خطبہ 43: ماہِ شعبان کے بیان میں

ترجمه آیات و احادیث خطبۂ چہل و سوم

ماہِ شعبان کے بیان میں

حدیثِ اوّل: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: شمار رکھو شعبان کے چاند کی رمضان کے لئے، یعنی جب ماہِ شعبان کی تاریخ صحیح ہو گی تو رمضان میں اختلاف کم ہو گا۔ (ترمذی)

حدیثِ دوم: اور رسول اللہ ﷺ رمضان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ اور کسی ماہ (کے چاند) کا اتنا خیال نہ فرماتے تھے۔ (ابو داؤد)

حدیثِ سوم: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ تم میں سے کوئی شخص رمضان کے ایک دن یا دو دن پہلے سے روزہ نہ رکھے، مگر یہ کہ وہ شخص (کسی) خاص دن کا روزہ رکھا کرتا ہو۔ (اور رمضان سے ایک دن پہلے وہ دن ہو، مثلاً ہر پیر کو روزہ رکھنے کا معمول ہے اور 29 شعبان کو پیر کا دن ہے) تو وہ شخص اس دن بھی روزہ رکھ لے۔ (بخاری)

حدیثِ چہارم: اور آنحضرت ﷺ نے شعبان کی پندرہویں رات کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس رات میں وہ سب بنی آدم لکھ لئے جاتے ہیں جو اس سال میں پیدا ہوں گے اور جو اس سال میں مریں گے اور اسی رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں۔ (بیہقی)

فائدہ: اعمال اٹھائے جانے سے مراد اُن کا پیش ہونا ہے اور رزق نازل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس سال میں جو رزق ملنے والا ہے وہ سب لکھ دیا جاتا ہے۔ اور گو یہ سب چیزیں پیشتر سے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں، مگر اس رات کو لکھ کر فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ وَ الله أَعْلَمُ!

حدیثِ پنجم: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب آدھے شعبان کی رات ہو تو اُس رات کو شب بیداری کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیونکہ الله تعالیٰ اس رات غروبِ آفتاب کے وقت ہی آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں؟ کیا کوئی روزی مانگنے والا ہے کہ میں اس کو روزی دوں؟ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے (کہ وہ عافیت کی دعا مانگے اور) میں اس کو عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا ہے، کیا کوئی ایسا ہے، (رات بھر یہی رحمت کا دریا بہتا رہتا ہے) یہاں تک کہ صبحِ صادق ہو جاوے۔ (ابن ماجہ)

آیتِ مبارکہ: اور ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شانہ نے کہ بیشک ہم نے نازل کیا ہے اس قرآن کو برکت والی رات میں، بِلاشبہ ہم آگاہ کرنے والے ہیں۔ اُسی (رات) میں ہر حکمت والا معاملہ ہمارے حکم سے طے کیا جاتا ہے، بے شک ہم آپ کو پیغمبر بنانے والے ہیں۔

(فَسَّرَ الْآيَاتِ بِلَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ عِكْرِمَةُ، كَذَا فِي الدُّرِّ الْمَنْثُوْرِ عَنِ ابْنِ جَرِيْرٍ وَّ ابْنِ الْمُنْذِرِ وَ ابْنِ حَاتِمٍ)

اضافہ (الف): اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے ہوئے کسی ماہ میں نہیں دیکھا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ (کُل) ماهِ شعبان میں روزہ رکھتے تھے سوائے تھوڑے دنوں کے۔ (متفق عليہ)

(ب) اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ: اللہ تعالٰی متوجہ ہوتا ہے شعبان کی پندرہویں رات میں، بس مغفرت فرما دیتا ہے سب مخلوق کی، مگر مشرک و کینہ والے شخص کے لئے (مغفرت نہیں فرماتا)۔ (ابن ماجہ) اور ایک روایت میں ہے: مگر دو شخص: ایک کینہ رکھنے والا، اور ایک قتلِ ناحق کرنے والا۔ اور ایک روایت میں ہے: یا قطع رحم کرنے والا (ماثبت بالسنۃ عن سعید بن منصور ) اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ نظرِ (رحمت) نہیں کرتا ہے اس رات میں (بھی) مشرک کی طرف اور نہ کینہ والے کی طرف اور نہ قاطع رحم (یعنی رشتہ ناطہ والوں سے بلاوجہ شرعی تعلّق توڑنے والے) کی طرف اور نہ پائجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکانے والے کی طرف اور نہ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کی طرف اور نہ ہمیشہ شراب پینے والے کی طرف (البتہ اگر توبہ کر چکا ہے تو رحمت خداوندی اُس پر بھی متوجہ ہو جاتی ہے)۔ (ماثبت بالسنۃ عن بیہقی)

فائدہ: ان کے علاوہ بعض اور گناہ گاروں پر بھی نظرِ رحمت نہ ہونا دوسری روایتوں میں آیا ہے۔ پس سب گناہوں سے توبہ کرنا چاہیے، سب روایتوں پر نظر ڈالنے سے احقر کے فہمِ ناقص میں یہ آتا ہے کہ کبائر بدونِ توبہ معاف نہیں ہوتے اور صغائر سب اس رات کی برکت سے حق تعالٰی معاف کر دیتا ہے۔ و اللہ اعلم!

(ج) اور آنحضرت ﷺ سے رات (نفل) نماز کے سجدہ میں یہ دعا مروی ہے: ''أَعُوْذُ بِعَفْوِكَ مِنْ عِقَابِكَ، وَ أَعُوْذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَ أَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ جَلَّ وَجْهُكَ، لَا أُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِكَ''۔ (ما ثبت بالسنۃ، شعب الإیمان للبیہقی، رقم الحدیث:3556)

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: تیرے غصّے سے تیری رضا مندی کی پناہ لیتا ہوں اور تیرے عتاب سے تیرے درگزر کرنے کی پناہ لیتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ مانگتا ہوں، برتر ہے تیری ذاتِ (مقدّس)، میں تیری ثنا کو شمار نہیں کر سکتا تو ویسا ہی ہے جیسی تونے اپنی تعریف کی ہے۔ اسی روایت میں اور دعا بھی ہے، بخوفِ طوالت نقل نہیں کی گئی ہے۔ اور ’’ما ثبت بالسنۃ‘‘ کے مؤلف نے فرمایا ہے کہ بیہودہ بدعات میں سے ایک یہ ہے جو کہ ہندوستان کے اکثر شہروں میں پھیلی ہوئی ہے یعنی چراغوں کا جلانا اور ان کا مکانوں اور دیواروں پر رکھنا اور اس پر فخر کرنا کہ (ہم نے زیادہ روشنی کی ہے) اور لوگوں کا کھیل کود کے لئے جمع ہونا اور آگ کے ساتھ کھیلنا اور آتش بازی جلانا۔ ظنِ غالب یہ ہے کہ یہ رسم ہندوؤں کی رسم یعنی دیوالی سے لی گئی ہے، جاہل مسلمانوں نے اس کو لے لیا ہے۔

فائدہ: احقر کا ظنِ غالب یہ ہے کہ قریب قریب تمام رسوم بدعیہ مثل سوم چہلم وغیرہ ہنود سے لئے گئے ہیں۔