اقبالؒ کی کایا کیسے پلٹی؟


رومیؒ نے مثنوی میں کیا پیش اپنا دل

انورؒ کی صحبتوں کا ہوا نور بھی شامل


نورِ یدبیضا سے ہوئیں آنکھیں روشن

اقبالؒ کی، دل سے ہوا یوں حق کا وہ قایٔل


اقبالؒ نے دیکھا کہ حقیقت تو یہاں ہے

چھوڑنا نہ رہا خشک فلسفہ کوئی مشکل


یہ نور کا رستہ نظر آتا نہیں اُس کو

دل جس کا ہو نابینا، رہا حق سے ہو جاہل


ا ِس عشق کے رستے میں عقل اُس کی ہے خادم

خود دیکھیٔے شبیر کیوں اس میں ہو حایٔل

والسلام

سید شبیر احمد کاکاخیل