ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ سی و سوم
توحيد و توکل کے بیان میں
آیاتِ طیبات: توحید کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تصرّفِ حقیقی میں یکتا ہونے کو پیشِ نظر رکھے۔ اور توکّل کا یہ مطلب ہے کہ ماسِوا اللہ سے نظر اُٹھا لے اور توکّلِ اِعتِقادی یعنی اس کا عقیدہ رکھنا کہ خدا کے سِوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے، یہ تو سب پر فرض ہے، لیکن اس سے آگے درجہ یعنی اس عقیدہ کے پختہ ہونے پر معاش وغیرہ کے اسابِ ظنّیہ کو ترک کر دے، یہ قَوِی القلب کے لئے ہے بشرطیکہ کسی امرِ واجب میں خَلَل واقع نہ ہو اور توکل توحید کا ثمرہ ہے۔ حق تعالیٰ شانُہٗ نے (قصّۂ ابراہیمی میں) ارشاد فرمایا ہے: تم نے خدا کو چھوڑا، تم جن کو پوجتے ہو وہ تم کو کچھ رزق دینے کا بھی اختیار نہیں رکھتے، سو تم لوگ رزق خدا کے پاس سے طلب کرو، اور اُسی کی عبادت کرو اور اُسی کا شکر کرو تم سب کو اُسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ نیز ارشاد فرمایا ہے کہ خدا ہی پر توکل کرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔
حدیثِ اوّل: اور رسولِ خدا ﷺ نے (ابن عباس رضی اللہ عنہ سے) ارشاد فرمایا ہے: اے بچے! خدا کو یاد رکھ، تو اس کو اپنے سامنے پاوے گا اور جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر اور جب تو مدد چاہے تو اللہ ہی سے مدد مانگ، اور جان لے اس بات کو کہ اگر تمام لوگ اس پر اتفاق کر لیں کہ تجھ کو کچھ نفع پہنچاویں تو ہرگز اس کے سِوا کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے جو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے اور اگر تمام لوگ اس پر مُتفق ہو جائیں کہ تجھ کو کچھ نقصان پہنچاویں تو ہرگز اُس کے سِوا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے۔ (تقدیر کے) قلم اٹھا دیئے گئے اور دفتر خشک ہو چکے (اب ان میں کوئی تغیّر و تبدّل نہ ہو گا)۔ (ترمذی)
حدیثِ دوم: و نیز آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’مؤمنِ قوی‘‘ مؤمنِ ضعیف سے بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں خیر اور (بھلائی) ہے۔ جو چیز تم کو نفع دے اُس کی حِرص کرو اور اللہ تعالٰی سے مدد مانگو اور عاجز مت بنو، اور اگر تجھ کو کوئی مصیبت پہنچے تو یوں مت کہا کر کہ اگر میں یوں کرتا تو یوں ہو جاتا۔ لیکن یوں کہا کر کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقدّر کر دیا ہے اور جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے کیونکہ ”اگر“ (یعنی یوں کہنا کہ اگر یوں کرتا تو یوں ہو جاتا) شیطان کے کام کھول دیتا ہے۔ (مسلم)
آیتِ مبارکہ: اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے لوگو! اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو تم پر (ہوئی) ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی خالق ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تم کہاں اُلٹے پھرے جاتے ہو۔
اضافہ (الف): نیز ارشاد فرمایا ہے کہ بیشک حق تعالٰی نے فرمایا ہے کہ: اللہ متوکلین کو دوست رکھتا ہے۔
(ب) اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ اس پر عمل کریں تو ان کو وہی کافی ہو جاوے، وہ آیت یہ ہے: ﴿وَ مَنْ یَّتَّقِ اللہَ…﴾ ’’الآية‘‘ (الطلاق: 2) یعنی جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالٰی اس کے واسطے نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (احمد، ابن ماجہ، دارمی)
(ج) نیز ارشاد فرمایا ہے رسول اللہ ﷺ نے کہ: بِلاشبہ رزق انسان کو اس طرح ڈھونڈتا ہے جیسا کہ اس کو اس کی اَجَل (موت) ڈھونڈتی ہے۔ (ابو نعیم)