فکرِ شیطان

مجھے خوب یاد ہے آدم پیدا ہوئے تھے جب

سجدہ اس کو نہ کیا جب، تھا نکالا مجھے تب

اس وقت سے مری چھاتی پہ مونگ دلتی ہے

کڑھن آنتوں میں مری بار بار ابھرتی ہے

مری نفرت بڑھے روز روز،نہیں اترتی ہے

اور یہی چیز مجھے مجبور اس پہ کرتی ہے

اس کی اولاد کو کامیاب نہ ہونے دوں میں

ان کو تکلیف دوں، آرام سے نہ سونے دوں میں

ہر اچھے کام سےٹوکوں، نہ کرنے دوں گا انہیں

ہر برا کام جو ہوگا، اس پہ ڈالوں گا انہیں

آخری دم تک کسی حال میں نہ چھوڑوں گا انہیں

کسی ترکیب سے کافر میں بناؤں گا انہیں

پھر میں فارغ رہوں ان سے، اگر مؤمن نہ رہیں

اور اگر ہوں تو، یہ تو ہو مرے دشمن نہ رہیں

یہ ہوں مؤمن، میں گناہوں پہ ان کو ڈالوں گا

ان کی نگاہ میں گناہ ہلکا کر دکھاؤں گا

تفرقے کے راہ پر ان کو چلاؤں گا

ان کو ایک دوسرے کا دشمن میں یوں بناؤں گا

ہے یہ کوشش اپنے بڑوں سے ان کو کاٹ دوں میں

پھر تر نوالا سمجھ کر ان سب کو چاٹ دوں میں

عورت،شراب،مال و دولت کے یہ رسیا ہوکر

عقل و خرد سے یہ کٹ کر، بے دست و پا ہوکر

اپنے کپڑوں سے یہ باہر ہوں بے حیا ہوکر

گندے خیالات و رسومات میں مبتلا ہوکر

مری جھولی میں پکے پھل کی طرح گر جائیں

ہر طرف میں ہی رہوں ان کے، پھر کدھر جائیں؟

میں ان کے دین کے دریچوں میں جاکے بیٹھ جاؤں

میں مسجدوں میں،خانقاہوں میں جاکے بیٹھ جاؤں

ان کے میں، علمی مدرسوں میں جا کے بیٹھ جاؤں

میں ان کے سکولوں، کالجوں میں جاکے بیٹھ جاؤں

کہ حق کی بات کبھی بھی یہ نہ سمجھے کوئی

یہ سب ظلمت میں رہیں، نور نہ پائے کوئی

جو مرے داؤ میں نہ آئیں، ان کو چھوڑوں کہاں؟

وہاں پہ لاؤں پیاسا، پانی نہیں ہو گا جہاں

مرے لشکر سے بچ سکے نہ ان کے پیر و جواں

ان کے بال بال کو باندھوں نہ ملے ان کو اماں

مرے یہود و نصاریٰ، ہنود کس لئے ہیں؟

ان مؤمنوں کو پریشان کریں، بس اس لئے ہیں

ان کو میں اپنے فائدوں سے یوں جدا کردوں

کہ دینی کاموں کے غلو میں مبتلا کردوں

بس وہ ہی حق پہ ہیں، یہ خیال ان میں پیدا کردوں

باہم وہ لڑپڑیں، پھر مفت میں کیا سے کیا کردوں


یہ حق پہ ہوتے ہوئے حق پہ نہ رہیں گے پھر

یہ خوارج کی طرح میرے ہی بنیں گے پھر

کچھ کو سنت کی اہمیت میں خوب جتلاؤں گا

محبت آپ کی، ان کے دل سے پر نکالوں گا

کچھ کو میں آپ کی محبت پہ ایسے لاؤں گا

سنت چھڑواکے، بدعتوں پہ میں چلاؤں گا

ٹھیک سے غلط ہی نتیجہ برآمد کرنا ہے

کون جانے مرا، ان کے دلوں پہ دھرنا ہے

کچھ کو میں شرک کی مذمت پہ یوں لگاؤں گا

تعظیم شعائر کی، میں شرک باور کراؤں گا

مسلمانوں کو کافر، ان سے کہلواؤں گا

بغضِ یہود نصاریٰ، ان سے چھپاؤں گا

پھر خوارج کا یہ رستہ خود ہی اپنا لیں گے

جوش میں آکے خود ہی دین سے نکل جائیں گے

سر چڑھ کے بولے جو جادو تو وہ جادو ہے مرا

مرا جادو یوں بعض لوگوں پہ کچھ ایسا چڑھا

کہ اپنے آپ کو انہوں نے میرے بندے کہا

میں ہوں جیسے بھی انہوں نے مجھے مگر چاہا

میں کامیاب ہوں، کامیاب ہوں اور خوش ہوں اب

آگ میں ناچوں گا، عذاب ان کو ہوگا جب




فضلِ رحمان

کہا شیطان کو خدا نے، بس نہ چلے تیرا

ان پہ کسی طرح کہ جو کہ بندہ ہے میرا

میں مومنوں کا ہوں دوست اور ہوں مہربان ان پر

ہر اچھا کام جو کریں یہ، کروں میں اس کی قدر

سارے گناہ کروں معاف، توبہ کریں یہ اگر

بات شیطان کے بھائیوں کی مختلف ہے مگر

شیطان اور ساتھ جو اس کے ہیں،سے جہنم بھر دوں

ان سے کٹ کر جو آئے، ان پہ فضل میں کردوں

نفس میں فجورہیں، تقویٰ کی قابلیت بھی ہے

کتاب اللہ میں ان کے واسطے ہدایت بھی ہے

راستہ دکھلانے کو، رسول کی سنت بھی ہے

نمونہ واسطے، صحابہؓ کی جمعیت بھی ہے

مرے رسول و صحابہؓ کے طریقے پہ ہوں جو

ہوں مطمئن، نہیں چھو سکتا ہے شیطان ان کو

جو کہ کوشش کرے محکم مجھ کو پانے کے لئے

کھول دوں ان کے لئے میں ہدایت کے رستے

مرے محبوب کے سنت کے طریقوں پہ چلے

وہ مرا بندہ جو ہے وہ مرا محبوب بنے

جو چاہے،نام سے مرےکردے روشن اپنا دل

میں آساں کردوں اس کے واسطے اپنی منزل

سورۃ شمس میں اللہ نے کیا ہے یہ خطاب

نفس کیا پاک جس نے ہے وہ یقیناً کامیاب

یہ اگر پاک ہے،شیطان کا ہے بے باک حساب

نہ کرسکا اگر یہ تو اس کی حالت ہے خراب

نفس ہو پاک اور اللہ سے محبت بھی رہے

مکرِ شیطان ہے ضعیف، شبیرؔ کیوں اس سے ڈرے؟

تبلیغ کے مختلف طریقے

تبلیغ میں دعوت کے طریقے ہیں مختلف

حق بات کی رسائی کے ذریعے ہیں مختلف

عالم و مؤذن و مجاہد اور شیخ کی بھی

دعوت کے طریقوں کے سلسلے ہیں مختلف