حصہ 2 باب 3 ملفوظ 5: بعض طالبین کے احوال

بعض طالبین کے احوال

ایک طالب نے لکھا کہ ان دنوں بجز ذکرِ اسمِ ذات کے کسی چیز میں جی نہیں لگتا، حد یہ ہے کہ درسِ حدیث و تلاوتِ قرآن میں بھی۔ حضرت والا نے جواب تحریر فرمایا کہ ابتداء میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ بچہ کو ہر وقت دودھ ہی مرغوب ہوتا ہے، پھر ہر وقت پر اس کے مناسب اشیاء مرغوب ہونے لگتی ہیں۔ اور اکثر اس کا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ ذکر میں ایک گونہ بساطت ہے، قرآن و حدیث میں ایک گونہ ترکیب ہے۔ اور بساطت یکسوئی سے اَقرب ہے، اور ترکیب بوجہ اختلافِ اجزاء تشویش سے قریب ہے۔

ایک صاحب نے لکھا کہ حضرت کا خوف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ بولنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ تحریر فرمایا کہ اس کا منشأ محبت مشوب بہ عظمت ہے، جو طریق میں نہایت نافع ہے۔

ایک صاحب نے لکھا کہ معمولات میں سرور نہیں پیدا ہوتا۔ تحریر فرمایا کہ سرور مقصود ہے یا حضور؟ اور حضور بھی اختیاری یا غیر اختیاری؟

ایک طالب نے لکھا کہ نماز میں لطف نہیں آتا۔ تحریر فرمایا کہ لطف ضروری ہے یا عمل؟

ایک طالب نے لکھا کہ حضور کے ساتھ غلبۂ محبت کا آج کل یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت بھی کم محسوس کرتا ہوں۔ تحریر فرمایا کہ یہ شبہ صحیح نہیں۔ حق تعالیٰ کی محبت میں شانِ عقلیت غالب ہوتی ہے، اور اپنے مجانس کی محبت میں شانِ طبعیت غالب ہے۔ اور سرسری نظر میں محبّتِ عقلی محبّتِ طبعی کے سامنے ضعیف و مُضمحِل معلوم ہوتی ہے۔ اس سے وہ شبہ ہو جاتا ہے حالانکہ امر بالعکس ہے۔ چنانچہ اگر اسی محبوبِ طبعی سے نعوذ باللہ حقُّ اللہ کی شان کے خلاف کوئی معاملہ قولی یا فعلی صادر ہو، تو وہی محبوب فوراً مبغوض ہو جائے۔ جس سے ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ ہی کی محبوبیت غالب ہے۔

ایک طالب نے لکھا کہ میں لوگوں کے اصرار سے لمبی سورتیں پڑھتا ہوں، کبھی کبھی بعد نماز جی خوش ہوتا ہے کہ قرآن مجید بہت اچھا پڑھا، دل میں یہ سوچ لیتا ہوں کہ یہ میرا کمال نہیں، محض انعامِ الٰہی ہے۔ کیا یہ اصلاح کافی ہے؟ تحریر فرمایا کہ مسنون سورتوں میں جو چھوٹی ہوں، وہ پڑھا کرو اور بہت جوش سے مت پڑھا کرو۔ یہ عمل اصلاح ہے اور لفظی اصلاح کافی نہیں۔

ایک بیوہ نے لکھا کہ شوہر مرحوم کے غم کی وجہ سے باوجود ڈیڑھ سال گزر جانے کے، اس قدر تڑپ ہے کہ ہر چند قلب کو راجع الی اللہ کرتی ہوں لیکن یکسوئی نہیں ہوتی۔ تحریر فرمایا کہ سکون مطلوب ہی نہیں، عمل مطلوب ہے ظاہری بھی باطنی بھی۔ ظاہری تو جانتی ہو، باطنی ہر وقت کے واسطے وہ عمل جو اختیار میں ہو۔ مثلاً صبر اختیار میں ہے وہی مطلوب ہو گا، سکون و دل جمعی اختیار میں نہیں وہ مطلوب نہ ہوگا۔

حضرت والا کے صاحبِ اجازت کو لوگوں نے زبردستی میونسپلٹی کا ممبر بنا دیا، بالآخر حضرت کی خدمت میں لکھا تاکہ گلو خلاصی ہو۔ تحریر فرمایا: جب تک نسبت مع الخالق راسخ نہ ہو تعلّق مع الخلق بلا ضرورت سراسر مضرت ہے، اور جو منفعت سوچی جاتی ہے کہ ادائے حقِ خلق ہے، اور وہ حقِ خلق بھی جب ہی ادا ہوتا ہے کہ نسبت مع الخالق راسخ ہو جائے۔ ورنہ حقِ خلق ادا ہوتا ہے نہ حقِ خالق، یہ تجربہ ہے اور ایک کا نہیں بلکہ ہزاروں اہلِ بصیرت کا۔ اسی لیے ہم سے اور آپ سے زیادہ اہلِ تمکین نے ایسے تعلّقات کو چھوڑ دیا ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم بلخی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شجاع کرمانی رحمۃ اللہ علیہ کے واقعات معلوم ہیں۔ اور حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم پر اپنے کو قیاس نہ کیا جائے۔

؎ کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر

ایک طالب نے لکھا مروّت مجھ کو بہت ہے، جس سے بعض دفعہ خلاف شرع کام سرزد ہو جاتے ہیں۔ محض اس خیال سے کہ دوسرے کا دل نہ دکھے، انکار اس قدر دشوار معلوم ہوتا ہے کہ پسینہ آ جاتا ہے۔

جواب تحریر فرمایا کہ دشوار ہونے سے غیر اختیاری ہونا لازم نہیں آتا۔ جہاں مروّت کرنا خلافِ شرع نہ ہو اس مروت پر عمل جائز ہے۔ اور جہاں خلافِ شرع ہو جائز نہیں۔ گو دشواری اور تکلیف ہو، اس تکلیف کو برداشت کرو، اس کے سوا کوئی علاج نہیں۔

ایک طالب نے لکھا تابعدار معمولات ادا کئے جاتا ہے مگر قلب کی حالت بدستور ہے۔ تحریر فرمایا کہ کیا یہ نعمت نہیں کہ دو وقت روٹی ملے اور صحّت و قوّت بحال رہے، گو اس میں ترقّی نہ ہو۔

ایک طالب نے لکھا کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا کہ کچھ عرض معروض کر سکوں۔ فرمایا کہ ناقابلی کا اعتقاد اس طریق میں قابل ہے۔

ایک طالب نے لکھا کہ جو کچھ معمولات ادا کرتا ہوں محض عادةً کرتا ہوں۔ تحریر فرمایا کہ کیا اچھے کام کی عادت نعمت نہیں؟

ایک مبتدی طالب نے لکھا کہ حضور سے دور ہوں، اذکار صحیح طریقہ سے کیونکر کروں؟ جواب تحریر فرمایا کہ یہ معلوم کرنا کیا مشکل ہے۔ قلب اور زبان دونوں کو شریک رکھنا یہی طریقِ صحیح ہے۔ ان ہی صاحب نے یہ بھی درخواست کی تھی کہ اپنے فلاں مجاز سے فرما دیں مجھے ایک مرتبہ دوازدہ تسبیح کا وِرد کرا دیں۔ جواب تحریر فرمایا کہ اس کی حاجت نہیں، یہ قیود غیر مقصود ہیں، مقصود صرف ذکر ہے۔ اگر کوئی نہایت موزوں رفتار سے چلتا ہو اور دوسرا غیر موزوں رفتار سے، تو اصل مقصود تو منزل پر پہنچنا ہے، جو دونوں رفتار سے حاصل ہو جاتا ہے۔ آگے رہی موزونیت، اس میں اور مصالحِ زائدہ ہیں جن پر منزل کی رسائی موقوف نہیں۔ انہی صاحب نے لکھا تھا کہ صحیح طریقہ اذکار کا معلوم ہو جائے، تاکہ ان کے ثمرات سے بہرہ اندوز ہوں۔ تحریر فرمایا کہ ثمرات کی روح اجر و قُرب ہے۔ انہوں نے لطائفِ ستّہ کی کوشش کرنے کا حال بھی لکھا تھا۔ تحریر فرمایا کہ حقائق مقصود ہیں، لطائف مقصود نہیں۔

ایک طالب نے لکھا کہ گوشت کی دوکان پر جانے کی ضرورت تھی اور میں حجاب محسوس کرتا تھا، اس سے شبہ کِبر کا معلوم ہوتا ہے۔ تحریر فرمایا کہ حجاب اور چیز ہے اور کِبر اور چیز ہے۔ حجاب کی حقیقت خجلت ہے جس کا سبب مخالفتِ عادت ہے، حتیٰ کہ اگر اس شخص کی تعظیم کا سامان عادت کے خلاف کیا جائے، تو اس سے بھی شرمائے۔ مثلاً کوئی ہاتھی پر بٹھلا کر دس بیس سوار جلوس میں کر کے جلوس نکالے۔

فرمایا کِبر کا ایک عملی علاج یہ ہے کہ ایسے کام شروع کرو جو شرع کے خلاف تو نہ ہوں، مگر وضع کے خلاف ہوں اور عرفاً موجبِ ذِلّت ہوں۔

ایک طالب کو جو مدرّس تھے اور جنھوں نے بوجہ کثرتِ کارِ تعلیم عدمِ مواظبتِ معمولات پر سخت افسوس کا اظہار کیا تھا۔ یہ جواب تحریر فرمایا کہ افسوس بھی ایک درجہ میں مُواظَبت کا بدل ہے، جب عدمِ مُواظَبت کسی عذر سے ہو۔

ایک طالب نے لکھا کہ احقر جب بھی کوئی اچھی چیز کسی کے پاس دیکھتا ہے، تو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ میرے پاس ہو تو اچھا ہو۔ پھر کوشش کرتا ہوں کہ وہ چیز مجھے کسی طرح سے حاصل ہو جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں حرصِ دنیا ہے۔ اگر میرا خیال صحیح ہو تو علاج ارشاد فرمایا جائے۔ اس کا حسبِ ذیل جواب اِرقام فرمایا:

مرض تو نہیں مگر مفضی الی المرض ہونے کا احتمال ہے، علاج اس کا یہ ہے کہ بمجرد اس تمنّا کے، یہ عزم کیا جائے کہ اگر یہ چیز مجھے مل بھی گئی فوراً کسی کو ہبہ کر دوں گا۔ خصوصا اس شخص کو جس کے پاس ایسی چیز پہلے سے موجود ہے، یا اگر اس سے ایسی بے تکلّفی نہ ہوئی تو کسی دوسرے کو دے دوں گا۔ اگر وہ چیز اتفاق سے اپنی ضرورت کی ہوئی تو اس کے دام مساکین کو دیدوں گا۔ جب تک ایسی تمنّا زائل نہ ہو گی، ایسا ہی کیا کروں گا۔ اور دعا بھی کرتا ہوں۔

ایک طالب نے لکھا کہ نماز اور ذکر کے قبل اور بعد اکثر یہ خیال آتا رہا کہ اتنی محنت بے کار ہے میں کوئی بزرگ تو ہو نہیں سکتا۔ رہے احکام اس کی پابندی کر لی جائے تو اس کے لیے زیادہ فکر کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ بخشائش تو رحمت پر منحصر ہے الخ۔

جواب تحریر فرمایا کہ ایک علاج یہ سوچنا ہے کہ اعمال صرف مغفرت ہی کے لیے نہیں، بلکہ مالک کا حق ہے مملوک پر اور مغفرت مستقل تبرّع و عنایت ہے۔

ایک طالب نے لکھا کہ مجھے دین و دنیا کے متعلق یہ ہوس ہوا کرتی ہے کہ جو چیز اور جو بات ہو وہ اعلیٰ درجہ کی ہو۔ اور اس میں ہر فن میں سب سے بڑھ کر ہو۔ اس کا یہ علاج تحریر فرمایا کہ جس دنیوی چیز کی تمنّا ہو اس کے فنا کا استحضار کرو، تاکہ اس کا ہیچ اور بے نتیجہ ہونا مستحضر ہو۔ اور اگر وہ دین میں مضر ہو تو اس کے نتیجۂ بد کا استحضار کرو۔ اس مراقبہ کے بار بار استعمال کرنے سے یہ ہوس مضمحل ہو جائے گی۔ اور اگر وہ امر دینی ہے تو اس کی تمنّا محمود ہے، اس کے علاج کی ضرورت نہیں۔ البتہ شرط یہ ہے کہ جس کو وہ نعمت عطا ہوئی ہے اس سے زائل ہونے کی تمنا نہ ہو، ورنہ وہ حسد و حرام ہے۔ اگر خدا ناکردہ ایسا ہو، تو اس کے متعلق مستقل سوال کیا جائے۔ باقی اعتدال کی بھی دعا کرتا ہوں۔

فرمایا کہ ریا ہر خیال کا نام نہیں۔ بلکہ جس خیال کی بِناء قصدِ رضائے خلق بذریعہ دین ہو۔

ایک طالب نے احوالِ باطنی میں کمی کی شکایت لکھی تو تحریر فرمایا کہ ایسی کمی بیشی لازم عادی ہے، یکساں حال رہ ہی نہیں سکتا۔ دوام تو اعمال پر ہوتا ہے، نہ کہ احوال پر۔ یہ تغیّر مضر نہیں بلکہ اس میں مصالح ہیں، جن کا مشاہدہ اہلِ طریق کو خود ہو جاتا ہے۔ مثلاً غیبت کے بعد حُضور میں زیادہ لذّت ہونا، اور مثلاً غیبت میں اِنکسار و ندامت کا غالب آنا، اور مثلاً اپنے عِجز کا مشاہدہ ''وَ مِثْلُ ذٰلِکَ''۔

نماز میں یکسوئی کی تدبیر:

ایک طالب کے استفسار پر نماز میں یکسوئی کی یہ تدبیر تحریر فرمائی کہ نماز میں توجّہ ایک طرف رکھی جائے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ قیام کے وقت اس طرف التفات نہ کرے کہ اس کے بعد رکوع کرنا ہے، رکوع میں اس طرف التفات نہ کر کے کہ اس کے بعد قومہ کرنا ہے ''وَ عَلٰی ہٰذَا''۔ بلکہ ہر رکن میں صرف اسی رکن کو مقصود بالاداء سمجھے اور اس طرف متوجّہ رہے۔ اسی طرح پھر دوسری رکعت میں، ''إِلٰی آخِرِ الصَّلٰوةِ''۔