خطبہ 19: اصلاحِ باطن کے بیان میں

ترجمه آیات و احادیث خطبۂ نوز دہم

اصلاحِ باطن کے بیان میں

آیاتِ طیبات: ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شَانُہٗ نے: تو (بات یہ ہے کہ نہ سمجھنے والوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہو جاتیں، بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔ و نیز ارشاد فرمایا ہے کہ اَعْرَاب (منافقین) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں۔ آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ تم ایمان تو نہیں لائے ہو، لیکن یوں کہو کہ ہم (ظاہراً) تابعدار ہو گئے ہیں اور اب تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے۔ اور ارشاد فرمایا ہے: قَسَم ہے نفس کی! اور اس کی جس نے اس کو برابر بنایا ہے! پھر اس کو پرہیزگاری اور نافرمانی بتلائی ہے کہ ضرور نجات پائی اس شخص نے کہ جس نے اس کو (یعنی نفس کو) پاک کر لیا اور ناکام رہا وہ شخص جس نے اس (نفس) کو خاک میں ملا دیا۔

فائدہ: ان سب آیات سے معلوم ہو گیا کہ ایمان دراصل فعلِ قَلب ہے۔ نیز دوسرے اَفعال میں بھی قلب کا بہت بڑا دخل ہے، پس قلب (یعنی دل) کی اصلاح نہایت ضروری چیز ہے۔

حدیثِ اوّل: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ آگاہ رہو! بیشک (انسان کے) بدن میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ ٹھیک ہو جاتا ہے تو تمام بدن درست ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے خبردار! وہ (لوتھڑا) قلب (یعنی دل) ہے۔ (بخاری)

حدیثِ دوم: آنحضرت ﷺ نے حضرت وَابصَہ رضی اللہُ عنہ سے فرمایا کہ تم میرے پاس نیکی اور گناہ کا سوال کرنے کو آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں! راوی نے کہا: پس حضور ﷺ نے اپنی انگلیوں کو جمع کیا، پھر ان کو وَابصَہ رضی اللہُ عنہ کے سینہ پر مارا اور ارشاد فرمایا: فتویٰ لے اپنے نفس سے، فتویٰ لے اپنے دل سے، یہ تین بار فرمایا (اور اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ) نیکی وہ ہے جس پر نفس کو اطمینان ہو جاوے اور دل کو بھی اطمینان ہو جاوے اور گناہ وہ ہے جو کَھٹکے نفس میں اور کَھٹکے سینے میں اگرچہ تمہیں لوگ فتویٰ دیں۔ (دارمی)

حدیثِ سوم : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں۔ (بخاری)

حدیثِ چہارم : اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان ہوتا ہے نمازیوں سے اور روزہ داروں سے اور زکوٰة دینے والوں سے اور حج و عمرہ کرنے والوں سے، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے سب نیکیوں کا حصہ ذکر فرمایا اور پھر (ارشاد فرمایا) کہ قیامت کے دن جزاء نہ دی جاوے گی اس کو مگر اس کی عقل کے موافق (کیونکہ عقل سے معرفت ہوتی ہے) جس سے اخلاص وغیرہ حاصل ہوتا ہے۔ (بیہقی)

حدیثِ پنجم : ارشاد فرمایا آنحضرت ﷺ نے کہ آسمان والے فرشتے کہتے ہیں کہ پاک روح ہے (جب کہ ان کے پاس نیک آدمی کی روح جاتی ہے) اور (جب بُرے آدمی کی روح جاتی ہے تو) کہتے ہیں کہ خَبِیث روح ہے۔ (مسلم)

حدیثِ ششم : و نیز ارشاد فرمایا ہے کہ مَلَکُ الْمَوت (نَزَع کے وقت مسلمان سے کہتا ہے) اے نفسِ مُطمَئِنَّہ! اور(کافر کے واسطے) کہتا ہے اے نفسِ خَبِیث!۔ (احمد)

آیتِ مبارکہ : حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بیشک اس میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جس کے پاس فَہِیم دل ہو یا وہ کم از کم دل سے مُتَوَجِّہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگاتا ہو۔

اضافہ (الف): و نیز ارشاد فرمایا ہے حق تعالیٰ شَانُہٗ نے کہ: جو شخص اُسکو (یعنی شهادت کو) چُھپائے، بیشک اس کا دل گناہ گار ہے۔ نیز ارشاد فرمایا ہے: لیکن تم سے مُواخَذہ کرتا ہے اُس (قَسَم کھانے) کا جو تمہارے دل نے (جھوٹ بولنے کا ارادہ کر کے) کھائی ہے (یعنی اگر قَصْدًا جھوٹی قسم نہ کھائی ہو، بلکہ اپنے نزدیک سچ سمجھ کر کھائی ہو یا بِلا ارادہ زبان سے قَسَم نکل گئی ہو تو گناہ نہیں ہوتا)۔

(ب) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مُجاہِد وہ ہے جو اپنے نفس سے، اللہ کی اطاعت میں جہاد کرے۔ (بیہقی)

(ج) و نیز ارشاد فرمایا ہے کہ شیطان بَنِی آدم کے دل پر بیٹھا ہوا ہے، پس جب آدمی اللہ کو یاد کرتا ہے تو شیطان ہَٹ جاتا ہے اور جب انسان غافل ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے۔ (بخاری)

(د) آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تقویٰ اِس جگہ ہے اور اپنے سینے مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔ (بیہقی)

(ہ) کہیں ’’قَلب‘‘ کا لفظ ہے اور کہیں ’’نَفس‘‘ اور کہیں ’’عَقل‘‘ اور کہیں ’’صَدر‘‘ (سینہ) آیا ہے، اِن سب سے ایک ہی مراد ہے اور چونکہ ان سب میں کچھ نہ کچھ علاقہ ہے اس واسطے سب کا استعال صحیح ہے۔ ان سب روایات کا حاصل یہ ہے کہ اِصلاحِ ظاہر کا مَدَار اِصلاحِ باطن پر ہے۔ (وَهُوَ الْمَقْصُوْدُ فِي الْمَقَامِ)