مرے استاد ہےمرے دل میں اضطراب بہت
بہت بے چین ہوں ہے حالت مری خراب بہت
اس اضطراب کو کیسے قرار آجائے؟
سکوں ملے گا کہاں یہ کوئی بتاجائے؟
کوئی طریقہ کامیابی کا سکھا جائے
داغ دل پر جو لگے ہیں انہیں مٹا جائے
عمر کاٹی تو ہے غفلت میں اب کیا ہوگا؟
مرے اعمال نامے میں کیا لکھا ہوگا؟
میرا دل چاہے گناہوں سے میں توبہ کرلوں
خود کو شر کی جگہیں جو ہیں ان سے جدا کرلوں
اچھا ہونے کا میں فی الفور ارادہ کرلوں
کیسے ہوگا یہ اب،اس کے لیئے میں کیا کرلوں؟
مرے استاد کوئی گُر اب بتانا مجھ کو
جو کہ رستہ ہے اصل اس پہ چلانا مجھ کو
استاد کا جواب
مرے بیٹے یہ ارادہ تجھے مبارک ہو
کتنا یہ خیال ہے اچھا، تمہیں مبارک ہو
بیٹا اللہ اس ارادے کا قدرداں ہے بہت
ایسا چاہے جو تو ان پر وہ مہربان ہے بہت
کامیابی ہے قریب کیوں تو پریشان ہے بہت
اس ارادے میں ہی موجود اس کا سامان ہے بہت
اس ارادے پہ عمل میں ہی کامیابی ہے
یہ تو اک نور ہے، سر سبزی ہے، شادابی ہے
تو پڑھ نماز دو رکعت اب توبہ کے لیئے
ہوں گے معاف اس سے جتنے بھی گناہ ہوئے
پھر اس کے واسطے کہ تو اس پہ قائم بھی رہے
اور مزید یہ کہ نیک اعمال میں ترقی بھی ملے
تو کسی شیخ کے دامن سے وابستہ ہوجا
اس نیک مقصد کے لیئے اس پہ فریفتہ ہوجا
توبہ قائم ہو اگر صحبتِ صالح ہو نصیب
اس پہ ہو شکر، اور رہتے رہو اس کے قریب
ایسی قربت کے ملیں تجھ کو نتائج کچھ عجیب
حق ملے تم کو،اگر تم کو ملے حق کے نقیب
جوہرِصحبت صالح کو شیخ جان لینا
اور اس کا ہو کے، ہر اک بات اس کی مان لینا
شیخ دروازہ ہے اللہ سے لینے کے لیئے
یہ ہے ایک نور، نورِ سلسلہ پانے کے لیئے
روحانیت کے فضائل کے پنپنے کے لیئے
اور رذائلِ روحانی کے دبانے کے لیئے
شیخ خدا نہیں،خدا کا ہے بندہ عاجز
تربیت لینے کا، بندوں کا ذریعہ جائز
شاگرد کا ماننا
جزاک اللہ، مرے استاد آپ کی شفقت
سے،کتنی آئی مرے دل میں آج ہے فرحت
میں ہوں بیمار مگر اب ہے امیدِ صحت
خدا کے فضل سے اب تک ختم نہیں مہلت
اسی مہلت کو میں جلدی سے استعمال کروں
پیش توبہ میں اپنے اشکِ انفعال کروں
مرے مولا بہت کریم ہیں، کردیں گے معاف
شیخ پکڑوں گا تو دل میرا بھی ہوجائے گا صاف
اپنی اصلاح کے طریقوں سے نہ ہو اب انحراف
اب تو ہمت کی ضرورت ہے راستہ ہےشفاف
درِ توبہ سے جو چمکی ہے رحیمی کی ضیاء
مایوسیوں کے اندھیروں کا اختتام ہوا
میرے مولا، میں تجھ سے عفو عافیت مانگوں
خاتمہ اچھا اور ایمان بھی سلامت مانگوں
اچھے کاموں کے لیئے تجھ سے میں ہمت مانگوں
ذہنِ رسا، قلبِ سلیم اور بصیرت مانگوں
نفس کی اصلاح ہو مری اور رضا ہو تیری نصیب
اپنے بندے، یعنی شبیرؔ کو بھی کردے قریب