ترجمه آیات و احادیث خطبۂ بست و ششم
حبِ جَاہ اور رِیا کے بیان میں
حبِ جاه (یعنی مرتبہ کو پسند کرنا) گویا کہ لوگوں کے دل کا مالک بننا ہے اور اس کے مذموم ہونے کی وہ تفصیل ہے جو حُبِّ مال میں گزر چکی ہے۔ اور رِیا کے معنی یہ ہیں کہ عبادت کے ذریعہ سے جاہ کی طلب کی جاوے اور ریاۓ لغوی دونوں کو یعنی جاہ کو بھی اور ریاۓ اصطلاحی کو بھی شامل ہے۔
حدیثِ اوّل: حضرت رسولِ مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: جس نے شہرت کا لباس دنیا میں پہنا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو ذِلّت کا لباس پہنا دے گا۔ (احمد)
حدیثِ دوم : نیز ارشاد فرمایا ہے کہ آدمی کے لئے یہ آفت کافی ہے کہ اس کی طرف دِین یا دنیا میں (ممتاز ہونے کے سبب) انگلیوں سے اشارہ کیا جاوے، مگر وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ اس (شہرت کے شر سے) بچاوے۔ (ترمذی)
حدیثِ سوم: اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں میں چھوڑ دیے جاویں وہ بھی بکریوں کو اِتنا تباہ کرنے والے نہیں جتنا آدمی کے دین کو مال اور بڑائی کی محبت تباہ کر دیتی ہے۔ (ترمذی)
حدیثِ چہارم: اور ارشاد فرمایا رسولِ مقبول ﷺ نے کہ بے شک اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ایسے نیک متقی گمناموں کو کہ جب وہ غائب ہوں تو تلاش نہ کیے جاویں اور جب حاضر ہوں تو نہ بلائے جاویں اور نہ قریب کئے جاویں۔ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، نکلتے ہیں اندھیری زمین سے۔ (ابن ماجہ)
فائدہ: اندھیری زمین سے نکلنے کا بعض علماء نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ وہ لوگ آزادی اور گوشہ نشینی کے باعث ہر مشکل سے محفوظ رہتے ہیں، جیسا کہ حافظ شیرازی نے کہا ہے ؎
مُلک آزادگی و کنج قناعت گنجی است
کہ بہ شمشیر میسّر نہ شود سلطاں را
اور بعض علماء نے یہ مطلب لیا ہے کہ ان کے مکان شکستہ حالی سے تنگ و تاریک ہوتے ہیں، اسی واسطے کہا گیا ہے ؎
خاکسارانِ جہاں را به حقارت منگر
تو چه دانی که دریں گرد سوارے باشد
احقر کو پہلا مطلب زیادہ دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ مذمت جب ہے کہ کسی دُنیوی غَرض کی وجہ سے دِکھلاوے کا قصد کرے اور جب اس کا قصد نہ ہو تو کسی کے سامنے نیک کام کرنا مذموم نہیں ہے، چنانچہ حدیث پنجم میں آتا ہے۔
حدیثِ پنجم: رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ اُس شخص کے بارے میں خبر دیجئے کہ جو نیک کام کرتا ہے اور اس پر لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ لوگ اس کی وجہ سے اس کو دوست رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ مؤمن کی جلد ملنے والی بشارت ہے۔ (مسلم)
حدیثِ ششم: اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے رسولِ خدا ﷺ! جس وقت میں اپنے گھر میں نماز کی جگہ نماز پڑھتا تھا، اچانک میرے پاس ایک آدمی پہنچ گیا۔ پس مجھ کو وہ حال پسند آیا کہ جس پر اس نے مجھ کو دیکھا۔ پس آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابوہریرہ! تجھ پر اللہ رحم کرے، تیرے لئے دو اجر ہیں: ایک اجر پوشیدہ کا، اور ایک اجر علانیہ کا۔ (مشکوة)
آیتِ مبارکہ: اور حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ آخرت کا گھر ہے، اس کو ہم ان لوگوں کے لئے تیار کرتے ہیں جو زمین میں نہ بڑائی چاہتے ہیں نہ فساد، اور عاقبت متقین کے واسطے ہے۔
اضافہ (الف): نیز ارشاد فرمایا ہے کہ میرے دوستوں میں زیادہ ''غِبطہ'' کے قابل وہ مؤمن ہے جس کی کمر ہلکی ہو (یعنی عیال وغیرہ کا بوجھ نہ رکھتا ہو، بے فکری سے یکسوئی کے ساتھ عبادت میں مشغول ہو) اور نماز سے حصہ رکھنے والا ہو کہ اپنے رب کی عبادت اچھی طرح کی ہو اور اس کی اطاعت خلوت اور جلوت میں (برابر) کرتا ہو اور لوگوں میں ایسا ملا جلا (رہتا) ہو کہ اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہ کیا جاتا ہو۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
(ب) اور حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے (اپنے آپ کو) مشہور کیا خدا اس کو رسوا کرے گا اور جو شخص رِیا کاری کرے خدا (اس کو رِیا کاری کا بدلہ اس طرح دے گا کہ) اس کی حرکت سب پر ظاہر کر دے گا۔ (متفق عليہ)
(ج) اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس دن (کے آنے) میں کوئی شک نہیں ہے (خدا کی طرف سے) ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس شخص نے شرک کیا ہو ایسے عمل میں جس کو کسی نے اللہ کے لئے کیا ہو، پس اس کو چاہیے اس کا ثواب بھی غیر اللہ سے طلب کرے (کیونکہ اُسی کے واسطے کیا تھا) اللہ تعالیٰ بہت بے پرواہ (یعنی بیزار) ہے شرک سے بہ نسبت سب شرکاء کے۔ (احمد)