ترجمہ آیات و احادیث خطبۂ یاز دَهَم
کسبِ مَعاش میں
حدیثِ اوّل: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ کسبِ حلال کا تلاش کرنا ایک فرض ہے بعد فرض کے۔ (بیہقی)
فائدہ: یعنی فریضۂ نماز وغیرہ کے بعد اُس کا درجہ ہے، یہ نہیں کہ اس میں مُنہمِک ہو کر نماز بھی بھول جاؤ۔ اور جس کو غِنَائے ظاہری یا باطنی نصیب ہو وہ اس سے بالکل ہی مُستَثٰی ہے۔ وَاللہُ أَعْلَمُ!
حدیثِ دوم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ کسی شخص نے ہرگز کوئی کھانا، اپنے ہاتھوں کی کمائی کھانے سے بہتر، نہیں کھایا۔ اور بیشک خدا کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھاتے تھے۔ (بخاری)
حدیثِ سوم: ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ سچ بولنے والا امانت دار تاجر انبیاء و صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔ (ترمذی، دارمی)
حدیثِ چہارم: آنحضرت ﷺ نے طٰسٓمٓ کی تلاوت کی یہاں تک کہ قصّہ موسٰی علیہ السلام تک پہنچے، تو فرمایا: بے شک موسٰی علیہ السلام نے اپنے آپ کو آٹھ یا دس سال تک اَجِیر بنایا اپنی شرمگاہ کو پاک رکھنے اور کھانے پینے کے عوض میں۔ (ابن ماجہ)
حدیثِ پنجم: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے بارے میں فرمایا کہ جَا اور لکڑیاں جمع کر اور بیچ (پس وہ آدمی چلا گیا لکڑیاں لاتا اور بیچتا رہا۔ پھر حاضر ہوا آپ ﷺ کے پاس اور دس درہم کما چُکا تھا اور بعض کا کپڑا اور بعض کا کھانا خرید چُکا تھا) پس رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ یہ تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنا تیرے چہرے میں زخم لاوے۔ (ابو داؤد)
حدیثِ ششم: حضرت رسولِ مَقبول ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے، ان میں سے ایک آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، اور دوسرا کوئی پِیشہ کیا کرتا تھا۔ پس اس کمانے والے نے اپنے بھائی کی شکایت حضورﷺ سے کی کہ (یہ کچھ کماتا نہیں) آپ نے فرمایا کہ شاید تجھ کو اسی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے۔ (ترمذی)
آیتِ مبارکہ: ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شَانُہٗ نے پس جب (جمعہ کی) نماز پوری ہو چُکے تو (اس وقت تم کو اجازت ہے کہ) تم زمین پر چلو پھرو اور اللہ کی روزی تلاش کرو (اس حالت میں بھی) تم اللہ کو بہ کثرت یاد کرتے رہا کرو، تاکہ تم کو فلاح ہو اور نجات ہو۔
اضافہ (الف): اور حضرت علی و سعد بن مالک و عبد اللہ بن مسعود و عمر بن عبد العزیز اور قاسم بن عُروَہ اور آلِ ابی بکر اور آلِ علی اور ابن سیرین رضی اللہ عنھم نے کِھیتی کی ہے۔ (بخاری)
(ب) اور آنحضرت ﷺ نے (زمین) کرایہ پر دینے کا اَمر فرمایا ہے۔ (مسلم)
(ج) اِن روایات سے کسبِ حلال کی ضرورت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے، اِس لئے اس میں سَعِی اور کوشش لازم ہے، البتہ جو شخص ایسا قَوِیُّ الْقَلْب ہو جس کے لئے کسب کسی واجب میں خَلَل انداز نہ ہوتا ہو اس کو ترکِ کسب کی اجازت ہے جیسا کہ روایتِ ششم سے معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ بعض حالتوں میں متوکلین کے لئے ترکِ کسب افضل ہے جس کی تفصیل ’’اَلتَّکَشُّف‘‘ وغیرہ کُتُبِ تصوّف سے معلوم ہو سکتی ہے اور کسبِ حرام سے تو ہر حال میں بچنا ضروری ہے۔