ترجمه آیات و احادیث خطبۂ بست و پنجم
بخل اور حبِ مال کی مذمت میں
آیاتِ طیبات: حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے ایمان والو! نہ غافل کریں تم کو تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کے ذکر سے اور جو کوئی ایسا کام کرے (کہ مال و اولاد کے سبب خدا سے غافل ہو جاوے) وہی لوگ ٹوٹے میں ہیں۔ نیز ارشاد فرمایا حق سُبْحَانَہٗ نے کہ اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں اور شیخی کی باتیں کرتے ہیں، جو کہ بُخل کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی بُخل کی تعلیم دیتے ہیں اور اس چیز کو پوشیدہ رکھتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے۔
حدیثِ اوّل: اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ آدمی کہتا ہے میرا مال، میرا مال، اور نہیں ہے اے ابن آدم! تیرے لئے مگر وہ جو تو نے کھا لیا ہے پس فنا کر دیا، پہن لیا پس پرانا کر دیا ، صدقہ کیا پس اُسی کو راستے سے لگا دیا (یعنی یہ خرچ موقعہ پر ہوا)۔ (مسلم)
حدیثِ دوم: نیز ارشاد فرمایا ہے کہ بَچو تم حِرص سے کیونکہ حِرص نے ان لوگوں کو ہلاک کردیا جو تم سے پہلے تھے۔ (مسلم)
حدیثِ سوم: اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ دُھوکہ باز اور بخیل اور احسان جَتانے والا جنّت میں داخل نہ ہو گا۔ (ترمذی)
حدیثِ چہارم: اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے انسان! اگر تو فاضِل (مال) کو خرچ کردے تو یہ تیرے لئے بہتر ہے اور اس کا روکنا تیرے لئے بُرا ہے اور تجھ کو قدرِ ضرورت پر ملامت نہیں کی جاتی اور (خرچ کرنے میں) ان سے ابتدا کر جو تیرے عیال میں ہیں۔(مسلم)
اور مذمت جمع کرنے کی اور کمانے کی جب ہے کہ وہ دین کے لئے نہ ہو اور اگر دین کے واسطے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے (قصۂ موسیٰ و خَضِر میں) ارشاد فرمایا ہے: پس تیرے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں (یتیم بچے) اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنے خزانے کو نکالیں تیرے رب کی رحمت سے (اس سے معلوم ہوا کہ خزانہ جمع کرنا مطلقاً مذموم نہیں ہے) اور اگر علی الاطلاق مذموم ہوتا تو خزانے والے کی تعریف نہ ہوتی جیسا کہ: ﴿وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحاً...﴾ (الکہف: 82) موجود ہے۔
حدیثِ پنجم : اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ بجز دینار اور درہم کے کوئی چیز نافع نہ ہو گی۔ (احمد)
حدیثِ ششم: اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ نہیں مُضائِقہ ہے غِنا کا اُس شخص کے لئے جو اللہ عَزَّ وَ جَلَّ سے ڈرے (یعنی حقوقِ مال ادا کرتا رہے) (احمد)
اور حضرت سفیان ثَوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ مال پہلے زمانے میں مکروہ سمجھا جاتا تھا اور آج کل وہ مؤمن کی ڈھال ہے۔ (مشکٰوة)
آیتِ مبارکہ: اور اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ خرچ کرو اللہ کے راستہ میں اور (انفاق فی سبیل اللہ سے رُک کر) اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہی میں مت ڈالو اور نیکی کرو، اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
فائدہ: بُخلِ مذموم وہ ہے جو ایسے خرچ سے روک دے جو کہ شرعاً و مُروتاً واجب ہو۔ اور مال کی محبت وہ مذموم ہے جس میں خود مال ہی محبوب بذاتہ ہو یا جب وہ مال ایسے کام کے واسطے ہو جس سے خدا تعالیٰ راضی نہ ہو اور اگر غرضِ صحیح کے لئے ہو تو مذموم نہیں جیسا کہ پورے خطبہ پر نظر کر کے بخوبی واضح ہے۔
اضافہ (الف): اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ملعون ہے دینار کا بندہ اور ملعون ہے درہم کا بندہ۔ (ترمذی)
(ب) نیز ارشاد فرمایا ہے کہ ہر امت کے لئے ایک (خاص) فِتنہ ہے اور میری امت کا فِتنہ مال ہے۔ (ترمذی)