ترجمه آیات و احادیث خطبۂ سوم
پاکی کی فَضیلت میں
حدیثِ اوّل: اِرشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ پاکی نصف ایمان ہے۔ (مسلم)
حدیثِ دوم: اور نیز ارشاد فرمایا کہ میری اُمّت کے لوگ قیامت کے روز اس حال میں بُلائے جائیں گے کہ وُضو کے نشانات کی وجہ سے اُن کے چہرے اور ہاتھ پاؤں چَمکتے ہوں گے، پس جوشخص تم میں سے اپنی چَمَک کو بڑھا لے وہ بڑھا لے۔ (متفق علیہ)
فائده: یعنی جہاں تک مُنہ اور ہاتھ پاؤں دھونا فرض ہے اُس سے زیاده دھو لیا کرے۔ اور یہ اَخیر کا جملہ ”پس جو شخص“ سے اَکثر مُحَقِّقِین کے نزدیک ابو ہریرہ رضیَ اللہُ عنہ کا ارشاد ہے۔ "وَاللهُ أَعْلَمُ!"
حدیثِ سوم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ مُؤمن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وُضُو کا پانی پہنچتا ہے۔ (احمد)
حدیثِ چہارم: ارشاد فرمایا آنحضرت ﷺ نے کہ جنّت کی کُنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی پاکی ہے۔(احمد)
فائدہ: یعنی جنابت اور حَدَث سے، غُسل اور وُضو کر کے پاک ہونا۔
حدیثِ پنجم: اِرشاد فرمایا آنحضرت ﷺ نے: جس شخص نے ایک بال کی جگہ (غُسلِ) جنابت سے بغیر دھوئے چھوڑ دی اُس کے ساتھ (جہنم) کی آگ میں اِس طرح (عذاب) کیا جاوے گا۔ (ابوداؤد)
حدیثِ ششم: ارشاد فرمایا آنحضرت ﷺ نے جب کہ آپ کا دو قبروں پر گزر ہوا کہ بیشک ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیا جارہا، (بلکہ) ایک تو اُن میں سے پیشاب سے نہیں چُھپتا تھا اور دوسرا چُغلی کیا کرتا تھا۔ (متفق علیہ) اور ایک روایت ہے کہ ’’پیشاب سے نہیں بچتا تھا‘‘۔ (مسلم)
حدیثِ ہفتم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: جب تم رَفعِ حاجَت کی جگہ پر پہنچو تو نہ قِبلہ کی طرف مُنہ کرو نہ اس کی طرف پُشت کرو۔ (مسلم)
آیتِ مبارکہ: ارشاد فرمایا حق تعالیٰ نے: (اے رسول!) آپ اُس (مسجدِ ضِرَار) میں ہرگِز کھڑے نہ ہو جِئے، البتہ جس مسجد کی بنیاد اوّل دن سے تقویٰ پر رکھی گئی، وہ اِس لائق ہے کہ آپ اُس میں کھڑے ہوں (اِس سے مُراد مسجدِ قُبا ہے) اِس مسجد میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور الله تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔
فائدہ: اضافہ (الف:) حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے مسجد قُبا والوں سے دریافت فرمایا کہ تم کیا پاکی، کیا کرتے ہو جس پر تمہاری تعریف (قرآن شریف میں) کی گئی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم ڈِھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی سے بھی استِنجاء کرتے ہیں، فرمایا: یہی بات (قابلِ تعریف) ہے۔
اضافہ (ب): اگر نجاست ’’مقدارِ درہم‘‘ اِدھر اُدھر پھیلی ہوئی ہو تب تو اِستِنْجاء کرنا فرض ہے، اور اگر کم پھیلی ہو تو سنّت، اور اگر بالکل بھی نہ پھیلی ہو تو مُستَحَب ہے۔ اور زیادہ پاکی کی بات یہی ہے کہ با وجود نَجاست نہ پَھیلنے کے پانی سے استنجاء کیا جاوے۔