ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ سِی و چہارم
محبت اور شوق اور انس و رضا کے بیان میں
محبت کے معنی تو ظاہر ہیں کہ دل کا مائل ہونا ہے اور شوق و اُنس کی حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی چیز ایک درجہ میں غائب ہو اور ایک درجہ میں حاضر ہو تو جس وقت غائب کی طرف خیال کر کے طلب غالب ہو جاوے تو وہ شوق ہوا، اور جس وقت حاضر کی طرف خیال کر کے خوشی غالب ہو جائے اس کو اُنس کہتے ہیں، اور رضا کے معنی یہ ہیں کہ قضا و قَدَر پر اعتراض کو ترک کر دے، پھر اس میں دو درجے ہیں: ایک یہ کہ تکلیف کا احساس بھی نہ رہے یہ رضائے طبعی ہے اور دوسرا یہ کہ احساس تکلیف اور رنج کا باقی رہے یہ رضائے عقلی ہے اور مامور بہ یہی ہے۔ اور پہلا درجہ اسی پر مُداومت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
آیاتِ طیّبات: حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: اللہ اُن سے محبّت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبّت رکھتے ہیں اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے فرشتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ: وہ شب و روز اُس کی تسبیح کرتے ہیں، اُكتاتے نہیں۔
فائدہ: اور عادتاً ایسا حال بدونِ شوق کے نہیں ہو سکتا۔ و نیز ارشاد فرمایا ہے کہ: آپ کہہ دیجئے کہ لوگوں کو خدا کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے۔
فائدہ: اور یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اُنس حاصل شدہ نعمت پر خوشی کو کہتے ہیں، پس اس آیت سے اس کا مامور بہ ہونا ثابت ہو گیا۔
تنبیہ: ایک ضروری امر قابلِ لحاظ یہ بھی ہے کہ خوشی کو حد سے نہ بڑھنے دے اور بجائے شکر کے اکڑ نہ کرنے لگے ورنہ ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ﴾ (القصص: 76) کا مِصداق بن جاوے گا۔ و نیز ارشاد فرمایا ہے کہ: اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
حدیثِ اوّل: اور رسول اللہ ﷺ نے دعا میں فرمایا ہے: اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبّت مانگتا ہوں اور اس کی محبّت مانگتا ہوں جو تجھے محبوب رکھتا ہو اور وہ عمل مانگتا ہوں جو تیری محبّت تک پہنچاوے اے اللہ! میرے لئے اپنی محبّت کو میری جان اور مال اور اہل وعیال اور ٹھنڈے پانی کی محبّت سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔ آمین! (ترمذی)
حدیثِ دوم: آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے: اے اللہ! میں تجھ سے تقدیر پر راضی رہنے کا سوال کرتا ہوں اور موت کے بعد ٹھنڈی عیش مانگتا ہوں اور تیرے دِیدار کی لذّت مانگتا ہوں اور تیری ملاقات کا شوق مانگتا ہوں۔ (نسائی)
حدیثِ سوم: نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی جماعت اس حال میں نہیں بیٹھتی کہ اللہ کا ذکر کرتی ہو، مگر اُن کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اُن پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کا ذکر ان (مقرّب فرشتوں) سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں۔ (مسلم) اور سکینہ یعنی خوشی ہی کا نام اُنس ہے جیسا کہ پیشتر معلوم ہو چکا ہے۔
آیتِ مبارکہ: اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بعض آدمی ایسے بھی ہیں جو خدا کے علاوہ اوروں کو بھی شریک قرار دیتے ہیں اُن سے ایسی محبّت رکھتے ہیں جیسی کہ اللہ سے (رکھنا ضروری) ہے اور جو مؤمن ہیں ان کو (صرف) اللہ سے بہت ہی محبّت ہے اور کیا خوب ہوتا اگر یہ ظالم لوگ جب کسی مصیبت کو دیکھتے تو سمجھ لیا کرتے کہ سب قوّت (و قدرت) اللہ ہی کو ہے اور بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
اضافہ: اور حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: جو شخص اللہ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے خدا اُس کے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور جو رضائے خداوندی کو نا پسند کرتا ہے خدا اس کی حاضری کو نا پسند کرتا ہے۔ (متفق عليہ)