آپ فرمایئے کہ فکرِ آگہی کیا ہے

آپ فرمایئے کہ فکرِ آگہی کیا ہے

اور ضرورت بھی بتا دیجیے اس کی کیا ہے

علم کی کیا افادیت ہے جانتے ہیں ہم

سکول کالج یہ مدرسے جو ہیں یہ ہیں نہیں کم

آپ کو کیوں ہے یہ جو آگہی کا آپ کو ہےغم

سمجھ میں آۓ نہیں آپ کی یہ کوشش پیہم

آپ کا پیغام محبت بہت ضروری ہے

پر اسی فکر آگہی کی کیا مجبوری ہے

جوابِ مصنف

بیٹا یہ جان لو پہلے کہ آگہی کیا ہے

پھر سمجھنا یہ کہ جو فکر ہے اس کی کیا ہے

بیٹا جانتے ہو کہ ہم سارے مسلمان ہیں نا

اور مسلمان جو ہیں حامل قرآن ہیں نا

باوجود اس کے ان کو دیکھ کہ حیران ہیں نا

غیروں سے لیتے ہیں پیہم اور بے جان ہیں نا

فکر اب یہ ہے مسلمان کو ہوا کیا ہے

جس نے یہ حال کیا اس کا وہ بلا کیا ہے

اب مسلمان جب اغیار کا فلسفہ لے لے

اس طرح اپنی تباہی میں خوب حصہ لے لے

اپنی اصلاح کے لیٔے غیر سے طریقہ لے لے

تو وہی غیر اس سے خوب کیا بدلہ لے لے

اس طرح کٹ گیا قرآن سے فلسفے میں ہے گم

کون ہے آۓ کہ اب اس سے کہے دل سے قُمْ

کون ہے اس کو جو قرآن سے ملاۓ گا

اور کون اپنا مقام اس کو یاد دلاۓ گا

کون اس کو کوۓ جہالت سے اب نکالے گا

کون منزل کا اس کو راستہ دکھاۓ گا

جو فلسفہ ہے مرا آپ کا اندازہ ہے

اور قران حقیقت کا اک دروازہ ہے

یہی قرآن آگہی تجھے دلاتا ہے

کامیابی کا تجھے راستہ دکھاتا ہے

اور تلاوت میں خدا سے تجھے ملاتا ہے

اور تدبر سے بہت کچھ تجھے سمجھاتا ہے

اس آگہی کی فکر نہ کروں خاموش رہوں

فسونِ مغرب کا مارا رہوں مدہوش رہوں

جو مادیت کا ہے طوفان وہ بھی سر پر ہے

اور جو عفریت بے حیائی کا ہے ہر در پر ہے

نظرِ انتخاب دشمن کی تیرے گھر پر ہے

اور تیری جو ہے وہ اپنے کروفر پر ہے

کیا کروں چپ رہوں یا چیخوں اور چلاؤں میں

ان ہی کی فکر آگہی کیوں نہ پاؤں میں

دشمن کے ہاتھ سے ڈوری میڈیا کی ہلتی جاۓ

اس سے مایوسی مسلمانوں میں پھیلتی جاۓ

کام چھوڑ کر قوم ہر روز بہلتی جاۓ

اور دھمکی دشمنوں سے روز روز ملتی جاۓ

آگہی میڈیا کی الٹی ہو، الٹاۓ ہمیں

تو فکر آگہی پھر کیوں نہیں بچاۓ ہمیں

دین کے دشمن ہمیں الحاد سے خراب کریں

ان کے دھوکوں کو ہم پھر کیوں نہ بے حجاب کریں

حملے دشمن اس کے ہم پر جو بے حساب کریں

تو پھر لازم ہے کہ ہم بھی اس کا جواب کریں

اسی کے واسطے فکر آگہی کو لانا ہے

ان کے داؤں کے بارے میں سب کو اب بتانا ہے

سایٔنس روز روز کرشمے نیٔے دکھاتی ہے

سہولیات زندگی کے سامنے لاتی ہے

پر اس کے ساتھ لغویات بھی پھیلاتی ہے

نفس و شیطان کے وسایٔل نئے بناتی ہے

اس سے ہونا متاثر تو کوئی بات نہیں

جو تغیر ہے اس میں، اس سے تو نجات نہیں

اس تغیر سے اس کی بات کوئی حتمی نہ رہے

اور کوئی ان کو حتمی بات کے مقابل نہ رکھے

مذہب اسلام مستقل ہے ہمیشہ یہ سمجھے

مذہب اسلام کو سایٔنس پر کبھی نہ پرکھے

مذہب ہے غیب پر منحصر مشاہدہ پر نہیں

جو کرے گا وہ خود ہی خود کو ڈبوۓ گا وہیں

لوگ سایٔنس سے کیا مذہب نہیں پرکھتے ہیں

اور اس میں ہر کس و ناکس کا ذوق چکھتے ہیں

اور علماء سے پوچھیں کیا ان سے بدکتے ہیں

یوں یہ الحاد کی بنیاد اس میں رکھتے ہیں

فکر اس کا نہ کروں آگہی حاصل ہو انہیں

نکلیں بھنور سے، میسر اب تو ساحل ہو انہیں


سائل سمجھ جاتا ہے


بات سمجھا میں کہ یہ کام ضروری ہے بہت

آج کے مسلم کے حقیقت سے جو دوری ہے بہت

بحر ظلمات میں آپ کی فکر تو نوری ہے بہت

چھاپنا اس کا ضروری تو اب فوری ہے بہت

میں منتظر ہوں اس کو خوب میں پھیلاؤں گا

اس سے ناسمجھوں کو اب خوب میں سمجھاؤں گا

ہمارا اقبال بھی اسی کشمکش کا شکار رہا ہے۔د یکھیٔے ان کی کایا کیسے پلٹی۔اگلے صفحےپر ملاحظہ فرمایئے ۔اس کے بعد رخصت ہونا چاہوں گا تاکہ آپ کے اور کتاب میں مزید حایٔل نہ رہوں۔