ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ سی و نہم
عاشورہ کے بیان میں
حدیثِ اوّل: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: سب روزوں میں افضل رمضان کے بعد اللہ تعالیٰ کا مہینہ محرّم ہے (یعنی اس کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا) رمضان کے سوا اور سب مہینوں کے روزہ سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ (مسلم)
حدیثِ دوم: ارشاد فرمایا رسول ﷺ نے کہ میں اُمید رکھتا ہوں الله تعالیٰ سے کہ عاشورہ کا روزہ کفّارہ ہو جاتا ہے اس سال کا (یعنی اس سال کے چھوٹے گناہوں کا) جو اس سے پیشتر گزر چکا ہے۔ (مسلم)
حدیثِ سوم: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ روزہ رکھو تم عاشورہ کا اور مخالفت کرو اس میں یہود کی اور (وہ اس طرح کہ) روزہ اس سے ایک دن پہلے کا یا بعد کا رکھ لینا چاہیے۔ (مسند احمد ، و إلیہ ذہب فقہاءنا و کرہوا انفراد عاشوراء بالصوم)
حدیثِ چہارم: اور حدیث میں ہے کہ عاشورا کا روزہ رمضان (کے روزے فرض ہونے) سے پیشتر (بطورِ فرضیت) رکھا جاتا تھا۔ پس جب رمضان (کے روزوں کا حکم) نازل ہوا تو جس نے چاہا (عاشورا کا روزہ) رکھا اور جس نے چاہا نہ رکھا۔ (بخاری)
اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس شخص نے فراخی کی اپنے اہل و عیال پر خرچ میں عاشورا کے دن فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر (رزق میں) تمام سال۔ (بیہقی)
پس یہ دونوں باتیں تو کرنے کی ہیں: ایک روزہ رکھنا کہ وہ مستحب ہے، دوسرے مصارفِ عیال میں کچھ فراخی کرنا (اپنی حیثیت کے موافق) اور یہ مباح ہے، اس کے علاوہ اور سب باتیں جو اس دن میں کی جاتی ہیں خرافات ہیں۔ لوگ اس دن میلہ لگاتے ہیں اور حضرات اہلِ بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مصائب کا ذکر کرتے ہیں اور ان کا ماتم کرتے ہیں اور مرثیہ پڑھتے ہیں اور روتے اور چِلّاتے بھی ہیں۔ اور بعض لوگ تو تعزیہ وغیرہ بھی نکالتے ہیں اور اُن کے ساتھ شرک اور کفر کا معاملہ کرتے ہیں، یہ سب باتیں واجب الترک ہیں۔ شریعت میں اس ماتم وغیرہ کی کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ اِن سب اُمور کی سخت ممانعت آئی ہے۔
فائدہ: بعض لوگ اس روز مسجد وغیرہ میں جمع ہو کر ذکرِ شہادت وغیرہ سناتے ہیں۔ اس میں ثِقہ لوگ بھی غلطی سے شریک ہو جاتے ہیں اور بعض اہلِ علم بھی اس کو جائز سمجھنے کی عظیم غلطی میں مبتلا ہیں۔ در حقیقت یہ بھی ماتم ہے گو مہذّب طریقہ سے ہے۔ سینہ وغیرہ بھی وحشی لوگوں کی طرح سے نہیں کوٹتے، لیکن حقیقت ماتم کی یہاں بھی موجود ہے۔ و الله اعلم بالصواب!
آیتِ مبارکہ: اور ارشاد فرمایا حق تعالیٰ نے: پس جس شخص نے ذرّہ برابر نیکی کی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔
اضافہ (الف): جب آنحضرت ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو یہود کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، اس پر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ کیا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ بڑا دن ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی اور فرعون اور اس کی قوم غرق ہوئی۔ پس موسٰی علیہ السلام نے اس کا روزہ بطور شکر کے رکھا تو ہم بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: تو ہم تم سے زیادہ حق دار اور قریب ہیں موسٰی علیہ السلام کے، پھر حضور ﷺ نے اس کا روزہ رکھا اور (دوسروں کو) اس روزے کا حکم دیا۔ (متفق عليہ)
(ب) اور حدیث شریف میں ہے کہ جب رسولِ خدا ﷺ نے روزہ رکھا اور روزہ کا حکم دیا تو انہوں نے (یعنی صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کیا کہ یہ ایسا دن ہے جس کو یہود و نصارٰی معظّم سمجھتے ہیں (پس اس میں روزہ رکھنے سے مشابہت کا شُبہ ہوتا ہے) اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا، تاکہ مشابہت کا شُبہ جاتا رہے۔ (مسلم)