خطبہ 40: ماہِ صفر کے بیان میں

ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ چہلم

ماہِ صفر کے بیان میں

آیتِ مبارکہ: ارشاد فرمایا حق تعالیٰ نے کہ بیشک مہینوں کا ہٹانا کفر میں (ترقی کا باعث) ہے (یعنی من جملہ اور کفریات کے یہ حرکت بھی کفر ہے جو کفارِ قریش ماہِ محرّم وغیرہ کے متعلق کیا کرتے تھے، مثلاً اپنی غرض سے محرّم کو صفر قرار دے کر اس میں لڑائی کو حلال کہہ دیتے تھے۔ وغير ذلك

حدیثِ اوّل: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نہ (مرض کا) تعدیہ ہے (بلکہ جس طرح اولاً حق تعالیٰ کسی کو مریض بناتے ہیں اسی طرح دوسرے کو اپنے مستقل تصرّف سے مریض کر دیتے ہیں، میل جول وغیرہ سے مرض کسی کو نہیں لگتا یہ سب وہم ہے) اور نہ جانور کے اڑنے سے بد شگونی لینا کوئی چیز ہے (جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ داہنی جانب سے تیتر وغیرہ اڑے تو منحوس جانتے ہیں، یہ سب ڈھکوسلے ہیں) اور نہ اُلو کی نحوست کوئی چیز ہے۔ ( جیسا کہ عام طور پر لوگ اس کو منحوس خیال کرتے ہیں۔) اور نہ ماہِ صفر (میں کوئی نحوست ہے)۔ (بخاری) یہ بالکل من گھڑت بات ہے اور حدیث صریح کے خلاف ہے۔ اور ایک رسم اس ماه میں آخری چہار شنبہ کی مروّج ہے، یہ بھی بالکل بے اصل ہے۔

حدیثِ دوم: محمد بن راشد کہتے ہیں کہ لوگ ماہِ صفر کے آنے کو منحوس سمجھتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں ہے صفر (میں کوئی نحوست)۔ (ابوداؤد)

حدیثِ سوم: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ بد فالی شرک ہے، اس کو تین مرتبہ فرمایا۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں جس کو خیال نہ آتا ہو، لیکن اس کو توکّل کے ذریعے سے بھگا دیتا ہے۔ (ابو داؤد)

فائدہ: جو بات مشہور ہو اس کا خیال وقت پر آ ہی جاتا ہے، لیکن اس خیال پر عمل کرنا یا اس کو دل میں جمانا جائز نہیں ہے، بلکہ توکّل کے خیال کو غالب کرے تو وہ خیال باطل فوراً رفع دفع ہو جاوے گا ۔ اور رسول اللہ ﷺ سے عورت اور مکان اور گھوڑے میں نحوست ہونا جو بخاری و مسلم میں مروی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو ان میں ہوتی جیسا کہ ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

آیتِ مبارکہ: (جو رسول اصحابِ قریہ کی طرف بھیجے گئے تھے) انہوں نے (کفار سے) فرمایا کہ تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے۔ کیا نحوست اس کو سمجھتے ہو کہ تم کو نصحیت کی جاتی ہے بلکہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔