عقل دل سے کہتی ہے

دنیا کو دیکھ نظر آتا ہے اسباب کا گھر

اور ان اسباب میں آتا ہے مرے دم سے اثر

دنیا ویران رہے، میں جب مؤثر نہ رہوں

خراب کام ہو، جب اس کا ہم سفر نہ رہوں

علم عالم کا ہو ضائع بھی، میں اگر نہ رہوں

غصہ آئے اگر کسی کو، میں ادھر نہ رہوں

میرے ہونے سے یہ دنیا جنت نظیر بنے

ہر عقلمند مری زلف کا اسیر بنے

یہ ہندوستان میں انگریز کیسے آئے تھے؟

یہاں کے لوگ مرے دم سے سب دبائے تھے

میں نے آدابِ حکمرانی جب سکھائے تھے

یہاں کے لوگ وہ عاری ہی اس سے پائے تھے

دس ہزار لوگ، کروڑوں پہ حکمران بنے

صرف حکمران نہیں، مطلق العنان بنے

یہاں کے لوگوں نے میری قدر جو کی تھی کم

سزا کے طور پہ ان کو ملا پھر کتنا غم

جن کی کھوپڑی مجھ سے خالی ہو تو وہ ہوں بیدم

وہ اگر تیر اٹھائیں گے میں ماروں گا بم

مجھ کو پانے سے تو دنیا بھی نئی ملتی ہے

اور نہ ہونے سے، جو موجود ہے وہ بھی ہلتی ہے

میرے ہونے سے یہ انسان تو انسان ہے نا

زندگی میرے ہی ہونے سے تو آسان ہے نا

معترف میری کرامات کا کل جہان ہے نا

میرا انسان پہ دیکھو بڑا احسان ہے نا

جو مجھے ساتھ نہ رکھے اس کو گرادیتی ہوں

اپنی ناقدری کا احساس دلا دیتی ہوں

میں اگر سر میں نہ ہوں سر ہی سلامت نہ رہے

میری عزت نہ کرے جو اس کی عزت نہ رہے

مجھے حاکم نہ کہے اس کی حکومت نہ رہے

علم کے ساتھ میں شامل نہ ہوں، حکمت نہ رہے

میرے والوں کو خدا نے اولو الباب کہا

میرے دشمن کو تو تاریخ نے خراب کہا

دل عقل سے کہتا ہے

تیری باتوں کا میں انکار نہیں کرتا ہوں

لیکن حق بات کے کہنے سے نہیں ڈرتا ہوں

عقل میں عقل تبھی ہو میں اگر ٹھیک رہوں

ناس تیرا ہو اور سب کا، اگر میں نہ بنوں

میں اگر واسطہ اپنا خدا سے درست رکھوں

تو پھر میںٹھیک دیکھوں، ٹھیک کہوں، ٹھیک سنوں

میں اگر درست رہوں درست رہیں سارے نظام

تو بھی پھر ٹھیک رہے درست سارے تیرے کام

تو اگر میری نہیں، نفس کا بنے گی پھر غلام

اور سر اٹھا کے ذرا دیکھ قارون کا انجام

تو اگر میری نہیں نفس تجھ پہ سوار رہے

ترا ہر آن ظالموں میں پھر شمار رہے

سارے اعمال میں اخلاق کے بیمار رہے

انجام کار تری قسمت میں نار ہی نار رہے

سر کے بل چلنا کیا آسان نظر آۓ ہے

مرے ماننے میں یہ نخرے جو تو دکھاۓ ہے

چاہیے تجھ کو ہے جذبات پہ حکومت کرنا

فضولیات کی ہر آن مخالفت کرنا

نافذ احکام میرے حسبِ ہدایت کرنا

بےوقوفوں کو طریقے سے نصیحت کرنا

ہاں مگر مجھ سے کوئی پنگا نہیں لینا ہے

مجھ سے لیکر پھر طریقے سے آگے دینا ہے

شریعت دونوں کا محاکمہ کرتی ہے

عقل کا کام ہے جذبات پہ حکومت کرنا

اور جو ہے قلب سلیم اس کی حمایت کرنا

نفس کے شر سے بھی اعمال کی حفاظت کرنا

اور اس کے واسطے اتباعِ شریعت کرنا

عقل ناقص ہے جب مغلوب ہو جذبات سے یہ

اور ملوث ہو لغویات و خرافات سے یہ

عقل پابندِ شریعت ہو تو اک نور ہے یہ

اس وقت نورِ فراست کا اک ظہور ہے یہ

اور اگر سفلی خواہشات سے مجبور ہے یہ

پھر یہ شیطان کا آلہ ہے، حق سے دور ہے یہ

یہ فقاہت کا ذریعہء عظیم دین کا ہے

اس وقت فضل بڑا رب العالمین کا ہے

دل میں شیطان سے لینے کا راستہ بھی ہے

اور الہام کا مورد صاف ستھرا بھی ہے

آنکھ، زبان، کان کے ساتھ اس کا سلسلہ بھی ہے

گر استعمال ہوں غلط یہ، ان سے خطرہ بھی ہے

آنکھ، زبان، کان یہ سب دل سے اثر لیتے ہیں

اور یہ بھی کہ یہ سب اس کو اثر دیتے ہیں

خواہشیں نفس کی شیطان کو آتی ہیں نظر

وہ وساوس سے ہےکرتا پھر ان سے دل پہ اثر

شروع ہوتا ہے اس سے آگے گناہوں کا سفر

اور بچ جائے وساوس کا اثر نہ لے اگر

ان گناہوں سے تو بچنے پہ اجر ملتا ہے

ان تقاضوں سے تو تقویٰ کا باغ کھِلتا ہے