ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ چہل و ہفتم
شبِ قدر اور اعتکاف کے بیان میں
آیاتِ طیّبات: ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شَانُہٗ نے: اور نہ مباشرت کرو (یعنی بدن بھی نہ مِلنے دو) عورتوں سے جس زمانہ میں کہ تم معتکف ہو مسجد میں (اعتکاف کرنا بھی سنت ہے، خاص کر عشره اخیر میں تو ہر بستی میں کم از کم ایک شخص کا اعتکاف میں بیٹھنا سنتِ مؤکدہ ہے، اگر کوئی بھی نہ بیٹھے تو سب کو ترکِ سنت کا گناہ ہو گا)۔ نیز ارشاد فرمایا حق تعالٰی نے کہ لیلۃ القدر بہتر ہے ہزار ماہ سے۔
حدیثِ اوّل: اور (حضرت محمد ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے قیام کیا شبِ قدر میں ایمان اور طلبِ ثواب کی وجہ سے بخش دیئے گئے اس کے گزشتہ گناہ۔ (بخاری)
حدیثِ دوم: نیز ارشاد فرمایا کہ رمضان میں ایک رات ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے جو اس کی خیر سے محروم رہا وہ بالکل ہی محروم رہا (نسائی)۔ اور سعید بن المسیب نے فرمایا کہ جو شخص شبِ قدر کو عشاء (کی جماعت) میں حاضر ہو گیا اس نے اس میں سے حصّہ پا لیا۔ (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث شریف میں محروم ہونے والے سے وہ مراد ہے جو اس روز عشاء کی جماعت میں بھی شامل نہ ہوا ہو)۔ (بیہقی)
حدیثِ سوم: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب شبِ قدر ہوتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت سمیت نازل ہوتے ہیں اور ہر اُس شخص کے لئے دعا کرتے ہیں جو کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کر رہا ہو۔ (بیہقی)
حدیثِ چہارم: اور رسول اللہ نے ارشاد فرمایا معتکف کے بارے میں کہ وہ گناہوں سے بچتا ہے اور اسکے لئے نیک عمل (یعنی جن سے اعتکاف مانع ہو عیادت وغیرہ) جاری کیے جاتے ہیں، جیسا کہ ان اعمال کرنے والے کو ثواب ملتا ہے ایسا ہی معتکف کو بھی ملتا ہے۔ (ابن ماجہ) وَ اللهُ أَعْلَمُ !
حدیثِ پنجم: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ تلاش کرو تم شبِ قدر کو اخیر عشرہ میں رمضان کے۔ (بخاری) اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے: قَسَم ہے فجر کی دس راتوں کی اور جفت کی اور طاق کی اور رات کی جب وہ چلے۔
فائدہ: یہاں دس راتوں سے مراد عشره اخیر کی دس راتیں ہیں۔
(فَسَّرَهٗ ابْنُ عَبَّاسٍ رَّضِيَ اللہُ عَنْہُ، کَذَا فِي الدُّرِّ الْمَنْثُوْرِ)
اضافہ (الف): اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے کسی معتبر عالم سے روایت کی ہے کہ وہ یوں فرماتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو پہلے لوگوں کی عمریں یا اُن میں سے جتنی خدا نے چاہا دکھائی گئیں۔ پس گویا آپ ﷺ نے اپنی امّت کو اتنے اعمال سے قاصر خیال فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ایک رات یعنی لیلة القدر آپ کو عطا فرمائی جو ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ (ترغيب عن المؤطا)
(ب) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جس شخص نے رمضان میں دس روز کا اعتکاف کیا وہ اعتکاف دو حج اور دو عمروں کی مانند ہے۔ (ترغيب عن البیہقی)
(ج) اور آنحضرت ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب عشرۂ اخیر داخل ہوتا تو کمر باندھتے (یعنی عبادت کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے) اور شب بیداری کرتے اور اپنے گھر والوں (یعنی ازواج مطہرات رضي اللہ عنھن کو اور صاحبزادیوں) کو جگاتے۔ (متفق علیہ)
(د) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے رسول اللہ! اگر مجھے کسی طرح شبِ قدر معلوم ہو جائے کہ فلاں رات میں ہے تو میں اس میں کیا کہوں؟ آپ نے فرمایا: ”اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ“ کہو۔ (یعنی اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے معاف کرنے کو پسند رکھتا ہے، پس میرے گناہ معاف فرما دے)۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
(ہ) اور آنحضرت ﷺ سے سوال کیا گیا لیلۃ القدر کے بارے میں، تو آپ نے فرمایا کہ وہ رمضان میں ہوتی ہے۔ (ابو داؤد)