوں راتوں میں طلبِ ثواب کے لئے اُس کا دل نہ مرے گا جس دن سب دل مریں گے۔(ابن ماجہ)

حدیثِ سوم: اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ (صدقہ فطر) ایک صاع گیہوں کا دو شخصوں کی طرف سے چھوٹا ہو یا بڑا، آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت (سب کی طرف سے نصف نصف صاع ہے۔) بہرحال تم میں جو غنی ہو اللہ تعالیٰ پاک کر دیتا ہے (صدقہ فطر ادا کرنے کی وجہ سے) اور تم میں جو فقیر ہو (اور پھر بھی صدقہ دے دے) تو اللہ تعالٰی اس کو اس کے دینے سے بھی زیادہ عطا فرما دیتے ہیں۔ (ابو داؤد)

حدیثِ چہارم: اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کا ایک صاع مقرر فرمایا ہے کھجور سے یا ایک صاع جَو سے، اور حکم دیا ہے کہ وہ ادا کیا جاوے نماز (عید) کے پیشتر۔ (بخاری)

فائده: پہلی روایت سے معلوم ہو چکا ہے کہ گیہوں نصف صاع دی جاتی ہے اور کشمش بھی نصف صاع واجب ہے، اگر کوئی شخص علاوہ ان چار چیزوں (یعنی گندم، کشمش ،تمر، جَو) کے دینا چاہے تو قیمت کا اعتبار ہے۔ پس نصف صاع گندم یا ایک صاع جَو کی جو قیمت ہو اتنی قیمت کے چاول وغیرہ دے دیئے جائیں اور صاع 273 تولہ کا ہوتا ہے اور نماز عید سے پیشتر صدقہ فطر کا ادا کرنا مستحب ہے، اگر بعد میں دیا جاوے تب بھی جائز ہے۔

حدیثِ پنجم: اور آنحضرت ﷺ عیدِ فطر اور بقر عید کے روز عید گاہ میں تشریف لے جاتے، پس نماز پڑھتے، پھر لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے اور لوگ صف باندھے بیٹھے رہتے، پس آپ خطبہ پڑھتے۔ (بخاری)

فائدہ: نماز کے بعد خطبہ میں خاموش بیٹھے رہنا واجب ہے، پس جو لوگ شور و غل مچاتے ہیں وہ گناہ گار ہوتے ہیں اور اسی طرح جو لوگ خطبہ چھوڑ کر چل دیتے ہیں وہ بھی برا کرتے ہیں اور جو لوگ بیٹھتے ہیں وہ بھی صف کا لحاظ نہیں رکھتے حالانکہ صف باندھے رہنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی شخص بیچ میں اٹھ کر چل دیا اس واسطے صف ٹوٹ گئی ہو تو ان بیٹھنے والوں کو گناہ نہ ہو گا، بلکہ جو چلا گیا ہے یہ صف توڑنا اس کا فعل ہے۔ و اللہ اعلم!

آیتِ مبارکہ: اور حق تعالٰی شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ (روزہ میں مسافر اور مریض کے احکام کی وجہ یہ ہے کہ) اللہ تعالٰی کو تمہارے ساتھ آسانی کرنا منظور ہے اور دشواری منظور نہیں اور تاکہ تم (روزوں کا) شمار پورا کر لیا کرو اور تاکہ تم خدا کی بڑائی بیان کرو (یعنی اللہ اکبر کہا کرو) اور تعریف کیا کرو اس پر کہ تم کو ہدایت دی ہے اور تاکہ اس کا شکر کیا کرو۔

اضافہ: اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کو فرض کیا ہے روزہ کو بے فائدہ اور فحش باتوں سے پاک کرنے کے واسطے اور مساکین کو کھلانے کے واسطے۔ (ابو داؤد)