حصہ 2 باب 1 ملفوظ 12: وحدةُ الوجود کی حقیقت

ضمیمہ

(1) وحدةُ الوجود کی حقیقت:

وحدةُ الوجود مقاصدِ تصوّف سے ہے نہ مقاماتِ سلوک میں اس کا شمار ہے۔ چنانچہ سلف میں اس کا مفصّل تذکرہ تحریراً یا تقریراً نہ تھا۔ ابہام کے درجہ میں کہیں کہیں اس کے آثار کا ظہور ہو جاتا تھا، جس کا حاصل یہ ہے کہ معنون تھا عنوان نہ تھا۔ پھر خلف میں اس کا عنوان مختلف تعبیرات سے ظاہر ہوا۔ وحدة الوجود ان حضرات کی خاص حالت اور کیفیات کا نام ہے جو غلبہ عشق و محبت الٰہیہ سے ان پر وارد ہوتی ہے، جیسا عشّاقِ مجازی پر بھی اس قسم کی کیفیت بعض دفعہ طاری ہوتی ہے کہ محبوب کے سوا کسی چیز پر التفات نہیں ہوتا۔ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر وقت اسی کا دھیان لگا رہتا ہے۔ اسی طرح حضراتِ صوفیہ کو غلبۂ محبت و عشق اور غلبۂ استحضارِ محبوب کی وجہ سے حضرتِ حق کے سوا کوئی بھی موجود نہیں معلوم ہوتا۔ قلب پر سلطانِ حق کا ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ اس کے سوا ہر چیز حتّٰی کہ خود اپنی ذات بھی معدوم نظر آتی ہے ؎

چو سلطانِ عزّت عَلَم بر کَشَد

جہاں سر بہ حبیبِ عدم در کشد

(2) بدون اجازتِ مشائخ شیخ نہ بنے:

اگر کوئی از خود دیانتاً اپنے کو مشخیت کا اہل سمجھتا ہو، تو گو شرعاً اس صورت میں شیخ سے اجازت حاصل کر نے کی ضرورت نہیں، مگر اسلم یہی ہے کہ بدون اجازتِ مشائخ کے ایسا نہ کرے، تاکہ مشائخ کے دل میں کدورت پیدا نہ ہو، اور ان کے دل میں اس کے مدّعی ہونے کا خیال نہ آئے۔ اور اس طریق میں اسبابِ تکدّرِ شیخ سے احتراز بہت زیادہ ضروری ہے کہ استقامت اور تمکینِ کامل رضائے شیخ ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ تکدّرِ شیخ سے گو اخروی ضرر نہ ہو مگر دنیوی ضرر یہ ہوتا ہے کہ جمعیتِ قلب فوت ہو جاتی ہے اور پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ابنِ منصور کو یہ سب کچھ پیش آیا: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَ رِضَاءَ أَوْلِیَاءِکَ وَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ سَخَطِ أَوْلِیَاءِکَ"۔

(3) کثرتِ ریاضت اور شدّتِ مجاہدات:

کثرتِ ریاضت اور شدّتِ مجاہدات کی وجہ سے حسین ابنِ منصور حلّاج کی گڈری میں بہت بڑی بڑی جوئیں ہو گئیں تھیں اور ان کو اپنے شغل سے اتنی فرصت نہ تھی کہ کپڑوں کو صاف کریں یا جوئیں ماریں۔

(4) قصداً دھوپ میں ذکر و شغل خلافِ سنّت ہے:

اگر قصداً ایسا کیا جائے کہ سایہ کو چھوڑ کر دھوپ میں ذکر و شغل کے لیے جائے تو واقعی مذموم و خلافِ سنّت ہے اور قصداً ایسا نہ کیا جائے، بلکہ ذکر و شغل سایہ میں شروع کیا ہو پھر دھوپ آ گئی ہو مگر ذکر یا مذکور کے ساتھ غایت دلبستگی کی وجہ سے دھوپ کی خبر نہ ہوئی، تو یہ حالت نہ مذموم ہے نہ خلافِ سنّت۔ مگر محققّین کے نزدیک کیفیات کا اتنا اہتمامِ شدید اور نفس پر اتنا تشدّد محمود نہیں۔ "مَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللہُ عَلَیْہِ" (ابوداؤد: رقم 3635) حدیث ہے۔

(5) سب سے بڑی کرامت ولی کی یہ ہے کہ شدائد و مصائب میں بھی محبّتِ الٰہی پر قائم رہے۔

(6) عارف کی تعریف بقول امام قشیریؒ:

بقولِ قشیری معرفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اسماء و صفات کے ساتھ پہچانے۔ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص و صدق اختیار کرے، اخلاقِ ردّیہ اور آفاتِ باطنیہ سے پاک ہو جائے، اللہ کے دروازہ پر جما رہے اور دل کو ہمیشہ اس کی طرف لگائے رکھے۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی اچھی طرح اس کی طرف متوجّہ ہو جائیں اور تمام گناہ چھوڑ کر اللہ کے لیے صادق و مخلص بن جائے، اور خواطرِ نفسانی منقطع ہو جائیں، اس کا دل کسی ایسے خاطر کی طرف مائل نہ ہو جو مخلوق کی طرف داعی ہو۔ جب یہ مخلوق سے اجنبی اور آفاتِ نفس سے بری اور مخلوق پر نظر کرنے سے پاک ہو جائے، اس کا باطن ہمیشہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی سے مناجات میں لگا رہے، ہر لحظہ اسی کی طرف رجوع کرتا رہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ سزاوار ہے کہ اسرار بطور الہام کے منکشف ہوتے رہیں، جو تقدیر کی گردشوں میں جاری و ساری ہیں۔ اس وقت اس کو عارف اور اس کی حالت کو معرفت کہا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص نہ غیرُ اللہ پر نفع و ضرر اور تاثیر کی حیثیت سے نظر کر سکتا ہے نہ اس حیثیت سے اس کا ذکر کر سکتا ہے۔ چنانچہ یہی مطلوب ہے حسین بن منصور حلّاج کے اس قول کا کہ "لَا یَجُوْزُ لِمَنْ یَّرٰی غَیْرَ اللہِ وَ یَذْکُرُ غَیْرَ اللہِ أَنْ یَّقُوْلَ عَرَفْتُ اللہَ الْاَحَدَ الَّذِيْ ظَھَرَ عَنْہُ الْأَحَادُ"۔

(7) چونکہ صوفیائے کرام اخلاقِ الٰہیہ سے متخلّق ہوتے ہیں، ان میں رحم و کرم زیادہ ہوتا ہے، تو وہ مسلمانوں کے تمام مختلف فرقوں سے ہمدردی کا معاملہ کرتے ہیں، اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا چاہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر فرقہ ان کو اپنی جماعت میں داخل سمجھتا ہے، اور ان کا فیض مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رہتا کفار بھی ان کے معتقد ہوتے ہیں، اور ان سے محبت کرتے ہیں، جس طرح اطبّائے اجسامیہ کی طرف ہر فرقہ اور ہر جماعت کو میلان ہوتا ہے۔

(8) حسین بن منصور حلّاج فرماتے ہیں کہ اولین و آخرین کے علوم کا خلاصہ چار باتیں ہیں:

(1) ربِّ جلیل کی محبّت (2) متاعِ قلیل (یعنی دنیا) سے نفرت (3) کتابِ منزّل کا اتّباع (4) تغیّرِ حال کا خوف۔

(9) عین الجمع اور جمع الجمع کی تحقیق:

اس کی حقیقت اصطلاحِ صوفیہ میں یہ ہے کہ سالک سے مخلوق کا مشاہدہ سلب کر لیا جائے، حتّٰی کہ اپنی ذات کا بھی مشاہدہ فنا ہو جائے۔ سلطانِ حقیقت کے غلبہ و ظہور کی وجہ سے غیرِ حق کا احساس بالکلیہ جاتا رہے، وہ کسی کمال کو اپنی یا غیر کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کاسِب اور مُظہِر وہی ہے۔ "اَلْجَمْعُ بِالْحَقِّ تَفْرِقَةٌ عَنْ غَیْرِہٖ وَ التَّفْرِقَۃُ عَنْ غِیْرِہٖ جَمْعٌ بِہٖ" اور اس حالت کا پورا غلبہ ہو جائے تو جمع الجمع یا عینِ جمع کہلاتا ہے اصطلاحِ صوفیہ میں۔

(10) غیر مقبول سے حسنِ ظن مضرّ نہیں۔

(11) سوءِ ظن کے لیے دلیلِ قوی کی ضرورت ہے، اور حسنِ ظن کے لیے سوءِ ظن کی دلیل کا نہ ہونا کافی ہے۔ جس شخص کی زبان یا قلم سے کلمۂ کفر صادر ہو، اگر وہ معنائے کفر کا التزام کرے تو کسی تاویل کی ضرورت نہیں، بلکہ اس پر حکم کفر کا لگا دیا جائے گا۔ اور اگر معنائے کفر کا التزام نہ کرے بلکہ اس سے اپنی براءت ظاہر کرے اور کلام میں دوسرے معنیٰ کا احتمال بھی ہو، یا وہ خود اپنے کلام کے دوسرے معنیٰ بیان کرے جس کا لغتاً یا عرفاً یا اصطلاحاً استعمال ہو، تو اس صورت میں تکفیر جائز نہیں۔ یا اگر اس سے براءت بھی منقول نہ ہو لیکن کوئی وجہ اس میں صحت کی نکل سکتی ہو تب بھی تکفیر جائز نہیں، اگرچہ وہ وجہ بعید ہو۔ خصوصاً جب کہ اس کے قائل میں آثار قبول و صلاح کے غالب ہوں۔ خلاصہ یہ کہ سوءِ ظن کے لیے دلیلِ قوی کی ضرورت ہے، حسنِ ظن کے لیے سوءِ ظن کی دلیل کا نہ ہونا ہی کافی ہے۔

(12) ابنِ خفیف جیل خانہ میں ابنِ منصور کے پاس گئے اور کہا میں تم سے تین مسئلے تصوّف کے پوچھنا چاہتا ہوں، ایک تو یہ کہ صبر کسے کہتے ہیں؟ ابنِ منصور نے کہا کہ میں اپنی ان بیڑیوں کی طرف نظر کروں تو وہ ٹوٹ جائیں، مگر باوجود اس قدرتِ تصرّف کے رات دن پیروں میں بیڑیاں ڈالے رکھتا ہوں، اور دیوارِ جیل خانہ کی طرف نظر ڈالوں تو دیوار پھٹ کر کھل جائے، مگر بایں ہمہ ہر وقت جیل خانہ ہی میں رہتا ہوں، صبر یہ ہے۔ پوچھا کہ فقر کیا ہے؟ ابنِ منصور نے ایک پتھر پر نگاہ ڈالی تو وہ فوراً سونا اور چاندی بن گیا، کہا یہ فقر ہے کہ باوجود اس قدرتِ تصرّف کے میں ایک پیسہ تک کا محتاج ہوں۔ پھر پوچھا کہ فَتْوَت و مردانگی کسے کہتے ہیں؟ ابنِ منصور نے کہا کہ اس کو تم کل دیکھو گے۔ چنانچہ ابنِ خفیف کہتے ہیں کہ جب رات آئی تو میں نے خواب میں دیکھا گویا قیامت قائم ہے اور ایک منادی پکار رہا ہے کہ حسین بن حلّاج کہاں ہیں، چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے کئے گئے، ان سے کہا گیا جو تم سے محبّت رکھے گا جنت میں داخل ہوگا اور جو تم سے بغض رکھے گا دوزخ میں جائے گا۔ حلّاج نے کہا نہیں یا رب، بلکہ سب کو بخش دیجیے، اور پھر میری طرف متوجّہ ہوئے اور کہا فَتْوَت یہ ہے۔

(13) سب سے بڑی کرامت ولی کی یہ ہے کہ شدائد، مصائب میں بھی محبّتِ الٰہی پر قائم رہے اس میں ذرّہ برابر بھی کمی نہ رہے۔

(14) فرمایا امورِ ''مَبْحُوثٌ عَنْہَا فِي التَّصَوُّفِ'' حسبِ ذیل ہیں:

15۔ ''اَلصُّوْفِيُّ لَامَذْھَبَ لَہٗ'' کا مطلب:

چونکہ صوفیائے کرام اخلاقِ الٰہیہ سے متخلّق ہوتے ہیں، ان میں رحم و کرم زیادہ ہوتا ہے، وہ مسلمانوں کے تمام مختلف فرقوں سے ہمدردی کا معاملہ کرتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا چاہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر فرقہ ان کو اپنی جماعت میں داخل سمجھتا ہے اور اپنے سے الگ بھی۔ اپنے ساتھ ان کی ہمدردی و بے تعصّبی دیکھتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم سے گویا الگ ہیں۔ اس لیے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا ہے "اَلصُّوْفِيُّ لَا مَذْھَبَ لَہٗ" یعنی صوفی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، مگر تصوّف میں ایسا نہیں۔ صوفیائے کرام کامل متّبعِ کتاب و سنّت ہوتے ہیں، مگر ان کی دعوت و تبلیغ کا وہ طریقہ نہیں ہے جو دوسروں کا ہے۔ اس لیے صوفیہ کا فیض مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رہتا، کفّار بھی ان کے معتقد ہوتے ہیں اور ان سے محبّت کرتے ہیں، جس سے بعض دفعہ ان کو اسلام کی طرف ہدایت ہو جاتی ہے۔ صوفیہ اطبّاءِ روحانی ہیں، پس جس طرح اطبّائے جسمانی کی طرف ہر فرقے اور جماعت کو میلان ہوتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، اسی طرح صوفیہ سے ہر فرقہ اور ہر جماعت کو میلان ہوتا ہے، اس پر بھی کسی کو اعتراض کا حق نہیں، بشرطیکہ وہ کتاب و سنّت پر پوری طرح عامل ہوں۔ اگر میلان کا منشا مداہنت فی الدین ہو تو ایسا شخص صوفیہ میں شمار نہیں ہو سکتا۔ مدارات اور شئ ہے، مداہنت اور۔ دونوں میں فرق نہ کرنا جہلِ عظیم ہے۔

(16) ابنِ منصور کی تواضع:

ابنِ منصور کا قول ہے کہ میں جو بڑے بڑے شدائد کا تحمّل کر لیتا ہوں اس میں میرا کچھ کمال نہیں، کیونکہ طبیعتِ انسانیہ ہر حالت میں عادی ہو جاتی ہے اور عادت کے بعد تحمّل آسان ہو جاتا ہے۔ مقصود تواضع ہے کہ میرا کوئی کمال نہیں تحمّلِ شدائد میں۔

(17) اللہ تعالیٰ کی محبّت کا طریقہ:

ابنِ منصور نے فرمایا کہ واجبات اور فرائض کو ادا کرتے رہو، اسی سے اللہ تعالیٰ کی محبّت تم کو حاصل ہوگی۔

(18) نفس کی نگہداشت کا طریقہ:

ابنِ منصور نے فرمایا کہ اپنے نفس کی نگہداشت رکھو۔ اگر تم اسے حق کی یاد اور اطاعت میں نہ لگاؤ گے تو وہ اپنے شغل میں لگائے گا، یعنی شہوت میں پھنسا دے گا۔

(19) حسین ابنِ منصور نے فرمایا کہ اولین و آخرین کے علوم کا خلاصہ چار باتیں ہیں:

(1) ربِّ جلیل کی محبّت (2) متاعِ قلیل، یعنی دنیا سے نفرت (3) کتابِ منزّل کا اتّباع (4) تغیّراتِ حال کا خوف۔

(20) حضرت مولانا رشید احمد صاحب قدّس سرّہٗ کا فتوٰی:

منصور معذور تھے، بے ہوش ہو گئے تھے، ان پر کفر کا فتوٰی دینا بے جا ہے، ان کے باب میں سکوت چاہیے، اس وقت رفعِ فتنہ کی غرض سے قتل کرنا ضروری تھا۔

(21) حضرتِ اقدس حکیم الامّت کا فتوٰی:

میری رائے ابنِ منصور کے متعلّق یہ ہے کہ وہ اہلِ باطل میں تو نہیں۔ اور ایسے اقوال، احوال جن سے ان کے صاحب باطل ہونے کا وہم ہوتا ہے وہ میرے نزدیک مؤوَّل ہیں یا قبلِ دخول فی الطریق ایسے حالات ہوں، مگر اس کے ساتھ ہی کاملین میں سے نہیں۔ مغلوب الحال ہیں، اس لیے معذور ہیں۔

(22) وحدةُ الوجود کی اجمالی حقیقت یہ ہے:

وحدةُ الوجود کی اجمالی حقیقت یہ ہےکہ ممکنات کا وجود نظر سے غائب ہو جائے، یہ نہیں کہ ممکنات کو خدا مان لیا جائے۔ ابنِ منصور نے صاف تصریح کر دی ہے کہ ''اَنَا الْحَقُ'' کے معنیٰ یہ ہیں کہ میں کچھ نہیں، یہ معنیٰ نہیں کہ میں ہی سب کچھ ہوں۔

(23) احوال و کیفیات کے آثار:

ابنِ منصور نے فرمایا کہ انبیاء علیہم السّلام احوال و کیفیات پر غالب ہوتے ہیں اور ان کے مالک، وہ احوال و کیفیات کو پلٹ دیتے ہیں احوال ان کو پلٹ نہیں سکتے۔ انبیاء کے سوا دوسروں کی یہ شان ہے کہ ان پر احوال و کیفیات کی سلطنت ہوتی ہے، احوال ان کو پلٹ دیتے ہیں اور وہ احوال کو نہیں پلٹ سکتے۔ اسی طرح اولیاء میں جو کامل متّبعِ سنّت ہوتے ہیں وہ بھی انبیاء علیہم السّلام کی طرح احوال پر غالب ہوتے ہیں، مگر درجۂ کمال تک پہنچنے سے پہلے احوال و کیفیات ہی غالب رہتی ہیں۔

(24) ابنِ منصور سے غلبۂ حال کے وقت یہ کلمہ "أَنَا الْحَقُّ" بے ساختہ نکل جاتا تھا، اور انہوں نے تو معنٰی بھی بتلا دیئے کہ اپنی ہستی کا دعوٰی نہیں بلکہ فنا کا اظہار ہے کہ ایک کے سوا میری نظر میں کچھ نہیں، خود اپنی ہستی بھی کچھ نہیں ؎

دل ہو وہ جس میں کہ کچھ نہ ہو جلوۂ یار کے سوا

میری نظر میں خار بھی جامِ جہاں سے کم نہیں

(25) فرمایا کہ اولیاء فانی صفت ہوتے ہیں، یعنی ان میں نہ رنج اثر کرتا ہے نہ راحت۔ مطلب یہ کہ وصول کے بعد مجاہدہ مجاہدہ نہیں رہتا بلکہ غذا بن جاتا ہے۔ تمہارے نزدیک ہزار رکعت پڑھنا مجاہدہ ہے اور میرے نزدیک نہیں، کیونکہ یادِ محبوب میری غذا بن گئی ہے، میرے نزدیک جیل خانے اور خَس خانہ برابر ہے، کیونکہ اپنی صفات کا فنا اور صفاتِ محبوب کا مشاہدہ مجھے ہر جگہ حاصل ہے۔

(26) ترکِ تقلید:

حسین بن منصور کی عمر جب پچاس برس کی ہوئی، فرمایا کہ اب تک میں نے مذاہبِ مجتہدین میں سے کوئی مذہب اختیار نہیں کیا بلکہ جملہ مذاہب میں سے دشوار تر کو اختیار کیا ہے، کہ خروج من الخلاف احوط ہے، اور ایسی ترکِ تقلید بالاتّفاق مذموم نہیں، ترکِ تقلید وہ مذموم ہے جس کا منشا اتّباعِ رُخص ہے۔ اور اب کہ میری عمر پچاس سال کی ہے، ایک ہزار سال کی نمازیں پڑھ چکا ہوں اور ہر نماز غسل کر کے پڑھی، وضو پر اکتفاء نہیں کیا۔

(27) توکّلِ متعارف کا حال عدمِ اہتمامِ غذا ہے کہ اس چیز کی حرص نہ کرے، اللہ پر نظر رکھے، جو وہاں سے عطا ہو جائے لے لے۔

(28) فرمایا کہ فانی فی التّوحید ہو جاؤ، مشاہدۂ حق سے توکّل بھی کامل ہو جائے گا۔

(29) اپنے اعمال پر نظر نہ کرو:

فرمایا کہ اپنے اعمال پر نظر نہ کرو، اعمال کو مُوصِل نہ سمجھو، کیونکہ وصول وہبی ہے کسبی نہیں، گو عادتاً کسب ہی پر مرتّب ہوتا ہے مگر ترتیب یہ ہے کہ اپنے اعمال کو کامل نہ سمجھے، جب تک اعمال پر نظر رہے گی وصول میسّر نہ ہوگا۔

(30) عارف ہر وقت مشاہدۂ حق میں رہتا ہے:

فرمایا کہ عارف کی شان یہ ہے کہ عارف ہر وقت مشاہدۂ حق میں رہتا ہے، واردات کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ تفویضِ کُلّی کر دیتا ہے۔ اگر کسی وارِد کا حق ادا کرنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے، ادا کر دیتا ہے ورنہ نہیں۔

(31) فرمایا کہ محبوب کے عتاب سے بھاگنا محبّت و عشق کے خلاف ہے ؎

نہ شود نصیبِ دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت

سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی

چنانچہ جس شخص نے حسین بن منصور کے تازیانے مارے تھے اس نے یہ بیان کیا کہ ہر تازیانے پر غیب سے فصیح اور صاف آواز میں سنتا تھا کہ کوئی کہتا ہے کہ "یَا ابْنَ مَنْصُوْرٍ! لَا تَخَفْ، ھٰذَا مِعْرَاجُ الصَّادِقِیْنَ"۔

(32) ابنِ منصور جب سولی پر چڑھا دیئے گئے ان کے مریدوں نے پوچھا ہمارے بارے میں کہ آپ کے ماننے والے ہیں، اور منکرین کے بارے میں، جو آپ پر پتھر پھینکیں گے، آپ کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: ان کو دو ثواب ملیں گے اور تم کو ایک ثواب، کیونکہ تم کو مجھ سے حسنِ ظن ہے اور وہ توحید کی قوّت اور شریعت پر مضبوط رہنے کی وجہ سے یہ حرکت کریں گے، اور شریعت میں توحید اصل ہے اور حسنِ ظن فرع۔

ف: ''سُبْحَانَ اللہِ''! یہ جواب ہزار کرامات سے بڑھ کر ہے، جو مخلصِ صادق ہی کی زبان سے نکل سکتا ہے۔ یہاں سے ان صوفیوں کو سبق لینا چاہیے جو شریعت کی عظمت نہیں کرتے۔

(33) مشہور ہے کہ ابنِ منصور شیر پر سوار ہو جاتے اور سانپ کا تازیانہ بنا لیتے۔

(34) تصوّف کی حقیقت:

تصوّف کی حقیقت کتاب و سنت کی معرفت اور ظاہر و باطن کا ان سے رنگین ہونا ہے اور ورع و تقویٰ میں کمال حاصل ہونا ہے۔ احوال و کیفیات و کشفیات و الہامات نہ تصوّفِ اسلامی کا جزو ہیں نہ اس طریق میں مطلوب۔ ہر شخص کو اس کی تعداد کے موافق مجاہدات و ریاضات و کثرتِ ذکر و فکر و مراقبات سے حاصل ہوتے ہیں، پھر ان احوال و کیفیات میں بھی جو حالت اور کیفیت موافقِ سنّت ہو وہ افضل ہے اور جو سنّت کے موافق نہ ہو وہ مستحسن نہیں، گو صاحبِ حال پر ملامت بھی نہیں کہ اس میں معذور ہے۔ اسی طرح جو کشف و الہام نصوصِ شریعت کے خلاف نہ ہو مقبول ہے، ورنہ قابلِ ردّ ہے۔

(35) وحدةُ الوجود کا غلبہ کب ہوتا ہے؟

جب کوئی شخص اللہ کی طلب میں مجاہدہ و ریاضت کرے گا اور ہر وقت اس کے دھیان میں رہے گا، اس پر فنا اور وحدة الوجود کی کیفیت کا غلبہ ضرور ہوگا، بلکہ محبوبِ مجازی کی محبّت بھی جب زیادہ غالب ہوگی اس میں بھی یہ کیفیت ظاہر ہوگی۔ چنانچہ مجنوں کو لیلیٰ کی محبت میں درجۂ فنا حاصل تھا، اور اس سے آگے بڑھا تو وحدة الوجود کی کیفیت طاری ہوگئی کہ جب کوئی پوچھتا کہ لیلیٰ کہاں ہے، کہتا کہ میں ہی لیلیٰ ہوں۔

(36) احسان کی تعریف اور اس کے تحصیل کا طریق:

احسان ظاہر اور باطن یعنی اسلام اور ایمان کی حقیقت اور روح ہے، اسی کی تکمیل اور تحصیل کا نام تصوّف ہے، جو بدون کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کی مُتابَعتِ کاملہ کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ دوسری عبارت میں یوں سمجھیے کہ علم عمل سے مقرون ہے اور عمل اخلاق سے مقرون ہے، اور اخلاق کے معنٰی یہ ہیں کہ علم و عمل سے اللہ تعالیٰ ہی کی رضا مقصود ہو۔ بس تصوّف کی حقیقت اخلاص کی تحصیل و تکمیل ہے اور بدون ترک اور قطعِ علائق مانعہ کے اخلاص کا وہ رتبہ حاصل نہیں ہو سکتا جس کو حدیث میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہے۔

(1)کام میں لگا رہنا چاہیے اگر چہ ساری عمر کامیابی نہ ہو:

ارشاد فرمایا کہ دین کے کام میں اگر کسی نے کوشش کی اور کامیاب بھی ہو گیا، دوسرے نے کوشش کی لیکن نا کامیاب رہا، تو دونوں کو ثواب برابر ملے گا۔ بلکہ عجب نہیں کہ ایسے ناکامیاب کا اجر کہ جس نے کوشش میں کمی نہیں کی، اس کامیاب سے بڑھ جائے۔ چنانچہ مشکوة میں حدیث ہے: "عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَلْمَاھِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ الْکِرَامِ الْبَرَرَةِ وَ الَّذِيْ یَقْرَءُ الْقُرْآنَ وَ یَتَعْتَعُ فِیْہِ وَ ھُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَّہٗ أَجْرَانِ'' (متفق علیہ) اس کے بعد حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ وہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہم سے لگاؤ کس کو ہے، بس اس کی قدر ہے۔ لہٰذا کام میں لگا رہنا چاہیے، اگرچہ ساری عمر کامیابی نہ ہو۔

(2) شاغلِ ذکر کیا کرے جب کوئی کام یاد آ جائے:

اگر ذکر کے اندر کوئی کام ایسا یاد آ جائے جس کا انجام دینا فوراً مناسب ہو تو دیکھنا چاہیے کہ ایسا اتفاق کبھی کبھی ہوتا ہے یا اکثر، اگر کبھی کبھی ہو تو پہلے اس کام کو کرے اس کے بعد اپنا معمول ادا کرے۔ اور اگر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ذکر کرنے بیٹھتا ہے تب ہی کوئی نہ کوئی کام یاد آتا ہے تو ایسی حالت میں ہرگز ذکر کو ترک نہ کرے، بلکہ اس کو وسوسہ سمجھے اور اپنا وِرد پورا کرنے کے بعد اس کام کو انجام دے لے۔

(3) مرضِ باطن کی تعریف یہ ہے کہ وہ معصیت ہو اور جو معصیت نہیں وہ مرضِ باطن ہی نہیں۔ مثلًا حبِّ دنیا کو جب مرض کہا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حبِّ دنیا کی ہر قسم مرض ہے، بلکہ حبِّ دنیا کی ایک قسم معصیت ہے۔ مثلاً روپے پیسے کی اتنی محبّت ہونا کہ اس کے پیچھے حلال و حرام کی تمیز نہ رہے، یہ معصیت ہے۔ اور حبِّ دنیا کی یہی قسم مرضِ باطن ہے۔ اسی طرح حرص کے تمام اقسام مرضِ باطن میں داخل نہیں، بلکہ جو قسم معصیت ہے، مثلاً کسی منکر اور منہی عنہ چیز کی حرص ہو، یہ مرض باطن ہے۔ اور کسی حلال چیز کی حرص ہو تو وہ لغۃً حرص ہو گی، مگر حرص کی اس قسم کو امراضِ باطنہ میں داخل نہیں کریں گے۔

(4) فرمایا کہ مؤمن تو کبھی اندیشہ سے خالی نہیں رہ سکتا، کیونکہ اندیشہ کا گھٹنا تو بے فکری ہے جو مفضی الی الکفر ہو جاتی ہے۔

(5) عقیدت کی تعریف:

فرمایا کہ آج کل لوگ بزرگوں کی صحبت میں تو رہتے ہیں، مگر جیسی عقیدت ان بزرگوں سے ہونا چاہیے وہ نہیں ہوتی۔ اسی لیے شیخ کے علوم ان کو عطا نہیں ہوتے۔ عقیدت تو یہ ہے کہ بزرگوں کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے کو فنا کر دے۔ اور ایسی فنا کی تحصیل کا طریقہ یہ ہے کہ اوّل اوّل بہ تکلّف اپنی رائے کو شیخ کی رائے کے مقابلہ میں فنا کرے، یعنی ہیچ سمجھے۔ پھر چند روز بعد یہ تکلّف حال بن جائے گا۔

(6) بدگمانی کی صورت میں احتیاطِ کاملہ کرنا جائز ہے:

فرمایا کہ بلاوجہ کسی کی طرف سے بدگمانی کرنا ناجائز ہے، مگر بدگمانی کے ناجائز ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ دنیا بھر کو سچا ہی سمجھتا رہے۔ بلکہ اگر کسی کی کوئی بات دل قبول نہ کرے اور اس کے قول کے سچا ہونے میں کسی وجہ سے شبہ پیدا ہو جائے، تو وہاں پر گناہ سے بچنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس قائل کو یقیناً جھوٹا نہ سمجھے، لیکن احتمال پیدا ہو جائے، جس سے معاملہ احتیاط کا کرے۔

7۔ بدگمانی کا علاج اور احتیاط:

فرمایا کہ تم کو جو لوگوں کے متعلق یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے اندر فلاں فلاں عیب ہے، اگر تم اس کا یقین نہیں کر لیتے، نہ اس بدگمانی کے مضمون کو زبان سے بیان کرتے ہو، نہ اس شخص کے ساتھ برتاؤ ایسا کرتے ہو جیسا کہ تم کو اپنے متعلق گمان ہوتا ہے، اگر ان تینوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ ہو تو پھر تم پر مؤاخذہ نہیں۔

(8) تجربہ سے معلوم ہوا کہ شیخ کی بعض تدابیر اور تعلیم سے طالبین کی اصلاح نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے شیخ میں برکت کی ضرورت ہے۔ اور اس برکت کا حصول تو محض منجانب اللہ تعالیٰ ہے، بندہ کے اختیار میں نہیں۔

(9) شیخ کی رعایت و ترجیح اعلیٰ درجہ کی حالت اور جامع بین الحبّ و العقل ہے اور یہ جامعیت سنّت ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کی کہ اپنی محنت کو عقل سے مغلوب رکھتے تھے۔

(10) فرمایا کہ یقیناً جو بُعدِ جسمانی قُرب روحانی کا سبب بن جائے وہ قربِ کامل کی فرد ہے، اگرچہ بصورت بُعد ہے۔

(11) جو واقعہ اور حادثہ بلا اختیارِ عبد پیش آئے وہ سب خیرِ محض اور مصلحت سخت ہے۔ گو وہ خیر اور مصلحت صاحب واقعہ کی سمجھ میں نہ آئے ”در طریقت ہر چہ پیشِ سالک آید (نہ کہ آرد) خیر اوست۔“

(12) فرمایا کہ تمام احیاء و اموات کے لیے دعا کرنی چاہیے، بلکہ اپنے لیے دعا کرنے سے افضل ہے۔ داعی کے لیے فرشتے دعا مانگتے ہیں "وَ لَکَ مِثْلُہٗ"۔ چنانچہ حضرت والا نے ایک صاحب کو ایک مرتبہ یہ دعا بتلائی تھی: "اَللّٰھُمَّ کُلُّ خَیْرٍ لِکُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ"۔

(13) فرمایا کہ دوسروں کے قول سے ایسی بے تعلّقی کہ قادر ہو کر منکرات سے روک ٹوک نہ کرے مطلوب نہیں، صرف غیر قادر کو تصدّی نہ چاہیے۔

(14) غیر اختیاری خیالات چونکہ مضرّ نہیں ہیں اس لیے ان کا دفع کرنا بھی ضروری نہیں، صرف تکلیف دہ ہوتے ہیں، جس کی تدبیر بتلانا مصلحِ دین کا کام نہیں، اگر تبرّعاً اس سے تدبیر پوچھی جائے تو وہ تدبیر صرف یہ ہے کہ ایسے خیالات کی پرواہ نہ کی جائے۔ اگر اس پر بھی دفع نہ ہوں تو عمر بھر صبر کرنے کے لیے آمادہ ہو جانا چاہیے۔ اگر کسی کو دمہ کی بیماری ہو جائے تو اس کا نسخہ بتلانا شیخ کا کام نہیں، اور اگر وہ اپنے تجربہ سے کچھ بتلا بھی دے مگر وہ نافع نہ ہو تو وہ ذمّہ دار نہیں۔

(15) انفعالات غیر اختیاری ہوتے ہیں اور کوئی غیر اختیاری مقصود نہیں، گو محمود ہوں، ان کے ساتھ یہ معاملہ رکھنا چاہیے: ﴿لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَا آتَاكُمْ...﴾ (الحديد:23)

(16) ذکر میں راجح کیا ہے؟ ذکر میں راجح فی نفسہٖ خفی ہے، بعض مصالح کی بناء پر جہرِ غیر مُفرط بھی مطلوب ہے، اور مغلوبیت میں مُفرط بھی عفو ہے۔

(17) طریق و وسائل میں تحمّلِ تعب نہ مجاہدہ ہے نہ موجبِ اجر:

طریق و وسائل میں تعب بلا ضرورت قصداً برداشت کرنا نہ مجاہدہ ہے نہ موجب اجر۔ مثلاً مسجد کے حمام میں سردی کے زمانے میں گرم پانی موجود ہو اور حوض میں ٹھنڈا پانی بھی موجود ہو تو گرم پانی چھوڑ کر حوض سے وضو کرنا مجاہدہ اور ثواب نہیں۔ ہاں مقاصد میں تعب برداشت کرنا مطلقاً موجبِ ثواب ہے۔ مثلاً نماز کو طویل رکوع و سجود سے ادا کرنا ہر حال میں مجاہدہ و ثواب ہے، جبکہ تنہا نماز پڑھ رہا ہو۔ کیونکہ امام کو تخفیفِ صلوٰۃ کا حکم ہے۔ اسی طرح فرض نماز کو جماعت سے ادا کرنا مجاہدہ اور موجبِ اجر ہے، گو جماعت سے ادا کرنے میں تعب ہوتا ہو۔ بشرطیکہ تعب تحمّل سے زیادہ نہ ہو، اور دوسروں کی پریشانی کا سبب نہ ہو، کیونکہ یہ امور مقاصد میں سے ہیں۔ مثلاً اپنے اوراد کا ایسا پابند ہونا کہ سفر میں رفقاء کی پریشانی کا خیال نہ کرنا شرعاً غیر محمود ہے، کیونکہ رفقاء کی رعایت مقدّم ہے اپنے معمولات کی رعایت سے۔

(18) حضرت والا کی رائے متعلّق احکامِ جمعہ:

مسئلہ مجتہد فِیہ ہے، اور مجتہد فِیہ میں کسی جانب قطع نہیں ہو سکتا صرف ترجیح ہوتی ہے، اور وجوہِ ترجیح میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں بھی باوجود اتحادِ منشائے قولین (یعنی احتیاط) کے، صورتِ احتیاط میں اختلاف ہو گیا۔ بعض نے جمعہ کو احتیاط سمجھا "لِأَنَّ فِیْہِ التَّیَقُّنَ بِبَرَاءَۃِ الذِّمَّۃِ" اور بعض نے وجوہِ اشتباہ کے ضُعف کی بناء پر جمعہ کو عمل کے لیے اختیار کر کے عوام کے لیے ترکِ ظہر کو احتیاط سمجھا "لِأَنَّ فِیْہِ صَوْنًا بِعَقَائِدِ عَوَامِّ الْأُمَّۃِ"۔ اور خواص میں کسی محذور کے متحمّل نہ ہونے کے سبب ان کو دونوں احتیاطوں کے جمع کرنے کا طریق بتلا دیا، یہ تنقیح ہے اختلاف کی۔ اب احقر اپنا مسلک عرض کرتا ہے کہ میں اپنے ذوق سے (جو کہ مُستَفاد ہے کلّیاتِ شرعیہ سے) عقیدہ کی احتیاط کو عمل کی احتیاط سے اہم سجھتا ہوں، لہٰذا عوام کے لیے عملِ جمع کو اور علمِ جمع (یعنی خواص کی جمع کی اطلاع) کو خلافِ احتیاط سمجھتا ہوں۔ اور جمع میں مانعین کی طرف سے جو شبہات ہیں ان میں جماعتِ ظہر کے شبہ کو بہت قوی اور اس کے جواب کو ضعیف سمجھتا ہوں۔ اور جمعہ کا جامعِ جماعات ہونا تیقّنِ صحتِ جمعہ کی صورت میں ہے۔ اور جب ہر شقّ میں احتیاط ہی احتیاط پر عمل ہے تو ظہر کی ترکِ جماعت، جس میں ترکِ واجب کا شبہ ہے، کیا خلافِ احتیاط نہیں؟

(19) فرمایا کہ جو کہا جاتا ہے کہ بلا مجاہدہ تصرّف کے ذریعہ سے دفعۃً حصولِ کمال ہو جاتا ہے وہ کمال نہیں، بلکہ ایسے تصرّف سے کچھ کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں جو مقصود نہیں۔ کیونکہ ان سے قربِ الٰہی حاصل نہیں ہوتا جو کہ مقصود ہے۔ پھر یہ کیفیات بھی جو کہ توجّہ سے پیدا ہوتی ہے دیرپا نہیں ہوتیں، تیسرے ایسی توجّہ سے بوجہ ضعفِ قوٰی طبعیہ بعض مرتبہ کوئی ضررِ جسمانی پہنچ جاتا ہے۔

(20) فرمایا کہ ایسا کوئی نہیں جس کو بلا مجاہدہ حصولِ کمال ہوا ہو ''إِلَّا مَا شَاءَ اللہُ'' لہٰذا سالک کو چاہیے کہ صبر و استقلال و یکسوئی کے ساتھ اپنے شیخ کی تعلیمات پر عمل کرتا رہے، جب وقت آئے گا تو مقامات و احوال میں سے جو کچھ اس کے لیے مناسب ہوگا وہ خود اس کو عطا ہو جائے گا۔

(21) فرمایا کہ دیکھیے کہ ایک ہی بات ہوتی ہے کہ کسی کے کلام میں کچھ اثر رکھتی ہے اور کسی کے کلام میں کچھ۔ اگر کوئی کسی کافر کا نام لے زبان خراب کرنا کہا جائے گا، لیکن قرآن میں بعض کفّار کا نام آیا ہے، جیسے: فرعون، قارون، ہامان وغیرہ، تلاوت میں جب ان کا نام آتا ہے تو بجائے زبان خراب ہونے کے فی حرف دس نیکیاں ملتی ہیں۔

(22) قرآن کو تدبیر کے ساتھ پڑھنا چاہیے:

فرمایا کہ لوگوں کو شکایت ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہی ہے کہ قرآن گو پڑھتے ہیں مگر تدبّر کے ساتھ نہیں پڑھتے، صرف الفاظ پڑھ لیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اثر کے لیے صرف شئ نافع کا وجود کافی نہیں، بلکہ وجود مع الشرائط ہونا چاہیے۔

(23) ہمارے اعمال من کلّ الوجوہ ہماری قدرت میں نہیں، صرف آلات ہمارے اختیار میں ہیں۔ پس ہمارے اعمال بھی (جو موقوف ہیں آلات پر) من کلّ الوجوہ ہماری قدرت میں نہ ہوں گے۔

(24) ہر علم کا معلوم جدا ہوتا ہے:

فرمایا کہ علم کا شرف معلوم کے شرف پر موقوف ہے، اور معلوم اس کو کہتے ہیں جس کے حالات اس علم میں بیان کئے جائیں، اور ہر علم کا معلوم جدا ہوتا ہے، جس علم کا معلوم جس درجہ میں ہے اسی درجہ میں علم بھی ہوتا ہے۔ مثلاً علمِ فلاحت کا معلوم زراعت یعنی کھیتی کرنا ہے، اور کَنّاسی کا معلوم پاخانہ ہے، جو نسبت ان دونوں معلوموں میں ہے، یعنی کھیتی اور پاخانہ میں، وہی نسبت ان کے علموں میں بھی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ پاخانہ نجس اور ارذل چیز ہے اور زراعت صاف ستھری اور ذی شرف چیز ہے، لہٰذا علمِ کَنَّاسی ارذل ہوگا اور علمِ فلاحت اشرف، اور علمِ کَنّاسی علمِ فلاحت کے سامنے علم کہلانے کا مستحق بھی نہ ہوگا۔ اسی طرح علمِ دین کا معلوم حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور احکام ہیں، تمام علمِ دین کا حاصل یہی ہے، اور دیگر تمام علوم کا معلوم دنیا یا ما سوی اللہ ہے، پس جو نسبت دنیا یا ما سوی اللہ کو حق تعالیٰ کے ساتھ ہے وہی نسبت علومِ دُنیویہ کو ہوگی علمِ دین کے ساتھ۔ اور اس نسبت کے متعلق بجز اس کے کیا کہا جا سکتا ہے ؎

چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک

حق تعالیٰ کی ذات و صفات کو تو کسی چیز کے ساتھ کچھ نسبت نہیں دی جا سکتی۔ وہ باقی اور سب فانی، وہ زندہ اور سب مردہ، وہ غنی اور سب محتاج، وہ موجود اور سب چیزیں معدوم ﴿كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهٗ﴾ (القصص: 88)۔ غرض دونوں چیزوں میں کوئی نسبت نہیں قرار دی جا سکتی۔ سوائے اس کے کہ علمِ دین پر موجود کا اطلاق کیا جائے اور دیگر علوم پر معدوم کا۔ اب میرا دعویٰ قریبُ الفہم ہو گیا ہوگا کہ علومِ دین کے سامنے دیگر علوم علم کہلانے ہی کے مستحق نہیں، مقابلہ تو کیا کیا جائے۔ علومِ دنیا کو علم مت کہو۔ فن کہو، پیشہ کہو، حِرفت کہو۔

(25) جو چیزیں مفید ہوں ان کے سیکھنے کی اجازت ہے، لیکن موجبِ فضیلت اور جزوِ دین نہ کہو۔ دیکھیے پڑوسی کے بھی حقوق ہوتے ہیں جن کو سب دنیا مانتی ہے، لیکن اس بات کو کوئی عقل مند جائز نہیں رکھتا، نہ شریعت یہ تعلیم دیتی ہے کہ اس کو باپ بنا لو، اس کو میراث دو۔ ہاں یہ حکم ضرور ہے کہ اس کا ہر بات میں جائز لحاظ کرو اور قدر کرو، اس کو احتیاج ہو اس کی مدد کرو، لیکن اس کی حد رکھو، جو پڑوس کے لیے مناسب ہے، ذوی القربٰی پر مقدّم نہ کرو، اسی طرح ان تمام چیزوں کو جو مفید ہیں سیکھنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ حدود کے اندر ہوں۔ لیکن ان کو کوئی امرِ شرعی یا باعثِ فضیلت اور جزوِ دین مت کہو۔

(26) عزم کی تعریف:

عزم کہتے ہیں ارادۂ قویّہ کو، یعنی ایسا پختہ ارادہ ہو کہ چاہے کیسا ہی عارض پیش آئے، بشرطیکہ اختیار باقی رہے، اس ارادہ میں زوال نہ ہو۔

(27) فرمایا کہ انتفاع بالقرآن کی دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ دین کا علم ہو، دوسرے یہ کہ عمل کرنے کا پختہ قصد ہو۔ علم سے سیدھا راستہ معلوم ہوگا اور عزم سے اس راستہ پر چلنا نصیب ہو سکے گا۔

(28) فرمایا کہ بس نیکی کرتے رہو کسی کو ستاؤ مت، یہی دین ہے۔

(29) فرمایا کہ دین کا کوئی جزو بھی زائد نہیں، حتّٰی کہ مستحبّات بھی اپنے درجہ میں غیر زائد ہیں۔ گو اتنا تفاوت ہے کہ واجبات کی کمی میں خسران ہے اور مستحبّات کی کمی میں نقصان و حرمان۔

(30) مستحبات بھی قابل احترام ہیں:

فرمایا کہ اگر آپ کو مستحبّات کے ثمرات معلوم ہو جائیں تو ان کا بھی کافی اہتمام کرنے لگیں۔ گو یہ حق تعالیٰ کی رحمت ہے کہ مستحبات سے ضرورت کو اٹھا لیا، اس وجہ سے کہ ہم لوگوں میں ہمّت کم ہے، اگر سب کو فرض کر دیا جاتا تو غالباً ہم مستحبّات ہی کو نہیں بلکہ فرائض کو بھی چھوڑ دیتے۔ یہ مانا کہ ضرورت کو اس سے اٹھا لیا گیا، مگر جو ثمرات اور درجات ان مستحبات پر ہیں، وہ بھی تو بِلا ان کے نہ ملیں گے۔ مستحبّات کی مثال احکام کے اندر ایسی ہے جیسے دعوت کے کھانوں میں چٹنی کو، چٹنی کسی معنی کو زائد کرنا ہی ہے، نہ اس پر بقائے حیات موقوف ہے اور نہ پیٹ بھرنا موقوف ہے۔ پھر دیکھیے! چٹنی کا بھی کتنا اہتمام ہوتا ہے کہ فرمائش کر کے چٹنی منگائی جاتی ہے۔ صرف فرائض و موکّدات ادا کر لینے سے ضرورت کا مرتبہ تو پورا ہو جائے گا اور آخرت میں عذاب بھی نہ رہے گا، لیکن بِلا مستحبّات کے جنّت سُونی سُونی رہے گی، اس کا جنّت کا حصہ دوسروں کے حصہ کی نسبت ایسا رہے گا جیسا کہ کم درختوں کے باغ زیادہ درختوں والے باغ کے سامنے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیغام جو شبِ معراج میں حضور کی معرفت پہنچایا گیا ہے "أنَّ الجنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ ، و أنَّهَا قِيْعَانٌ، وَ أَنَّ غِرَاسَهَا سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَ لَا إلٰهَ إلَّا اللَّهُ وَ اللّٰهُ أَكْبَرُ" (الترمذی، رقم الحدیث: 3462)۔ اس میں تعلیم ہے کہ فرائض پر بس مت کر لینا، آگے بھی ہمت کرنا۔ غرض مستحبّات اہتمام کے قابل چیزیں ہیں، زوائد نہیں ہیں۔ جب کہ مستحبّات بھی زوائد نہیں تو فرائض و واجبات کا کیا پوچھنا۔ پھر دین میں اختصار کیسے ہو سکتا ہے۔

(31) فرمایا کہ عاشق کو جو تکلیف محبوب کی طرف سے پہنچے تکلیف ہی نہیں بلکہ سراسر راحت ہے۔ اسی طرح اگر تعلّق مع اللہ صحیح معنوں میں پیدا ہو گیا تو تمام احکامِ خداوندی بجا لانے میں لذّت ہی لذّت آئے گی، اور کوئی بھی تکلیف محسوس نہ ہوگی۔

(32) صحابہ رضی اللہ عنہم کو مجاہدات کی حاجت نہ تھی:

فرمایا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو مجاہدات کی حاجت نہ تھی، کیونکہ اوّل تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی استعداد قوی، پھر حضور کا فیضِ صحبت۔ اسی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی وہ شان تھی جیسا کہ کسی نے کہا ہے ؎

آہن کہ بہ پارس آشنا شد

فی الحال بصورت طلا شد

جیسے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو بوجہ قوّتِ استعداد اور فیضِ صحبتِ رسولِ اکرم نفس کشی کے لیے مجاہداتِ شاقّہ کی ضرورت (جیسا کہ بزرگانِ سلف سے منقول ہیں) نہ تھی۔ اسی طرح بوجہ قوّتِ تحمّل ایسے مجاہدات کی ضرورت اب اس زمانہ میں نہیں۔ کیونکہ ایسے مجاہدات کی وجہ سے صحّت خراب ہو کر جو کچھ اعمال اس سے پہلے ہو جاتے تھے وہ بھی ترک ہو جاتے ہیں، حالانکہ اصل چیز اعمال ہی ہیں۔ مجاہدات و ریاضات تو ان کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ اور حق تعالیٰ کا فضل اس پر موقوف نہیں کہ اس زمانہ میں بھی بزرگانِ سلف کی طرح شدید مجاہدے کیے جائیں، بلکہ اس زمانہ میں حق تعالیٰ کا فضل بقدر اپنے امکان کوشش کرنے سے متوجّہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے اب جس کو جتنا امکان ہو اتنا ہی مجاہدہ اس کے لیے کافی ہے، البتّہ اتّباعِ شریعت وہ ہر شخص کے لیے ہر زمانہ میں یکساں ضروری ہے، بغیر اس کے وصول الی اللہ نہیں ہو سکتا۔

(33) ثمرۂ آجلہ و ثمرۂ عاجلہ کی حقیقت و مثال:

فرمایا کہ ذکر کے دو ثمرے ہیں: ایک ثمرۂ آجلہ، دوسرے ثمرۂ عاجلہ۔ ثمرۂ آجلہ تو رضائے حق ہے، اور وہ رضا ذکر سے حاصل دنیا ہی میں ہو جاتی ہے مگر ظہور اس ثمرہ کا آخرت میں ہوگا، اور ثمرۂ عاجلہ احوال و کیفیات ہیں، جیسے ذوق و شوق و یکسوئی وغیرہ، تو ذکر سے اس کا حاصل ہونا غیر یقینی ہے۔ اور جس ثمرہ کے مرتّب کرنے کا حق تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے وہ ثمرہ صرف ثمرۂ آجلہ یعنی رضائے حق ہے۔ باقی رہے ثمراتِ عاجلہ سو ان کا نہ حق تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے نہ ان کا حاصل ہونا یقینی ہے، پھر اس کے حاصل نہ ہونے پر تنگ دل ہونا کیسا؟ اس کی مثال تو ایسی ہوئی کہ جیسے کوئی شخص کسی کی دعوت کرے کہ تمہاری فلاں دن دعوت ہے اور جب وہ دن دعوت کا آئے اور یہ مہمان اس کے پاس جائے تو وہ اس کی بہت خاطر کرے اور خوب اچھے اچھے کھانے کھلائے، اور جب یہ کھانا کھا چکے اور میزبان کے پاس سے رخصت ہونے لگے تو بجائے اس کے کہ اپنے میزبان کا شکریہ ادا کرے، الٹی شکایت کرنے لگے کہ آپ نے مجھے کھانا تو کھلایا مگر کچھ نقد تو دیا نہیں، تو ظاہر ہے کہ ہر شخص اس مہمان ہی کو ملامت کرے گا کہ نقد کا اس نے وعدہ ہی کب کیا تھا، جو تو اس کے نہ ملنے پر میزبان سے شکایت کرتا ہے۔ اسی طرح جب حق تعالیٰ نے ایک شخص پر اتنا احسان فرمایا کہ اس کو ایک ایسے عمل کی توفیق عطا فرمائی کہ جس سے وہ حق تعالیٰ کی رضا کا مستحق ہو گیا، تو اس پر یہ واجب ہے کہ حق تعالیٰ کا شکریہ ادا کرے، نہ یہ کہ دوسری چیزیں (جن کا حق تعالیٰ کی طرف سے وعدہ بھی نہ تھا) نہ ملنے کی وجہ سے تنگدل ہو اور حق تعالیٰ کی شکایت کرے۔

(34) ہیبت کا اوّل و دوم و سوم درجہ:

فرمایا کہ وہ ہیبت جس کا سبب محبّت ہو وہ اعلیٰ درجہ کی ہیبت ہے، اور وہ ہیبت جس کا سبب عظمت ہو یہ دوسرا درجہ ہے، اور تیسرا درجہ جو سب سے گھٹیا ہے وہ یہ ہے کہ ہیبت کا سبب احتمالِ ضرر ہو۔

(35) فرمایا کہ اس طریق باطن میں مقصود اعمال ہیں باقی رہے حالات اور مکاشفات اور تصرّفات، سو یہ مقصود نہیں، نہ ان کا حصول اختیاری ہے اور نہ ان کے عدمِ حصول سے سالک کا کچھ ضرر، بس اصل چیز اعمال ہیں۔ بغیر ان کے ایک قدم بھی راستہ طے نہیں ہو سکتا ؎

خلافِ پیمبر کسے رہ گزید

کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید

(36) طریق میں اصل چیز اعمال ہیں:

فرمایا کہ وصول مقصود نہیں بلکہ قبول مقصود ہے، اور قبول بغیر اعمال کے ہوتا نہیں، لہٰذا اصل چیز اعمال ہوئے، بس ان کی فکر میں لگنا چاہیے۔

(37) فرمایا کہ قبر میں جس چیز سے رونق حاصل ہو (یعنی حق تعالیٰ کی محبّت) بس اس چیز سے یہاں بھی رونق بڑھانی چاہیے، لہٰذا جس شخص کے اندر جو بات قابلِ اصلاح ہو اس کی اصلاح کی طرف سے بے پروائی نہ کرنا چاہیے، خواہ مجمع گھٹے یا بڑھے۔

(38) مرید کو شیخ سے نفع باطن حاصل ہونا:

فرمایا کہ مرید کو شیخ سے نفع باطنی حاصل ہونے کی یہ بھی شرط ہے کہ اس کو شیخ سے اعتقاد ہو اور شیخ کو اس مرید کی طرف سے تکدّر نہ ہو۔ غرض کہ تکدّرِ شیخ یا مرید کے اعتقاد میں خلل، ان دونوں کا نتیجہ مرید کے لیے محرومی ہے۔ اگر مرید کو شیخ کے کسی فعل پر کوئی شبہ ہو جائے تو مرید کو چاہیے کہ اپنے اس شبہ کو حل تو کرے مگر اپنے شیخ سے حل نہ کرے، بلکہ شیخ کے متعلقین میں سے کسی سمجھ دار شخص سے اس شبہ کو بیان کرے، اور اس سے اس شبہ کو حل کرے، تاکہ مرید کی طرف سے اس کے شیخ کا قلب مکدّر نہ ہو۔ اور اگر وہ شبہ محض وسوسہ کے درجے میں ہو اور وہ وسوسہ خود بخود دفع ہوگیا اور طالب نے اس وسوسہ کے مقتضا پر عمل بھی نہیں کیا تو ایسے وسوسہ کو شیخ سے کہنا اس طالب کے لیے مضرّ نہیں، مگر بِلا ضرورت مفید بھی نہیں، بلکہ اولیٰ یہی ہے کہ اس کو بالکل نیست و نابود کر دیا جائے۔ اور اگر اس وسوسہ سے طالب کی طبیعت میں یہ اثر ہوا کہ اتار چڑھاؤ ہونے لگا، گویا کہ اس وسوسہ کو ایک گونہ رائے کا درجہ حاصل ہوگیا، اور وہ وسوسہ اس کو ناگوار بھی نہیں ہوا، اور جب تک اس وسوسہ کو دلائل سے دفع نہیں کیا گیا وہ وسوسہ دفع بھی نہیں ہوا، تو اگرچہ اس وسوسہ کے مقتضا پر عمل نہیں ہوا، اور گو یہ درجہ بھی وسوسہ کا غیر اختیاری ہے، نیز اس وسوسہ کے غیر اختیاری ہونے کی وجہ سے طالب پر آخرت میں مؤاخذہ بھی نہ ہوگا، مگر اس وسوسہ کو شیخ سے کہنا مناسب نہیں، بلکہ خلافِ ادب اور موجبِ تکدّرِ شیخ ہے۔

اس کے بعد حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ جب یہ ایک وسوسہ ہے اور غیر اختیاری ہے تو پھر شیخ پر طالب کے اس وسوسہ کے اظہار سے شیخ کے تکدّر کی کیا وجہ، تو ایک باریک بات ہے لہٰذا اس کو ایک مثال سے سمجھیے، وہ مثال یہ ہے کہ مثلاً ایک باپ نے بیٹے کو اس کی بدتمیزی پر ڈانٹا، جب باپ ڈانٹ چکا اور باپ کا غصہ فرو ہو گیا تو اس کے بعد بیٹے نے باپ سے کہا کہ ابّا جس وقت آپ مجھ کو میری بد تمیزی پر ڈانٹ رہے تھے تو میرے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ میں آپ کو قتل کر دوں، مگر وہ وسوسہ دفع ہو گیا تھا، تو گو وہ باپ جانتا ہے کہ میرے بیٹے کا یہ ارادہ نہیں ہے کہ مجھ کو قتل کر دے بلکہ صرف یہ ایک وسوسہ ہے جو اس کے دل میں آیا ہے اور غیر اختیاری ہے اور اس وسوسہ کی وجہ سے میرے بیٹے کو کچھ گناہ بھی نہ ہوگا، مگر باوجود ان سب باتوں کے، ذرا سوچیے اور غور کیجیے کہ کیا اس باپ کو اس سے ناگواری نہ ہوگی؟ ضرور ناگواری ہوگی۔ اور باپ کو یہ خیال ہوگا کہ یہ کمبخت تو خطرناک ہے، ساری عمر اس کی صورت نہ دیکھنی چاہیے۔ تو جب اس باپ کو بیٹے کی یہ بات سن کر ناگواری ہوگی، تو اگر یہ وسوسہ شیخ کے لیے موجبِ تکدّر ہو تو کیا تعجّب کی بات ہے۔

(39) بزرگوں کے ساتھ اعتقاد:

فرمایا کہ آج کل لوگوں میں نہ بزرگوں کے ساتھ اعتقاد ہے اور نہ بزرگوں کا ان کے قلب میں ادب ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ساری عمر ان بزرگوں کے فیضِ باطنی سے محروم رہتے ہیں۔ اس پر ایک اہل علم نے عرض کیا حضرت بزرگوں کا ادب حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ طریقہ یہ ہے کہ ان بزرگوں کے صاحبِ برکت ہونے کا اعتقادِ کامل کرے، اور یہ اعتقاد رکھے کہ میرے اندر جو نقائص ہیں ان کی اصلاح ضروری ہے، اور وہ اصلاح ان بزرگوں ہی سے کرانا ہے۔ تیسرے یہ عزم رکھے کہ ان بزرگ کی طرف سے میرے ساتھ خواہ کیسا ہی برتاؤ ہو، مگر میں برابر ان کی دل جوئی اور ان کی اطاعت کرتا رہوں گا۔ اگرچہ اس کے دل میں ان بزرگ کے متعلّق کچھ وساوس آئیں مگر ان امورِ مذکورہ بالا کا پتہ تو رہے تو ''إِنْ شَاءَ اللہُ تَعَالٰی'' اس کو بزرگوں کا ادب حاصل ہو جائے گا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ یہ وسوسے بھی اکثر اس وقت تک آتے ہیں کہ جب تک کمالِ فنا حاصل نہیں ہوتا۔ جب کمالِ فنا حاصل ہو جاتا ہے تو وسوسے بھی پیدا نہیں ہوتے۔

(40) فرمایا کہ تربیّت کی حقیقت تحقیق نہیں بلکہ علاج ہے، لہٰذا تربیّت کے ساتھ وہ معاملہ کرنا چاہیے جو تحقیق کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی اگر کوئی بات فی نفسہٖ جائز ہو، لیکن اگر ہم اس بات کی مخاطب کو اجازت دیتے ہیں تو اندیشہ ہوتا ہے کہ اس اجازت پر عمل کرنے سے وہ حدود سے نکل جائے گا اور اس کے اخلاق خراب ہوں گے اور اس کو اپنے مرضِ باطن سے (جس کا وہ علاج ہم سے کرا رہا ہے) شفاء نصیب نہ ہو گی، تو ہم کو چاہیے کہ ایسی بات کی بھی اس شخص کو اجازت نہ دیں، ورنہ تربیّت نہیں ہو سکتی۔ مثلاً طالب تکبّر کا علاج کرا رہا ہے تو شیخ کو مناسب نہیں کہ بزرگوں کے مقولے: "اَلتَّکَبُّرُ عَلَی الْمُتَکَبِّرِ صَدَقَۃٌ" (بريقة محمودية) کے مقتضا پر عمل کرنے کی اجازت دے۔

(41) شیخ کی اتّباع ضروری ہے:

فرمایا کہ شیخ اپنے مرید کو جب تک کسی خلافِ شرع بات کا حکم نہ دے اس وقت تک اس کو اس حکم میں شیخ کا اتّباع چاہیے، پھر فرمایا کہ خلافِ شرع سے مراد حرام اور مکروہ تحریمی ہے۔ باقی رہا خلافِ اولیٰ سو وہ مراد نہیں، یعنی اگر شیخ اپنے مرید کو کسی خلافِ اولیٰ کا حکم دے تو مرید کو چاہیے کہ اس حکم میں اپنے شیخ کی مخالفت نہ کرے بلکہ اس حکم کو بجا لائے، گو وہ خلافِ اولیٰ ہی ہو۔

(42) فرمایا کہ جذبات پر مؤاخذہ نہ ہوگا بلکہ اعمال اور افعال پر ہوگا، مگر باوجود اس کے، پھر جو ان جذبات کی اصلاح کی ضرورت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلاح سے نفس کی مُقاوَمت اور مقابلہ آسان ہو جاتا ہے، جس سے رذائلِ نفس کے مقتضا کی مخالفت بآسانی ہو سکتی ہے۔ اور جذبات کی اصلاح نہیں کی جاتی تو پھر نفس کی مُقاوَمت دشوار ہو جاتی ہے، بلکہ نفس سے مغلوب ہوجاتا ہے، اور ان رذائل کے مقتضا پر اکثر عمل ہو جاتا ہے۔

(43) ایک دہریہ کے خط کا جواب:

میرے نزدیک تمہاری فلاح کی ابتداء دعا سے ہونا چاہیے، یعنی سب تدابیر سے پہلے تم یہ عمل شروع کرو کہ دعا کیا کرو کہ اے اللہ! مجھے صراطِ مستقیم پر قائم فرما۔ رہا یہ شبہ کہ جب تم خدا تعالیٰ ہی کے قائل نہیں تو پھر دعا کس سے کی جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ تم خدا تعالیٰ کے قائل نہیں مگر تمہارے پاس حق تعالیٰ کی نفی کی بھی کوئی دلیل نہیں، جب تمہارے پاس نہ وجود کی دلیل ہے نہ نفی کی، تو تم تو حق تعالیٰ کے وجود کے محتمِل اور مُمکِّن ہوئے۔ عقلًا قائل ہونا پڑے گا، اور دعا کے لیے احتمال کافی ہے، جس میں تمہارا نہ کوئی ضرر ہے نہ مشقّت۔ جب تم میری تجویز پر عمل شروع کر کے اپنی حالت سے مجھ کو مطّلع کرو گے تو پھر آگے مشورہ دوں گا۔

(44) فرمایا کہ مختلف مذاہب کو دیکھنا، بلکہ مختلف مذاق کے لوگوں سے ملنا مضرّ ہے۔

(45) صحبت بڑی چیز ہے:

فرمایا کہ آج کل صحبت کو سب سے گھٹیا درجہ کی چیز سمجھ رکھا ہے حالانکہ یہ سب سے بڑی چیز ہے، لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی بزرگ کی صحبت میں ہم جا کر بیٹھ گئے تو خالی صحبت اور محض پاس بیٹھنے سے کیا فائدہ، جب تک کہ وہ بزرگ کچھ تعلیم نہ فرمائیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہی غلط ہے کہ بزرگوں کی صحبت اِفادہ سے خالی ہوتی ہے بلکہ اکثر کچھ نہ کچھ اِفادہ ہوتا ہی رہتا ہے، دوسرے اگر مان بھی لیا جائے کہ کوئی صحبت ایسی ہو کہ اس کے اندر وہ بزرگ بالکل خاموش رہیں اور کچھ نہ فرمائیں تو ویسی صحبت بھی فائدہ سے خالی نہیں، اور اس کی وجہ حکماء نے یہ بیان کی ہے کہ انسان کی طبیعت میں خاصّہ ہے مُسارَقت کا، یعنی انسان اپنے ہم نشین کے اخلاق و عادات کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے، اور یہ جذب اور مُسارَقت ایسی خفیہ طور پر ہوتی ہے کہ خود اس سارِق کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ میں چُرا رہا ہوں، اور پھر اس مُسارَقت کے لیے یہ بھی شرط نہیں کہ ہم نشین مُعتقَد فیہ ہی ہو، بلکہ انسانی طبیعت غیر مُعتقَد فیہ کے اخلاق و عادات کو بھی جذب کرتی ہے، تو جب غیر مُعتقَد فیہ کے ساتھ ہی یہ مُسارَقت ہوتی ہے تو اگر کسی اپنے مُعتقَد فیہ اور بزرگ کی صحبت اختیار کی جائے تو یہ مُسارَقت بدرجۂ اولیٰ ہوگی۔ بس یہ وجہ ہے کہ بزرگوں کی خالی صحبت بھی مفید ہوتی ہے۔ اور صحبت تو بڑی چیز ہے محض تصوّر جو کہ صحبت کے اعتبار سے ادنیٰ درجہ کی چیز ہے، کیونکہ صحبت میں ذات کے ساتھ معیّت ہوتی ہے اور تصوّر میں صرف اس چیز کی صورتِ ذہنیہ سے محبّت ہوتی ہے، مگر پھر بھی وہ اثر سے خالی نہیں ہوتا۔ بلکہ اتنا اثر ہوتا ہے کہ ایک بزرگ کا قصّہ لکھا ہے کہ ان سے کوئی شخص مرید ہونے آیا تو آپ نے دریافت کیا کہ تم کو کسی چیز سے محبّت ہوتی ہے؟ کہا جی ہاں، میری ایک بھینس ہے اس سے مجھ کو بہت محبّت ہے۔ فرمایا کہ بس تم یہ کیا کرو کہ چالیس روز تک ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس بھینس کا تصوّر کیا کرو، جب چالیس روز گذر گئے تو وہ بزرگ اپنے اس مرید کے پاس گئے اور اس کو حکم دیا باہر آؤ، جب آنے لگا تو دروازہ میں پہنچ کر رُک گیا اور کہا کہ سینگ اَڑتے ہیں، کیونکر آؤں۔ وہ بزرگ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ بس اب ساری چیزیں اس کے قلب سے نکل گئی ہیں، صرف بھینس رہ گئی ہے اس کو میں دفع کر دوں گا۔ اور پھر اس شخص کو تعلّق مع اللہ بآسانی حاصل ہو جائے گا۔

(46) عشق سے علاج کرنا مناسب نہیں:

فرمایا کہ امراضِ باطنی کے علاج کے طریق کئی ہیں، ان میں سے ایک عشق بھی ہے، مگر قاعدہ عقلیہ ہے کہ جب دو علاج جمع ہو جائیں، ایک بے خطر اور دوسرا خطرناک، تو جو علاج بے خطر ہے اس کو اختیار کیا جائے گا، نہ کہ خطرناک کو۔ اس لیے عشق سے علاج کرنا مناسب نہیں۔

(47) بوڑھوں کے فسق و فجور میں مبتلا ہوجانے کا راز:

فرمایا کہ پہلے لوگوں کے قوٰی اچھے ہوتے تھے اس لیے ان لوگوں کا عشقِ مجازی بھی زیادہ قوی ہوتا تھا، اور اس کے ساتھ ہی ان کے اندر قوّتِ مُقاوَمت بھی زیادہ قوی ہوتی تھی۔ اس لیے صبر و ضبط سے کام لے کر کوئی امر عِفّت کے خلاف نہ کرتے تھے، بخلاف اس کے کہ اب تو فِسق و فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور یہی ضُعفِ مُقاوَمت راز ہے اس کا کہ جو لوگ بوڑھے ہوتے ہیں وہ بھی فِسق و فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ بہت سے بوڑھے اَمرَد پرستی میں مبتلا ہیں، کیونکہ گو بڑھاپے میں جوش کم ہوتا ہے مگر ساتھ ہی اس کے قوّتِ مُقَاوَمت بھی ضعیف ہو جاتی ہے، اس کی وجہ سے قُبلہ، لَمس و نظر سے رُک نہیں سکتے۔

(48) ''إِنَّ شَھْوَةَ الْمُتَّقِيْ أَشَدُّ'' کا راز:

فرمایا کہ بخاری شریف کے ایک حاشیہ میں لکھا ہے کہ "إِنَّ شَھْوَةَ الْمُتَّقِیْ أَشَدُّ" اور اس کی وجہ یہ ہے کہ متّقی شخص عِفّت کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا، نہ دیکھتا ہے، نہ بات کرتا ہے، یہاں تک کہ نامَحرم کے تصوّر سے بھی بچتا ہے۔ اس لیے اس کے قوٰی مُدرِکہ فَاعِلہ مجتمع رہتے ہیں، اور ان کے اندر انتشار نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کے قوٰی مُدرِکہ فَاعِلہ میں بہ نسبت غیر متّقی کے زیادہ قوّت ہوتی ہے۔

(49) تازہ غم میں وعظ و نصیحت مفید نہیں:

فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھیے کہ تازہ غم میں کبھی وعظ و نصیحت اس مصیبت زدہ کے لیے کچھ مفید نہیں ہوتی، بلکہ الٹی اور مضرّ ہوتی ہے۔ اور وجہ اس کے مضرّ ہونے کی یہ ہے کہ اس وقت تو نصیحت ہوتی ہے اس بات کی کہ تم اپنے غم کے جذبہ کو روکو اور وہ مصیبت زدہ اس نصیحت کو سن کر کوشش بھی کرتا ہے غم کے روکنے کی، مگر چونکہ اس وقت غم کی شدّت ہوتی ہے، اس لیے اس کے روکنے سے یہ بات تو ہوتی نہیں کہ غم فرو ہو جائے، بس یہ ہوتا ہے کہ وہ غم دل کا دل ہی میں رہتا ہے، اور زیادہ عرصہ تک دل میں اس غم کے رہنے سے اس مصیبت زدہ قلب میں گھٹن پیدا ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مصیبت زدہ کے اندر مختلف امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔

(50) فرمایا کہ شدّتِ غم کے وقت نہ تو یہ مناسب ہے کہ اس مصیبت زدہ سے ایسی باتیں کرے کہ جس سے ان کا صدمہ بڑھے کہ ہائے اتنا مال چلا گیا، اتنا نقصان ہو گیا، اور نہ ایسی باتیں کرے کہ ارے میاں! کیوں فکر میں پڑے، اتنا صدمہ کیوں کرتے ہو، بس جہاں تک ہو سکے اس کی کوشش کرے کہ اس شخصِ مصیبت زدہ کی طبیعت دوسری طرف مشغول رہے، اس حادثہ کی طرف توجّہ ہی نہ ہونے پائے۔ اور یہ شبہ کہ اگر مصیبت زدہ کے سامنے اس کے اس نقصان پر کچھ اظہارِ افسوس نہ کیا جائے تو اس کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس کو میرے ساتھ ہمدردی نہیں، حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ یہ سب اوہام ہیں۔ البتّہ یہ شبہ عدمِ ہمدردی کا اس پر ہوتا ہے کہ جو اس مصیبت زدہ کا مخالف ہو، اور محبّت والے کے متعلق ایسا شبہ نہیں ہوتا۔

(51) ایک ہی مقصد کے کامیاب و ناکام کو برابر ثواب ملے گا، بلکہ ناکام کو کامیاب کا دو چند ثواب ملے گا، بشرطیکہ سعی میں برابر لگا رہا۔ ایک صاحب نے دریافت کیا کہ اگر دو شخصوں نے کسی نیک کام کے کرنے کا ارادہ کیا اور ا س کی کوشش بھی کی، مگر ایک شخص تو اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا اور دوسرا ناکامیاب رہا، تو ثواب ان دونوں شخصوں کو برابر ملے گا یا کم و بیش؟ مثلًا دو شخصوں نے کلامِ مجید سیکھنا شروع کیا، ان میں سے ایک تو اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا، یعنی تلاوت پر قادر ہو گیا اور اس کے بعد وہ برابر تلاوت کرتا رہا، اور دوسروں کو بھی پڑھاتا رہا۔ اور دوسرا شخص بوجہ اپنے ضُعف یا مرض یا غَباوت وغیرہ کے ناکامیاب رہا، اور اس کو کلامِ مجید پڑھنا نہ آیا، مگر اس نے اپنی ساری عمر اسی کوشش میں، سیکھنے میں گذار دی۔ تو اب دونوں کو ثواب برابر ملے گا یا کم و بیش فرمایا کہ ثانی کو اوّل سے دو چند ثواب ملے گا۔

(52) دیوانگی (یعنی کمال محبت الٰہی) علاج ہے، ہموم و غموم کا:

خواجہ عزیز الحسن صاحب کے بڑے صاحبزادے کے انتقال پر ایک دوست نے تعزیت نامہ لکھا اس پر خواجہ صاحب نے اشعارِ ذیل مرقوم فرمائے۔ بغرضِ عبرت ناظرین کی خدمت میں پیش ہے:

یہ عالَم عیش و عشرت کا، یہ حالت کیف و مستی کی

بلند اپنا تخیّل کر، یہ سب باتیں ہیں پستی کی

جہاں در اصل ویرانہ ہے، گو صورت ہے بستی کی

بس اتنی سی حقیقت ہے، فریبِ خوابِ ہستی کی

کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے

کسی کو روز و شب مشغولِ فریاد و فغاں پایا

کسی کو فکرِ گوناگوں میں ہر دم سرگرداں پایا

کسی کو ہم نے آسودہ نہ زیرِ آسماں پایا

بس اک مجذوب کو اس غم کدہ میں شادماں پایا

جو بچنا ہو غموں سے آپ کا دیوانہ ہو جائے

(53) حضرت والا کے اکابر کی خصوصیات:

حضرت والا نے فرمایا کہ ہمارے اکابر بالخصوص حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مخالفین کو بھی برا بھلا نہیں کہتے تھے، ان میں تَخرّب اور پارٹی بندی چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ تعصّب اور تنگ خیالی ان میں مُطلق نہ تھی، جیسے ائمہ کی شان ہوتی ہے۔

(54) دست بوسی رسماً کِبر اور رِیا کا مقدّمہ ہے:

فرمایا کہ بزرگوں کے ہاتھ چومنا یہ بالکل نئی عادت ہے۔ یوں تو ہاتھ چومنا بلکہ پاؤں چومنا بھی جائز ہے، مگر رسماً، کِبر و رِیا کا مقدّمہ ہے۔

(55) فرمایا کہ جان کا بدلہ جان یعنی فدیہ میں ذبح کرنا بجز عقیقہ کے کہیں ثابت نہیں۔

(56) استخارہ سے مقصود محض طلبِ خیر ہے:

فرمایا کہ استخارہ کی حقیقت طلبِ خیر ہےکہ استخارہ ایک دعا ہے جس سے مقصود صرف طلبِ اعانت علی الخیر ہے، یعنی استخارہ کے ذریعہ سے بندہ خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ میں جو کچھ کروں اسی کے اندر خیر ہو، اور جو کام میرے لیے خیر نہ ہو وہ کرنے ہی نہ دیجیے۔ پس جب وہ استخارہ کر چکے تو اس کی ضرورت نہیں کہ سوچے کہ میرے قلب کا زیادہ رجحان کس بات کی طرف ہے، پھر جس بات کی طرف رجحان ہو اس پر عمل کرے اور اسی کے اندر اپنے لیے خیر کو مقدّر سمجھے۔ بلکہ اس کو اختیار ہے کہ دوسرے مصالِح کی بناء پر جس بات میں ترجیح دیکھے اسی پر عمل کرے اور اسی کے اندر خیر سمجھے۔ کیونکہ پہلی صورت میں الہام کا حجتِ شرعیہ ہونا لازم آتا ہے اور لازم صحیح نہیں، لہٰذا ملزوم بھی صحیح نہیں۔ پس حاصل یہ کہ استخارہ سے مقصود محض طلبِ خیر ہے نہ کہ استخبار۔

(57) بے پروائی مفاسد کی جڑ ہے:

فرمایا کہ بے پروائی کو لوگ دین کے خلاف نہیں سمجھتے، حالانکہ بے پروائی جڑ ہے مفاسد کی۔

(58) عورتوں سے کبھی مناظرہ مناسب نہیں:

فرمایا کہ عورتوں سے کبھی مناظرہ نہ کرے، جو ان سے مناظرہ کرے گا ان کی کجی کی وجہ سے اس کو ضرور غصّہ آئے گا۔

(59) سفارش کی شرائط:

فرمایا کہ سفارش سے طِیبِ خاطِر کا اثر ہو تو جائز ہے، کیونکہ اس اثر میں اذیّت نہیں ہوتی۔ اور اگر یہ گمان ہو کہ وہ سفارش کرنے والے کے خلاف نہ کرنے پر مجبور ہوگا تو سفارش سے ایسا اثر ڈلوانا ناجائز ہے۔

(60) تعلیمِ عدمِ گرانیِ شیخ:

فرمایا کہ بحمد اللہ تعالیٰ کسی وقت کسی موقعہ پر حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو میری طرف سے کسی قسم کی گرانی نہیں ہوئی۔

(61) فرمایا کہ مضمونِ خط میں زیادہ اختصار بھی رُوکھا پن ہے۔

(62) فعل کی نسبت عقلاً علّتِ قریبہ کی طرف کی جاتی ہے:

فرمایا کہ افعال کو بندہ کے اختیار کی طرف جو منسوب کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فعل کی نسبت عقلاً علّتِ قریبہ کی طرف کی جاتی ہے، اور افعال کی علّتِ قریبہ اختیارِ عبد ہی ہے، اور اختیارِ عبد کی علّت اختیارِ حق ہے، اس لیے اختیارِ حق ان افعالِ عبد کی علّتِ بعیدہ ہوئی، نہ کہ قریبہ۔

(63) فرمایا کہ اس مراقبہ سے زیادہ آسان اور سہل کرنے والا مصیبت کا اور کوئی طریق ہی نہیں کہ اس کو سوچ لیا جایا کرے کہ اس مصیبت میں ثواب ملے گا۔ جہاں یہ سوچا کہ اس میں ثواب ہوگا، بس ساری تکلیف گھل جاتی ہے۔ پھر کچھ تکلیف ہی نہیں رہتی۔

(64) کیفیات کا فقدان قابلِ قلق نہیں:

ایک صاحب نے لکھا تھا کہ میرے اعمال کے معنٰی (یعنی کیفیات) نہیں۔ فرمایا کہ کیفیات جن کو معنٰی کہا گیا ہے، یہ چونکہ نظر آتی ہیں، یعنی محسوس ہوتی ہیں، اس لیے یہ معنٰی ہے ہی نہیں۔ تو ان کے فقدان کا کیا قلق؟ بلکہ یہ کیفیات صورت ہیں، اور معنٰی وہ ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے۔

(65) مامور بہٖ محبّتِ عقلیہ ہے، نہ کہ محبّتِ طبعیہ:

فرمایاکہ یہ جو حدیث میں آ تا ہے "لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ وَ النَّاسِ أَجْمَعِیْنَ" (صحیح بخاری: رقم الحدیث: 15)۔ یہاں پر مراد محبّت سے محبّتِ عقلیہ کاملہ مُفضِی الی الطاعۃ الکاملہ ہے۔ محبّتِ طبعیہ مراد ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ محبّتِ طبعیہ غیر اختیاری ہے، اگر اس کو شرطِ ایمان کہا جائے تو ایمان غیر اختیاری ہو جائے گا، حالانکہ ایمان مامور بہٖ ہے، اور مامور بہٖ کا اختیاری ہونا ضروری ہے۔ پھر فرمایا کہ محبتِ عقلیہ کو دوام ہوتا ہے، اور ہمیشہ ترقّی کرتی رہتی ہے۔ بخلاف محبّتِ طبعیہ کے، کہ اس کا دوام بھی غیر اختیاری ہے۔

(66) فرمایا کہ استغراق میں ترقّی نہیں ہوتی، جیسے نَوم میں، کیونکہ ترقّی کا ذریعہ ہے ذکر و عمل، اور یہ دونوں اس وقت منقطع ہو جاتی ہیں، اس لیے استغراقِ تامّ کا طالب ہونا نہ چاہیے۔

(67) درود شریف کا وِرد:

ایک صاحب کچھ پریشان تھے، حضرت والا نے ان کو دورد شریف کی تعلیم فرمائی اور فرمایا کہ دورد شریف سے رحمت ہوتی ہے، اس لیے اس سے پریشانی بھی رفع ہو گی۔

(68) بد فالی کی ممانعت اور نیک فالی کی اجازت کی وجہ:

فرمایا کہ بد فالی سے اثر نہ لینا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ یاس ہے اور یاس کی ممانعت ہے۔ بخلاف نیک فالی کے کہ وہ رَجاء ہے، اور رَجاء کا حکم ہے۔ یہ فرق ہے فالِ نیک میں کہ جائز ہے اور ''طِیَرہ'' یعنی فالِ بد میں کہ ناجائز ہے۔ ورنہ تاثیر کا اعتقاد دونوں جگہ ناجائز ہے۔

(69) قوّتِ حِفظیہ کا وظیفہ:

فرمایا کہ پانچوں نمازوں کے بعد سر کے اوپر ہاتھ رکھ کر گیارہ بار ''یَا قَوِيُّ'' پڑھنا قوّتِ حافظہ کے لیے نافع ہے۔

(70) سلام کے جواب کا شرعی طریقہ:

فرمایا کہ فقہاء نے "اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ" کے جواب میں "وَ عَلَیْکُمُ السَّلَامُ" اور "اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ" دونوں کو کافی لکھا ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ بعض بچوں کے طرف سے خطوں میں جو سلام لکھا ہوا آتا ہے تو عام عادت تو یہ ہے کہ اس سلام کے جواب میں صرف دعا لکھ دیتے ہیں، مگر میرے نزدیک اس سے جواب ادا نہیں ہوتا، اس لیے میں تو سلام و دعا دونوں لکھتا ہوں۔ لیکن اگر وہ سلام بچّہ نے نہ لکھوایا ہو، کسی بڑے نے اس کی طرف منسوب کر دیا ہو، تو اس کا جواب ہی واجب نہیں۔

(71) میّت کا بھی ادب زندہ کا سا ہے:

فرمایا کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ مردہ کے پاس جب اس کی قبر پر جائے تو وہ معاملہ کرے جو معاملہ اس کی زندگی میں اس کے ساتھ کرتا، یعنی مردہ کا بھی ادب اتنا ہی ہے جتنا زندہ کا۔ دلیل اس قول کی یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میرے حجرے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدفون ہوئے ہیں اس وقت سے میری عادت ہے کہ جب میں اس حجرہ میں داخل ہوتی ہوں تو "حَیَاءً مِّنْ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہٗ" (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث: 4402) یعنی بوجہ حیا کے، اپنا منہ ڈھانک لیتی ہوں۔ بس معلوم ہوا کہ میّت کا ادب بعد موت بھی وہی ہے جو اس کی زندگی میں تھا۔

(72) برکت کی نیّت سے ہدیہ مناسب نہیں:

فرمایا کہ جو برکت کی نیّت سے مجھ کو ہدیہ دیتا ہے میں قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ میں صاحبِ برکت نہیں، اور جو محض محبّت سے دیتا ہے اس کا قبول کر لیتا ہوں۔

(73) ادب کا مدار عرف ہے:

فرمایا کہ منجملہ احکامِ شرعیہ کے ایک حکم یہ ہے کہ کسی چیز کے ادب میں غلوّ نہ کرنا چاہیے۔ اور فرمایا کہ ادب کا مدار عرف پر ہے، یعنی کوئی فعل جو فی نفسہٖ مباح ہو، اگر عرفاً بے ادبی سمجھا جائے گا تو شرعاً بھی وہ فعل بے ادبی ہوگا۔

(74) فرمایا کہ جمعیّت اور انشراح سے سالک کی باطنی ترقّی ہوتی ہے، زیادہ رنج و غم سے ہم لوگوں کے اندر مایوسی پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے ہم کو ہر وقت اپنے آپ کو خوش رکھنا چاہیے تاکہ حق تعالیٰ سے ہم کو محبّت پیدا ہو، ورنہ بلاؤں کے اندر محبّت کا باقی رہنا ہم لوگوں کا کام نہیں، صِدّیقین کی شان ہے۔

(75) فرمایا کہ شرکِ اکبر کے جتنے افراد ہیں وہ جیسے شرعاً باطل ہیں اسی طرح عقلاً مُمتِنع بالذّات ہیں۔ مثلاً کسی کے لیے علمِ مستقل کا قائل ہونا یا قدرتِ مستقلہ کا قائل ہونا کہ ایسا کہ علم و قدرت حادث کے لیے ممتنع بالذّات بھی ہے۔

(76) اِشراف و سوال ناجائز ہے:

فرمایا کہ حدیث شریف میں آیا ہے "مَا أَتَاکَ مِنْ ھٰذَا الْمَالِ وَ أَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ وَّ لَا سَائِلٍ فَخُذْہُ"۔(النسائي، رقم الحدیث : 2606)

(77) یہ ہرگز زیبا نہیں کہ آدمی اپنی حالت پر ناز کرے اور دوسروں کو حقیر سمجھے۔ خود نفسِ ایمان بھی اپنے اختیار میں نہیں، بس حق تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو یہ دولت عطا فرما رکھی ہے، لیکن وہ جب چاہیں سَلب کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ابو عبد اللہ ایک بزرگ تھے بغداد میں، ان کی وجہ سے 30 خانقاہیں آباد تھیں، وہ ایک بار مع اپنے مجمع کے چلے جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک گرجا آیا جہاں عیسائی صلیب پرستی کر رہے تھے، وہاں ایک عیسائن پر مفتون ہو گئے، ساتھیوں سے کہا اب تمہارے کام کا نہیں رہ گیا تم لوگ چلے جاؤ، ساتھیوں کو بہت صدمہ ہوا اور مایوس ہو کر چلے گئے۔ جب ایک مدّت کے بعد اتفاق سے اس مقام پر واپس ہوئے اور چاہا کہ شیخ کو تلاش کیا جائے کہ کس حال میں ہیں، چنانچہ تلاش کیا تو دیکھا کہ عیسائیوں کا لباس پہنے ہوئے ہیں، سامنے خنزیروں کی بڑی قطار ہے، چھڑی ہاتھ میں ہے اور سؤروں کو چرا رہے ہیں۔ خدّام نے ملاقات کی اور پوچھا کہ حضرت آپ کو کچھ قرآن شریف بھی یاد ہے؟ فرمایا کہ ہاں ایک آیت یاد ہے: ﴿وَ مَنْ يَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيْلِ﴾(البقرة: 108)۔ پھر پوچھا کہ کوئی حدیث یاد ہے؟ کہا کہ صرف ایک حدیث یاد ہے: "مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہٗ" (سنن ترمذي رقم الحديث: 1458) اور کچھ یاد نہیں۔ حالانکہ ان بزرگ کو تیس ہزار احادیث یاد تھیں اور سَبعہ کے حافظ تھے۔ وہ لوگ ان کا حال دیکھ کر بہت روئے اور خود وہ بزرگ بھی روئے حتّٰی کہ روایت ہے کہ خنزیر تک روئے، اس کے بعد جب وہ آگے بڑھے تو سامنے ایک نہر تھی، جب نہر کے قریب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں وہی بزرگ نہر کی طرف سے غسل کئے ہوئے ایک سفید چادر تہبند مسلمانوں کا سا باندھے ہوئے آ رہے ہیں۔ جب پاس آئے تو کہا "أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ"۔ لوگوں کو بے حد خوشی ہوئی، اس کے بعد ان بزرگ سے دریافت کیا کہ حضرت یہ کیا واقعہ تھا؟ تو ان بزرگ نے فرمایا کہ جب پہلے میں اس گرجے کے پاس سے ہو کر گذرا اور ان عیسائیوں کو دیکھا تو میں نے ان کو بہت حقیر سمجھا، تو فوراً الہام ہوا کہ اچھا! کیا تم اپنے ایمان کو اپنے اختیار میں سمجھتے ہو جو ان کو حقیر سمجھتے ہو؟ اور اسی وقت دیکھا کہ میرے اندر سے ایک نور نکلا اور غائب ہو گیا اور میرے باطن میں ظلمت ہی ظلمت چھا گئی، اس کے بعد ظاہر سامان یہ ہوا کہ وہاں کنویں پر ایک لڑکی عیسائن کی پانی بھر رہی تھی، میں اس پر عاشق ہو گیا، میں نے اس کو یہ پیام دیا، اس نے شرط لگائی کہ ہمار ے سؤر چراؤ۔ میں اسی کے پاس رہتا تھا، اب تمہاری ملاقات کے بعد میں نے حق تعالیٰ سے عرض کیا کہ حضور اب تو بہت سزا مل گئی اب تو معاف کیا جائے، تو میں نے دیکھا کہ میرا وہی نور جو میرے اندر سے نکلا تھا پھر میرے اندر داخل ہو گیا اور مجھ کو اسلام کی توفیق ہو گئی۔ تو جب یہ حال ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس وقت جو ہماری حالت درست ہے وہ مستقل اختیار سے ہے؟ علاوہ اس کے یہ بھی تو سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص بہت حسین ہو، مگر وہ اپنے چہرے پر کالک مل لے تو اس کا قدرتی حسن حقیقتہً زائل نہ ہو جائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص بد شکل ہو مگر وہ پاؤڈر مل لے تو کیا وہ حسین ہو جائے گا؟ تو بعض لوگوں کا ایمان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے پاؤڈر، اسی طرح بعض لوگوں کا کفر ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کالک، جب ذرا ہٹا اصل رنگ عود کر آیا۔ اور اس کا ہٹ جانا اپنے مستقل اختیار میں نہیں، یہ حق تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ تو پھر کیا زیبا ہے کہ آدمی اپنی حالت پر ناز کرے اور دوسروں کو حقیر سمجھے۔

تَمَّتْ بِالْخیْرِ