خطبہ 45: روزے کے بیان میں

ترجمه آیات و احادیث خطبۂ چہل و پنجم

روزے کے بیان میں

حدیث اوّل: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب ماهِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو قید کر دیئے جاتے ہیں شیطان اور سرکش جنات اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، پس نہیں کھولا جاتا اُن میں سے کوئی دروازہ۔ اور جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، پس نہیں بند کیا جاتا ہے اُن میں سے کوئی دروازہ۔ اور پکارتا ہے پکارنے والا: اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ اور اے برائی چاہنے والے! رُک جا، اور اللہ کے لئے بہت لوگ (بہ برکتِ ماہِ رمضان) آزاد کیے ہوئے ہیں دوزخ سے اور یہ (ندا اور پکار) ہر رات ہوتی ہے۔ (ترمذی)

حدیثِ دوم: اور ارشاد فرمایا آنحضرت ﷺ نے کہ بنی آدم کا ہر عمل بڑھایا جاتا ہے اس طرح کہ ایک نیکی دس گنی ہوتی ہے سات سو گنی تک، فرمایا اللہ تعالیٰ نے: مگر روزہ کہ وہ میرے لئے ہے اور میں خود اُس کی جزا دوں گا، چھوڑتا ہے (روزہ دار) اپنی خواہش کو اور اپنے کھانے (پینے کو) میری وجہ سے، روزہ دار کے واسطے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت ہے اور ایک خوشی اپنے رب سے ملنے کے وقت ہو گی۔ اور البتہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ اچھی ہے۔ (احمد) (اس سے یہ خیال نہ کیا جاوے کہ پھر مسواک کرنا اچھا نہ ہو گا، کیونکہ مسواک کے بعد بھی وہ بو جو خلوِ معدہ کے باعث آتی ہے، زائل نہیں ہوتی، مسواک سے تو فقط دانتوں کی بدبو دور ہو جاتی ہے۔) اور روزہ ڈھال ہے (دوزخ سے) اور جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو اس کو چاہیے کہ نہ فحش بات کہے اور نہ بیہودہ چلّاوے، پس اگر کوئی اس کو بُرا کہے یا اس سے کوئی جھگڑا کرنے لگے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ۔ (احمد)

آیتِ مبارکہ: اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے: پس اب (تمہیں اجازت دی جاتی ہے) کہ تم مباشرت کرو ان (بیویوں اور باندیوں) سے طلب کرو اس کو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور کھاؤ اور پیئو یہاں تک کہ سفید دھاری فجر کی ظاہر ہو جاوے (رات کی) سیاه دهاری سے، پھر روزہ کو رات تک پورا کرو۔

اضافہ (الف): اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس شخص نے روزہ رکھ کر بھی بیجا بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا، اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے کو چھوڑنے کی حاجت نہیں ہے۔ (یعنی اُس روزہ کو قبول نہیں کرتا)۔ (بخاری)

(ب) نیز ارشاد فرمایا کہ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ (متفق عليہ)

(ج) نیز ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو اس کو چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے، کیونکہ وہ برکت کا (سبب ہے)، پس اگر نہ پاوے کوئی کھجور تو چاہیے کہ پانی پر افطار کرے، کیونکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔ (ترمذی)

(د) اور آنحضرت ﷺ جب افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اے الله! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے رزق پر افطار کیا“ اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے: ’’پیاس گئی اور رگیں تر ہوئیں اور اجر ثابت ہو گیا اگر خدا نے چاہا۔“ (ابو داؤد)