خطبہ 38: موت اور ما بعد الموت کا ذکر

ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ سی و ہشتم

موت اور ما بعد الموت کا ذکر

حدیثِ اوّل: حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ لذّتوں کو قطع کرنے والی یعنی موت کو بہت یاد رکھو۔ (ترمذی)

حدیثِ دوم: نیز آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب مؤمن کی موت آتی ہے تو (کفن کے واسطے) رحمت کے فرشتے سفید ریشم کا کپڑا لے کر آتے ہیں اور مؤمن کی روح کو کہتے ہیں کہ نکل اس حال میں کہ تو خدا سے خوش ہے اور خدا تجھ سے خوش ہے (چل) خدا کی (دی ہوئی) راحت (اور رحمت) کی طرف اور (عمدہ اور) فراخ روزی کی طرف اور ایسے رب کی طرف (جو تجھ سے) ناراض نہیں ہے، پس وہ مشک کی بہترین خوشبو جیسی (مہکتی ہوئی) نکلتی ہے، (اور اسی روایت میں آگے یہ بھی ہے کہ) اور جب کافر کی موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے اس کے پاس ایک ٹاٹ لے کر آتے ہیں (اور اس کی روح کو کہتے ہیں کہ) نکل خدائے عَزَّ وَ جَلَّ کے عذاب کی طرف اور اس حال میں کہ تو بھی ناخوش ہے اور خدا بھی تجھ سے ناراض ہے۔ پس وہ نہایت بدبودار مُردار کی طرح سڑی ہوئی نکلتی ہے۔ الخ (نسائی)

حدیثِ سوم: نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ (جب مؤمن کی روح) بدن کی طرف لوٹا دی جاتی ہے تو میّت کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بِٹھلا کر کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے۔ پھر وہ دونوں فرشتے دریافت کرتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تم میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ وہ الله کے رسول ہیں (ﷺ)۔ پھر پوچھتے ہیں کہ تیرا عِلم کیا ہے؟ (جس کے ذریعے سے تجھ کو دین معلوم ہوا) وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب (قرآن) کو پڑھا اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سمجھا۔ (افسوس! کہ آج بعض نام نہاد مسلمان اس علم کو حاصل نہیں کرتے، بلکہ دنیوی علم میں منہمک ہو کر اس کو بالکل چھوڑ بیٹھے ہیں۔ یاد رکھو قبر میں جا کر ملانوں ہی کی شاگردی کام آوے گی۔) پھر (اس سوال کے جواب کے بعد) ایک پکارنے والا آسمان سے پکارے گا: میرے بندے نے سچ کہا ہے، پس اس کے لئے جنّت سے فرش بچھا دو، اور جنّت ہی سے اس کو لباس پہنا دو، اور اس کے واسطے جنّت کی طرف دروازہ بھی کھول دو اور وہ کھول دیا جائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر دروازه کُھلتے ہی اس کے پاس جنّت کی ہوا اور خوشبو آتی ہے اور اس کے لئے نگاہ پہنچنے تک قبر میں فراخی رکھ دی جاتی ہے اور کافر کا حال اس کے بر عکس ذکر فرمایا ہے۔ (ابوداؤد)

حدیثِ چہارم: اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شَانُہٗ نے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے واسطے (جنّت میں) ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا ہے، اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا گزر ہوا۔ (جیسا کہ) آدمی سوچا کرتا ہے کہ یوں ہونا چاہیے، یوں ہونا چاہیے، یعنی اس خیالی پلاؤ میں بھی ان چیزوں کا خطرہ نہیں ہوا۔) (متفق علیہ)

حدیثِ پنجم: نیز آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: اہلِ دوزخ میں سب سے کم عذاب اس شخص کا ہے جس کو آگ کی دو جوتیاں اور (ان کے) دو تسمے پہنائے جائیں گے کہ ان کی وجہ سے ان کا دماغ دیگ کی طرح کھولتا ہو گا اور اس کو یہ گمان بھی نہ ہو گا کہ کسی کو اس سے زیادہ عذاب ہو رہا ہے اور درحقیقت وہ سب سے کم عذاب ہو گا۔ (مسلم)

حدیثِ ششم: نیز آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بیشک تم اپنے پروردگار کا دیدار کرو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو کہ (باوجود زیادہ ہجوم کے بھی) کوئی کسی کے لئے اُس کے دیکھنے میں مُزاحِم نہیں ہوتا) بلکہ مختلف مقامات سے بھی سب کے سب اُس کو بے تکلّف دیکھ لیتے ہیں۔ پس دیدارِ خداوندی میں یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ اتنے لوگوں کو کس طرح دیدار ہو گا۔ (بخاری)

آیتِ مبارکہ: اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، پھر تم ہماری طرف لوٹا دیے جاؤ گے۔

اضافہ (الف): نیز ارشاد فرمایا ہے آنحضرت ﷺ نے کہ جہنّم پر پُلِ صراط رکھی جاوے گی (اور اسی روایت میں ہے کہ) بعض آدمی (یعنی کافر) تو اُن میں سے اپنے عملِ (بد) کے سبب بالکل ہی ہلاک ہو جاویں گے اور اُن میں سے بعض آدمی (یعنی گناہ گار مسلمان) کو عذاب ہو گا مگر وہ پھر نجات پاویں گے۔ (متفق علیہ)

(ب) نیز ارشاد فرمایا ہے کہ سب لوگ جہنم پر آویں گے (پھر نیک لوگ) اپنے اعمالِ (حسنہ) کی وجہ سے وہاں سے عبور کر جاویں گے (یعنی اُس پر سے گزر جاویں گے)۔ پس اوّل ان (گزرنے والوں) میں سے بجلی کی مانند گزر جاوے گا، پھر ہوا کی طرح، پھر تیز گھوڑے کی طرح، پھر اونٹ سوار کی طرح، پھر آدمی کے دوڑنے کی طرح، پھر آدمی کے چلنے کی طرح۔ (ترمذی، دارمی)