ایک طالبعلم کے خیالات

مرے استاد، متردد ہوں بہت کیا میں کروں؟

زندگی بوجھ ہے ایک، دیکھتا ہوں کیسے چلوں؟

ہروقت بوجھ مرے سر پر پڑھائی کا ہے

میں ہوں جوان، مرا دور یہ خوشی کا ہے

میں تو انجائے کروں اس کو یہ اسی کا ہے

میں کتابوں میں رہوں غرق، کیا اس ہی کا ہے؟

مرے جب دوست بے دریغ اڑائے پیسہ

میں چاہوں میرے بھی پاس اس طرح آئے پیسہ

لوگ کیوں میرے ان جذبات کو جانے ہی نہیں؟

میں سمجھاؤں انہیں تو بات مری مانے ہی نہیں

میں لاؤں جس پہ تو اس طرف کوئی آئے ہی نہیں

اس سے یہ ٹھیک ہے مجھ کو وہ پڑھائے ہی نہیں

میں خود کما کے بہت جلد یہ دکھاؤں گا

کہ کیا کرسکتا ہوں خود میں انہیں بتاؤں گا

ان کتابوں سے تو بالکل میں چڑ گیا ہوں اب

دل ہے عاری خوشی سے اور بجھا ہوا ہوںاب

مجھ کو پتہ نہیں یہ کیا ہے، کیا ہوا ہوںاب؟

شاید یہ درست نہیں جس پہ میں چلا ہوں اب

یہ ہے سب ٹھیک مگر کس طرح میں دل سے کٹوں؟

یہ زندگی ہے بھلا اس سے کیا رشتہ رکھوں؟

استاد

مرے بیٹے بتا کے مجھ کو تو نے اچھا کیا

ابھی سب ہاتھ میں ہے، چل نہیں کچھ بھی ہے ہوا

تجھ کو اللہ نے موقع ہے ترقی کا دیا

بہت لوگوں کو میں جانتا ہوں یہ نہیں ہے ملا

ضرورتیں ہوں اگر پوری تو پھر کیوں ہو گلا؟

تجھ کو محنت کا انشاء اللہ ملے گا بھی صلہ

بڑا ہونے کو، پہلے ہوتا ہے چھوٹا بننا

سٹڈی اور اس کے سب کاموں میں بھی اچھا بننا

جو ہیں بل گیٹس کے بچےتو ان کا حال تو دیکھ

ان کا جیب خرچ تھوڑا اور صورتِ احوال تو دیکھ

اتنا کچھ ہونے میں بل گیٹس کا کمال تو دیکھ

اپنے اس حال میں اس کا فکر استقبال تو دیکھ

ان کو دولت کی چھری سے وہ ذبح کرتے نہیں

چھری سونے کی ہو،کیا اس سے لوگ مرتے نہیں؟

تو نے محنت سے ہے سنوارنی زندگی اپنی

تو نے رکھنی ہے ٹھیک ہر حال میں سٹڈی اپنی

ذرا تو روک اب ہر اک سے لڑائی اپنی

ایسے لوگوں سے اب تو کاٹ دے دوستی اپنی

جو ترے وقت کے ضیاع کا سبب بن جائیں

کامیابی سے تجھے دور وہ پھر لے جائیں

دوست، دشمن کو عقلمندی سے تو جان لینا

بے وقوفی جو کسی کی ہو وہ پہچان لینا

اپنے کردار و کارکردگی، خوب چھان لینا

اپنی غلطی ہو جو تری، اس کو تو مان لینا

اس وقت سر کا جھکانا ترا کمال ہوگا

جو کہ باعثِ ترقی، فی الاستقبال ہوگا

یہ پڑھائی کا زمانہ ہے اور پڑھنا ہے

وقت بڑھنے کا ہے، رکنے کا نہیں، بڑھنا ہے

اور زینہ ہائے ترقی پہ خوب چڑھنا ہے

سڑے خیالات سے رک جانا، کیوں سڑنا ہے؟

تو اگر اس پہ عمل کرنے میں کامیاب رہے

راستہ تیرا پھر سرسبز اور شاداب رہے

دوست رلائے گا اور دشمن تجھے ہنسائے گا

تو ان کی مان کے، بے وقوف خود کو پائے گا

اور پھر بعد میں خود ہی اس پہ پچھتائے گا

لیکن پچھتانے سے کیا ہاتھ ترے آئے گا؟

اب بھی ہے وقت،سوچ اور کچھ ہوش کے ناخن تو لے

تو کیا کرتا ہے ماحول کی سن گن تو لے

مرے بیٹے خدا تجھے اب سمجھدار کرے

ہوش میں لا کے تجھے پھر سے ہوشیار کرے

اور والدین اساتذہ کا تابعدار کرے

ترے مشفق جو ہیں تو ان پہ اعتبار کرے

کہے شبیرؔ اپنی خیر سے نہ تو اندھا بنے

میں چاہتا ہوں، تو سچا خدا کا بندہ بنے