ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ بِست و دوم
زبان کی حفاظت میں
زبان ایک چھوٹی سی چیز ہے، لیکن اس کے گناہ بہت ہیں۔ اسی واسطے شریعتِ مقدّسہ نے خاموشی کی تعریف کی ہے اور خاموش رہنے کی رغبت دی ہے، اِلَّا آنکہ اظہارِ حق کی ضرورت پیش آئے۔
حدیثِ اوّل: حضرت رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص مجھے اُس چیز کی ضمانت دے جو اُس کے دونوں جَبڑوں کے درمیان میں ہے اور اُس کی جو اُس کی دونوں رانوں کے درمیان میں ہے، میں اُس شخص کے لئے جنت کا ضامن ہوتا ہوں۔ (بخاری)
حدیثِ دوم: اور ارشاد فرمایا ہے آنحضرت ﷺ نے کہ مسلمان کو گالی دینا فِسق ہے اور اس کو قتل کرنا کُفر ہے (متفق علیہ)۔ اِس زمانہ میں گالی دینے کی بُرائی دلوں سے بالکل نکل گئی ہے، بلکہ بعض لوگ تو اِس کو خوشی کے موقع پر بھی استعمال کرتے ہیں، خدا کی پناہ! فِسق کی بات اور اِس کو اِس طرح بے دَھڑک کیا جاوے۔
حدیثِ سوم: نیز ارشاد فرمایا ہے رسول اللہ ﷺ نے کہ چُغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (متفق علیہ)
حدیثِ چہارم: نیز ارشاد فرمایا آنحضرت ﷺ نے کہ بیشک سچ نیکی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بیشک جھوٹ بدی ہے اور بدی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے۔(مسلم)
حدیثِ پنجم: اور رسول اللہ ﷺ نے صحابہ (رضی اللہ عنھم اجمعین) سے ارشاد فرمایا کہ: آیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ (غیبت یہ ہے کہ) تو اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرے جو اس کو ناپسند ہو۔ عرض کیا گیا کہ یہ تو فرمایئے کہ اگر وہ بات میرے بھائی میں موجود ہو جو میں کہتا ہوں؟ (اِس پر) آپ نے فرمایا کہ اگر وہ بات اُس میں ہو جس کا تُو ذکر کرے، تب ہی تو، تُو نے اس کی غیبت کی۔ اور اگر اس میں وہ بات ہو ہی نہیں جو تو ذِکر کر رہا ہو، تب تو، تُو نے اُس پر بہتان باندها (جو غیبت سے کہیں بڑھ کر ہے)۔ (مسلم)
حدیثِ ششم: اور ارشاد فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ جو شخص چُپ رہا اُس نے نجات پائی۔ (احمد، ترمذی، دارمی، بیہقی)
حدیثِ ہفتم : نیز ارشاد فرمایا ہے کہ: انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس بات کو چھوڑ دے جس سے اس کو کوئی فائدہ مقصود نہ ہو۔ (مالک و احمد و ابن ماجہ و بیہقی)
حدیثِ ہشتم: نیز ارشاد فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ جو شخص دنیا میں دو رویہ ہو (کہ اِس کے مُنہ پر اُس کی بات کہے اور اُس کے منہ پر اِس کی) قیامت کے دن اُس کے لئے آگ کی زبان ہو گی۔ (دارمی)
حدیثِ نہم: اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو عار دِلائی ہو، تو نہ مرے گا وہ شخص جب تک کہ اس گناہ کو نہ کر لے۔(راوی نے کہا ہے کہ) آپ کی مُراد یہ ہے کہ اُس گُناہ سے عار دلا دے کہ جس سے وہ توبہ کر چکا ہو۔ (ترمذی)
فائدہ: اور اگر توبہ سے قبل عار دلائی، تو گویا اس پر وعید کا مستحق نہیں ہے مگر یہ بھی ممنوع ہے، کیونکہ تَوبہ سے قبل بھی خیر خواہی سے نصحیت کرنا چاہیے، عار دلانا اس وقت بھی بُرا ہے۔ اگر عار دلانا ہی مصلحت ہو تو دوسری بات ہے۔
حدیثِ دہم: نیز ارشاد فرمایا ہے کہ اپنے بھائی کے رَنج پر خوشی ظاہر نہ کرنا، شاید الله تعالیٰ اس پر رحم فرما دے اور تجھ کو مبتلا کر دے۔ (ترمذی)
حدیثِ یاز دہَم: و نیز ارشاد فرمایا ہے کہ جب فاسِق کی تعریف کی جاتی ہے تو خدائے تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور عَرش اس کی وجہ سے ہِل جاتا ہے۔ (بیہقی)
آیتِ مبارکہ: اور ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شَانُہٗ نے کہ وہ (انسان) کوئی لفظ مُنہ سے نہیں نکالنے پاتا مگر اس کے پاس ایک تاک لگانے والا تیار (موجود) ہوتا ہے۔
اضافہ (الف): آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تم منہ پر تعریف کرنے والے کو دیکھو تو اس کے مُنہ میں مِٹی ڈال دو۔ (مسلم)
فائدہ: یعنی اُن کو سختی سے منع کر دو، البتہ اگر کسی وجہ سے سختی کی ہمت نہ ہو یا مُناسب نہ ہو تو نرمی سے منع کرنے کا مُضائِقہ نہیں۔
(ب) ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس شخص نے جھوٹ کو چھوڑا اس حال میں کہ وہ باطل ہو (یعنی جس موقع پر شریعت نے اجازت نہ دی ہو اس موقع پر جھوٹ کو چھوڑ دیا) تو اس کے واسطے جنّت کے کِنارے پر مکان بنایا جاوے گا اور جو شخص جھگڑے کو تَرک کر دے اس حال میں کہ وہ حق پر ہو تو اس کے واسطے جنّت کے درمیان میں مکان بنایا جائے گا۔ (ترمذی)
(ج) اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو (رحمت کا) فرشتہ اس سے ایک میل دُور ہو جاتا ہے بوجہ اس (فعلِ ناشَائِستہ) کی بدبو کے، جو اُس بندہ نے کیا ہے۔
(د) اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان نہ طعنہ مارنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا ہوتا ہے اور نہ بے حیائی کی بات بَکنے والا ہوتا ہے اور نہ بَد زبان ہوتا ہے۔ (ترمذی)