ایک مرید،دوسرے مرید سے
یار مرا بچہ جو بیمار بہت رہتا ہے
اس کے علاج کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟
اس خانقاہ میں ڈاکٹر بہت سے آتے ہیں
ہمارے شیخ سے اصلاح وہ سب پاتے ہیں
ساتھی بعض اپنے، کچھ علاج ان سے کرواتے ہیں
ان میں بچوں کے بھی ایکسپرٹ بعض کہلاتے ہیں
کیا اپنے بچے کا علاج ان سے کرواؤں نہیں؟
کیا اپنے بچے کو بیماری سے بچاؤں نہیں؟
دوسرا مرید
بھا ئی یہ ٹھیک ہے بچے کا علاج کرنا ہے
مگر اخلاص سے نکلنے سے بہت ڈرنا ہے
ٹھیک ہے تھوڑا سا فایٔدہ اس سے حاصل ہوگا
مگر دنیا سے ملوث یہ اپنا دل ہوگا
کیونکہ دنیا پہ ہی اپنا یہ دل مایٔل ہوگا
اپنی روحانی ترقی میں یہ حایٔل ہوگا
دنیا اور دین ہوں اکھٹے تو ہو دنیا کی جیت
کہ عاجلہ سے محبت ہی ہے دنیا کی ریت
پہلا مرید
ہم زبردستی کب علاج ان سے کرواتے ہیں؟
مفت انعام خدا کا، خدا سے پاتے ہیں
وقت کلینک پر اگر جانے کا بچاتے ہیں
وہ وقت دین کے استعمال میں ہم لاتے ہیں
ہاں مگر ٹھیک ہے ہم شیخ سے ہی پوچھ لیں اب
کہ کسی بات پہ ہم لوگ مطمٔن ہوں سب
شیخ جواب دیتا ہے
میرے بیٹو،رب نے دی ہیں یہ نعمتیں دیکھو
ان نعمتوں میں ہی پھر اس کی حکمتیں دیکھو
ان نعمتوں کے پھر حصول کی محنتیں دیکھو
اور جو لوگوں کی مختلف ہیں، حالتیں دیکھو
سب کے اوقات، سب کے مال، ملکیت ان کی
اور پھر ان سب کا استعمال، حکومت ان کی
طیب خاطر کے بغیر ان سے کوئی چیز لینا
یا ان کی مرضی کے بغیر کوئی تکلیف دینا
سوچ،حکومت میں یہ ان کی، مداخلت ہے نا
ہوتی تکلیف ہے ہر ایک کو جو اس سے نا
ہم اپنی دنیا ان کے دین پر منحصر کیوں کریں؟
ایسا بے جا جو تصرف ہے پر خدا سے ڈریں
کہیں اس کے لیٔے ہم دین سے رکاوٹ نہ بنیں
تو ضرورت بہت اس کی ہے کہ حدود میں رہیں
ہم طمع لوگوں سے کوئی نہ اپنے دیں پہ رکھیں
کہ یہ اخلاص کا مخالف ہے تو ہم اس سے بچیں
ان سے گر چاہیٔے کوئی بھی ہو خدمت لینا
تو ہمارا ہو پھر ضرور اس پہ اجرت دینا
کسی سے بھی کبھی دنیا کا نہ کریں ہم سوال
سوال کیا، کہ ہم نہ دل میں اس کا رکھیں خیال
اس کی گر دین ہو بنیاد، تو کیسا ہے یہ حال
دین کا بیچنا دنیا پہ، ہے شیطان کا جال
عشق کے زور سے یہ جال توڑنا ہے شبیرؔ
حق پہ کب رہتا ہے، ہوجاۓ جو خواہش کا اسیر