میرے استاد بتا پیری مریدی کیا ہے؟
سنتے رہتے ہیں اسے، دل کی صفائی کیا ہے؟
لوگ پیروں کا یہاں خیال بہت رکھتے ہیں
جو ہر اک کام میں کمال بہت رکھتے ہیں
کرتے اعمال نہیں حال بہت رکھتے ہیں
یہ مریدوں سے خبردار بہت ہوتے ہیں
ان سے ملنے کے بھی اسرار بہت ہوتے ہیں
ان کی خدمت سے ہر اک کام صحیح ہوتا ہے
پاس ان کے جو نہ آئے تو وہی روتا ہے
جاگتا رہتا ہے یہ پیر کہاں سوتا ہے
ان کے تعویذ سے ہر کام نکل آتا ہے
یہ نہ چاہیں تو پھر آرام کہاں آتا ہے؟
یہ شریعت پہ جو چلنا ہے وہ ہے ٹھیک مگر
ہوتا جب ذکر الٰہی سے ہے دل پر جب اثر
تو کچھ اسرار وہ پاتے ہیں پھر اپنے دل پر
مل گیا اصل تو پھر نقل سے کیا بات بنے
پھر شریعت کے تقاضوں پہ کوئی کیسے چلے؟
یہ جو ہیں پیر تو اسرار ان کا سمجھے کون؟
ہیں یہ واصل، قلب بیدار ان کا سمجھے کون؟
حب حق میں قلب سرشار ان کا سمجھے کون؟
دن کو جب رات کہیں رات سمجھنا ہے ٹھیک
الغرض ان کی ہر اک بات سمجھنا ہے ٹھیک
یہ جو چپ ہوں تو یہ چپ شاہ بنے رہتے ہیں
اور بولتے یہ معارف ہیں جو بھی کہتے ہیں
سب مریدوں کی یہ تکلیف ساری سہتے ہیں
تک نہ کوئی ہو بولنے میں تو رموز اسرار
اور کسی کے یہ مخاطب ہوں تو بنے سرکار
ان کے انداز ہر اک چیز میں نرالے ہیں
ہر غلط کام میں جب ہاتھ ان کے کالے ہیں
اس پہ سب ٹھیک سمجھتے ہیں جو متوالے ہیں
کیسے یہ ٹھیک میں سمجھوں سمجھ آتا ہی نہیں
کہ شریعت سے کوئی میل یہ کھاتا ہی نہیں
یہ نہ قرآن پہ چلتے ہیں اور نہ سنت پہ
اثر انداز یہ ہوتے ہیں سب کی قسمت پہ
مجھ کو پھر شک نہ کیونکر ہو ان کی صحت پہ
ان کی خانقاہیں مراکز ہیں کاروبار کی بس
گمرہی میں ہیں اپنے شتر بے مہار کی بس
بس شریعت پہ جو چلنا وہی ٹھیک ہے جب
چھوڑ میں دوں یہ خرافات اور یہ صوفی سب
مل سکے مجھ کو پھر نجات جعل سازی سے تب
اب سمجھ آئی مرے دل میں بس یہی اک بات
جو کہ قرآن ہے سنت ہے وہ طریق نجات
استاد کاجوابِ شکوہ
بیٹا ہاں ٹھیک ہے یہ سب مگر انصاف تو ہو
رہتی جو بھی غلط فہمی ہے پہلے صاف تو ہو
ایسے پیروں کی پیروی یہ ضلالت تو ہے
کہ شریعت کی مخالف ان کی حالت تو ہے
پیچھے پھر ان کےکوئی جائے حماقت تو ہے
لیکن جو ایسے نہ ہوں ان سے مفر کیسا ہے؟
جو ضروری ہے تو پھر ان سے صبر کیسا ہے؟
کیا علم رکھنا شریعت کا ہی بس کافی ہے؟
کیا تکبر کا علم اس کے لئے شافی ہے؟
کیا برائی کے جاننے پہ ہی معافی ہے؟
کتنے جانتے ہیں مگر ساتھ وہ بدکار بھی ہیں
اور اسباب علاجی سے وہ بیزار بھی ہیں
دنیا اسباب کا گھر ہے یہ جانتے ہیں ہم
ہوتے اسباب مؤثر ہیں مانتے ہیں ہم
خود کو کیوں اس سے مبرا گردانتے ہیں ہم
جو کہ دنیا کے ہیں اسباب ہم برتتے ہیں
کیسے اسباب اصلاحی کو پرے رکھتے ہیں
یہ ہے معلوم ہے دشمن بڑا شیطان اپنا
نفس امارہ کے ہاتھوں میں ہے گریبان اپنا
ان سے بچنے پہ زور دیتا ہے قرآن اپنا
خود بخود نفس امارہ ہمیں آزاد کرے
سادگی یہ تری کوئی بھی کیا یاد کرے
ہمیں قرآن میں زکھّٰا نظر آتا ہے
کیسے فاعل کی ضرورت ہمیں دکھاتا ہے
رستہ دسّٰھا تباہی کا ہی دکھاتا ہے
رزق اللہ پہ ہے ہم پھر بھی مشقت میں ہیں
فرض اصلاح کی چھوڑنے کی مصیبت میں ہیں
اپنی اصلاح کے لئے کوئی ہمارا تو ہو
جس پہ ہم ٹک سکیںکوئی بھی سہارا تو ہو
کاٹنے شر کی جڑوں کو کوئی آرا تو ہو
اپنے اصلاح کے لئے کوئی راہبر تو رکھیں
دلِ بیمار کے لئے دارو مؤثر تو رکھیں
وہ طریقہ جو بزرگوں کا چلا آتا ہے
جس سے ہر ایک شفا، دل کے لئے پاتا ہے
جھنڈا اصلاح کا ہر گاہ جو لہراتا ہے
ایسے دریا سے کیوں ہم بھی فیضیاب نہ ہوں؟
اور دنیا کی کثافت سے ہم خراب نہ ہوں
جو ہیں گمراہ اگر ان کی نقل کرلیں بھی
اپنے دامن میں مفادات اپنے بھر لیں بھی
اپنے جالوں میں اگر خلق بہت دھر لیں بھی
ٹھیک ہم ان کے لئے چھوڑ دیں یہ ٹھیک ہے کیا؟
اور کاموں میں غلط کیلئے ٹھیک چھوڑدیا؟
کتنوں کو کہتے قصائی ہیں ڈاکٹروں میں دیکھ
کتنے کرتے ہیں ملاوٹ ان تاجروں میں دیکھ
غلط کاموں میں کچھ مصروف استادوں میں دیکھ
ان میں جو ٹھیک ہیں ہم ان کو الگ رکھتے ہیں
ہم جدا ان کو کسوٹی سے جو کرسکتے ہیں
اسطرح پیر جو سچ ہوں اگر ان کو ڈھونڈیں
اپنی اصلاح کے لئے ان کو ہی راہبر سمجھیں
دامن اپنا منبع فیض سے اِن کے بھر لیں
ہم بھی زکھّٰا کے الفاظ عمل میں لائیں
اور دسّٰھا تباہی سے امن میں آئیں
صاحب دل سے ذرا صاف اپنا دل کرلے
فیض صحبت سے ذرا نور کو حاصل کرلے
جہد سے نفس کو پھر خیر پہ مائل کرلے
دل نورانی میں پھر نور خود ہی پائے گا
جو علم خیر ہوگا تیرے لئے وہ آئے گا
جو ہو بیمار نہ ڈاکٹر کے پاس جائے وہ
جودوائی ہے اس کو ہاتھ نہ لگائے وہ
کیسے صحت کو بے اسباب اس میں پائے وہ
اس طرح کرنے سے نقصان کس کا ہوتا ہے؟
اور نقصان اگر ہو تو کیوں روتا ہے؟
یہ غزالی جو ہیں رومی ہیں سارے کیسے بنے؟
شیخ جیلان، سہروردی ہیں سارے کیسے بنے؟
اور خواجہ معین چشتی ہیں سارے کیسے بنے؟
فخر کرتے ہیں ہم اسلاف کے مقاموں پر
اور کرتے ہیں لعن اِن کے سارے کاموں پر
چاہیں مقصد اور ذریعے سے رکھتے بیر ہوں ہم
کھائے کچھ بھی نہیں منہ سے تو کیسے سیر ہوں ہم؟
اس طرح خود سے ہی شیطاں کے آگے ڈھیر ہوں ہم
یہ جو ہیں سارے ذرائع یہ تجربات ہی ہیں
یہ مشکلات میں وسائلِ نجات ہی ہیں
جس طرح طب میں ذرائع کا بدلنا ہے ضرور
مختلف لوگوں کےحالات میں چلنا ہے ضرور
پس طریقت میں بھی کچھ ایسا ہی کرنا ضرور
طرق اصلاح کامنصوص نہ ہونا جائز
جس طرح طب میں اجتہاد پہ حکیم فائز
حبِ دنیا میں آخرت کی طلب ہی نہ رہے
کیسے وہ پیر کی کڑوی کسیلی باتیں سنے
جو کوئی دودھ کا مجنوں ہو وہ خوں کیسے دے
جس کو کچھ حبِ الٰہی سے سرو کار نہ ہو
اس پہ حیرت نہیں اصلاح پہ وہ تیار نہ ہو
شاگرد کا اعتراف
میرے استاد! مرا اللہ تجھے رکھے شاد
آپ نے آباد کیا میرا دل جو تھا برباد
خود کو پہچان لیا اب کروں گا اللہ یاد
مرے اللہ مری غفلت کو اب معاف کرے
جو پڑا گند مرے دل میں ہے اس کو صاف کرے
میں نے جو نفس کی اصلاح سے منہ تھا موڑ لیا
اور مجھے جس کی ضرورت تھی اس کو چھوڑلیا
جزاک اللہ آپ نے مجھ کو جو جھنجھوڑ لیا
اب میں چاہتا ہوں کہ اب اس کی تلافی کرلوں
اب اپنے نفس کی اصلاح میں شافی کرلوں
ایک مشکل سے ابھی تک مگر دوچار ہوں میں
کون ہو میرا مسیحا اگر بیمار ہوں میں
جس پہ سب کچھ ہی اپنا چھوڑنے تیار ہوںمیں
کس طرح خود کو بچا لوں میں دھوکہ بازوں سے
کچھ تو اب پردہ اٹھادیں بھی ان کے رازوں سے
استاد کا جواب اور تسلی
یہ اعترافِ حقیقت تجھے مبارک ہو
اس پہ اللہ کی نصرت تجھے مبارک ہو
سچ کو پانے کی سعادت تجھے مبارک ہو
نشانیاں صحیح پیروں کی بتا دیتا ہوں
راستہ حق کا جو ہے وہ بھی دکھادیتا ہوں
اک صحابہؓ کے عقیدے پہ ہوں وہ پیر بالکل
فرض ہو علم میسر اور اس پر ہو عمل
اس کی صحبت کا سلسلہ ہو تا رسولﷺ اکمل
اس کو دوسروں کی تربیت کی اجازت بھی ہو
صاحبِ فیض ہو، مصلح بے مروت بھی ہو
اس کی صحبت سے بس اللہ کی یاد آجائے
اور دنیا کی محبت میں کمی پاجائے
عظمتِ حق جو ہے وہ دل پہ خود ہی چھا جائے
ایسا مل جائے تو دیکھ گر مناسبت بھی ہو
اس سے جڑ جائے،ہے بہتر اس سے بیعت بھی ہو
سچ تو یہ ہے کہ جوانوں پہ جب اسرار کھلیں
اور جب عشقِ الٰہی سے وہ سرشار رہیں
اور سنت کے طریقوں کو وہ اختیار کریں
کامیابی مسلمانوں کی قدم چھومے گی
چرخہ گلہائے سعادت کی خود ہی گھومے گی
کامیابی سے تجھے رب اب ہمکنار کرے
بندگی ہو جو تری اس پہ تجھے پیار کرے
جو پڑی ہم پہ خزاں ہے اسے بہار کرے
سیکھے تو رسم شبیری، مری دعا ہے یہ
اور راضی ہو خدا، اصل مدعا ہے یہ