خطبہ 16: خلافِ شرع گانے اور اس کے سننے کی مُمَانَعت میں

ترجمه آیات و احادیث خطبۂ شَانزدَهَم

خلافِ شرع گانے اور اس کے سننے کی مُمَانَعت میں

حدیثِ اوّل: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ گانا دل میں نِفَاق پیدا کرتا ہے جیسا کہ پانی کھیتی کو اُگاتا ہے۔ (بہیقی)

فائدہ: بعض صوفیائے کرام نے اِن شرائط کے مطابق گانا سنا ہے جو فُقَہاء اور عارفین نے جوازِ سَمَاع کے لئے لگائی ہیں، سو اُن پر کوئی الزام نہیں۔ البتہ جو لوگ بِدُوں اِن شرطوں کے سنتے ہیں وہ گمراہی میں ہیں اور اپنے نفس کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں اور شرائط کی تفصیل رسالہ ”حَقُّ السَّمَاع“ میں بَخُوبی موجود ہے۔

حدیثِ دوم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ مَتْ خریدو گانے والیوں کو اور نہ اُن کو بیچو اور ان کی قیمت حرام ہے اور اس کی مثل میں نازل ہوئی: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي...﴾ ''الآيۃ'' (لقمان: 6) یعنی اور بعض آدمی ایسا بھی ہے جو (قرآن سے اِعراض کر کے) اُن باتوں کا خریدار بنتا ہے جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں۔

حدیثِ سوم: اِرشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ بیشک مجھ کو میرے پروردگار نے تمام عالم کے لئے رحمت و ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور آلاتِ لَہو اور مَزَامِیر اور بتوں اور صلیب اور جاہلیت کے کام کے مٹانے کا حکم دیا ہے۔ (احمد)

حدیثِ چہارم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی علامتوں کے بیان میں: اور جب ظاہر ہو جاویں گانے والیاں اور آلاتِ لَہو (اس کے بعد اور نشانیاں بیان کر کے فرمایا) تو انتظار کرو اس وقت سُرخ ہوا (یعنی سخت آندھی) کا اور زلزلہ کا اور زمین میں دَھنسنے کا اور مَسَخ (یعنی صورتیں بدلنے) کا اور پتھر برسنے کا اور ایسی نشانیوں کا جو لگا تار آویں جیسا کہ وہ لڑی جس کا دھاگہ توڑ دیا جاوے لگا تار گرتی ہے۔

آیتِ مبارکہ: ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شَانُہٗ نے: سو کیا تم اُس کلامِ پاک سے تعجُّب کرتے ہو اور اس پر ہنستے ہو اور روتے نہیں اور تم کِهلاڑیاں کرتے ہو (یعنی گانے بجانے وغیرہ میں مُبتَلا ہو)۔

فائدہ: ﴿سَامِدُوْنَ﴾ کے ایک معنی یہ بھی ہیں جیسا کہ دوسرے معنی مُنکَرات کے ہیں۔ "فِي الصّرَّاحِ سَامِدٌ: لَاهٍ وَ یُقَالُ لِلْقَیْنَۃِ: اَسْمِدِیْنَا اَیْ اَلْھِیْنَا بِالْغِنَاءِ"

اضافہ: نافع سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک راستہ میں تھا۔ پس انہوں نے ایک مِزْمَار کی آواز سنی اور اپنے ہر دو کانوں میں دونوں انگلیاں رکھ لیں اور اُس راستہ سے دوسری طرف ہَٹ گئے، پھر دُور جانے کے بعد مجھ سے فرمایا: اے نافع! تُو کچھ (اس کی آواز) سنتا ہے، میں نے عرض کیا: نہیں! پس اپنی انگلیاں کانوں سے نکال لیں اور کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا، پس آپ نے ایک بَانسری کی آواز سُنِی اور اِس طرح کیا جس طرح کہ میں نے اب کیا ہے۔ نافع نے کہا کہ میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا۔ (اس واسطے مجھ کو کان بند کرنے کا حکم نہیں دیا تھا)۔ (احمد، ابو داؤد)

فائدہ: جس چیز سے آنحضرت ﷺ اس قدر پرہیز فرماویں اُس میں منہمک ہونا کس قدر بُرا ہو گا اس کو ہر عاقل سمجھ سکتا ہے۔