ترجمه آیات و احادیث خطبۂ دوم
عقائد دُرست کرنے کے بیان میں
آیاتِ مُبارکہ: ارشاد فرمایا حق تعالیٰ نے: اے مومنو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اُس کتاب پر جو اِس سے پہلے نازل فرمائی تھی اور جو شخص الله اور اُس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں اور آخرت کے دن کا انکار کرے (یا انکار کے مُرادِف کسی قَول و فِعل کا مُرتَکِب ہو) بیشک وہ راہِ ہدایت سے بہت دور جا پڑا۔
فائدہ: الله تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کی وَحدانِیَّت کا اور دوسری سب صفاتِ کمال کا اِعتِقاد رکھے، یعنی یہ سمجھے کہ وہ ایک ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، تمام جَہان کو اُسی نے پیدا کیا ہے، وہ بڑی قُدرت والا ہے، وہ اپنے بندوں کے نیک کام کی بہت قَدر کرتا ہے (یعنی اُس پر خوب ثواب دیتا ہے) اور اپنے اِرادے سے جو چاہتا ہے کرتا ہے، تمام عَالَم میں جو کچھ ہونے والا تھا اُس نے سب پہلے ہی سے لکھ دیا تھا (اُس کو تقدیر کہتے ہیں) اُس جیسی کوئی چیز نہیں۔ اُس کے عِلم اور قُدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہوسکتی، وہی سب کا خالق اور رازق ہے، وہی زندگی دیتا ہے، وہی موت دیتا ہے، وہ غالب ہے حکمت(1. یہ سب صفات قرآن و حدیث سے ثابت ہیں، اور ان کے سوا اور بہت سی خوبیاں ہیں جن کی تفصیل دوسری کتابوں سے معلوم ہو سکتی ہے۔
) والا ہے۔ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے ہیں اور اُس کے رسول ہیں، یعنی ہِدایتِ خَلْق کے واسطے ان کو خدا نے بھیجا ہے اور وہ سچّے ہیں، جو اَحکام اور خبریں اُنہوں نے پہنچائی ہیں وہ بَرحق ہیں۔ اور رسول پر اُتاری ہوئی کتاب سے مراد ’’قرآن مجید‘‘ ہے، وہ خدائے قُدُّوس کا کلام ہے، جِبرَئِیل علیہ السلام اس کو لائے ہیں، (اور سب پیغمبروں پر بھی وحی لے کر یہی آیا کرتے تھے) اور پہلی کتابوں پر بھی یقین رکھے کہ بیشک حق تعالیٰ نے تَورَیت، اِنجِیل، زَبور وغیرہ نازل فرمائی تھی (لیکن اب اُن کو یَہود و نَصاریٰ نے بدل دیا اور وہ مَنسوخ ہو چُکیں، اب قیامت تک قرآن ہی کا حکم جاری رہے گا اور قرآن میں کوئی تَغیُّر و تَبدُّل ہوسکا اور نہ آئندہ ہو سکے گا، یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا، خدا نے اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے) اور جو فرشتوں کے وجود کا انکار کرے وہ بھی کافر ہے، اور آخرت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے یعنی یہ اِعتِقاد رکھے کہ مرنے کے بعد قبر میں (اور دفن نہ ہوا تو جس حال میں ہو اِسی حال میں) سوال ضرور ہوگا اور قبروں سے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا اور نامۂِ اَعمال تَولے جائیں گے اور سب اعمال کا حساب ہوگا۔ اور نیک بندوں کو حوضِ کوثر سے پانی پلایا جائے گا۔ دوزخ پر پُل صِراط رکھا جائے گا (جو بال سے باریک، تلوار سے تیز ہوگا)۔ جَنَّتی لوگ اُس پر سے پار ہو کر جنّت میں پہنچیں گے اور دوزخی کَٹ کَٹ کر گِر پڑیں گے۔ اور قیامت کو آنحضرت ﷺ شَفاعت بھی کریں گے۔ جنّت والوں کو الله تعالیٰ کا دیدار بھی ہوگا (جوسب نعمتوں سے افضل ہے) اور جنّت دوزخ ہمیشہ رہے گی ، نہ وہ کبھی فَنا ہوں گی، نہ ان میں رہنے والے مَریں گے۔ اُس کے علاوہ اور بھی ضروری عقیدے ہیں ، مثلاً: تمام صحابہ کو عادِل یقین کرنا اور ان سب سے چاروں خُلَفاء کو ترتیب وار افضل جاننا اور حضورﷺ کی مِعراج کو بَرحق ماننا اور اَولیائے اُمَّت کی کَرَامتوں کا قائِل ہونا وغیرہ۔ غرض مسلمانوں کو عقائد کا سَنوارنا نہایت ضروری ہے۔ زیادہ تفصیل اور کتابوں سے معلوم کر لیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اسلام پر قائم رکھے اور ایمان پر خاتمہ کرے اور ہر قسم کے عذاب سے محفوظ رکھے اور جنّت نصیب فرماوے۔ آمین ثم آمین!