شاگرد
مرے استاد میں نے عجیب طریقہ دیکھا
میں نہ سمجھا میں کہوں کیا،کہ میں نے کیا دیکھا؟
مرے ایک دوست کا والد، سنا کہ فوت ہوا
جنازہ کے لیئے اس گھر کی طرف تیز چلا
جب پہنچا تو اس کے گھر میں بہت ہی شور تھا
عورتوں کے بین سےسوگوار وہ ماحول دیکھا
عورتیں کیا کہ مرد ان کے روتے جاتے تھے
پوز رونے کے وہ عجیب اک بناتے تھے
یہ جو رونا تھا مصنوعی سا نظر آتا تھا
بعد میں اس کا اثر مفقود، میں تو پاتا تھا
ہر مرد رونے کی اک شکل جب بناتا تھا
اس طرح ان سے محبت وہ اک جتاتا تھا
اٹھی چارپائی جب،میت کو لے کے جانے لگے
کلمہ وہ سارے پھر زور سے دہرانے لگے
جب جنازہ پڑھا گیا تو لوگ آنے لگے
لوگ چہرہ انہیں میت کا پھر دکھانے لگے
اور کچھ لوگ گلے لگ کے گھر کو جانے لگے
وہ جنازے میں حاضری کو یوں جتانے لگے
دفن کے واسطے چارپائی اٹھی بالآخر تب
جو باقی رہ گئے تھے قبر پہ آئے وہ سب
قبر میں پھر میت نیچے اتارے جانے لگی
دفن کے بعد مٹی بھی پھر ڈالے جانے لگی
مٹی قبر کی بھی پھر درست کرائی جانے لگی
اور اس کے بعد تلاوت کرائی جانے لگی
دعا کے بعد رسمِ قل کا بھی اعلان ہوا
رسم کا نام تو سنکر ہی میں حیران ہوا
تین دن گھر میں دعوتوں کی فراوانی تھی
مرے نصیب میں دیکھ کر اسکو حیرانی تھی
دیکھی جاتی نہیں اس دوست کی پریشانی تھی
رشتہ داروں اور دوستوں کی تو مہمانی تھی
میں تھا حیران اور حیران ہوا جاتا تھا
اور ان حالات میں پریشان ہوا جاتا تھا
رسمِ قل میں تو وہ پڑھنا، برائے نام سا تھا
لوگوں کو مطلب، اس آنے میں، ایک کام سے تھا
ملنے جلنے سے اور گپ شپ، دعا سلام سے تھا
اسی میت کے وسیلے سے فیضِ عام سے تھا
یعنی اندازِ ضیافت بڑا شاندار رہا
مجھ پہ تو دیکھ یہ، غم بڑا سوار رہا
اور چہلم میں انتظام اور عجیب ہوا
کارڈ بھیجے گئے چہلم جو کچھ قریب ہوا
دوسرا شاندار ایک طعام پھر نصیب ہوا
کھایا مالداروں نے محروم تو غریب ہوا
قرض پر قرض مرے دوست پہ چڑھتا ہی رہا
یہ وہ خدمت اپنے والد کی سمجھتا ہی رہا
مرے مشفق یہ جو دیکھا یہ طریقہ کیا ہے؟
میری آیا نہ سمجھ میں یہ ماجرا کیا ہے؟
خرچ کرنے کا اس اندا ز میں سلسلہ کیا ہے؟
اس کے بارے میں اکابر کا بھی فتویٰ کیا ہے؟
استاد کا جواب
مرے بیٹے ان طریقوں سے ہم انجان نہیں
اس لیئے اس طرح کاموں پہ ہم حیران نہیں
لوگ رسومات میں اپنی عقل کو چھوڑتے ہیں
مذہبی بات بھی، کلچر کی طرف موڑتے ہیں
اس طرح نفس کے چکر سے رشتہ جوڑتے ہیں
اور سنت کی طریقوں سے رشتہ توڑتے ہیں
ہر جگہ، ہر طرح، لوگوں کی خوشنودی مطلوب
واہ کیا کام ہوا، یہ سنیں، یہ ہی مطلوب
آپﷺ نے جذبات کا بے شک ہے احترام کیا
جو ہر اک کر سکے، تو اس طرح ہر کام کیا
دور تکلف کو کیا، سادگی کو عام کیا
شرکیہ کاموں اور ٹوٹکوں کا اختتام کیا
یہ سادگی ہمیں پھر راس کیوں نہیں آتی؟
تکلفات کی جو عادت ہے وہ نہیں جاتی؟
رونا غالب ہوتو رونے میں قباحت بھی نہیں
عورتیں بین کریں اس کی اجازت بھی نہیں
اور رونے کے محض پوز کی حاجت بھی نہیں
غم مزید اور بڑھانے کی ضرورت بھی نہیں
مرد قوام ہیں، عورتوں کو تسلی دے دیں
رو کے خود، ان کو یہ رونے کی شہہ نہیں دے دیں
میت ہو مرد، تو عورتوں کے درمیان نہ ہو
تاکہ پھر چہرہ دکھائی کا بھی سامان نہ ہو
نیز غیر محرم عورتوں کا امتحان نہ ہو
غسل کے واسطے کوئی بھی پریشان نہ ہو
عورتیں چارپائی اٹھانے میں مزاحم بھی نہ ہوں
سامنے اضطراری اس میں غیر محرم بھی نہ ہوں
چا لے جانے میں میت کو ہم عزت دے دیں
اس کی چارپائی کو کندھے سے رفاقت دے دیں
اور گھروالوں کو حوصلہ دیں اور ہمت دے دیں
ان کو اس وقت پہ جس چیز کی ہو حاجت، دے دیں
ہم خموشی سے چلیں ساتھ اور عبرت پکڑیں
اور کرائے کے ذاکرین کی نہ حاجت پکڑیں
حق میں میت کے، جنازہ ہی تو بڑی ہے دعا
تو اس کے بعد بھی دعا ہی ہو تو یہ ہے کیا؟
ضروری کام ہے میت کو اب دفن کرنا
تو اس کے واسطے فوراً ہے قبر پر جانا
یہی سنت ہے کہ فوراً ہواب تدفین کا عمل
کوئی اچھا یا برا کام نہ ہو اس میں مخل
بڑی عزت سے اس میت کی ہوتدفین ابھی
مٹی ڈالنے میں بھی شریک قبر پر ہوں سبھی
دیکھ لیں سب کو جو آنا ہے وہ جگہ ہے یہی
پس یہی روز بھلائے ہمیں دشمن نہ کبھی
قبر پر وعظ یہی ہو کہ یہاں آنا ہے
جو بھی دنیا میں ہے موجود،سب کو جاناہے
تین دن تک ہوگی تعزیت اس کے گھر والوں سے
کہ ہم قریب رہیں غم میں سوگواروں سے
ساتھ ہونے کا ہو اظہار ان کےپیاروں سے
چاہیں مہمانی نہیں ایسے غم کے ماروں سے
بلکہ تین دن تک ان کے گھر میں آگ جلے ہی نہیں
ہم کھلائیں انہیں، کچھ بھی وہاں پکے ہی نہیں
ہو جو میت کے لیئے کوئی بھی ایصالِ ثواب
نہ بنادے اسے رسم و رواج اور یوں اک عذاب
ان کو آزاد رکھیں جس طرح بھی جانیں صواب
ورنہ ان کی کہیں ہوجائے نہ نیت ہی خراب
کیونکہ لوگوں کے لئے جو بھی کریں گے، وہ عمل
بنے ریا، خدا کے ہاں نہ وہ رہا یہ اصل
اس میں تخصیصِ رواجی کا احتمال نہ ہو
اور غیر شرعی طریقوں کا استعمال نہ ہو
اور لوگوں کی خوشی کا بھی اس میں خیال نہ ہو
کسی مالک کے بھی ترکے سے یہ فی الحال نہ ہو
ترکہ میت کا ورثاء میں ہو تقسیم فوراً
اس کی تقسیم کی دی جائے بھی تعلیم فوراً
فرض،واجب کے مقابل مستحب کچھ بھی نہیں
جب خدا راضی نہ ہو پھر،تو یہ سب کچھ بھی نہیں
حق میں میت کے یہ سب شور و شعب کچھ بھی نہیں
بس محض ضد ہو تو پھر اس سے عجب کچھ بھی نہیں
ضد میں شیطان نے،شبیرؔ تیر کیا مارا ہے
سوچ لیں ہم اگر ارادہ یوں ہمارا ہے