الحمد للہ! بندہ کی شاعری کی یہ تیسری کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو قبول فرمائے اور امت مسلمہ کے لئے اس کو مفید بنائے۔پہلی کتاب “شاہراہ محبت” حج کے سفر کے بارے میں ہے اور بے مہار عقل کو، دل کا ایک جواب ہے۔دوسری کتاب “پیغام محبت” ہے۔وہ تو دل کا پیغام ہے دل کو۔یہ تیسری کتاب “فکر آگہی”ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، یہ ایک دعوتِ فکر ہے۔
دین کے بارے میں معلومات کافی ہونے کے باوجود بعض دفعہ چند مفاہیم کے نہ سمجھنے سے علم کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔اس لئے ان مفاہیم کی اصلاح از حد ضروری ہوتی ہے۔اس کتاب میں الحمد للہ ان مفاہیم کی اصلاح کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈوب کے غم میں ترے ہی اب تو، غم دنیا سے نکل جاؤں میں
لہریں رکتی ہیں کناروں پہ جب، تو اب تیری ہی طرف آؤں میں
وحشتِ دنیا بڑھ گئی اس قدر، رہی کسی کو کسی کی نہ فکر
ساری فکروں سے خود کو کاٹ ک ے اب، ترے پانے کی فکر پاؤں میں
وقت ہے قرب قیامت کا اب، کام غلط ہوتےنظر آتےہیں
کیوں نہ کچھ کام فکر آگہی کا، کرکے شروع آگے بڑھاؤں میں
دل کو خوں کرکے کام یہ کرنا ہے، ذہن کو درست اس میں رکھنا ہے
دل و جگر کے خون سے آلودہ اپنے اشعار کچھ سناؤں میں
دلِ ویراں ذکر سے خالی دل، بنے ذاکر شبیرؔ اس کے لئے
ہر طرف ذکر کی محافل کو، ہر جگہ منعقد کراؤں میں
اس غزل کے پیغام سے اندازہ ہو چکا ہوگا کہ اس کتاب کا منظرِ عام پر آنا کیوں ضروری تھا۔اصل فیصلہ تو قارئین کریں گے کہ بندہ اس میں کامیاب ہوچکا ہےیا نہیں۔لیکن سر دست اپنی پوری کوشش یہی رہی ہے کہ کوئی ایسی بات باقی نہ رہے جس میں آج کل کے مسلمان کو فکری پریشانی ہو اور اس کے بارے میں بات کرنی رہ جائے۔دعویٰ البتہ نہیں ہے خدا سے دعا ہےکہ بندہ اپنے اس مقصد میں کامیاب رہے اور مطلوبہ نتائج بھی اس سے برآمد ہوں ۔
اس کتاب میں نظم اور رباعی کی اصناف اختیار کی گئی ہیں کیونکہ فکری باتوں کی شرح، شعر میں زیادہ آزادی کا متقاضی ہوتی ہے جس میں غزل سے زیادہ نظم میں فائدہ ہوتا ہے ۔طریقہ کار زیادہ تر مسدس کا رکھا گیا ہے کہیں کہیں مخمس بھی ہیں ۔
حمد اور نعت کے بعد ایک منظوم دعا ہے ۔ا للہ تعالیٰ قبول فرمائے۔اس کے بعد توحید کا ذکر ہے،پھر رسالت،پھر فرشتوں، پھر کتابوں اور پھر آخرت کے مفاہیم بیان کئے گئے ہیں۔اس کے بعد دعوت الی اللہ، درس و تدریس اور پھر سیاست کے بارے میں ضروری بات اشعار میں کی گئی ہے۔
اس کے بعد صحابہؓ کی مدح کی اور پھر اہل بیت کی مدح کی رباعیات ہیں پھر اس کے بعد قرآن اور حدیث پرعمل کی اہمیت کے بارے میں رباعیات ہیں۔ان کے بعد اہل سنت و الجماعت کے مسلک کی نشاندہی، رباعیات میں کی گئی ہے۔ان رباعیات میں اہل سنت و الجماعت کا بنیادی مسلک، صحابہؓ کے بارے میں بتایا گیا تاکہ افراط تفریط سے بچنا ممکن ہوجائے۔
سوال و جواب کا طریقہ چونکہ مفاہیم کی درستی کے لئے زیادہ مناسب تھا اس لئے کچھ مکالمے سوال و جواب کی صورت میں پیش کئے گئے ہیں۔پہلا مکالمہ اختلاف کے بارے میں ہے جس میں مفید اور غیر مفید اختلاف کے بارے میں بتایا گیا ہے۔اس میں صحیح اختلاف کو برداشت کرنے کے ساتھ غلط اختلاف سے بچنے کے لئے بھی کہا گیا ہے۔
دوسرا مکالمہ روحانیت کے بارے میں ہے جس میں روحانیت کی حقیقت واضح کی گئی ہے اور بعض دوسری چیزوں کو جنہیں غلطی سے روحانیت سمجھا جاتا ہے، ان کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔
تیسرا مکالمہ غلط اور صحیح پیروں کے بارے میں ہے۔صحیح پیروں کی اہمیت بتانے کے ساتھ ساتھ ان کو جانچنے کے لئے نشانیاں بھی بتائی گئی ہیں۔آج کل اس مکالمے کی بڑی ضرورت تھی اس لئے بہت سارے حضرات نے اس کی فوری اشاعت پر زور دیا تھا۔ لیکن احقر کے خیال میں اس کو اس کتاب میں شائع کرنا زیادہ مفید تھا۔
چوتھا مکالمہ دل اور عقل کے بارے میں ہے ۔یہ عقل اور دل کے درمیان مکالمہ ہے جس میں ہر دو کی اہمیت اوراصلاح کے بارے میں بتایا گیا ہے۔عقل کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن اگر دل کی اصلاح نہ ہو تو عقل کے لئے نفس کے اثر سے بچنا ممکن نہیں رہتا ۔دوسری طرف اگر دل کی اصلاح ہوچکی ہو، تو اگر نفس کے اثر سے گناہ ہو بھی جائے تو اس کا گناہ ہونا معلوم ہوتا ہے اور توبہ کی توفیق بھی جلدی ہوتی ہے۔
پانچواں مکالمہ تراویح کے بارے میں ہے جس میں رکعتوں کی تعدادکے بارے بعض لوگوں کی ضد کی نشاندہی کی گئی ہے۔آج کل بعض لوگو ں کو کیا ہو جاتا ہے کہ متفقہ باتوں کو بھی اختلافی بنانے پر تلے ہوتے ہیں ۔یہ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے ۔چاروں آئمہ اور تمام صحابہؓ کا اس پر اجماع ہے ۔اس کے باوجود ایک چھوٹی سی جماعت سوادِ اعظم کے لوگوں کو پریشان کرنے پر تلی ہوتی ہے۔اگر بات صرف اتنی ہوتی تو مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا لیکن ان لوگوں سے نفس زدہ لوگ اثر لے کر ان کے پیچھے چل کر گمراہی کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ان لوگوں کو اس سے بچانے کے لئے یہ مکالمہ ہے ۔اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے ۔
اس کے بعد وساوس کے بارے میں ایک مکالمہ ہے۔وساوس ہر کسی کو آسکتے ہیں لیکن ناواقف اس سے بہت پریشان ہوجاتے ہیں یا پھر ان کے شکار ہوجاتے ہیں ۔اس مکالمے میں اس کا علاج بتایا گیا ہے۔
اس کے بعد معاملات کے بارے ایک مکالمہ ہے جس میں آجکل بعض دیندار لوگ بھی کمزوری دکھاتے ہیں ۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے چلنے والے لوگ اس کی اصلاح کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے ہیں، حالانکہ عبادات سے انسان کو جو فائدہ ہوتا ہے معاملات میں سستی سے وہ فائدہ ضائع ہوتا رہتا ہے۔
اس کے بعد اختلاط نا جنس سے بچنے کے بارے میں مکالمہ ہے۔کچھ حضرات اس میں رواجی پردے پر مطمئن ہوتے ہیں اور شرعی پردے کو دین میں سختی پر محمول کرتے ہیں، حالانکہ وہی دین ہے ۔
اس کے بعد شادی کی رسومات اور اس کے بعد فوتگی کی رسومات کے بارے میں مکالمہ ہے۔رسومات میں پڑ کر لوگ، اپنی زندگی اجیرن کرلیتے ہیں ۔ان مکالموں میں رسومات سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
اس کے بعد ایک فکر مند شاگرد، توبہ اور صحیح راستے کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے اوراس کے بعد ایک نوجوان طالبعلم آجکل کے حالات سے متاثر ہوکر اپنی من چاہی دنیا کے بارے میں کچھ کہتا ہے اور استاد اس کو نصیحت کرتا ہے۔یہ آج کل کے جوانوں کا مسئلہ ہے ۔ان کی مناسب تربیت سے وہ بچ سکتے ہیں ۔ان مکالموں میں ایسے نوجوانوں کے لئے مفید مشورے ہیں ۔
اس کے بعد سلوک اور جذب کا آپس میں مکالمہ ہے ۔سلوک اصلاح کا ایک باقاعدہ طریقہ ہے جبکہ جذب، دل کی اصلاح کا ایک تیز رفتار طریقہ ہے ۔ان میں ہر دو کے فضائل اور ان کے مسائل ساتھ ساتھ بیان کئے گئے اور آخر میں ایک مناسب طریقہ تجویز کیا گیا ہے۔
اس کے بعد تقدیر کے بارے میں ایک متردد شخص کے خیالات ہیں اور اس کا جواب ہے۔یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے جس کا مکمل جواب دینا اگر ممکن نہیں تو اس کے بارے میں مکمل خاموشی بھی خطرے سے خالی نہیں ۔زیر نظر مکالمہ اس کی بین بین صورت کی ایک مثال ہے۔ایک کثیر تعداد کو شیطان ان امور میں دھوکہ دے کر راہِ حق سے ہٹا دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسے لوگوں کے لئے یہ چھوٹا سا مکالمہ کافی ہوجائے۔
اس کے بعد نفس اور شیطان کی حقیقت کو بھی ایک مکالمے کی صورت میں عیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کے بعد خودی اور بے خودی پر ایک مکالمہ ہے ۔یہ وہ الفاظ ہیں جو حساس دلوں میں ہلچل تو پیدا کرتے ہیں لیکن ان کا صحیح فہم نہ ہو تو ذہن ٹامک ٹوئیاں مارنے لگتا ہے۔اس کے بعد تصوف کے آخری مقام کے بارے میں مکالمہ ہے جو اس ضمن میں اختلاف لفظی کو رفع کرتا ہے۔
اس کے بعد میراث میں بہنوں کے حصے پر اشکال کے جواب کا مکالمہ ہے۔اس میں آج کل میراث کے بارے میں ظلم اور ناسمجھی کا بیان کیا گیا ہے۔اس کے بعد، طریقت میں پیر بننے کی نیت کا فساد کیا ہے، اس کے بارے میں مکالمہ ہے۔ یہ وہ گھاٹی ہے جس میں کوئی گر جاۓ تو برسوں کی محنت ضایٔع ہوسکتی ہے۔اس کے بعد ایک اور گھاٹی، کشفیات کا شوق اور اس کے نقصانات کے بارے میں مکالمہ ہے جس میں کشفیات کے شوقین حضرات کو سمجھایا گیا ہے کہ یہ مقاصد میں نہیں ہیں۔اس کے بعد خانقاہی تعلقات کو دنیا کے لیٔے استعمال کرنے پر تنبیہ کی گئی ہے۔
دیوبند ایک عظیم ادارہ ہے۔ جس کا طرہ امتیاز اعتدال ہے جس پر پوری کایٔنات اور پورا دین قائم ہے۔حال ہی میں اسی دیوبند میں افراط تفریط کی وجہ سے بعض چیزیں اصل دین سے ہٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اس لیٔے اس کے بعد ایک مقالہ اصلی دیوبندی کی پہچان پر دیا گیا ہے۔اس کے بعد عورتوں کی بیعت، غلط اور صحیح تصوف اور حقوق اللہ و حقوق العباد کے بارے میں مکالمے دیٔے ہوۓ ہیں ۔موت کی یاد سے غفلت، سخاوت اور عبادت، ختم نبوت، خانقاہوں کی ضرورت اور جذب پر بھی مکالمے ہیں ۔
دین کی سادگی سے کیا مراد ہے؟ اس میں غلط فہمی سے کیا ہوتا ہے؟ اور ایک غلطی جو ایک مفتی صاحب کو لگی، اس کے بارے میں ایک خصوصی مکالمہ ہے جس میں سادگی اور تعطل کا فرق واضح کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ بعض مخصوص عبادات مثلاً رمضان، اعتکاف اور عید میں کیا کرنا ہے کے بارے میں نظموں میں بتایا گیا ۔نیز حب رسول اور سنت پر عمل یہ دونو ضروری ہیں کے بارے میں بھی نظمیں ہیں ۔اصلاح کے مختلف طریقوں اور تبلیغی جماعت سے متعلق بھی کچھ مفید باتیں بتائی گئی ہیں ۔
اس کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ قاری کے سامنے افراط تفریط کو رکھ کراصل اور معتدل دین سمجھایا جاۓ۔اس کے لیٔے بڑی بصیرت اور حکمت کی ضرورت ہوتی ہے ۔احقر کے پاس یہ دونوں چیزیں کہاں۔توکل علی اللہ اپنے بزرگوں کی تحریروں میں غور کر کرکے، اس سے یہ موتی چن چن کر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں بڑا حصہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت مولانا اشرف سلیمانیؒ کی کتابوں کا ہے۔
آخر میں چند مفید نظموں کے ساتھ اس کتاب کو ختم کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کو اپنی درگاہ میں قبول فرما کر مؤلف کے لیٔے ایک صدقہ جاریہ بناۓ۔
فکر آگہی کیا ہے؟
ذرا سوچو بھی کہ یہ فکر آگہی کیا ہے
موت آئے گی موت کے بعد زندگی کیا ہے
جب مسافر ہو تو سامان ذرا ہلکا رکھو
مسافری میں آسائش میں مشغولی کیا ہے
مزید تفصیل کے لیٔے اگلے صفحہ پر دی گئی نظم کا مطالعہ مفید ہوگا ۔ان شاء اللہ۔