کشفیات کی حقیقت

ایک مرید، دوسرے مرید سے کہتا ہے

ہمارے سلسلے کے دیکھو، برکات کیا ہیں

مجھ سے پوچھو کہ آج کل میرے حالات کیا ہیں

مجھ پہ احوال دوسروں کے اب کھل جاتے ہیں

وہ جیسے ہوتے ہیں اندر سے،نظر آتے ہیں

مرے رب، فضل سے مجھ کو یہ سب دکھاتے ہیں

پردے آنکھوں سے مری،روز روز ہٹاتے ہیں

جس کی اصلاح نہیں ہو ئی ہو وہ معلوم ہو سب

معلوم مقام ہو ان کا، کسی کو دیکھوں جب

دوسرا مرید کہتا ہے

میرے بھائی، مجھے خطرہ سا نظر آتا ہے

سلسلے سے تیرا انداز میل نہیں کھاتا ہے

چلیں اب شیخ سے ہو معلوم حقیقت اس کی

ہم پہ کھل جاۓ اس طرح کچھ حیثیت اس کی

ہم کو معلوم ہو طریق میں حاجت اس کی

گو کہ آپ سے تو جان لی ہے برکت اس کی

مگر طریق میں اس کا خیر و شر تو شیخ جانے

وہ جو اس میں کہے، تو بس وہ مرا دل مانے

پہلا مرید شیخ سے پوچھتا ہے؟

اے مرے شیخ، یہ مرا دوست کشف مانتا نہیں

کشف کے بارے میں کچھ بھی شاید یہ جانتا نہیں

اس لیٔے کشف کو طریق میں حق گردانتا نہیں

اس لیٔے حق اور اہل حق کو یہ پہچانتا نہیں

کیا بزرگوں کو کشف ہونا، نہیں یہ ہے حق؟

یا کسی طرح سے ان کا کہیں الٹا ہے سبق؟

دوسرا مرید

اے مرے شیخ، مجھے کشف سے انکار نہیں

میں یہ کہتا تھا کہ بس کشف پر مدار نہیں

اور ان کشفی نظایٔر کا اعتبار نہیں

پر مری بات سمجھنے کو یہ تیار نہیں

اب تو اس بات میں آپ کا ہی قول فیصل ہوگا

آپ ہی سے ہمارا یہ مسٔلہ حل ہو گا

شیخ جواب دیتا ہے

مرے بیٹو،کشف ایک چیز غیر اختیاری ہے

اس میں دھوکے کا بھی امکان بہت بھاری ہے

اس سے بچنا بھی اہل کشف کی ذمہ داری ہے

جو کہ پھنس جاۓ اس میں،اس کی بہت خواری ہے

ہاں مگر کشفِ بزرگان سے انکار نہیں

مگر کمال کا اس پر کوئی مدار نہیں

اس کے حصول کا خیال ہے مگر اخلاص کی نفی

خود بخود ہو وے بدوں طلب، تو پھر ہو یہ صحیح

کچھ مگر اس کی حیثیت نہیں ہے پیشِ وحی

جو مطابق ہو اس کا وحی کے،تو ٹھیک ہو وہی

قابلیت کو ئی سمجھے اسے تو ٹھیک ہے بات

قبولیت کا تعلق نہیں ہے اس کے ساتھ

کشف اپنے عیوب کا ہو، کبھی چاہیٔے گر

اپنی اصلاح کے لیٔے ہے یہ بہت اچھی نظر

نہ کہ یہ،آنکھ ہو مرکوز دوسروں کے عیوب پر

بے ضرورت ہو اگر یہ،ہے یہ شیطاں کا اثر

ہو اگر شیخ کو، تو اس سے مستثنیٰ ہے وہ

کیونکہ اصلاح میں، دوسروں کی مبتلا ہے وہ

جس کو حاصل نہ ہو، اس کی وہ سعی نہ کرے

جس کو حاصل ہو، ناجایٔز پیش قدمی نہ کرے

جو شریعت کا مخالف ہو، تو وہی نہ کرے

اپنی اصلاح سے غفلت شبیرؔ کبھی نہ کرے

عشق کے میدان میں کھلونوں سے دل بہلانا نہ ہو

یہ جو ہیں کھیل تماشے، تو ان پہ آنا نہ ہو