ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ هَفت دَهَم
بشرط قُدرت نیک کام کا امر کرنے اور برے کام سے
روکنے کے بیان میں
آیاتِ مبارکہ: حق تعالیٰ شَانُہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں ایک جماعت ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف لوگوں کو بُلاوے اور ان کو بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اور نیز ارشاد فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے کہ: ان کو مشائخ اور علماء، گناہ کی بَابَت کہنے سے (یعنی جھوٹ بولنے سے) اور حرام مال کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے؟ واقعی ان کی عادت بری ہے۔
حدیثِ اوّل: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص تم میں سے کسی مُنکَر یعنی ناجائز کام کو دیکھے، چاہیے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے، پس اگر (اِتنی بھی) طاقت نہ رکھے تو اپنی زبان کے ساتھ (آگاہ کر دے)، اور اگر (اس کی بھی) طاقت نہ ہو (بلکہ زبان سے روکنے پر بھی اندیشہ ہو تو پھر) اپنے دل سے (اس کو بُرا جانے) اور یہ کمزور ایمان ہے۔ (مسلم) یعنی اَدنیٰ درجے کا ایمان یہ ہے کہ بُری بات کو دل سے بُرا جانتا رہے اور اگر دل سے اس کو بُرا بھی نہ سمجھا تو پھر ایمان کہاں رہا؟
حدیثِ دوم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نہیں ہے کوئی شخص جو ہو کسی قوم میں، گناہ کرتا ہو اُن لوگوں میں، (اور) وہ لوگ طاقت رکھتے ہوں اُس کو رُوکنے کی اور (پھر بھی) نہ رُوکتے ہوں، مگر اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب نازل کرے گا اُن کے مرنے سے پہلے۔ (ابوداؤد)
حدیثِ سوم: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب زمین میں کوئی گناہ کیا جاتا ہے تو جو اُس کو دیکھتا ہو اور نا پسند کرتا ہو تو وہ ایسا ہے جیسا کہ اس سے دور رہا اور جو غائب ہو اور اس (گناہ) سے راضی ہوتا ہو تو وہ ایسا ہے جیسا کہ اُس کے پاس حاضر ہو۔ (ابو داؤد)
حدیثِ چہارم: اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ فُلاں شہر کو اُلَٹ پُلَٹ کر دے اس کے باشندوں سمیت، پس جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! بیشک ان میں تیرا فُلاں بندہ ہے، اُس نے آنکھ جَهپَکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ ارشاد ہوا: اُلَٹ پُلَٹ کر دے اُس شہر کو ان سب لوگوں پر، کیونکہ اُس کے چہرے کا رنگ میرے لئے کبھی ایک دفع بھی نہیں بدلا۔ (بیہقی)
آیتِ مبارکہ: حق تعالیٰ شَانُہٗ کا ارشاد ہے کہ اختیار كيجئے مُعَافی کو اور حکم کیجئے نیکی کا اور رُوگردانی كيجئے جاہلوں سے۔
اضافہ: (الف) اور رسول الله ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ بیشک الله تعالیٰ عام طور پر عذاب نہیں بھیجتا بعض لوگوں کے عمل کی وجہ سے، یہاں تک کہ وہ اپنے سامنے مُنکَر کو دیکھیں اور وہ قادر بھی ہوں اُس کے انکار پر، پھر بھی اُس کو نہ روکیں، پس جب وہ ایسا کریں (یعنی باوجود قُدرت کے فعلِ مُنکَر دیکھتے رہیں) تو حق تعالیٰ سب خاص و عام کو عذاب دیتا ہے۔ (شرح السنہ)
(ب) ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: قَسم ہے اُس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! تم نیک کاموں کا اَمر کیا کرو اور بُرے کاموں سے روکا کرو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کرے، پھر تم اُس سے (عذاب دور کرنے کی) دعا مانگو گے اور تمہاری دعا قبول نہ کی جاوے گی۔ (ترمذی)