کتبِ تصوّف کا مطالعہ
ایک طالب، صاحبِ فضل نے لکھا کہ جس زمانہ میں کتبِ تصوّف کا مطالعہ رہتا ہے، خصوصاً مثنوی شریف و کلیدِ مثنوی (شرح مثنوی حضرت والا)، اِحیاءُ العلوم وغیرہ کا، تو اس زمانہ میں قلب میں ایک خاص اِنشراح محسوس ہوتا ہے اور طبعیت میں کیفیت و رِقّت اور خواب بڑے بڑے پاکیزہ نظر آنے لگتے ہیں۔ اور جب سے انگریزی ترجمۂ قرآن میں اور معاندین کے اعتراضات کے جواب میں مشغولی ہے، اس حالت میں نمایاں کمی پاتا ہوں۔ اب کتبِ تصوّف کا مطالعہ بالکل ترک ہے اور بجائے اس کے ہزارہا ہزار صفحات عقائدِ مشرکین و معاندینِ اسلام کے، پڑھ رہا ہوں۔ کہیں یہ ظلمت و قَساوت اسی کا نتیجہ تو نہیں؟ حضرت والا نے حسبِ ذیل تحریر فرمایا:
اس تفاوت کا یہی سبب ہے، مگر اس کی حقیقت قَساوت یا ظلمت نہیں۔ کیونکہ حقیقی قَساوت یا ظلمت ہمیشہ اعتقادی ہوتی ہے اور یہ کیفیت اور اثر طبعی ہے۔ جیسا ایک انقباض گوہ کھانے میں ہو، یہ مشابہ ہے اس حقیقی قَساوت و ظلمت کے۔ اور ایک انقباض ہاتھ پاؤں میں نجاست لگ جانے سے ہو، یہ مشابہ ہے اس کیفیت و اثرِ زیرِ بحث کے۔ اور ظاہر ہے کہ گوہ کھانا بوجہ معصیت ہونے کے مضرِّ باطن ہے، اور نجاست بدن کو لگ جانا مضرِّ باطن نہیں۔ بلکہ اگر بقصدِ تطہیر اپنے جسد کے یا غیر کے جسد کے، ہاتھ لگانا پڑے۔ تو بوجہ طاعت ہونے کے باطن کو زیادہ نافع ہو گا۔ اور اس میں جو طبعی کدورت و کلفت ہوتی ہے، وہ بوجہ مجاہدہ ہونے کے موجبِ اجر و قُُرب ہو گا۔ اور اس کے بعد جو مٹی سے صابون سے رگڑ رگڑ کر ہاتھ دھویا جائے گا، پہلے سے زیادہ پاک صاف ہو جائے گا۔ پس آپ ماشاء اللہ تطہیر میں مشغول ہیں، آپ کی طہارت اور نورانیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ البتہ ساتھ ساتھ صابون بھی استعمال میں رہے تو بہتر ہے۔ یعنی کسی قدر مطالعۂ تصوّف و ذکرُ اللہ۔