ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ سِی و دوم
فقر و زہد کے بیان میں
فقر کے معنی ہیں تنگ دستی، اور فقر و تنگ دستی پر قناعت کرنے کا حکم ہے اور زُہد کے معنی یہ ہیں کہ مال وغیرہ کی طرف رغبت اور محبّت نہ کی جاوے اور یہ خود مامور بہ ہے۔ چنانچہ حق تعالیٰ شَانُہٗ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ تم لوگ میراث کا مال سارا سمیٹ کر کھاتے ہو (یعنی دوسرے شرکاء و مستحقین کو بھی نہیں دیتے) اور مال سے بے انتہا محبّت کرتے ہو۔
فائدہ: ظاہر ہے کہ جو شخص فقر پر راضی ہو وہ اس طرح اندھا دُھند کام نہیں کر سکتا اور جو شخص زاہد ہو اس کو اس طرف اِلتِفات بھی نہیں ہو سکتا۔
حدیثِ اوّل: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ فقیر (تنگ دست) لوگ جنّت میں امیروں سے پانچ سو سال یعنی آدھے دن پیشتر داخل ہوں گے۔ (ترمذی)
فائدہ: آخرت میں ایک دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر ہو گا اس واسطے پانچ سو سال کو آدها فرمایا ہے۔
حدیثِ دوم: اور ارشاد فرمایا ہے رسول اللہ ﷺ نے: مجھ کو (یعنی میری خوشی کو کمزوروں کی دل جوئی) میں تلاش کرو۔ کیونکہ کمزوروں کی وجہ سے تم کو بھی رزق دیا جاتا ہے یا (یوں فرمایا کہ) تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (ترمذی)
حدیثِ سوم: نیز ارشاد فرمایا آنحضرت ﷺ نے کہ جب تم ایسے آدمی کو دیکھو جس کو دنیا سے بے رغبتی اور کم گوئی کی عادت دی گئی ہو تو اس کے پاس رہا کرو، کیونکہ وہ (صرف) حکمت اور (دانائی) کی باتیں کرتا ہے۔ (بیہقی، ابن ماجہ)
حدیثِ چهارم: اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تو دنیا سے بے رغبت رہ، اللہ تعالیٰ تجھ کو دوست رکھے گا۔ اور جو لوگوں کے پاس ہے اس سے بھی بے رغبت رہ وہ لوگ بھی تجھ کو دوست بنا لیں گے۔ (بیہقي)
حدیثِ پنجم: نیز ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اس امت کی پہلی اصلاح یقین اور زہد ہے اور اس کا اوَّل فساد بُخل او اَمَل (یعنی ہَوَس) ہے (بیہقی)۔ اور سفیان نے فرمایا ہے کہ زُہد یعنی دنیا سے بے رغبتی موٹا اور سخت کپڑا پہننا نہیں ہے، اور نہ روکھا سوکھا کھانا ہے، بلکہ اصل زہد ہوس کا کم کرنا ہے۔ (مشکٰوة)
آیتِ مبارکہ: اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے یہ بات یعنی ہر مصیبت (وغیرہ کا مقدّر ہونا اس لئے بتلا دیا) تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے تم اس پر اتنا رنج نہ کرو اور تاکہ جو چیز تم کو عطا فرمائی ہے اس پر اِتراؤ نہیں اور اللہ تعالیٰ اِترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔
اضافہ: اور آنحضرت ﷺ نے دعا میں فرمایا ہے: اے اللہ! مجھ کو مسکین کر کے زندہ رکھ اور مسکین ہی کر کے موت دے اور مساکین ہی کے زُمرے میں میرا حشر فرما۔ (ترمذی، بیہقی، ابن ماجہ)