خطبہ 36: مُراقَبه و محاسبہ وغیرہ کے بیان میں

ترجمه آیات و احادیث خطبۂ سِی و ششم

مُراقَبه و محاسبہ وغیرہ کے بیان میں

یہ تو ظاہر ہے کہ بدونِ دوام و مُواظَبت اور پابندی کے کوئی عمل معتد بہ نہیں ہے، اس پابندی کا نام اصطلاحِ تصوّف میں ’’مُرابَطہ‘‘ ہے اور علماء نے بھی ’’مُرابَطہ‘‘ کو اس معنی میں لیا ہے، چنانچہ بیضاوی نے ﴿وَ رَابِطُوْا...﴾ (آل عمران: 200) کی تفسیر ''وَاظِبُوْا'' سے کی ہے، اور اس دوام و پابندی کے لئے اس کی ضرورت ہے کہ نفس کو اوّل متنبہ کر دیا جاوے کہ کام کرنا پڑے گا اور فلاں فلاں کام سے پرہیز کرنا ہو گا، اس تنبیہ کو ’’مُشارَطہ‘‘ (یعنی شرط و قرار داد) کہتے ہیں۔ اور اس کی نگہبانی کرنا بھی ضروری ہے، اس کا نام ’’مُراقَبہ‘‘ ہے، فقط گردن جھکانا ’’مُراقَبہ‘‘ نہیں ہے بلکہ نفس کو گناہوں سے بچاوے اور نیک اعمال پر پابندی کرے اور اس کا ہر وقت خیال رکھے، یہ نگہداشت اصل ’’مُراقَبہ‘‘ ہے، پھر کسی وقتِ خاص میں اس کا حساب لینا چاہیے جس سے معلوم ہو کہ اس نے شرط و قرار داد کو پورا کر دیا ہے یا نہیں؟ اس کو ’’مُحاسَبہ‘‘ کہتے ہیں۔ پھر ’’مُحاسَبہ‘‘ سے اگر معلوم ہو کہ نفس نے شرط کو پورا نہیں کیا ہے تو اس کا کسی مشقت میں ڈال کر علاج بھی کیا جاوے اس کو ’’مُعاقَبہ‘‘ کہتے ہیں اور گزشتہ کی تلافی کے واسطے کوئی ایسا نیک عمل بھی کیا جاوے جو نفس کو گراں ہو اس کو ’’مُجاہَدہ‘‘ کہتے ہیں (وقتی علاج بطور سزا و جرمانہ تو ’’مُعاقَبہ‘‘ ہے اور دائمی وظیفۂ تلافئ مَافَات کے واسطے مقرر کرنا ’’مجاہدہ‘‘ ہے) پھر اس نفس کو اس کوتاہی پر دهمکائیں اور ملامت کریں اور تلافئ مَافَات پر برانگیختہ کریں، اس کا نام ’’مُعاقَبہ‘‘ ہے، یہ سب چھ چیزیں ہیں۔ حاصل ان کا یہ ہے کہ نفس کو کسی وقت آزاد نہ چھوڑیں، ورنہ سرکش ہو جاتا ہے۔

اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ آنکھوں کی چوری سے واقف ہے اور اس سے بھی واقف ہے جس کو سینے میں چھپاتے ہیں۔ نیز ارشاد فرمایا ہے: جو شخص اپنے رب کے پاس حاضر ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہشِ نفسانی سے روکا اُس کا ٹھکانہ جنّت ہے۔ اور حق تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اُس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جس نے اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی۔

حدیثِ اوّل: حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ اپنی زبان کو کھینچ رہے تھے، پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ٹھہرو (ایسا نہ کرو) اللہ تمہاری مغفرت کرے گا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اِس نے مجھ کو ہلاکتوں میں ڈالا ہے (مالك)

حدیثِ دوم: اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: (دراصل) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے اتباعِ خداوندی کے بارے میں جہاد کرے۔ (بیہقی)

فائدہ: یعنی جس طرح کفار سے اِعلاءِ کلمةِ الحق کے لئے جہاد کیا جاتا ہے اِسی طرح نفس سے بھی جہاد کرنا چاہیے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو جائے، اور یہ جہاد مقدّم اور افضل ہے جہادِ معروف سے۔

حدیثِ سوم: اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں فرمایا ہے کہ تم خود (نفس سے) حساب لے لو اس سے قبل کہ تمہارا حساب لیا جاوے اور اس کو جانچ لو اس سے پیشتر کہ تمہاری جانچ کی جائے۔ اور تیاری کر لو خدا کے سامنے بڑی پیشی کی جس دن تم پیش کئے جاؤ گے، تمہاری کوئی بات چھپ نہ سکے گی۔ (ابن ابی شیبہ)

آیتِ مبارکہ: اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور چاہیے کہ ہر شخص (اس کی) دیکھ بھال کرتا رہے کہ اس نے کل (یعنی قیامت) کے واسطے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تمہارے اعمال کی خوب خبر رکھتا ہے۔

اضافہ (الف): حق تعالیٰ نے (حضرت داؤد علیہ السلام) سے ارشاد فرمایا ہے کہ خواہش کی پیروی (کبھی) نہ کرنا کہ وہ اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔

(ب) نیز ارشاد فرمایا ہے کہ (اے مخاطب) کیا اُس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفسانی کو خدا بنا رکھا ہے۔ (کہ جو جی میں آتا ہے وہی کر گزرتا ہے)۔

(ج) نیز ارشاد فرمایا ہے: اے لوگو! (خدا کے عذاب) سے بچتے رہو اور اس دن سے ڈرتے رہو جس دن نہ کوئی والد اپنے بچے کے کام آوے گا، نہ کوئی بچہ اپنے والد کے کام آوے گا۔