مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب
مجھے کاش اپنا بنا لے مرا رب
میں دریائے عصیاں میں ڈوبا رہا ہوں
میں شیطاں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہوں
میں اپنی نظر میں بھی خود ہی گرا ہوں
برا ہوں، برا ہوں،بہت ہی برا ہوں
مجھے اچھا پھر سے بنا دے مرا رب
مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب
مرا نفس ظالم ہے میرے ہی در پے
ہتھوڑے چلاتا ہے میرے ہی سر پہ
جو شیطان ہے باہر، یہ ہے مرے گھر پہ
جوقابو نہیں ہے کوئی اس کے شرپہ
مجھے اس کے شر سے بچا لے مرا رب
مجھے کاش اپنا بنا لے مرا رب
ہتھوڑے چلاتا ہے یہ حبِ جاہ کے
دکانیں سجاتا ہے یہ حبِ باہ کے
حسد کے و کینہ کے اور کیا کیا کے
وسائل ہیں اس میں بس ہر ایک بلا کے
بس اب اس بلا کو سلا دے مرا رب
مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب
میں نیکوں کی صحبت سے بھاگا رہا ہوں
برائی کی صحبت کو پاتا رہا ہوں
میں ہر نیک خواہش سلاتا رہا ہوں
تمنائیں دِل میں سجاتا رہا ہوں
اب اس گھن چکر سے نکالے مرا رب
مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب
ذرائع کے پیچھے مقاصد بھلائے
ان ہی غلطیوں نے کیا کیا گل کھلائے
محبت کے نعروں سے چیخے چلائے
صد افسوس، شبیرؔ عمل پر نہ آئے
عمل کے ارادے پہ لائے مرا رب
مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب