معروضات متعلّقہ تحقیقِ مسائل
جو مکالمہ کے لیے بطور اصولِ موضوعہ ہیں
(1) مسائل کا جواب عرض کرنے کے لیے میں حاضر ہوں، مگر مشورہ و مصلحت کے متعلق کچھ عرض کرنے سے میں اس لیے معذور ہوں کہ مجھ کو اس سے مناسبت نہیں۔
(2) مسائل بعضے عین وقت پر مستحضَر نہیں ہوتے، ان کے جواب سے معذور ہوں گا۔ البتہ ان کی یادداشت لکھ کر مجھ کو دے دی جائے تو کتابیں دیکھ کر اطمینان سے جواب دے سکتا ہوں۔
(3) مسائل پر اگر کچھ شبہات ہوں تو ان کا جواب دینا ہم لوگوں کے ذمہ نہیں، کیونکہ ہم لوگ مسائل کے ناقل ہیں بانی نہیں۔ جیسے قوانین کے متعلّق اگر کوئی شُبہ یا خدشہ ہو اس کا جواب مجلسِ قانون ساز کے ذمہ ہے، جج یا وکیل کے ذمہ نہیں۔
حُبِّ جاہ کا مرض بڑا خبیث ہے:
فرمایا: حبِّ جاہ کا مرض بھی بڑا ہی خبیث اور منحوس مرض ہے، اس کی بدولت یہاں تک نوبت آ گئی ہے کہ لوگ حسب نسب تک بدل دینے کو تیار ہیں۔ ان لوگوں کو خبط سوار ہے، ورنہ عزّت اور ذلّت تو کمال اور عدمِ کمال پر موقوف ہے۔
تعلیمِ استغناء عن الأمراء:
فرمایا کہ اہلِ علم پہلے زمانہ میں جو ہوئے ہیں ان میں استغناء کی شان ہوتی تھی، اب تو جس کو دیکھو امراء کے دروازوں پر نظر آتے ہیں۔ پہلے فقر و فاقہ کو اپنا زیور سمجھتے تھے، دنیا سے نفرت اور دین سے رغبت اور اس میں مشغولی رہتی تھی۔ اسی کی برکت تھی۔ اب جب سے اپنے بزرگوں کا مسلک اور مشرب چھوڑا، ویسے ہی ذلیل و خوار ہیں۔ ایک غلام مصطفیٰ نامی کانپور میں مولوی ہیں، بڑے دلیر ہیں، ایک بڑے انگریز لفٹیننٹ گورنر کے پاس پہنچے ملاقات ہوئی کہا کہ کیا مولویوں کا آپ کے یہاں کوئی حق نہیں؟ کیا یہ آپ کی رعیّت نہیں؟ لفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ حق ہے، حق کیوں نہ ہوتا۔ آپ فرمائیے بات کیا ہے، کہا کہ نوکری دلوایئے۔ کہا کہ نوکری بہت، مگر آپ کو ایک نیک اور مفید مشورہ دیتا ہوں کہ آپ عالم ہیں، آپ کو اللہ نے علمِ دین عطا فرمایا ہے، آپ اس کے بھروسہ پر کسی مسجد میں بیٹھ کر درس دیجئے، آپ کے شان کے لیے یہی شایاں ہے۔ ہمارے یہاں نوکری آپ کی شان کے خلاف ہے۔ اللہ آپ کے کفیل ہوں گے۔ اس کے بعد اپنے خدمت گار کو اشارہ کیا، وہ ایک کُشتی میں پچاس روپیہ لے کر حاضر ہوا، لفٹیننٹ گورنر نے وہ کُشتی اپنے ہاتھ میں لے کر نہایت احترام و ادب سے ان مولوی صاحب کے سامنے پیش کی، یہ قبول فرما لیجئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے مشورہ پر عمل کرنے کی نیّت کر چکا ہوں کہ اب تو اللہ ہی دیگا تو لوں گا۔ اس مشورہ پر یہیں سے عمل شروع کرتا ہوں، اس لیے یہ نہ لوں گا۔ کس قدر حوصلہ کی بات ہے۔ میں نے سن کر کہا کہ اتنی ہی کمی نکلی۔ میں اگر ہوتا لے لیتا۔ اس لیے کہ دین پر نیّت کر لینے ہی کے خلوص کی برکت تھی کہ اللہ نے وہیں سے کفالت شروع کر دی۔ وہ بھی تو اللہ ہی دلوا رہے تھے، وہ بے چارہ کیا دیتا۔ غرض کہ اہلِ علم کو استغناء کی سخت ضرورت ہے۔ خصوصاً امراء کے دروازوں سے تو ان کو بالکل ہی اجتناب چاہیے۔ اس میں دین، علمِ دین، اہلِ دین سب کی ذلّت ہے۔ مجھ کو تو بڑی نفرت ہے۔ میں تعلّق کو منع نہیں کرتا، تملّق کو منع کرتا ہوں۔ یہ اہلِ علم کی شان سے بہت ہی بعید ہے، مگر کس طرح دل میں ڈال دوں۔
فرمایا کہ خدمت سے اس وقت راحت ہوتی ہے جب کہ روح کو تکلیف نہ ہو۔
مرید کی آزمائش:
فرمایا کہ اگر لوہار لوہے کی رعایت کرے، اس کو بھٹّی میں نہ دے اور اس پر گھن نہ بجا لے، تو پھر اس کے کُھرپے، پھاوڑے، گنڈاسے، پھالی کیسے بن سکتی ہیں۔ یا اگر سُنار چاندی کے ساتھ رعایت کرے، اور جنتری میں دے کر نہ کھینچے، اور کٹھالی میں رکھ کر نہ دھونکے، تو کیسے زیور بن سکتا ہے۔
وقف جگہ میں زیادہ زمین گھیرنا جائز نہیں:
فرمایا کہ ایک شخص پختہ قبر بنانا چاہتا تھا، میں نے سوال کیا کہ زمین مِلک کس کی ہے کہا کہ وقف ہے، میں نے کہا کہ وقف جگہ میں زیادہ زمین گھیرنا جائز نہیں۔ اگر کسی ایک شخص کی مِلک ہوتی ہے تو جگہ اس کی اجازت سے گھیر سکتے ہیں، لیکن پختہ قبر بنانا پھر بھی ایک فعلِ زائد ہوتا ہے۔
زندہ دلی اور مردہ دلی کی شناخت:
فرمایا کہ مسلمانوں کی شرکت سے ہر کام میں رونق ہو جاتی ہے اس لیے کہ یہ زندہ دل ہیں، اور ان کے زندہ دل ہونے کی ایک یہی پہچان ہے کہ اگر اس پر حوادث بھی آتے ہیں تب بھی ایمانی قوّت کی وجہ سے ان کی زندہ دلی نہیں جاتی۔ اور باقی جتنی اور قومیں ہیں، وہ بوجہ محبّتِ دنیا کے مردہ دل ہیں۔ ان کی مردہ دلی کی ایک یہی پہچان ہے کہ حوادث کے وقت بدحواس ہو جاتے ہیں، گھبرا جاتے ہیں۔
دینِ حق پر چلنا گراں گذرتا ہے:
فرمایا کہ جس طرف عوام النّاس ایک دم چل پڑیں سمجھ لو کہ دال میں کالا ہے، کیونکہ خالص حق اور دین پر چلنا نفس پر گراں ہوتا ہے۔ اس لیے عام طور پر لوگ اس سے گھبراتے ہیں۔
ہماری نالائقی سے سلطنت پر کفار حکمراں ہیں:
فرمایا کہ یہ سمجھنا ہی غلط ہے کہ کفار ہم پر سلطنت کر رہے ہیں اور ان میں کوئی لیاقت ہے۔ نہیں بلکہ ہمارے اندر نالائقی ہے، اس وجہ سے مسلّط کر دیئے گئے ہیں، اگر وہ نالائقی دور ہو جائے تو پھر وہی معاملہ ہے۔
اتّفاق کا مدار اعمالِ صالحہ پر ہے:
فرمایا کہ اتّفاق کا تعلق تدابیر سے ہے ہی نہیں، اسی لیے میں نے اس اتّفاق کا بیان آج تک وعظوں میں مستقلًّا بیان نہیں کیا اس لیے کہ بے کار ہے۔ جو چیز اصل ہے اتّفاق کی، وہ اعمالِ صالحہ ہیں۔ اگر مسلمان ان کو اختیار کریں خود بخود اتّفاق ہو جائے گا۔ دیکھئے حضور ﷺ جیسے مدبّر، اور اتنا بڑا سامان تدبیر کا کہ تمام ما فی الارض کا اتّفاق، مگر ان سب تدبیروں کا نتیجہ اور حاصل دیکھئے، کیا ارشاد ہے: ﴿وَ أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللہ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾(الانفال: 63)
زندگی میں بے لطفی اور بے مزگی کا سبب:
فرمایا کہ بڑے لطف کی بات ہے کہ چھوٹے یہ سمجھیں کہ ہم چھوٹے ہیں، اور بڑے یہ سمجھیں کہ یہ چھوٹے نہیں۔ اگر سب ایسا کریں تو بہت ہی راحت ہے۔ اب جو بے لطفی اور بے مزگی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ چھوٹے تو اپنے کو چھوٹا نہیں سمجھتے اور بڑے ان کو چھوٹا سمجھتے ہیں۔ پھر لطف کہاں، بے لطفی ہی ہو گی۔
سویّاں پکانا کھانا عید کے روز بدعت نہیں:
فرمایا: ایک بار مجھ کو عید کے روز شِیر پکانے کے متعلق بدعت کا شبہ ہوا، میں نے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا، حضرت نے جواب میں فرمایا کہ ایسے امور میں زیادہ کاوش نہیں کرنا چاہیے، لوگ بد نام کرتے ہیں۔ اور عید کے روز سویّوں کے پکانے کو کوئی عبادت اور دین نہیں سمجھتا، جس سے بدعت کا شبہ ہو۔
تکدّرِ معلِّم کا نتیجہ:
فرمایا کہ یہ سمِ قاتل ہے کہ معلّم کو مکدّر کیا جائے، اس حالت میں خاک نفع نہیں ہوتا بلکہ نفع بھی برباد ہو جاتا ہے۔
عقل کی ضرورت:
فرمایا کہ اتفاق کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔ عقل سے کام لو، یہ تعویذ کا کام نہیں۔
اصل چیز یہی احکام ہیں:
فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے اور اپنے بزرگوں کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے قلب میں دین کی محبت اور عظمت پیدا فرما دی، حق کے قبول کرنے میں اپنی کوئی مصلحت نظر میں نہیں رہتی، اور ہماری مصلحت ہے ہی کیا چیز۔ اصلی مصلحت تو احکامِ شرعیہ ہی کی ہے۔ اور اصل چیز یہی احکام ہیں اور ہم محض اس کے تابع ہیں۔
خلاصۂ تعلیمِ انگریزی:
فرمایا: اس منحوس تعلیم انگریزی کا یہ اثر ہے کہ اس میں بجز کِبر کے اور کچھ نہیں، اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں دوسروں کو چھوٹا سمجھتے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے اس تعلیمِ انگریزی کا۔
اہلِ تشیّع کی درخواست بیعت کا جواب:
بعض شیعوں نے بیعت کی درخواست کی، میں سوچ میں پڑا کہ بدوں تشیع چھوڑے بیعت کیسے ہو سکتی ہے، اور تشیع کے چھوڑنے کو، خُصوصاً جبکہ میں اس درخواست کو محض رعایتِ مہمانداری سمجھتا ہوں، کیسے کہوں۔ آخر میں نے کہا کہ بیعت کے کچھ شرائط ہیں جو اس جلسہ میں مفصّل بیان نہیں ہو سکتے، اس کی مناسب صورت یہ ہے کہ جب میں وطن پہنچ جاؤں اس وقت آپ مجھ سے خط و کتابت فرمائیں، میں جواب میں شرائط سے اطلاع دوں گا۔ اور خیال دل میں یہ تھا کہ اگر ان لوگوں نے وطن پہنچنے کے بعد لکھا تو یہ جواب دوں گا کہ اس طریق میں نفع کے لیے مناسبت شرط ہے، بدون مناسبت نفع نہیں ہو سکتا۔ اور اختلافِ مذہب ظاہر ہے کہ مناسبت کی ضد ہے، تو نفع کی کیا ضرورت ہے۔ خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ سُنی ہو جاؤ تو بیعت ہو سکتے ہو۔
تقلید و بیعت کا فرق:
ایک شیعہ نے سوال کیا کہ تقلید اور بیعت میں کیا فرق ہے؟ فرمایا کہ تقلید کہتے ہیں اتّباع کو، اور بیعت کہتے ہیں مجاہدۂ اتّباع کو۔
کسی کے قلب کی گرانی گوارا نہیں:
فرمایا کہ مجھ کو کسی طرح یہ گوارا نہیں کہ ایک منٹ، ایک سکینڈ کے لیے بھی، میری وجہ سے کسی کا قلب گرانی میں مشغول رہے۔
بدتمیزی کا سبب تعلیمِ ناقص ہے:
فرمایا کہ: اکثر بدتمیزی کا سبب بے تعلیمی نہیں بلکہ تعلیم ناقص ہے، ورنہ یہ سب امور فطری ہیں، اگر تعلیم بھی نہ ہو تب بھی ان بدتمیزیوں کا صُدور نہ ہونا چاہیے۔ یہ تعلیم ہی کا اثر ہے کہ بدتمیزی کرتے ہیں، مگر ہے وہ تعلیم ناقص۔
نیچریت اِلحاد کا زینہ ہے:
فرمایا کہ: سرسیّد احمد خان کی وجہ سے بڑی گمراہی پھیلی۔ نیچریت زینہ ہے اور جڑ ہے الحاد کی۔ اس سے پھر شاخیں چلی ہیں۔ یہ قادیانی اس نیچریت ہی کا اول شکار ہوا، آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ استاد یعنی سرسیّد احمد خان سے بھی بازی لے گیا، کہ نبوّت کا مدعی بن بیٹھا۔ غلام احمد ایسا (بھی) بچہ نہ تھا، قصداً ایسا کیا۔ شروع میں گو ممکن ہے کہ دھوکا ہوا ہو، لیکن آخر میں تو اپنی بات کی پچ اور اس پر ہٹ اور ضد ہو گئی تھی۔ غرض کہ ہے یہ نیچریت ہی سے ناشِئ۔
اِمارت میں خاصہ ہے تبعیدِ مساکین کا:
فرمایا کہ جس قوم کے مذہبی راہبر امیر ہوں گے وہ مذہب اور قوم گمراہ ہو جائے گی۔ اس لیے کہ ان کو تو ضرورت قوم سے واسطہ رکھنے کی رہے گی نہیں۔ اور جب واسطہ نہ رہا تو گمراہ ہونا قریب ہے ہی۔ اس کا یہ سبب نہیں کہ اب واسطہ قوم سے مال کے سبب ہے، بلکہ اِمارت میں خاصّہ ہے تبعیدِ مساکین کا۔
دل میں نہ کینہ ہے نہ بغض و عداوت:
فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ باوجود بہت لوگوں کے ستانے کے اور بدنام کرنے کے، میرے دل میں نہ کسی کے طرف سے کینہ ہے نہ کَپٹ (عِناد)، نہ بغض و عداوت۔
اللہ تعالیٰ بلازبان متکلّم ہیں:
ایک نوجوان ہندو نے ایک سوال کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دی۔ کہنے لگا کہ اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ کلامُ اللہ خدا کا کلام ہے، اور کلام ہوتا ہے زبان سے، جو ایک عضو ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ جوارح اور اعضاء سے مُنزّہ ہیں۔ خدا تعالیٰ نے کلام کیسے کیا؟ میں نے کہا کہ زبان سے کلام کرتے ہیں، تو ہم تو متکلّم بواسطہ زبان کے ہوئے، اور اصل متکلّم زبان ہوئی، تو اب اگر تکلّم کے لیے زبان کی ضرورت ہے تو زبان جو متکلّم ہے اس کے لیے بھی ایک زبان ہونا چاہیے، مگر اس کے زبان نہیں اور وہ پھر بھی متکلّم ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ زبان کو تکلّم کے لیے زبان کی ضرورت نہیں، تو تعجب ہے کہ زبان جو کہ ایک گوشت کا لوتھڑا ہے وہ اس پر قادر ہو کہ وہ بدون زبان کے متکلّم ہو سکے، اور خدا کو اتنی بھی قدرت نہ ہو کہ بدون زبان کے متکلّم ہو سکیں۔ یہی تقریر آنکھ، کان سب پر حاوی ہوسکتی ہے۔
بہادری کی نئی قسم:
فرمایا کہ آج کل بہادری کی نئی قسم نکلی ہے۔ مار کھانا، ذلیل ہونا، بھوک ہڑتال کر کے مر جانا، یہ سب کچھ اس لیے کہ حکومت مل جائے۔ ایسے ذلیل کم حوصلہ لوگوں کو تو حکومت کا نام بھی نہ لینا چاہیے۔ پِٹتے تو خود ہی پھرتے ہیں، کیا بدنصیبوں کو حکومت اور مُلک کا مزہ ملے گا۔
محبّتِ صدیقیہ کے مُشابہ محبّت قابلِ شکر ہے:
ایک سالک نے لکھا ہے کہ الحمد للہ حضرت سے عقیدت تو بہت پاتا ہوں، لیکن اپنے مُنعِم و مُحسِن سے کچھ نہ کچھ طبعی محبّت ہو جانا بھی تو معمولِ انسانیت ہے۔ حضرت کے میرے دنیا و دین دونوں پر کتنے احسانات ہیں اور پھر کتنی شفقت ہے، اس کا خیال کرتا ہوں تو اپنی قَساوتِ قلب کی شرم سے گڑ جاتا ہوں، اتنی بڑی سنگدلی بھی بڑی بیماری ہے کہ مشکل سے کبھی رونا آتا ہے۔
جواب تحریر فرمایا کہ ایک محبّت تھی صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی، اور ایک حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی۔ اور آثار دونوں کے مختلف، جو وفات شریف کے وقت ظاہر ہوئے اور روایاتِ صحیحہ سے ثابت ہیں۔ کیا حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی محبّت، محبّت نہ تھی یا غیر کامل تھی؟ اگر اللہ تعالیٰ کسی پر فضل فرما کر محبّتِ صدیقیہ کے مشابہ محبّت عطا فرما دے تو محلِّ شکر ہے یا محلِّ شکایت؟ اور راز اس میں یہ ہے کہ یہ محل کا اختلاف ہے جس کا منشا کبھی اختلافِ استعداد ہوتا ہے کبھی دوسرے اسباب۔ اس تفتیش کی کوئی حاجت نہیں ؎
عِبَارَاتُنَا شَتّٰی وَ حُسْنُکَ وَاحِدٌ
وَ کُلٌّ اِلٰی ذَاکَ الْجَمَالِ یُشِیْرُ
تکبّر و خجلت کا علاج:
ایک سالک نے لکھا کہ مجھ میں حُبِّ جاہ کا مرض معلوم ہوتا ہے کہ بازار وغیرہ میں تنہا جاتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی ہے۔ فرمایا کہ بہ تکلّف آباد راستوں سے تنہا بازار جایا کرو۔
ایک مرتبہ اپنے اعزّہ میں گیا، بوجہ بارش وغیرہ راستہ خراب تھا، گرنے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے سامان کو اپنے پشت پر خلافِ عادت باندھ لیا، مگر جب ان اَعزّہ کے گھر کے قریب پہنچا تو حجاب محسوس ہونے لگا، نا چار بغل میں دبایا، اس حجاب سے احقر کو خیال ہوا کہ کبھی نفس کا مَکر نہ ہو، اور یہ بھی خیال ہوا کہ یہ عادت کے خلاف ہونے سے ہے۔ اب حضرت تحریر فرما کر مطمئن فرمائیں کہ یہ کوئی مرض تکبّر وغیرہ ہے یا خلاف عادت ہونے کا عار ہے؟ نیز علاج تحریر فرمائیں۔ تحریر فرمایا: دونوں احتمال ہیں، لیکن علاج تو شبہِ مرض میں بھی احتیاط کی بات ہے، اور علاج ہے وہی بہ تکلّف خلافِ نفس کرنا۔
تدارکِ کمّیت میں تماثُل ضرور نہیں:
اپنے سارے اعمال میں عدمِ اخلاص کے شبہ و قلق کا جواب، اپنے نفس سے سوال کرو کہ اس کوتاہی کا تدارک اختیاری ہے یا غیر اختیاری۔ ظاہر ہے کہ اختیاری ہے ورنہ شکایت اور قلق ہی بے معنی ٹھہرتا ہے، جب اختیاری ہے تو اب ماضی پر حسرت انفع و اہم ہے یا مستقبل میں تدارُک۔ سو ظاہر ہے کہ شِقِّ ثانی ہی متعیّن ہے، بس تو اس کے اہتمام میں مشغولی ہونا چاہیے۔ اور شاید کسی کو پریشانی میں یہ وہم ہو کہ کوتاہی کی عمر تو اتنی دراز، اگر تدارک کے لیے اتنا دراز وقت نہ ملا تو تدارک کیسے ہو گا۔ سو حل اس کا یہ ہے کہ تدارک کا کمّیت میں تماثُل ضروری نہیں، قوّت میں تماثُل کافی ہے، اور وہ بھی اختیاری ہے، اور اختیاری کے ساتھ سہل بھی۔ اب اس تدارک کی تعیین باقی رہی اور اس میں کوئی کلام بھی نہیں ہو سکتا کہ عدمِ اخلاق کا تدارک صرف اخلاص ہے۔ پس ماضی پر استغفار کر کے مستقبل میں اخلاص اختیار کیا جائے، جو نہایت سہل تدبیر ہے۔ بلا ضرورت مشقّت و تعب میں پڑنے کی ضرورت نہیں ؎
گفت آساں گیر بر خود کارہا کز روئے طبع
نخت می گیرد جہاں بر مردمانِ سخت کوش
چنانچہ حدیث شریف میں ہے: "مَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللہُ عَلَیْہِ" (أبوداؤد: 3635)۔ میں بھی دعا کرتا ہوں تحصیل کی بھی، تکمیل کی بھی، تعدیل کی بھی، تسہیل کی بھی۔
حال: جواب گرامی حسبِ توقع جامع بھی تھا اور شافی بھی تھا۔ اب عرض یہ ہے کہ خود اخلاص کا معیار کیا ہے، یعنی قلب کو یہ اطمینان کیسے ہو کہ فلاں عمل خالصۃً لِوجہ اللہ صادر ہوا ہے۔
تحریر فرمایا: جواب کے پسند آنے سے دل خوش ہوا، اس کے ساتھ معیارِ اخلاص کے متعلق سوال کرنے سے ایک مشہور شعر یاد آ گیا ہے ؎
با سایہ ترا نمی پسندم
عشق است و ہزار بدگمانی
انطباق کی تقریر یہ ہے کہ اخلاص کی حقیقت معلوم، چنانچہ سوال میں اس کو ظاہر کر دیا گیا ہے کہ فلاں عمل خالصًا لوجہ اللہ صادر ہوا ہے، پھر وہ حقیقت چونکہ مثل صفاتِ نفس کے ہے جن کا علم حضوری ہوتا ہے۔
خلافِ طبع براشت نہ کرنا:
فرمایا کہ اس راہ میں قدم رکھنا اور پھر خلافِ طبع برداشت نہ کرنا عُجب ہے۔ کوئی شخص ایک مُُردار کتیا، بازاری عورت سے محبّت کا دعوٰی کرتا ہے، وہ کیا کچھ ناز دکھلاتی ہے اور کیسی کیسی تکلیفیں دیتی ہے، مگر یہ سب کو سہتا ہے، برداشت کرتا ہے۔
اللہ والوں کی شان:
فرمایا: اللہ والوں کی شان ہی جدا ہوتی ہے، وہ اہل دنیا سے نفرت تو نہیں کرتے مگر اِعراض رکھتے ہیں، ان کو دوسری طرف مشغولی ہی سے کب فرصت ملتی ہے، وہ تو ایک کے سوا دوسرے کسی کام ہی کے نہیں رہتے۔
تلبیس و تصنیع سے نفرت:
فرمایا کہ میں کسی وجہ سے کسی حالت کا اِخفاء نہیں کرتا، خواہ کوئی مُعتقِد رہے یا نہ رہے، مجھ کو اس تلبیس و تصنیع سے طبعی نفرت ہے۔ کون مخلوق پرستی کرے، مسلمان کی ہر بات اور ہر کام اللہ کے واسطے ہونا چاہیے۔
اعتقاد میں حسنِ ظن:
فرمایا کہ معاملات میں تو سوءِ ظن چاہیے اور اعتقاد میں حسنِ ظن۔ اور معاملات میں سوءِ ظن سے مراد یہ ہے کہ جس کا تجربہ نہ ہوچکا ہو اس سے لین دین نہ کرے، روپیہ نہ دے، تو اس معنٰی کو معاملات میں سوءِ ظن رکھے، باقی اعتقاد میں سب سے حسنِ ظن رکھے، کسی کو برا نہ سمجھے۔
مروّجہ توکّل ایک درجہ کی گستاخی ہے:
فرمایا کہ آج کل بہت سے مسلمانوں کو توکّل کا سبق یاد ہے کہ ہو رہے گا جو کچھ ہونا ہو گا۔ تدبیر نہ کرنا، مریض کی دوا نہ کرنا، ان کے نزدیک توکّل ہے۔ آدمی تدبیر کرے، دوا کرے، اور پھر خدا پر بھروسہ رکھے، یہ ہے اصل توکل۔ باقی صورتِ مروّجہ توکّل کی، یہ تو ایک درجہ گستاخی ہے کہ خدا تعالیٰ کا امتحان لیتے ہیں کہ دیکھیں بِلا اسباب بھی کچھ کریں گے یا نہیں، یہ تو توکّل کہاں ہوا۔
حضرت والا کے تحریکات سے علیحدہ رہنے کی وجہ:
فرمایا کہ بعض تحریکات سے ہمارا علیحدہ رہنا اس وجہ سے نہیں کہ وہ ہم کو دوست سمجھیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ بلا ضرورت اور بدوں قوت کے خطرہ میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ علیحدگی تو انگریزوں کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ اپنے ساتھ دوستی ہے۔ ایک انگریز کلکٹر کا خط آیا، اس میں میری علیحدگی پر شکریہ لکھا تھا۔ میں نے جواب میں لکھا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنے بھائیوں کے واسطے کیا ہے، اپنا مذہبی فرض سمجھ کر ادا کیا ہے، گورنمنٹ پر کوئی احسان نہیں، اس لیے آپ کے شکریہ کا مستحق نہیں۔ لیکن اگر اس پر بھی آپ شکریہ ادا کرتے ہیں تو میں آپ کے شکریہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسی طرح علی گڑھ میں کلکٹر نے مجھ سے ملنا چاہا میں نے صاف انکار کردیا کہ میں آپ سے ملنا اپنی مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ جواب سن کر بہت شرمندہ ہوا اور کہا کہ واقعی میری غلطی تھی۔ باوجود اس قد اِعراض اور خشک برتاؤ کے ہم کو حامئ موالات کہا جاتا ہے، اور خود شب و روز ان میں گھسے رہتے ہیں۔ صورت، سیرت، لباس، رفتار، گفتار، سب ان کی سی، اور پھر تارکِ موالات۔ عجیب بات ہے۔
عورتوں کے پردہ میں رہنے کا عجیب ثبوت:
فرمایا حق تعالیٰ نے ﴿اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا...﴾ (الکہف: 46)۔ اور یوں نہیں فرمایا کہ "اَلْمَالُ وَ الْبَنَاتُ"۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز عام منظر پر لانے کی نہیں ہوتی، وہ حیاتِ دنیا کی زینت میں نہیں۔ بلکہ زینت کے لیے تو ظہور ضروری ہے، اس لیے بنون فرمایا کہ یہ ہے حیاتِ دنیا کی زینت، اس لیے عورتوں کے پردے میں رہنے کا ثبوت ہوتا ہے۔
مناظرہ طالب علموں کا شطرنج ہے:
فرمایا کہ مناظرہ طالب علموں کا شطرنج ہے، میں اس کو پسند نہیں کرتا۔ سوائے قیل و قال کے اور تضییعِ اوقات کے اور کچھ نتیجہ نہیں، اظہارِ حق کی نیت تو کسی کی بھی نہیں ہوتی، اور ''مَا شَاءَ اللہُ'' بس یہ نیت ہوتی ہے کہ ہیٹی نہ ہو، سبکی نہ ہو۔ صرف ہٹ دھرمی، سخن پروری ہوتی ہے۔
حقائق کا نہ جاننا باعثِ پریشانی ہے:
فرمایا کہ حقائق نہ جاننے کی وجہ سے عالَم پریشان ہے۔ بدوں حقائق کی واقفیت کے بڑی پریشانی ہوتی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ بقدرِ ضرورت ہر چیز موقع کی قلب میں پیدا فرما دیتے ہیں، ضرورت کے وقت کوئی پریشانی یا الجھن نہیں ہوتی۔
حضرت والا کی تین رائیں:
فرمایا: میری پرانی رائے ہے کہ تعزیراتِ ہند کے قوانین اور ڈاکخانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارسِ اسلامیہ کے درس میں داخل ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ مدارسِ اسلامیہ جیسے دیوبند، سہارنپور کی طرف سے ہر جگہ مبلّغ رہیں، تمام ملک کے ہر حصہ میں مستقل طور پر ان کا قیام ہو، با ضابطہ نظام ہو، اور دیگر ممالک میں مبلّغ تیار کر کے بھیجے جائیں۔ تیسرے یہ کہ مدارسِ اسلامیہ کے ما تحت صنعت و حِرفت کا شعبہ ضرور ہونا چاہیے تاکہ فراغ کے بعد کسی طرح محتاج نہ ہوں۔
صلوٰة اللّیل و تہجّد کی تعریف:
فرمایا کہ عشاء کے بعد قبل از نوم تو نوافل کا نام صلٰوة اللّیل ہے، اور تہجّد بعد النّوم ہے۔ ان دونوں کی ایک مشترک فضیلت ہے، اور ایک خاص فضیلت تہجّد کی ہے۔ مگر صلٰوة اللّیل قائم مقام تہجّد کی ہو جاتی ہے۔
چالاکی کی تعریف:
فرمایا: چالاکی تو وہ ہے جس کو کوئی سمجھ نہ سکے، ورنہ وہ تو پھوہڑ پَن ہے۔ جب پتہ لگ گیا تو ہوشیاری اور چالاکی ہی کیا ہوئی۔
معافی کے بعد دل ملنا غیر اختیاری ہے:
فرمایا کہ معافی کے دو درجے ہیں: ایک تو معافی یعنی انتقام نہ لینا، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ دوسرے معافی کے بعد دل ملنا۔ اوّل اختیاری ہے، ثانی غیر اختیاری، جس پر ملامت نہیں۔
پڑوس کی حد:
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت پڑوس کی حد کہاں تک ہے؟ فرمایا کہ عُرف میں جہاں تک پڑوس کہلاتا ہے۔ پھر اس میں جتنا زیادہ قریب ہے اتنا ہی زیادہ حق زائد ہے، اور جتنا دور ہے اتنا ہی کم۔
اہلِ عقل و اہلِ دین و اہلِ فہم کی مشکل:
فرمایا کہ اگر کچھ مشکل ہے تو اہلِ حق، اہلِ عقل، اہلِ فہم، اہلِ دین ہی کو ہے، کیونکہ ان کو آخرت کی فکر ہے، اس لیے وہ حدود سے گذر کر نہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں۔
محسن کشی کی وجہ بددینی ہے:
فرمایا کہ محسن کشی آج کل مرضِ عام ہو گیا ہے۔ بڑا ہی نازک زمانہ ہے، یہ سب بددینی کی بدولت ہو رہا ہے۔
ہم لوگوں کے خواب بعض پریشان خیالات ہیں:
فرمایا کہ خواب ہوتے ہیں انبیاء علیہم السّلام کے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے، اولیاء رحمۃ اللہ علیہم کے۔ ہم جیسوں کے بھی بھلا کوئی خواب ہیں، ہم لوگوں کے خواب، خواب ہی نہیں ہوتے جس کی تعبیر ہو، پریشان خیالات کا نام خواب رکھ لیا ہے، پھر ان کی تعبیر ہی کیا ہو۔
نقطۂ نظر:
مسلمانوں کا تو یہ مذہب ہونا چاہیے کہ باستثناء ضرورتِ شدیدہ ایک ہی کی طرف مشغول رہیں، اور یہ حالت رہے ؎
ما قصّۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس
دنیوی یا دینی ضرورت:
فرمایا کہ گو دینی یا دنیوی ضرورت سے کسی سے تعلّق شغل مع اللہ کے منافی نہیں، مگر بعض اوقات اس تعلّق کا اثر ضرورت پر غالب ہوتا ہے، البتّہ یہ قابلِ ترک ہے۔
تقدیر کا مسئلہ:
فرمایا کہ تقدیر کا مسئلہ اس لیے تعلیم کیا گیا ہے کہ مسلمان کو ناکامی پر حسرت نہ ہو، اور حسرت میں ہمّت نہ گھٹے۔ تو یہ مسئلہ ہمّت بڑھانے کو سکھایا گیا تھا، اب لوگ الٹا سمجھ گئے کہ کچھ نہ کرو، ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جاؤ، یہ سب کمی علم کی ہے۔
کبھی صورت بھی سیرت تک پہنچا دیتی ہے:
فرمایا کہ جو عمل خلوص اور محبّت سے خالی ہو گا وہ بے مغز کا بادام ہے، بے رس کا آم ہے، اس کے پیدا کرنے کی تو کوشش کرتے رہنا چاہیے مگر جب تک خلوص اور محبت پیدا نہ ہو اس وقت تک اس کی نقّالی کو بھی بے کار نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس لیے کہ کبھی صورت بھی سیرت تک پہنچا دیتی ہے۔ اصل میں تعمیرُ الظاہر و الباطن کی ضرورت ہے۔ اگر اجتماعاً نہ ہو تو تعاقباً سہی۔ ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ عمل ریا سے بھی ہو اس کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے، کرتا رہے، اس لیے کہ رِیا سے عادت ہو جاتی ہے اور عادت سے عبادت۔
جوش کا نہ ہونا نقص نہیں:
فرمایا کہ لوگ جوش نہ ہونے کو نقص سمجھتے ہیں، یہ تو محض خیال ہی خیال ہے۔ بعض کو محبّت ہوتی ہے، عمل میں خلوص بھی ہوتا ہے، مگر جوش نہ ہونے کی وجہ سے احساس نہیں ہوتا۔ مگر جوش کوئی مقصود چیز نہیں، یہ اختلاف فطری ہے۔ بعض میں ضبط ہوتا ہے اور بعض میں جوش و خروش۔
فضیلت کی حقیقت:
فرمایا کہ کسی صفت میں اپنے کو دوسرے سے اَکمل سمجھنا جائز ہے، کیونکہ وہ حسی چیز ہے، مگر افضل سمجھنا ناجائز ہے کیونکہ وہ غیبی چیز ہے۔ فضیلت کی حقیقت ہے کثرتِ ثواب عند اللہ، جس کا حاصل مقبولیت ہے۔ مثلًا ایک شخص کے ایک آنکھ ہے اور دوسرے کے دو، تو دو والے کو یہ سمجھنا کہ میں اکمل ہوں، میرے پاس خدا کی دی ہوئی نعمت ہے، یہ جائز ہے۔ مگر اس سے افضل سمجھنا جائز نہیں۔ کیونکہ آنکھ کو قُُرب عند اللہ میں کوئی دخل نہیں۔ یا ایک شخص عالم ہے اور ایک جاہل، تو یہ اکمل تو ہے، مگر افضل ہونا خدا ہی کو معلوم ہے، افضل جاہل ہے یا عالم۔ کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ عالم کے لیے افضل ہونا بھی لازم ہے، ممکن ہے اس جاہل کے قلب میں ایسی کوئی چیز ہو کہ وہ علم سے کہیں زیادہ خدا کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو۔ تو اپنی اکملیّت کے بناء پر اپنے کو افضل سمجھنا یہ برا ہے، یہی علوم ہیں جو باخبر کی صحبت میں میسّر ہوتے ہیں۔
صاحبِ استعداد ہونا:
فرمایا کہ کتنا ہی بڑا ذی استعداد ہو، بدون صحبتِ شیخِ کامل کے بصیرت نہیں ہو سکتی۔ ہاں بصیرت کے بعد پھر خواہ شیخ سے بڑھ جائے، یہ ممکن ہے۔
خداداد صفات:
فرمایا کہ بعض بندوں میں کوئی ایسی خداداد صفت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے سامنے دوسروں کے کمالات گرد ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی کی کمی کو دیکھ کر اس کو ناقص اور اپنے کو کامل سمجھنا غلطی ہے۔ ممکن ہے اس کا نقص عارضی ہو، اسی طرح تمہارا کمال اس عارض کے ارتفاع کے بعد عکس کا ظہور ہو جائے گا، تو حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
طریقِ مستقیم شریعت کا پل صراط ہے:
فرمایا کہ بعض اہلِ لطائف نے لکھا ہے کہ یہ طریقِ مستقیمِ شریعت جو ہے یہی پل صراط ہے، یہی بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے۔ اس کی توجیہ یہ لکھی ہے کہ طریقِ مستقیم کی حقیقت ہے ہر چیز میں اعتدال، اور اعتدال کی حقیقت ہے وسطِ حقیقی، اور وسطِ حقیقی متجزّی نہیں ہوتا، تو بال سے باریک ہوا کیونکہ بال عرض میں متجزّی ہوسکتا ہے۔ نیز حقیقی وسط میں عمل مشکل بھی ہے، اس لیے تلوار سے تیز ہوا۔ پھر فرمایا: کسی کامل کی جوتیاں سیدھی کرنے سے یہ دشوار راہ طے ہو سکتی ہے، بدون رہبرِ کامل کے اس میں قدم رکھنا خطرہ سے خالی نہیں۔
صاف صاف کہنا فطری امر ہے:
فرمایا کہ کثرت سے غلطی یہ کرتے ہیں کہ صاف بات نہیں کہتے، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کو تعلیم نہیں ہوئی۔ اور میں کہتا ہوں کہ یہ تکلّفات تعلیم ہی کی وجہ سے ہیں، مگر تعلیمِ فاسد۔ ورنہ فطری امر ہے کہ آدمی صاف بات کہہ دے۔
اسرارِ طریقت عرائسِ باطنی ہیں:
فرمایا کہ اسرارِ باطنی کے اِخفاء کی بڑی زبردست تاکید ہے، جیسے اپنی دلہن اغیار کو دکھلانے سے غیرت آتی ہے، اسی طرح اس میں غیرت آتی ہے۔ یہ اسرارِ عرائسِ باطنی ہیں۔
انسان دوستی:
فرمایا کہ انسان ایسے فکروں میں کیوں پڑے کہ کافر جہنم میں ابد الآباد کے لیے کیوں جائیں گے، ایسے عبث فکروں میں پڑ کر انسان دوست کی مشغولی سے رہ جاتا ہے۔ مسلمان کا تو یہ مذہب ہونا چاہیے کہ جن سے ان کی صلح ہماری بھی صلح، جن سے ان کی جنگ ہماری بھی جنگ۔ اس صلح و جنگ کے علل کی تفتیش کیوں کی جاتی ہے۔ اسی طرح ان امور میں، بلکہ خود اپنے متعلّق بھی، رائے تجویز کیوں لگائی جائے۔
فکرِ خود و رائے خود در عالمِ رِندی نیست
کفر است دریں مذهب خودبینی و خودرائی
عقل زوال پذیر ہے:
فرمایا کہ یہ جو مشہور ہے کہ ایک روپیہ ایک عقل، دو روپیہ دو عقل، تجربہ کے خلاف اور بالکل غلط ہے۔ تجربہ تو یہ ہے کہ روپیہ ہونے سے عقل کو اور زوال ہوتا ہے، اور یہ خود اہلِ اموال کی اقراری ڈگری ہے، وہ اس کے مُقر ہیں۔ اور عام طور سے زبان زد ہے کہ سو روپیہ میں ایک بوتل کا نشہ ہوتا ہے، اگر کسی کے پاس ہزار روپیہ ہو تو دس بوتلوں کا نشہ ہوا، اور جب ایک چُلّو شراب میں آدمی اُلّو بن جاتا ہے تو دس بوتلوں میں بھلا عقل کہاں، ہاں بجائے عقل کے اگر یوں کہا جائے کہ پیسہ پاس ہونے سے اَکل بڑھتا ہے، تو بالکل مناسب ہے۔
فتح و نصرت کا مدار قلّت و کثرت نہیں:
فرمایا کہ فتح و نصرت کا مدار قلّت و کثرت پر نہیں، وہ چیز ہی اور ہے۔ مسلمانوں کو صرف ایک چیز کا خیال رکھنا چاہیے، یعنی خدا تعالیٰ کی رضا، پھر کام میں لگ جانا چاہیے۔ اگر کامیاب ہوں تو شکر کریں، نا کامیاب ہوں تو صبر کریں۔ اور مؤمن تو حقیقتاً کبھی نا کامیاب ہوتا ہی نہیں، گو صورةً نا کام ہو جائے۔ اس لیے کہ اجرِ آخرت تو ہر وقت حاصل ہے، جو ہر مسلمان کا مقصود ہے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ساٹھ ہزار کے مقابلہ میں تیس آدمی تجویز کئے تھے، حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امّتِ محمّدیہ کو ہلاک کراؤ گے؟ تب ساٹھ آدمی تجویز کئے، یعنی ایک ہزار کے مقابلہ میں ایک آدمی۔ قلّت و کثرت کی طرف ان حضرات کا خیال ہی نہ تھا۔
تنعُّم اور تعیُّش:
فرمایا کہ تنعُّم اور تعیُّش کا اکثری خاصہ ہے کہ حدود محفوظ نہیں رہتے۔ ہاں اگر تنعُّم کے ساتھ دین ہو اور کسی کامل کی صحبت میسر آ گئی، تب تو حدود کا خیال رہتا ہے۔ اس لیے کہ اس سے ہر چیز کو اعتدال کے ساتھ قلب میں رسوخ ہو جاتا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فراست:
فرمایا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا تھا کہ ہمارے بازار میں صرف وہ لوگ خرید و فروخت کریں جو فقیہ ہوں۔ اس سے تمام ملک کو درسگاہ بنا دیا تھا، اس لیے کہ سب خریداروں کو ان ہی کے ساتھ سابقہ پڑتا تھا، عجیب فراست تھی۔
محبت کا مدار بے غرضی پر ہے:
فرمایا: پیر بھائیوں میں آپس میں سب سے زیادہ محبّت ہونا چاہیے، اس لیے کہ محبّت کا مدار بے غرضی پر ہے، اور بے غرضی اس طریق والوں میں اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔
فرمایا کہ ہم کو بندہ بن کر رہنا چاہیے، خواہ رعب ہو یا نہ ہو۔ فرعون بن کر نہ رہنا چاہیے، اگرچہ اس سے رعب ہی ہو۔
فرمایا کہ نہ اس کی فکر چاہیے کہ کوئی اپنا بنے، اور نہ اس کی کہ کوئی برگشتہ رہے، بس اپنے کام میں مشغول رہے۔
جی کے بندہ نہ بنو، اللہ کے بندے بنو:
فرمایا کہ جو کام ضروری ہیں ان کو کرنا چاہیے، خواہ جی لگے یا نہ لگے۔ یہ تو حالت ہی بری ہے کہ جی لگنے کا انتظار کیا جائے، کیا اپنے جی کی پرستش کرنا چاہتے ہو؟ جی کے بندے ہو یا اللہ کے؟
فرمایا کہ یہ مرض عام ہو گیا ہے کہ صاف بات رہی ہی نہیں، دھوکہ دے کر کام نکالنا چاہتے ہیں، ہر چیز میں مکّاری و چالاکی پیدا ہو گئی ہے، دوسرے شخص کو گدھا اور بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔
فرمایا کہ میرا معمول ہے کہ میں اپنے ذمّہ تو کوئی کام رکھتا نہیں، نہ دوسرے کو بھروسہ دیتا ہوں، مگر فکر ذمّہ داروں سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
فرمایا کہ دوستوں میں جب تک شکایت ایک دوسرے کی باقی رہے دوستی باقی ہے، کیونکہ شکایت اسی وقت ہوتی ہے جب تعلّق کا باقی رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ اور قطع تعلّق کے بعد شکایت کو بے کار سمجھتے ہیں۔ اسی سے کہا گیا ہے:''وَ یَبْقَی الْوُدُّ مَا بَقِيَ الْعِتَابُ'' ؎
بے شکایت نہیں اے ذوق محبّت کے مزے
بے محبّت نہیں اے ذوق شکایت کے مزے
فرمایا کہ مسلمان خوف سے تو مغلوب نہیں ہوتے مگر طمع سے مغلوب ہو جاتے ہیں، اور میرا یقین ہے کہ اگر کسی کامل کی صحبت میں کچھ روز رہے تو یہ طمع کا مادہ مغلوب ہو جاوے گا، پھر اس سے بھی مغلوب نہ ہو گا۔
خوش آوازی کی تعریف:
فرمایا کہ قرآن مجید خوش آوازی سے پڑھنے کی تعریف سلف سے یہ منقول ہے کہ جب تم اس کو پڑھتے ہوئے سنو تو یہ معلوم ہو کہ یہ خدا سے ڈر رہا ہے۔
تبلیغ میں تشدّد کا لہجہ مناسب نہیں:
فرمایا: جس شخص کو احکام پہنچ چکے ہوں اس کو تبلیغ کرنا کوئی فرض نہیں، واجب نہیں۔ محض ایک مستحب فعل کی وجہ سے اپنے کو خطرہ میں ڈالنا مناسب نہیں۔ اور طبعی بات ہے کہ حکومت کی سختی لوگ ہر طرح برداشت کر لیتے ہیں، مگر بدون حکومت کے کوئی کسی کا دباؤ سہہ نہیں سکتا۔ اس لیے تبلیغ میں تشدّد کا لہجہ ہرگز مناسب نہیں۔ مناسب طرز ہمارے لیے یہی ہے کہ نرمی اختیار کریں۔
زور سے نہیں، ترغیب سے کام چلتا ہے:
فرمایا کہ آدمی کا اپنا برتاؤ عمر بھر ساتھ دے سکتا ہے، اپنے برتاؤ سے امن اور عافیت حاصل ہو سکتا ہے، دوسرے کی امداد سے کام نہیں چلتا۔ اگر سختی کرنے پر کسی نے ناقابلِ برداشت تکلیف پہنچا دی اور اس میں کسی نے امداد بھی کر دی، تو کہاں تک اس کا نباہ ہو سکتا ہے؟ بس آج کل ترغیب سے کام کرنا مصلحت ہے، یہ وہ زمانہ ہے کہ بیٹے پر تو حکومت ہے ہی نہیں، زور سے کام نہیں چلتا۔
امراء کو نفع شیخ کے استغنا سے ہوسکتا ہے، اگر امراء کو نفعِ دینی پہنچانا ہو، تو ان سے استغناء برتو۔
ہدیہ قبول کرنے کی شرائط:
فرمایا کہ میں مخالف سے ہدیہ قبول کرنے میں شرائط کی ضرورت نہیں سمجھتا، کیونکہ اس میں کسی دھوکہ کا شبہ نہیں ہوتا۔ البتہ دوستوں سے ہدیہ لینے میں ہچر مچر کرتا ہوں، کیونکہ ان میں احتمال دھوکہ کا ہے کہ شاید بزرگ سمجھ کر دیتے ہوں۔ اسی طرح ایسی جگہ بھی بدل لینے میں احتیاط کرتا ہوں جہاں ذلّت کا شبہ ہوتا ہے، اسی طرح اجنبی شخص سے ہدیہ نہیں قبول کرتا کہ غیرت آتی ہے، اور نہ اجنبی شخص سے خدمت لیتا ہوں، یہ خیال ہوتا ہے کہ میں نے اس کی کوئی خدمت ابھی تک تو کی نہیں، اس سے کیا خدمت لی جائے۔
بدعت:
فرمایا کہ بدعتی وہ ہے جس کے عقیدے میں خرابی ہو۔ اور جس کے صرف عمل میں کوتاہی ہو اس کو بدعتی نہ کہو۔
عاجزی، انکساری کی ترغیب:
فرمایا کہ ایک صاحب نے مجھ کو عربی میں خط لکھا، میں نے پوچھا کہ عربی میں خط کیوں لکھا، جب کہ اردو میں لکھ سکتے تھے۔ جواب میں لکھا کہ جنتیوں کی زبان عربی ہو گی، اس لیے برکت کےلیے عربی میں لکھا۔ فرمایا کہ قسم کھا کر لکھو، کہ اگر تم یہاں پر کبھی آئے تو کیا تم عربی میں گفتگو کرو گے؟ اس لیے کہ جیسے عربی تحریر میں برکت ہے، ایسے ہی عربی تقریر میں بھی برکت ہے۔ اجی! تفاخر، بڑائی اور اظہارِ علم و قابلیّت کے سوا اور کچھ نہیں۔ عاجزی، انکساری، پستی اور شکستگی تو رہی ہی نہیں۔
دیکھنے کی چیز در حقیقت قلب ہے:
فرمایا: زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ دل میں دین کی وقعت ہو، عظمت ہو۔ لوگ اعمال کو دیکھتے ہیں مگر دیکھنے کی چیز در حقیقت قلب ہے کہ اس کے دل میں اللہ اور رسول کی محبّت اور عظمت کس قدر ہے۔
بے کاری میں شیطان قلب میں تصرّف کرتا ہے:
فرمایا کہ میں تو اس کو پسند کرتا ہوں کہ ہر شخص کام میں لگے، چاہے وہ کام دین کا ہو یا دنیا کا۔ جو شخص مشغول ہوتا ہے وہ بہت سی خرافات سے بچا رہتا ہے۔ ایک بزرگ اپنے خدّام کے ساتھ جارہے تھے، ایک شخص اوپر بیٹھا ہوا تھا، بزرگ نے اس کو سلام نہیں کیا، اور جب اسی راستہ سے لوٹے تو وہ شخص زمین کُرید رہا تھا، ان بزرگ نے اس کو سلام کیا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ حضرت اس میں کیا راز تھا کہ اس شخص کو آپ نے پہلے تو سلام نہیں کیا اور اب کیا، فرمایا کہ پہلے وہ بے کار بیٹھا تھا اس لیے اس کے قلب میں شیطان تصرّف کر رہا تھا۔ اور اب مشغول ہے (گو بیکار ہی فعل میں سہی) جو معصیت بھی نہیں، اس لیے شیطان اس سے دور ہے۔
ہم لوگوں کے خواب اَضغاث و احلام ہیں:
ایک سالک نے اپنا خواب لکھا۔ فرمایا کہ مجھ کو خواب کی تعبیر سے مناسبت نہیں۔ اور اگر ہے بھی تو اکثر لوگوں کے خواب، خواب نہیں ہوتے، جن کی تعبیر دی جائے۔ بعض پریشان خیالات کا نام خواب رکھا ہے۔ خواب تو ہوتے ہیں انبیاء علیہم السّلام کے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے، اولیاء رحمہم اللہ کے۔ ہم جیسوں کے بھی کوئی خواب ہیں۔
اللہ کا نام دنیا کے لیے نہ لو:
ایک شخص نے لکھا کہ میں وظائف پڑھتا ہوں، ہفت ہیکل، شش قفل، مگر اِفلاس پھر بھی نہ گیا۔ اگر آپ فرمائیں تو ان وظائف کو چھوڑ دوں۔
فرمایا کہ میں نے لکھ دیا ہے کہ چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے، مگر اللہ کا نام آخرت کے لیے پڑھا جاتا ہے، نہ دنیا کے لیے۔ تم بھی دنیا کے لیے نہ پڑھو۔
نصیحت کرنا عالم کا کام ہے:
فرمایا ناصح اگر عالم نہ ہو گا اور نصیحت کرے گا تو اس میں تکبّر ہو گا، کیونکہ وہ اس خیال سے نصیحت کرے گا کہ میں اس سے اچھا ہوں، تو اس کا اثر نہ ہو گا۔ مناسب طریق سے نصیحت کرنا یہ عالم ہی کا کام ہے۔ دوسرے فطری طور پر مخاطب کے قلب میں اس کی عظمت و محبّت ہوتی ہے، اس کی سختی بھی گوارا کر لی جاتی ہے۔ مگر بے علم کو ہرگز یہ نہ چاہیے کہ تبلیغ میں تشدّد کرے۔
ذہانت بھی عجیب چیز ہے:
فرمایا کہ ذہانت بھی عجیب چیز ہے۔ ایک شیعی نے ایک مولوی صاحب سے کہا کہ آج یہ جس قدر نئے نئے فرقے بنتے ہیں یہ سب سنیوں میں سے بنتے ہیں، آپ نے شیعوں میں سے کوئی فرقہ باطلہ بنتے نہ دیکھا ہو گا۔ مولوی صاحب نے اس شیعی کو جواب دیا، بنتے دیکھنا کیا معنٰی، سنا بھی نہیں۔ یہ تو واقعہ ہے جو بالکل صحیح ہے۔ لیکن اس کی وجہ جناب کو معلوم نہیں مجھ کو معلوم ہے، اور وہ یہ کہ یہ تو آپ کو تسلیم ہو گا کہ شیطان اپنا وقت بے کار نہیں کھوتا پھرتا، جو اس کا فرضِ منصبی ہے شب و روز اس کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے۔ شیعی نے کہا یہ تو مسلّم ہے۔ مولوی صاحب نے کہا اب سنیئے کہ شیطان شیعوں کو انتہائے مرکز گمراہی پر پہنچا چکا ہے اور اس سے آگے کوئی درجہ گمراہی کا رہا نہیں، اس لیے ان کو اور کہاں لے جائے۔ باقی سنّیوں کو حق پر سمجھتا ہے اس لیے رات دن ان کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اس کو بہکا دیا، اس کو بہکا دیا۔ وہ شیعی بے چارہ مبہوت رہ گیا۔
بدعتی کی تعریف:
فرمایا کہ بدعتی وہ ہے جس کے عقیدے میں خرابی ہو، اور وہ نہیں جس کے عمل میں خرابی ہو، اور عقیدہ میں نہ ہو۔
ایک سلسلہ کی تحقیر سب کی تحقیر ہے:
فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب چاروں سلسلے میں اس لیے بیعت فرماتے تھے کہ دوسرے سلسلوں کی تحقیر اور بد گمانی، بد ظنّی کا قلب میں وسوسہ نہ آ سکے۔ کیونکہ حاصل مقصود تو سب سلسلوں کا ایک ہی ہے، صرف طریقِ تربیّت کے اعتبار سے فرق ہے۔ معنوں میں ایک ہے، عنوان میں فرق ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کی تنقیص کرے گا وہ اس طریق میں بھی محروم رہے گا، کیونکہ ایک سلسلہ کی تحقیر سب کی تحقیر ہے۔
تعجیلِ بیعت کی حد:
ایک شخص کی درخواستِ بیعت پر حضرت والا نے فرمایا: تعجیل مناسب نہیں۔ پھر اس نے لکھا کہ تعجیل کی حد کیا ہے، تاکہ اس وقت تک کچھ نہ بولوں۔ فرمایا کہ جس وقت تک میرے چالیس وعظ اور رسائل نہ دیکھ لو، اور بیس مرتبہ خط و کتابت نہ کر لو، اور دس بار ملاقات نہ کر لو۔ بس یہی حد ہے۔
شیخ کا تو بس ایک کام ہے:
فرمایا کہ میں تو صرف ایک کام کا ہوں وہ یہ کہ اللہ کا راستہ معلوم کرو۔ یعنی اللہ کا نام اور اس کے احکام پوچھ لو، اس سے آگے مجھے کچھ آتا جاتا نہیں۔
حال: ایک صاحب نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے، جب وہ بیمار ہوتی ہے تو میں بدحواس ہو جاتا ہوں، قلب میں دنیا کی اس قدر محبّت ہے۔
تحقیق: اولاد دنیا نہیں ہے، ہاں دنیا میں رہتی ہے۔ مگر ان کے حقوق ادا کرنا دین ہے۔
حال: وطن چھوڑ کر کہیں چلا جاؤں تب اس بلا سے نجات ملے گی۔
تحقیق: بلا سے بھی نجات ملے گی، لیکن ثواب سے بھی نجات ملے گی۔
حال: اولاد نے بندہ کو تباہ کردیا۔
تحقیق: بندہ کو تباہ کر دیا لیکن بندے کے دین کو تباہ نہ کیا۔
حال: بندہ کی مشکل حضرت کی توجہ اور دعا سے آسان ہو گی۔
تحقیق: اگر مشکل مشکل ہی رہے تو ثواب زیادہ ملے گا۔
صحبتِ بزرگانِ دین فرضِ عین ہے:
فرمایا کہ یہ زمانہ نہایت ہی پُرفتن ہے، اس میں تو ایمان ہی کے لالے پڑے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے بزرگانِ دین کی صحبت کو فرضِ عین قرار دیا ہے، اور اس میں شبہ کیا ہو سکتا ہے، اس لیے کہ جس چیز پر تجربہ سے تحفّظِ دین، تحفظِ ایمان موقوف ہو، اس کے فرض ہونے میں شبہ کی کیا گنجائش ہے۔
فلاحِ دارین:
فرمایا کہ مسلمانوں کی غفلت شعاری کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ حالانکہ آخرت کے لیے اپنے اعمال کی اصلاح، اور دنیا کے لیے قوّت کا اجتماع، اور آپس میں اتحاد و اتّفاق، یہ سب ان کا فرض تھا۔ اور یہ جو مسلمانوں کو اپنی فلاح سے استغناء ہے، اس کا منشاء چند غلطیاں ہیں۔
(1) ایک غلطی، استعمال توکّل کا۔ سو توکّل تو فرض ہے، ہر مسلمان کو براہِ راست خدا تعالیٰ سے ایسا ہی تعلّق رکھنا چاہیے کہ کسی چیز کی پرواہ نہ کرے، یہی اعتقاد رکھے کہ جو خدا کو منظور ہو گا وہی ہو گا، کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن توکّل کا استعمال خلافِ محل کرتے ہیں۔
(2) دوسری غلطی یہ کہ جو کام کرتے ہیں جوش کے ما تحت کرتے ہیں۔ اگر ہوش کے ما تحت کریں تو بہت جلد کامیاب ہوں۔
(3) تیسری غلطی یہ کہ ہر کام کرنے سے پہلے یہ معلوم کر لینا واجب ہے کہ شریعتِ مقدّسہ کا اس کے متعلّق کیا حکم ہے، پھر اللہ و رسول ﷺ کی بتلائی ہوئی تدابیر پر عمل کرے۔
حاصل نظام صحیح یہ ہوا کہ جوش کے ماتحت کوئی کام نہ کرے، ہوش کے ماتحت کیا کرے، اپنی قوّت کو ایک مرکز پر جمع کر لیں۔ تیسرے آپس میں اتّحاد و اتّفاق رکھیں۔ احکام کی پابندی کریں جن میں توکّل بھی داخل ہے۔
اگر ایسا کریں تو میں دعوے کے ساتھ خدا کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ چند روز میں کایا پلٹ ہو جائے۔ بہت جلد مسلمانوں کے مصائب اور آلام کا خاتمہ ہو جائے۔
نیز جو کام کریں اس میں کامیابی کے لیے خدا سے دعا کریں، پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ مگر اس وقت کام کی ایک بات نہیں محض ہڑبونگ ہے۔
اسلامی سلطنت کی تعریف:
فرمایا کہ قاعدۂ عقلیہ ہے کہ مرکب کامل اور ناقص کا ناقص ہی ہوتا ہے، تو کفّار اور مسلم سے جو سلطنت مرکّب ہو گی وہ غیر اسلامی ہو گی۔ پس جبکہ ترکی میں (یورپ کی تقلید میں جمہوریت) قائم ہو گئی ہے، جو مسلم اور غیرمسلم سے مشترک ہے، تو وہ اسلامی سلطنت نہ ہوئی، لیکن مسلمانوں پر اس کی نصرت واجب ہے، کیونکہ دوسری غیرمسلم سلطنتیں اس کا مقابلہ اسلامی سلطنت سمجھ کر کرتی ہیں۔
دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں:
فرمایا کہ دعا بڑی چیز ہے، تمام عبادات کا مغز ہے۔ اور سب سے زیادہ اسی سے غفلت ہے۔ اور دعا ایسی چیز ہے کہ دنیا کے کاموں کے واسطے بھی دعا مانگنا عبادت ہے، بشرطیکہ وہ کام شرعاً جائز ہوں۔ یہ غلطی ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ دین ہی کے کاموں کے واسطے اور آخرت ہی کی فلاح و بہبود کے لیے دعا عبادت ہے۔ بعض لوگ بجائے درخواستِ دعا کے لکھتے ہیں کہ فلاں کام کے لیے کوئی مجرّب عمل اور کوئی وظیفہ بتلا دیجئے۔ میں لکھ دیتا ہوں کہ اس قدر (مجرّب) کے ساتھ مجھ کو عمل معلوم نہیں، اور دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ اور عمل نہیں۔
عربی زبان میں شوکت ہے:
فرمایا کہ واقعی عربی زبان میں ہے ہی شوکت۔ دیکھئے ''عطاء اللہ'' کس قدر پر شوکت نام معلوم ہوتا ہے اور ''اللہ دیا'' میں وہ بات نہیں۔ اسی طرح عائشہ کا ترجمہ ہے جیونی، مگر عربی میں کیسی شوکت معلوم ہوتی ہے اور ترجمہ میں وہ بات نہیں۔
فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک استاد الاستاد بزرگ کا قول نقل فرماتے تھے کہ کسی لڑکے کو دین کا بنانا ہو تو درویش کے سپرد کرو۔ اور دنیا کا بنانا ہو تو طبیب کے سپرد کرو، اگر دونوں سے کھونا ہو تو شاعر کے سپرد کرو۔ میں نے عرض کیا کہ چوتھی ایک صورت اور رہ گئی کہ اگر دونوں کا بنانا ہو۔ فرمایا یہ ہو نہیں سکتا۔ واقعی حضرت مولانا نے صحیح فرمایا۔ اسی کو فرمایا گیا ہے ؎
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دُوں
ایں خیال است، محال است و جنوں
دنیا کی ناپائیداری کی مثال:
دنیا کی طرف کامل توجّہ کرنے سے حقیقتِ دنیا کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ اور فرمایا کہ ناصحین حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ دنیا کی طرف التفات نہ کرو۔ اور میں کہتا ہوں کہ خوب التفات کرو، خوب توجّہ کرو تاکہ اس مردار کی حقیقت واضح ہو جائے، اور پھر کامل درجہ کی اس سے نفرت ہو۔
بس قامت خوش کہ زیر چادر باشد
چوں باز کنی مادرِ مادر باشد
یہاں کے جو لذّات ہیں ان میں بھی کدورت ہے۔ کھانا ہے، پینا ہے، بیوی کے ساتھ عیش و عشرت ہے، اس میں بھی ساتھ کے ساتھ کدورت ہے، گو بوجہ مستی محسوس نہ ہو۔ اب چاہے وہ مستی دولت کی ہو یا جوانی کی ہو، اس سے حِس پر پردہ پڑ جاتا ہے ؎
ضعفِ سِر بیند ازاں و تن پلید
آہ ازاں نفسِ پدید و نا پدید
حالِ دنیا را بہ پرسیدم من از فرزانۂ
گفت یا خوابے ست یا باد ست یا افسانۂ
باز گفتم حال آنکس گو کہ دل دروے بہ بست
گفت یا غولے سے یا دیو ست یا دیوانہ
مال و جاہ کی مقدارِ مطلوب:
فرمایا کہ ایک مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ بس مال تو اتنا ہو کہ بھوکوں نہ مروں، اور جاہ اتنی ہو کہ کوئی مارے پیٹے نہیں، بس کافی ہے۔ اسی کو فرماتے ہیں ؎
از بہرِ خورش ہر آنکہ نانے دارد
و زِ بہرِ نشست آستانے دارد
نے خادمِ کس بود نہ مخدومِ کسے
گو شاد بزی کہ خوش جہانے دارد
حسن و جمال کا فرق:
حسن اور چیز ہے، جو حضرت یوسف علیہ السلام کی صفت میں وارد ہے، اور جمال جس میں حضورِ اقدس ﷺ سب سے افضل ہیں اور چیز ہے۔ اور حسن سے جمال بڑھا ہوا ہے۔ حسن کو دیکھ کر تو ایک گونہ تحیّر ہوتا ہے اور جمال کو دیکھ کر کشش ہوتی ہے۔ اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا کہ اگر حضور ﷺ کو اَجمَل کہا جائے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو اَحسَن کہا جائے، تو نہ کسی نصّ کی مزاحمت ہے اور نہ کسی کی تنقیص ہوتی ہے۔ یعنی یوں کہا جائے کہ حسن میں حضرت یوسف علیہ السلام سب میں فائق تھے اور جمال میں حضور ﷺ، تو کیا حرج ہے۔
حجبِ نورانی اَشَدّ ہیں حجبِ ظُلمانی سے:
فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ ”انوارِ مَلَکوتی حجاباتِ نورانی ہیں اور کائناتِ ناسُوتیہ حجاباتِ ظُلمانی ہیں، اور حجبِ نُورانیہ اَشَدّ ہیں حجبِ ظلمانیہ سے۔ اس لیے کہ انسان ان کو مقصود سمجھ کر آگے کی ترقّی سے رہ جاتا ہے اور حق تعالیٰ سے محجوبی ہو جاتی ہے، اور حجاباتِ ظلمانی کو ہر شخص ناقابلِ التفات اور حجابِ مذموم سمجھتا ہے۔ اسی طرح اَشغال وغیرہ اس طریق میں تدابیر کے درجے میں ہیں، یہ سب دوائیں ہیں غذا نہیں۔ اور دوا کبھی مقصود نہیں ہوا کرتی، ہاں مقصود کی معین ضرور ہوتی ہے، مقصود تو تندرستی ہے۔ ایسے ہی یہاں سمجھ لو! کہ یہ تدابیر مقصود نہیں، بلکہ مقصود اعمالِ واجبہ کی اصلاح و رسوخ ہے، اور وہ تدابیر اس کی طرف مُُعِین۔
غلوّ فی الدین:
فرمایا: توحید اور رسالت و عقائد اصل ہیں اور قطعی دلائل اس پر قائم ہیں، اس میں مذاہبِ حقّہ سب شریک ہیں، آگے فُروع ہیں جس کے دلائل خود ظنّی ہیں۔ ان میں کسی جانب کا جَزم کرنا غلوّ فی الدین ہے۔ اس لیے مذہبِ حنفی کے کسی مسئلہ کو اس طرح ترجیح دینا کہ شافعی مذہب کے ابطال کا شبہ ہو، طرزِ پسندیدہ نہیں۔
جو کام کرو شرعی اصول کے ما تحت کرو:
فرمایا کہ ان نیچریوں سے اگر کہا جائے کہ کچھ تعلیم دینی پڑھ کر پھر بعد میں انگریزی پڑھو، تو کہتے ہیں کہ انگریزی کو منع کرتے ہیں، اسی طرح مدارس کی حالت ہے کہ اگر ان کو شرعی اصول کے ما تحت تحصیلِ چندہ کا طریقہ بتلاؤ تو کہتے ہیں کہ چندہ وصول کرنے کو منع کرتے ہیں۔ اسی طرح تحریکِ خلافت کے زمانے میں، میں نے تصریحاً کہہ دیا تھا کہ میں مقاماتِ مقدّسہ کی حفاظت اور اسلامی حکومت کے خلاف نہیں ہوں، مجھ کو صرف طریقِ کار سے اختلاف ہے۔ کہا گیا کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے اور سی۔ آئی۔ ڈی سے تنخواہ پانے والا ہے۔ یہ لوگوں کا دین ہے۔
خطبہ فرمانِ شاہی ہے، اس کا عربی میں ہونا واجب ہے:
فرمایا کہ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آج کل اردو میں خطبۂ جمعہ پڑھنے پر بڑا زور دیا جا رہا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ کہتے ہیں خطبہ سے مقصود نصیحت ہے، جس کو سامعین سمجھ سکیں۔ فرمایا کہ نصیحت ضرور ہے، مگر اس میں دلیل سے عربی ہونے کی قید ہے۔ دلائل حسبِ ذیل ہیں۔
(1) شریعت چونکہ زبان عربی میں ہے اور یہ شاہی زبان ہے اس لیے اسی میں اس کا نفاذ ہونا چاہیے۔ دیکھو قانوناً ہر وائسرائے کو واجب ہے کہ فرمانِ شاہی کا انگریزی زبان میں اعلان اور تقریر کی جائے۔ وائسرائے کو اجازت نہیں اردو میں تقریر کرنے کی۔ اسی طرح یہ خطبہ فرمانِ شاہی ہے، اس کا عربی میں ہونا واجب ہے۔
(2) اگر سامعین میں بعض ہندی ہوں، بعض عربی، بعض ترکی، بعض مصری، تو اس صورت میں خطبہ کیا ہو گا؟ معجونِ مرکّب ہو گا، اور اس میں وقت کتنا صَرف ہوگا؟ ممکن ہے کہ نماز ہی کا وقت ختم ہو جائے، تو خطیب کس کس کا تابع ہو، پس خطیب کو کیوں مجبور کیا جائے کہ سامعین کی رعایت سے خطبہ کو عربی سے اردو میں کر دیا جائے، اور سامعین سے کیوں نہ کہا جائے کہ بقدرِ ضرورت دین کی تعلیم حاصل کریں، عربی سیکھیں۔ دین کو اپنا تابع کیوں بنا دیں اور خود دین کے کیوں نہ تابع بنیں۔
(3) دوسری قومیں اپنی اپنی زبانوں کی بقاء کی کوشش میں ہیں، اور بقاءِ قوم کا ایک جزو بقاءِ زبان پر بھی سمجھتے ہیں، تم اس میں ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟
چالاکی، مکّاری سے انتقام لینا:
فرمایا: عقل اور فہم لوگوں میں ہے نہیں۔ محض پالیسی، چالاکی، مکاری ہے۔ اور یہ چیزیں ایسی ہیں کہ سب ہی کو آتی ہیں، مگر جن کو نفرت ہے وہ اس کو عمل میں نہیں لاتے۔ جیسے سُور کو گوہ کھانا آتا ہے، انسان کو بھی آتا ہے، مگر آخر کون کھاتا ہے؟ اگر میں بھی ان چیزوں سے کام لیتا تو لے سکتا تھا، مگر میں انتقام میں بھی اس سے کام نہیں لیتا۔
شریعت کو طبیعتِ ثانیہ بنانے کی ترغیب:
فرمایا کہ حق تعالیٰ کے فضل و رحمت سے اور اپنے بزرگوں کی دعا اور توجّہ کی برکت سے، شریعت مثل میری فطرت کے بن گئی ہے۔ میں ایک منٹ اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی اپنے مسلک اور مشرب سے نہیں ہٹ سکتا۔ میں تو ان شاء اللہ ایک انچ احکامِ شرعیہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا ہوں نہ پیچھے ہٹ سکتا ہوں۔ جیسے تمہیں دنیا کی فکر سے فراغ نہیں، رات دن اس میں کھپ رہے ہو، اسی طرح مجھ کو آخرت کی فکر سے فراغ نہیں، ہر وقت اسی کی فکر ہے۔ مقیّد دونوں ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ایک محبوب کا مقیّد ہے اور ایک غرض کا مقیّد ہے۔ مگر ہیں دونوں مقید، فرصت نہ تمہیں نہ ہمیں ؎
تمہیں غیروں سے کیا فرصت، ہم اپنے غم سے کب خالی
چلو بس ہو چکا ملنا، نہ تم خالی نہ ہم خالی
(1) لزومِ عملی تکرار اور کثرت سے ہوتا ہے۔ (2) رطوبتِ فضلیہ مقلّلِ شہوت ہے۔ (3) تقلیلِ رطوبتِ اصلیہ مُعینِ شہوت ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ مجھے شہوت کا غلبہ رہتا ہے، اور نکاح کی وسعت نہیں۔ فرمایا کہ کثرت سے روزہ رکھو، اس سے شہوت مغلوب ہو جائے گی۔ دو، چار روزے کافی نہیں، کیونکہ خود حدیث میں ہے: "عَلَیْہِ بِالصَّوْمِ"(الصحیح للبخاری، رقم الحدیث: 1905)۔ "عَلَیْہِ" لزوم کے لیے ہے، اور یہ لزوم اعتقادی تو ہے نہیں، عملی ہے۔ اور لزومِ عملی تکرار و کثرت سے ہوتا ہے۔ اور مشاہدہ بھی ہے کہ رمضان کے اوّل روزوں میں شہوت بڑھتی ہے، کیونکہ رطوبتِ فضلیہ مقلّلِ شہوت ہے اور حرارتِ غریزیہ مُعِینِ شہوت ہے۔ اوّل روزوں میں رطوبت فنا ہو کر حرارت بڑھتی ہے اور آخر روزوں میں بوجہ کثرت جب رطوبتِ اصلیہ گھٹنے لگتی ہے، اس سے شہوت گھٹتی ہے۔
فرمایا: اگر کسی کو لکھنا آ جائے اور علمی لیاقت ہو نہیں، تو یہ بھی ایک عذاب ہے، کیونکہ اس سے دوسرے کو اذیّت پہنچتی ہے۔
پردہ میں عورتوں کو رکھنا قید نہیں:
میں کہتا ہوں کہ یہ قید نہیں بلکہ حفاظت ہے، جو ہر نفیس چیز کے لیے عقلاً تجویز کی جاتی ہے۔ دیکھو ریل کے سفر میں کوئی اپنے روپے پیسے کو کھول کر عام منظر پر دکھلاتا ہوا نہیں چلتا، ایسے ہی عورت کا عام منظر پر لانا ظاہر ہے کہ خطرات سے خالی نہیں۔ پس جو اندیشہ وہاں ہے وہی اندیشہ یہاں ہے۔ دوسرا اعتراض کیا جاتا ہے کہ پردہ میں رکھنے کی مصلحت یہ کہی جاتی ہے کہ عِفّت محفوظ رہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پردہ میں بھی خرابیاں ہوجاتی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پردہ کے اندر قیامت تک خرابی نہ ہو گی، جب خرابی ہو گی بے پردگی سے ہو گی۔ جب تک وہ پردہ رکھیں گی خرابی ہو ہی نہیں سکتی۔
بدعتی حقائق سے کورے ہوتے ہیں:
فرمایا کہ اہلِ بدعت اکثر بد فہم ہوتے ہیں، بوجہ ظلمتِ بدعت کے، علوم اور حقائق سے کورے ہوتے ہیں۔ ویسے ہی لغویات ہانکتے رہتے ہیں، جس کے سر نہ پیر۔ مثلاً یہ کہ حضور ﷺ کو علمِ غیب محیط ہے، اور یہ کہ حضور ﷺ کا مُماِثل پیدا کرنے کی اللہ کو قدرت نہیں۔
معقولیوں کی سزا:
فرمایا کہ یہ جو اکثر معقولیوں کو خبط ہے کہ جاہل فقیروں کے معتقد ہو جاتے ہیں، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ علماءِ حق سے بد اعتقاد ہونے کی سزا ہے کہ ان کو جہلاء کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے۔
تقسیمِ ترکہ کی ترتیب:
فرمایا کہ ترکہ میں سب سے پہلے دیکھنے کی ضروری چیزیں یہ ہیں کہ مرحوم کے ذمہ قرض تو نہیں۔ اگر قرض ہے، تو فرض ہے کہ پہلے اس کو ادا کیا جائے۔ اگر قرض نہیں، یا ادا ہو کر کچھ ترکہ بچ گیا، یہ دیکھو کہ مرحوم کی کچھ وصیت تو نہیں، جب اس سے بھی یکسوئی ہو جائے اور ترکہ خالص وارثوں کا قرار پایا جائے، تو پھر دوسرے خیر خیرات، خصوصاً متعارف رسومات سے مقدّم یہ دیکھنا ہے کہ میّت کے ذمّہ کچھ نماز، روزہ تو قضا نہیں، اگر ہے تو اس کا فدیہ دیں۔ اگر اس کے ذمّہ زکوٰۃ ہو اس کو ادا کریں، محلّہ میں جو غرباء، یتیم، بیوہ، محتاج ہوں ان کو تقسیم کر دیا جائے۔ یہ تطوّع ایصالِ ثواب سے بڑھ کر ہے۔
ایصالِ ثواب کے لیے کھانا کھلانا:
ایصالِ ثواب کے لیے کھانا کھلانے کے متعلّق فرمایا کہ اگر ایک دم کھانا پکا کر کھلایا جائے تو اس صورت میں تو زیادہ برادری ہی کھا جائے گی، جیسے کہ رسم ہو رہی ہے۔ اس سے وہ صورت بہتر ہے جو میں عرض کرتا ہوں، کہ اس کی تین صورتیں ہیں۔ (1) پکا کر کھلایا جائے (2) خشک جنس دی جائے (3) نقد تقسیم کی جائے۔ تو سب سے افضل اور بہتر صورت تو یہی ہے کہ مستحقین کو نقد تقسیم کردیا جائے، کیونکہ معلوم نہیں ان کو کیا ضرورت در پیش ہو۔ دوسرے درجے کی صورت یہ ہے کہ خشک جنس دے دی جائے، جب جی چاہے گا اور جس طرح جی چاہے گا، پکا کر خود کھالے گا۔ تیسرے درجے کی صورت یہ ہے کہ پکا کر کھلایا جائے، اور اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ روزانہ ایک دو خوراک پکا کر مستحقین کو پہنچا دی جائے۔ ایک دم پکانے سے مستحق اور غیر مستحق سب جمع ہو جاتے ہیں، بلکہ ہر گاؤں میں اکثر یہی ہوتا ہے کہ مستحق رہ جاتے ہیں اور غیر مستحق کھا جاتے ہیں۔
ایصالِ ثواب میں قرآن پڑھنے کا طریقہ:
فرمایا کہ جس طریق سے آج کل قرآن شریف پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے، یہ صورتِ مروّجہ تو ٹھیک نہیں۔ ہاں احبابِ خاص سے کہہ دیا جائے کہ اپنے اپنے مقام پر حسبِ توفیق پڑھ کر ثواب پہنچا دیں۔ باقی اجتماعی صورت اس میں بھی مناسب نہیں۔ چاہے تین بار ﴿قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ﴾ (الإخلاص:1) ہی پڑھ کر بخش دیں، جس سے ایک قرآن کا ثواب مل جائے گا۔ یہ اس سے اچھا ہے کہ اجتماعی صورت میں دس قرآن ختم کئے جائیں، اس سے اکثر اہلِ میّت کو جتلانا ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے یہاں تھوڑے بہت کو نہیں دیکھا جاتا، خلوص اور نیت دیکھی جاتی ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا ایک صحابی ایک مُدّ کھجور خیرات کرے اور غیرِ صحابی اُحد پہاڑ کے برابر سونا، تو وہ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ (صحیح مسلم) یہ فرق خلوص اور عدمِ خلوص ہی کا تو ہے، کیونکہ جو خلوص ایک صحابی کو ہو گا وہ غیرِ صحابی کو ہو نہیں سکتا۔
شیخ کا فن دان ہونا شرط ہے:
فرمایا کہ جیسے طبیبِ جسمانی کا بزرگ، ولی، قطب، غوث ہونا شرط نہیں، صرف فن دان ہونا شرط ہے۔ اسی طرح طبیبِ روحانی میں شیخ کا فن دان ہونا شرط ہے، بزرگ، ولی، قطب، غوث ہونا شرط نہیں۔ اگر بزرگ، ولی، قطب، غوث ہو، مگر فن دان نہ ہو تو وہ اصلاح نہیں کر سکتا۔
سالک کا دستور العمل، تضرّع و زاری کی فضیلت:
فرمایا کہ خوب یاد رکھو! کہ جب تک کسی کے قلب میں اس کی ہوس ہے کہ ہم کچھ ہو جائیں، یہ شخص محروم ہے۔ چاہیے کہ ہوسوں کو فنا کرے اور خدمت میں مشغول رہے اور فضل کا امیدوار رہے اور مایوس نہ ہو، اور اپنی نا قابلیت پر نظر کر کے ہراساں نہ ہو ؎
تو مگو ما را بداں شہ بار نیست
با کریماں کارها دشوار نیست
لیکن طلب شرط ہے طلب ہو تو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔
عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرد
اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب است
اگر طلب کی حقیقت نہ ہو تو صورت تو ہو، وہ صورت پر بھی فضل فرما دیتے ہیں، بڑی کریم رحیم ذات ہے۔ چنانچہ یہی طلب و نیاز ہے جسے مولانا گِریہ سے تعبیر فرماتے ہیں ؎
اے خوشا چشمے کہ آں گریانِ اوست
اے خوشان آں دل کہ آں ترسانِ او ست
با تضرّع باش تا شادان شوی
گریہ کن تا بے دہان خنداں شوی
در پسِ ہر گریہ آخر خندہ ایست
مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست
نیاز کے ساتھ تضرّع و زاری:
اگر نیاز نہیں تو نِرے رونے سے کچھ نہ ہو گا، جب تک قلب اس کے ساتھ ساتھ نہ ہو۔ کیونکہ آنکھ سے رونا، سو بعض کو رونا آ جاتا ہے اور بعض کو نہیں آتا، یہ فعل غیر اختیاری ہے، جس کا منشا محض ایک غیر اختیاری کیفیت ہے جو مقصود نہیں، گو محمود ہے۔ چنانچہ بعض کو ساری عمر رونا نہیں آتا اور سب کام بن جاتا ہے اور اسی نِرے رونے کو بدونِ نیاز کے کہتے ہیں ؎
عُرفی اگر بگریہ میسّر شدے وصال
صد سال می تواں بہ تمنّا گریستن
غرض یہ کہ یہی نیاز کے ساتھ گریہ و زاری کامیابی کا مقدّمہ ہے، اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
تا نگرید کودکِ حلوا فروش
بحرِ بخشایش نمی آید بجوش
تا نگرید طفل، کَے جوشد لبن
تا نگرید ابر، کَے خندد چمن
کامِ تو موقوفِ زارئِ دل است
بے تضرّع کامیابی مشکل است
ہر کجا پستی است آب آنجا رود
ہر کجا مشکل جواب آنجا رود
ہر کجا رنجے شفا آنجا رود
ہر کجا دردے دوا آنجا رود
طریق کی دو غلطی:
فرمایا کہ آج کل مقصود کو غیرِ مقصود اور غیرِ مقصود کو مقصود بنا رکھا ہے، چنانچہ اوراد اور وظائف کو تو طریق سمجھتے ہیں اور کیفیات و لذات کو اس کا ثمرہ مقصودہ، کس قدر دھوکہ ہے حالانکہ اعمال مقصود ہیں اور رضائے حق ثمرہ ہے۔
اہلِ باطن کا مطمحٔ نظر:
فرمایا کہ درویشی صرف خدا سے صحیح تعلق کا نام ہے آگے سب عبث فضول ہے، طریق کی بھی یہی حقیقت ہے باقی یہ بناؤ سنگار اور تن آرائی وہ شئ ہے جس کی نسبت ایک دانشمند کا قول ہے ؎
عاقبت سازد ترا از دین بری
ایں خود آرائی و ایں تن پروری
جن کے قلوب میں حق تعالیٰ کی محبت ہے اور اس طرف کا تعلق ہے ان کو بناؤ سنگار کی کہاں فرصت ان کی تو یہ حالت ہے ؎
نباشد اہلِ باطن در پے آرائشِ ظاہر
بنقاش احتیاجے نیست دیوارِ گلستاں را
دلفریباں نباتی ہمہ زیور بستند
دلبرِ ماست کہ با حسنِ خداداد آمد
عقلِ سلیم کیا ہے:
فرمایا کہ ایسی عقل جو محبوب سے دوری پیدا کر دے وہ عقل نہیں بلکہ پرلے درجے کی بد عقلی ہے، اور جو محبوب سے واصل کرے وہ دیوانگی بھی ہے تو ہزار عقلوں سے افضل ہے، نری عقل و ذکاوت سے کیا کام چل سکتا ہے جب کہ اطاعات و محبت نہ ہو۔ اسی کو فرماتے ہیں ؎
فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ
جز شکستہ می نہ گیرد فضلِ شاہ
صراطِ مستقیم بس ایک ہے:
بس راستہ صرف ایک ہی ہے کہ محبّت اور اطاعت کے ساتھ احکامِ شریعت کے سامنے اپنے کو پیش کر دو، اور بجز اس کے کوئی راستہ نہیں۔ کیوں ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہو کہیں راستہ نہ ملے گا۔
فرمایا کہ بزرگوں کی شان میں بدزبانی یا ان کی طرف بدگمانی کرنا نہایت ہی خطرناک چیز ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ بزرگوں کے معتقد بنو، معتقد ہونا فرض نہیں مگر بدزبانی اور بدگمانی سے بچنا البتّہ فرض ہے۔
ایک ادبِ مجلسِ طعام:
فرمایا کہ یہ مجلسِ طعام کے آداب کے خلاف ہے کہ ایسا کیا جائے کہ جس سے دماغ پر تعب ہو۔ کھانے کا وقت فراغ اور تفریح کا وقت ہوتا ہے اس وقت تفریح ہی کی باتیں کرنا مناسب ہے۔ اسی طرح میزبان کو یہ حق نہیں کہ مہمان سے ایسا کوئی سوال کرے جس سے اس کے قلب پر بار یا گرانی ہو۔
نصف سلوک:
فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ بات ایسی نہ کرے کہ جس سے دوسرے کو اذیت پہنچے، یہ نصف سلوک بلکہ ایک معنیٰ سے کُل سلوک ہے۔
ایک خاص حالت میں ہر چیز کو زوال ہے:
فرمایا کہ حکومت ہی کی کیا تخصیص ہے ایک خاص حالت میں ہر چیز کو زوال ہے، چاہے وہ حکومت ہو یا قوّت اور شجاعت ہو، مال ہو، عزّت ہو، جاہ ہو، علم ہو، کمال ہو۔ اور وہ خاص حالت یہ ہے کہ یہ شخص اس کو اپنا کمال سمجھنے لگے، عطیۂ خدا وندی نہ سمجھے۔ اور راز اس کا یہ ہے کہ اس کو اپنا کمال سمجھ کر اس میں حقوق کی ادائیگی کی طرف نظر نہیں رہتی۔ اس لیے امانت سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل ہمارے پاس کچھ تھا، آج کچھ بھی نہیں۔
مختلف بزرگوں کی خدمت میں جانا:
فرمایا کہ میں جو منع کرتا ہوں کہ مختلف بزرگوں کی خدمت میں جانا اندیشہ کی چیز ہے، اس سے بدعتی ہی مراد نہیں بلکہ اہلِ حق بھی مراد ہیں۔ وجہ یہ کہ مزاج کا اختلاف، طبائع کا اختلاف، وجوہِ تربیّت کا اختلاف، یہ تو سب میں ہوتا ہے، حتّٰی کہ اہلِ حق میں بھی۔ اس لیے طالب تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس لیے سب سے منع کرتا ہوں۔
شرط فاسد:
ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اگر مدراس کی طرف سے کمیشن پر سفیر رکھے جائیں۔ یہ جائز ہے؟ فرمایا کہ شرطِ فاسد ہے مگر بکثرت مدارس والے اس بلاء میں مبتلا ہیں، جائز ناجائز کوئی نہیں دیکھتا، اسی لیے ثمرات و برکات ویسے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ نہ اساتذہ کو طلبہ پر شفقت اور محبّت ہے، نہ طلبہ کو اساتذہ کا ادب واحترام ہے۔ نہ ظاہراً ان پر علم کی شان معلوم ہوتی ہے، نہ باطناً ان میں استغناء ہے۔
غیر مشروع آمدنی کے پھل پھول:
یہ سب غیر مشروع آمدنی کے پھل پھول لگ رہے ہیں۔ اسی طرح چند دن میں قطعاً احتیاط نہیں رہتی کہ وصول کرنے والے کیسی رقم وصول کر کے لائے، کہ نہ تحقیق نہ تفتیش۔ وہ وصول کر کے لائے اور مدرسہ والوں نے داخل کر لیا۔
فرمایا کہ غیر قوموں میں تو کبھی علوم ہوتے ہی نہیں۔ علوم ہمیشہ مسلمانوں میں رہے، اور اب بھی ہیں۔ اس گئے گذرے زمانہ میں بھی مسلمانوں کے علوم کا دوسرے لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ باقی یہ ایجادات، سو ان کو علم سے کیا تعلّق، یہ تو صنعت و حِرفت ہے۔
وبال کا سبب:
فرمایا کہ اگر سالک کو اپنی بزرگی کا شبہ اس سے ہو کہ ہماری مخالفت ہی سبب ہوئی مخالف کی ابتلاء (وبال پڑ جانے) کا، تو اس کا تدارک ضروری ہے۔ اور اس کا تدارک اپنے ذنوب و عیوب کا استحضار ہے، اور یہ کہ انبیاء علیہم السّلام سے زیادہ کوئی مقبول نہیں لیکن بعض اوقات ان کے مخالف کو بھی دنیا میں عقوبت ہوئی۔ اگر پھر بھی اس تسبّب کا غلبہ ذہن میں ہے تو یہ تسبّب کچھ بزرگی ہی میں نہیں، مظلومیت سے بھی تسبّب ہو سکتا ہے۔
نعمت کی رغبت کا احساس:
ایک شخص نے لکھا کہ بظاہر کھانا پینا اور آرام کی چیزوں سے رغبت نہیں۔ جواباً فرمایا کہ جب نعمت موجود ہوتی ہے بالقول یا بالفعل، رغبت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن فقدان کے بعد اس کا احساس ہوتا ہے۔ لہٰذا رغبت کی نفی کے دعوے سے بچنا چاہیے۔ اور اگر ایسا احساس بھی ہو اس کا امتیاز نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ یہ دعا کرنا چاہیے کہ اے اللہ! جتنی رغبت دیں، وہ دین میں مُعین ہو، مانع نہ ہو۔ "کَمَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ"۔
غیبت کا علاج:
استحضار و ہمّت اور بعدِ صُدور صاحبِ حق سے معاف کرا کر تدارک۔ اور یہ جزوِ اخیر سب اجزاء سے زیادہ ضروری اور مؤثر ہے۔ فرمایا کہ ذکرِ موت سے مقصود صرف کفّ عن المعاصی ہے، اگر اس کا ملکہ ہو جائے تو اس کے بعد ذکرِ موت ہی کی ضرورت نہیں۔
خیال عمل کا مقدّمہ ہے:
ایک سالک نے لکھا کہ خیال و فکر تو ہر وقت اس بات کی رہتی ہے کہ آخرت کا سامان کرنا چاہیے، لیکن صرف خیال ہی ہوتا ہے عمل نہیں ہوتا۔ اسی طرح اپنے عیوب کا احساس تو بہت زیادہ ہے، لیکن ان کی اصلاح کی کوشش نہیں ہوتی۔ فرمایا کہ خیال مقدّمہ ہے عمل کا۔ مقدّمہ کی توفیق بھی نعمت ہے، نعمت کا شکر کرنے پر مزید کا وعدہ ہے، اور اس مزید میں عمل بھی داخل ہے۔ مگر عمل چونکہ اختیاری ہے، لہذا ضمِّ ہمّت کی بھی ضرورت ہے۔ اس شکر کا یہ اثر ہوگا کہ استعمالِ اختیار میں سہولت ہو جائے گی، مگر بدون قصد اس مزید کا وعدہ نہیں۔
فرمایا کہ واجب میں مشکل ہونا عذر نہیں۔
تبلیغ میں تشدّد کا علاج:
فرمایا کہ تبلیغِ دین میں اقویاء کے مذاق پر کلام کیا گیا ہے، جس کا تحمّل اس وقت کے ضعفاء کو نہیں۔ اور علاج اس مذاق میں منحصر نہیں، لہٰذا اس کو مقصود بالذّات نہ سمجھنا چاہیے۔
ذہول کا علاج:
ایک صاحب نے لکھا کہ میرے اندر فضول گوئی کا مرض ہے، ہر چند میں اسے ترک کرنے کا تہیّہ کرتا ہوں، دل میں عہد کرتا ہوں، مگر پھر وہ سرزد ہو جاتی ہے۔ عین وقت پر اپنا عہد معاہدہ سب بھول جاتا ہوں، گو بعد کو افسوس ہوتا ہے۔ اس کا کیا علاج ہے؟
تحریر فرمایا کہ بہت احباب کو یہ تدبیر بتلائی گئی ہے اور نافع بھی ہوئی، کہ ایک پرچہ پر اس کی یادداشت لکھ کر کلائی پر باندھ لیں، سامنے ہونے سے یقیناً یاد آجائے گا۔ آگے عمل اپنی ہمّت پر ہے۔
شکرِ نعمت خوش تر از نعمت بود:
فرمایا کہ حضرت مولانا رومی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
شکر نعمت خوش تر از نعمت بود
یعنی نعمت کا شکر خود نعمت سے بھی اچھا ہے۔ اس لیے کہ شاکر مصیبت میں نہیں پڑتا، اور صاحبِ نعمت مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ نیز شکر نعمت کی روح ہے اور نعمت اس کا قالب۔ اور یہ فرق اس لیے کہ شکر تم کو حق سبحانہٗ تک پہنچا نے والا ہے، بر خلاف نعمت کے کہ وہ اکثر گمراہ کر دیتی ہے۔ کیونکہ نعمت سے غفلت پیدا ہوتی ہے، اور شکر سے ہوشیاری حاصل ہوتی ہے۔ پس شکرِ نعمت افضل ہوا نفسِ نعمت سے۔ اچھا ہم نے مانا کہ نعمت ہی اچھی چیز ہے، کیونکہ نعمت بھی تو شکر ہی سے ملتی ہے۔ پس اگر تم نعمتِ خداوندی ہی کے طالب ہو تو اس کی تحصیل کا ذریعہ بھی شکر ہی ہے، اس لیے بھی شکر ضروری ہے۔ شکر جو کہ نعمت ہے اگر تم کو حاصل ہو جائے تو تم سیر چشم اور دولت مند ہو جاؤ گے، کہ تم دوسروں کو نعمت دے سکو گے، اور غذائے روحانی خوب پیٹ بھر کر کھاؤ گے، اور غذائے جسمانی کا زیادہ کھانا اور اس کی تکلیف تم سے دور ہو گی۔
عمل کا بار بار تکرار کرنا بدون تکمیلِ عمل کے بے کار ہے۔
جب تک سوال نہ کیا جائے مسئلہ بتلانا واجب نہیں۔
اعمال کی نگہداشت:
ہر ذمہ دار کو اپنے ماتحت لوگوں کے اعمال کی نگہداشت کرنا چاہیے، چنانچہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا کہ میں جب معتبر اہل شخص کو کوئی عہدہ دیتا ہوں تو یہ کافی ہے کہ عہدہ دینے سے پہلے اس کی اہلیت، لیاقت، دیانت و امانت کی تحقیق کر لوں، پھر میں سبکدوش ہوں یا مجھے عہدہ دینے کے بعد اس کے کام کی بھی تحقیق کرنا چاہیے کہ جیسا میرا گمان تھا وہ ویسا ہی ثابت ہوا یا میرا گمان غلط نکلا؟ سب نے جواب دیا کہ عہدہ دینے سے پہلے پوری طرح تحصیل کر لینا کافی ہے اس کے بعد آپ سبکدوش ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ جواب صحیح نہیں، بلکہ مجھے اس کے کام کی بھی تحقیق کرنا چاہیے کہ جو میرا گمان تھا اس نے اسی طرح کام کا حق ادا کیا یا میرا گمان اس کے متعلق غلط ثابت ہوا، بدوں اس کے میں سبکدوش نہ ہوں گا۔ محقّقینِ صوفیہ کا بھی یہی خیال ہے کہ جس کو کوئی خدمت سپرد کی جائے اس کے اعمال کی بھی جانچ کرنا چاہیے کہ جو خدمت اس کے سپرد کی گئی ہے وہ اس کا اہل ثابت ہوا یا نہیں۔
تکبّر و شرم:
طالبِ علم کی محرومی کی وجہ تکبّر و شرم ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبِ علم صرف دو وجہوں سے محروم رہتا ہے، یا تکبّر کی وجہ سے یا شرم کی وجہ سے، کیونکہ دین میں تکبّر یا شرم کا کام نہیں، نہ حق بات کہنے میں، نہ اس کے بتلانے میں، نہ معلوم کرنے میں۔ اسی سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: "نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ، لَمْ یَمْنَعْھُنَّ الْحَیَاءُ أَنْ یَّتَفَقَّھْنَ فِي الدِّیْنِ" (سنن ابن ماجه رقم الحديث: 642) یعنی انصار کی عورتیں بہت اچھی عورتیں ہیں کہ ان کو مسائلِ دین کے دریافت کرنے میں حیا و شرم نہیں آتی۔
نفس کشی کی تعریف:
نفس کشی تصوّف کی اصطلاح میں تکبّر، دعوٰی، عُجب و پندار، خود رائی، خود بینی زائل کرنے کا نام ہے۔ جب تک یہ رذائل نفس کے اندر موجود ہیں وہ زندہ ہے، جس دن ان سے پاک ہو گیا مردہ ہو گیا۔ مگر اس موت کے بعد اس کو جو زندگی ہوتی ہے وہ روحانی حیات ہے اور لا زوال حیات ہے ؎
ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما
تصوّف میں کامیابی کا انحصار اتّباعِ سنّت پر ہے:
صوفیۂ متّبعینِ سنّت کو جماعت کا بہت زیادہ اہتمام ہوتا ہے، ہم نے اپنے اکابر کو اسی قدم پر پایا ہے، اور حضراتِ سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔ افسوس کہ آج کل کے جاہل صوفی جماعت کا تو کیا اہتمام کرتے، نماز کی بھی پوری پابندی نہیں کرتے۔ نہ معلوم ان لوگوں نے تصوّف کس چیز کا نام رکھ لیا ہے، جو مخالفِ سنّت کے ساتھ بھی جمع ہو سکتا ہے۔
حال: ایک صاحب نے لکھا کہ گھر میں بڑی اذیّت چھوٹے بھائی سے ہے، ان کے لیے روزانہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی جھوٹ اور خباثت کی عادت چھوڑا دے، دین و دنیا دونوں اپنی برباد کر رہے ہیں، حضرت سے بھی دعا و تدبیر کی درخواست ہے۔
تحقیق: دعا سے کیا عذر ہے، باقی تدبیر سو ہم جیسے ناقصین کے لیے تو دوسرے کے لیے تدبیر کرنے سے اپنے لیے تدبیر اَسلم ہے۔ اور وہ تدبیرِ اَسلم یہ ہے کہ ”فکرِ خود کُن فکرِ بے گانہ مکن۔ اور ایک وقت وہ آتا ہے جس میں کاملین کے لیے بھی یہی تجویز فرمایا گیا ہے۔ ﴿عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ...﴾ (المائدة: 105)۔ اور وہ وقت ہے جب باوجود سعی کے دوسرا نہ مانے۔ کَذَا فِيْ بَیَانِ الْقُرْآنِ۔ اور اس کے ساتھ بھی اگر فکرِ بے گانہ کا ہجوم ہو جائے، وہ مجاہدۂ اضطراریہ اور موجبِ قربت ہے۔ خلاصہ یہ کہ زیادہ حصہ حالاتِ موجودہ کا مجاہداتِ اضطراریہ ہیں، نہ انبیاء خالی ہیں، نہ اولیاء، نہ دوسرے مؤمنین۔ گو اَلوان سب کے مختلف ہوتے ہیں، لیکن قدرِ مشترک سب کے لیے نعمت ہے۔ اور سب سے بڑی اور مختصر اور جامع اور ہر وقت کے استحضار کے قابل اور ہر حالت پر منطبق اور اس کے مناسب چیز یہ ہے کہ جس حالت سے دین کا ضرر نہ ہو خیرِ محض ہے، خواہ طبیعت کے کیسے ہی خلاف ہو، اور وہ عمر بھر لازم رہے۔ بس قلب میں اس کو راسخ کر لیا جائے، اور اپنے دل کو مشغول بالذّکر رکھا جائے، اور اس کو اصل شغل سمجھا جائے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی سعی کے فوت ہونے کا افسوس نہ کیا جائے۔ کیونکہ علاوہ عبادتِ موظّفہ کے اور اشغال عارض کے سبب ہیں، اور یہ (مشغولی بالذّکر) سب عوارض کے انصرام اور اختتام کے بعد باقی ہے۔ بس اس نظام کے بعد فکر اور سوچ اور تمنّا اور انتظار کو دل سے نکال دیا جائے۔ ''إِنْ شَاءَ اللہُ تَعَالٰی'' حیوٰةِ طیبہ کا صرف حصول ہی نہیں بلکہ مشاہدہ ہو جائے گا۔ اور بعد چندے، نفسِ مطمئنہ ہو کر اس پر راضی، بلکہ لذّت گیر ہو جائے گا۔ بقول ایک صاحبِ حال کے ؎
ہر تمنّا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
"وَ مَنْ لَّمْ یَذُقْ لَمْ یَدْرِ، رَزَّقَنَا اللہُ ھٰذَا الذَّوْقَ فِيْ حَیَاتِنَا وَ وَقْتَ مَمَاتِنَا، وَ نَخْتِمُ الْکَلَامَ مُسْتَعِیْنِیْنَ بِرَحْمَۃِ اللہِ الْعَلَّامِ"۔
توکّل کا درجۂ مامور بہ:
ایک صاحبِ خیر نے، جو اپنے فرزندان کی ناکامئِ ذرائعِ معاش سے پریشان تھے، لکھا کہ اپنی اولاد کے معاملات سے اس قدر وابستگی رہتی ہے کہ دن رات اسی خیال میں مستغرق رہتا ہوں، نماز کے بعد، نیز سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، بس بچوں کی کامیابی، فلاح و بہبود کے علاوہ سب دعائیں کرنا چھوڑ دیں۔ اس خیال سے بڑی تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ خدانخواستہ اگر مرتے وقت بھی بچوں کا خیال رہا، تو میں نہ دین کا رہوں گا نہ دنیا کا۔ توکّل میرے اندر نہیں رہا۔ قلب میرا تاریک ہو گیا۔ حالت میری بد سے بدتر ہو گئی، حضور اپنے ذلیل و خوار غلام کی طرف خاص توجّہ فرمائیں۔
تحقیق: یہ احساس و فکر خود علامت ہے ایمانِ کامل کی۔ اللہ تعالیٰ مزید تکمیل و رسوخ عطا فرمائے اور توکّل کے نقص کا شبہ بھی محض وہم ہے۔ توکّلِ کامل کے درجات ہیں، کاملین کا سا نہ سہی، مگر جو درجہ توکّل کا مامور بہ ہے (کوئی مامور بہ ناقص نہیں ہوتا) وہ بھی بفضلہٖ تعالیٰ حاصل ہے، جس کی کھلی علامت ہر حالت میں دعا کرنا ہے۔ اگر کارساز پر نظر نہ ہوتی تو دعا ہی کیوں کی جاتی، اور یہی نظر توکّلِ مامور بہ ہے۔ اور اس سے آگے کے درجات زیادہ کمال کے ہیں، مگر یہ بھی ناقص نہیں۔ بالکل اطمینان رکھا جائے۔ رہا یہ شبہ کہ اولاد سے شدید تعلّق ہے اور یہ کہ اگر آخری وقت میں اس کا استحضار رہا تو محض تباہی ہے، یہ خوف علامت ایمان کی ہے، اور اس خوف پر بشارت ہے ایمان کی۔ کَمَا فِيْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی: ﴿إِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ أَجْرٌ كَبِيْرٌ﴾ (الملك: 12)۔ اور ظاہر ہے کہ مغفرت ہے ایمان کے محفوظ رہنے پر۔ تو خوف پر اس طرح بشارت ہے حفاظتِ ایمان کی، پھر تباہی کا وہم کیوں کیا جائے۔ اور اس میں راز یہ ہے کہ اولاد کے مصالح و فلاح کا اہتمام طاعت اور ان کا حقِ مامور بہ ہے تو مامور بہ کا اہتمام سوءِ خاتمہ کا سبب کیسے ہو سکتا ہے۔ البتّہ ان کی ایسی محبّت کہ اس میں دین کی بھی پرواہ نہ رہے، اور اس محبّت میں معصیت کا بھی ارتکاب کر لیا جائے، یا احکامِ ضروریہ میں خلل ہونے لگے، یہ ہے غیرُ اللہ کی محبّتِ مذمومہ۔ یہ تو ضابطہ کا جواب ہے اور بالکل صحیح و حقیقت، لیکن اس کے ساتھ عادتُ اللہ ہے کہ مؤمن کے اخیر وقت میں یہ جائز محبّت بھی فنا کر دی جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کی محبت میں دم نکلتا ہے۔
افسوس کے حدود:
حال: خادم کی یہ حالت ہے کہ نمازِ تہجّد کو بھی آنکھ نہیں کھلتی، اور اگر کھلتی ہے تو وہ سستی ہے کہ اٹھا نہیں جاتا، اپنی حالت پر افسوس ہے۔
تحقیق: افسوس تو علامت ہے محبّت کی جو مطلوب ہے۔ مگر افسوس کے حدود ہیں، جو چیز اختیاری ہو، وہاں افسوس کے ساتھ اختیار سے بھی کام لینا، مثلاً تہجّد اگر اخیر شب میں نہیں ہوتا تو بعد نمازِ عشاء پڑھ لیا جائے، جو چیز اخذ نہ ہو وہاں صبر، استغفار و دعا کرنا چاہیے۔
صرف دعا پر اکتفا نہ کرنا چاہیے:
حال: حضرت والا کی دعا اگر ہوئی تو یہ مشکل آسان ہو جائے۔
تحقیق: دعا سے انکار کب ہے، لیکن ہر امر میں صرف دعا پر اکتفاء کرنا ضعفِ علمی و عملی ہے۔ اوپر کی تفصیل کی ضرورت ہے۔
ترکِ تعویذ کا انتظام:
فرمایا کہ اصل تو یہ ہے کہ تعویذ گنڈے کو بالکل حذف کیا جائے، لیکن اگر غلبۂ شفقت سے کسی مصلحِ شفیق کو یہ گوار ا نہ ہو تو تدریج سے کام لیا جائے۔ جس کا نظام یہ ہے کہ اس سلسلہ کو ظاہراً جاری رکھا جائے، لیکن ہر طالب سے یہ بھی ضرور کہہ دیا جائے کہ میں اس کام کو نہیں جانتا، مگر تمہاری خاطرسے کئے دیتا ہوں۔ چند روز کے بعد یہ سمجھایا جائے کہ لوگ اس کو جس درجہ کی چیز سمجھتے ہیں یہ اس درجہ کی چیز نہیں ہے۔ اس کے بعد ایسا کیا جائے کہ کسی کو دے دیا کسی سے عذر کر دیا، مگر نرمی سے، پھر بالکل حذف کر دیا جائے۔
کثرتِ اساتذہ مناسب نہیں:
وہ محض دو چار روز کے لیے کیونکہ کثرت میں سب کے حقوق ادا نہیں ہو سکتے۔ کیسے کام کی بات ہے۔
فرمایا کہ میرا دل ذرہ برابر گوارا نہیں کرتا کہ کسی کو میری وجہ سے تکلیف پہنچے البتہ جب مجھ کو تکلیف پہنچاتے ہیں تو اس سے بچنے کی تدبیر کرتا ہوں۔
اسراف کی مذمّت:
ایک صاحب نے عرض کیا حضرت مسلمان اس زمانہ میں فضول اخراجات کی بدولت تباہ و برباد ہیں، مگر اب تک یہ حالت ہے کہ فضول اخراجات سے نہیں رکتے۔ فرمایا کہ یہی ہو رہا ہے، پھر جب پیسہ پاس نہیں رہتا جھوٹ فریب کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔
امر بالمعروف کی ادنیٰ شرط:
فرمایا کہ ادنٰی شرط امر بالمعروف کی یہ ہے کہ جس کو نصیحت کرے، عین نصیحت کے وقت یہ سمجھے کہ میں اس سے کم درجہ کا ہوں، اور وہ مجھ سے افضل ہے۔
طریق میں پریشانی ہے ہی نہیں:
فرمایا کہ اگر اصولِ صحیحہ کا اتّباع کیا جائے تو کوئی بھی پریشانی نہیں۔ خصوصاً اس طریق میں تو پریشانی ہے ہی نہیں، دین میں تو پریشانی ہے ہی نہیں، خواہ وہ احکامِ ظاہرہ ہوں یا باطنہ۔ لوگوں نے بوجہ اپنی لاعلمی کے اور فن سے ناواقف ہونے کے، خود اپنے اوپر پریشانیاں لے رکھی ہیں۔ اور اگر کوئی بات نفس کے خلاف بھی ہو تو جب اس میں عبد کا سراسر نفع ہے تو پھر اعتراض اور شبہ پریشانی کا کیا۔
فرمایا کہ ہر چیز میں خدا کی حکمتیں اور اسرار ہیں، جن کو بندہ سمجھ نہیں سکتا۔ اس لیے خود تمنّاؤں کو فنا کر کے تفویض اختیار کرے۔
طلبِ صادق:
فرمایا کہ طلبِ صادق ایسی عجیب چیز ہے کہ بڑے بڑے سخت کام کو سہل بنا دیتی ہے۔
اِصرار علی البیعت کی وجہ:
فرمایا کہ جب بدون بیعت ہوئے ہی (اتّباعِ شیخ سے) وہ کام ہو جائے جو بیعت ہونے سے ہوتا، تو پھر بیعت پر کیوں اصرار ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کالا ہے، کوئی نفسانی غرض قلب میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اور میں اس کو بتلائے دیتا ہوں کہ کام کرنا مقصود نہیں، نام کرنا مقصود ہے کہ ہم بھی فلاں سے تعلّق رکھنے والے ہیں۔ جس کا منشا جاہ ہے اور یہ ناشی ہے کِبر سے۔ جیسے ایک عورت ہے اس کو شہوت تو ہے نہیں مگر نان نفقہ کی ضرورت ہے، وہ ایک شخص سے نکاح کرنا چاہتی ہے، اس نے کہا بی بی نکاح تو میں کرتا ہی نہیں، ہاں پچاس روپے ماہوار تجھ کو دیا کروں گا، تو اس عورت کا اس میں کیا حرج ہے؟ لیکن اگر نکاح ہی پر اصرار ہے، تو معلوم ہوا کہ اس میں شہوت ہے۔
حق تعالیٰ اِنفعال سے منزّہ ہیں:
ایک شخص نے کہا کہ حضرت دشمن کو آگ میں جلتا ہوا دیکھ کر ہم کو بھی رحم آ جاتا ہے، تو کیا حق تعالیٰ کو رحم نہ آئے گا، جب کفار دوزخ میں جلیں گے۔ فرمایا کہ آپ کا قیاس معَ الفارِق ہے۔ آپ میں تو اِنفعال ہے، اور اللہ تعالیٰ اِنفعال سے منزّہ ہیں۔ وہاں تو جو بھی ہوتا ہے ارادہ سے ہوتا ہے، پھر وہ ارادہ بھی حکمت سے ہوتا ہے۔
رعایا کے مطیع بنانے کی تدبیر:
فرمایا کہ جب تک شفقت نہ ہو، پرورش کا خیال نہ ہو،کوئی اور طریقہ اور کوئی تدبیر رعایا کے مطیع بنانے کی نہیں۔
سرسیّد کے متعلق حضرت والا کی رائے:
فرمایا کہ سرسیّد سے ایک رئیسِ میرٹھ نے پوچھا کہ تم چاہتے کیا ہو، دنیا یا دین؟ جواب دیا کہ میں نہ دنیا چاہتا ہوں نہ دین، صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرے بھائی ننگے بھوکے نہ رہیں۔ مگر بندۂ خدا نے یہ نہ دیکھا کہ ننگے بھوکے تو دین پر عمل کرتے ہوئے بھی نہ رہتے، ایسے جواب کا سبب عقل کی کمی، دین کی کمی ہے۔ غرض یہ کہ سرسیّد کی نیت بری نہ تھی، مسلمانوں کا ہمدرد، مگر عقل و دین کی کمی کی وجہ سے جو راہ مسلمانوں کی فلاح اور بہبودی کے لیے نکالی، وہ مضرّ ثابت ہوئی۔
ذہانت بھی عجیب چیز ہے:
فرمایا کہ سلطان عبد الحمید سے کسی یورپین بادشاہ نے کہا تھا کہ آپ یورپ کے درمیان ایسے ہیں جیسے بتّیس دانتوں کے درمیان زبان۔ اس سے تعریض تھی عِجز و ضعف کی طرف۔ جس کو سلطان سمجھ گئے، اور برجستہ کہا: بالکل ٹھیک ہے، مگر قدرتی سنّت یہ ہے کہ دانت پہلے فنا ہو جاتے ہیں، اور زبان باقی رہتی ہے۔
خواصِّ مسلمان:
فرمایا کہ استغناء، حسنِ ظنّ، ترحّم، اعتماد، یہ سب شجاعت کے لوازم سے ہیں اور مسلمانوں کے خواص ہیں، اور یہ دوسری قوموں میں نہیں۔
انگریزی خوانوں کا معیار مقبولیت:
فرمایا کہ انگریزی خوانوں کے یہاں معیارِ مقبولیت صرف یہ ہے کہ وہ چیز نئی ہو، چاہے کتنی ہی بعید از عقل ہو، مگر ہو نئی، اس کو قبول کر لیتے ہیں۔ اور کوئی بات کتنی ہی قریب از عقل ہو مگر ہو پرانی، اس کو قبول نہ کریں گے۔ چنانچہ غلام احمد قادیانی کو دیکھ لیجئے، اس نے پہلے مجدّد ہونے کا دعوٰی کیا، پھر مُحدَّث ہونے کا، پھر مہدی ہونے کا، پھر کرشن ہونے کا، پھر نبی ہونے کا، پھر الہام کے لفظوں میں خدا کا بیٹا ہونے کا دعوٰی کیا۔ کبھی عورت بنا، پھر اس کو حمل قرار پایا۔ کیا اس کو ہذیان نہ کہیں گے، مگر انگریزی خواں ہیں کہ معتقد ہیں۔
مناظرہ بہت خطرناک چیز ہے:
فرمایا کہ ہر شخص کو مناظرہ کرنا مناسب نہیں، اس کے لیے بڑے فہم اور عقل کی ضرورت ہے۔ میں نے خود بہت لوگوں کو دیکھا ہے کہ مناظرہ کرتے کرتے خود بگڑ گئے اور بددین ہو گئے۔ سلامتی اسی میں ہے کہ سیدھا سیدھا اپنے روزہ، نماز میں لگا رہے اور ان جھگڑوں میں نہ پڑے۔
معراج کا اِثبات:
وقوعِ معراج کے متعلق فرمایا کہ یہ واقعہ عقلاً ممکن اور نقلاً ثابت، اور جس ممکن کے وقوع پر نقلِ صحیح دال ہو وہ ثابت۔ پس اس کا وقوع ثابت۔ ایک انگریزی خواں صاحب نے کہا کہ اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر بھی ہے؟ فرمایا کہ آپ جو نظیر مانگتے ہیں تو اس نظیر کو بھی نظیر کی ضرورت ہوگی۔ پھر اسی طرح اس نظیر کو بھی نظیر کی ضرورت ہو گی۔ آخر کہیں جا کر آپ کو کوئی واقعہ بِلا نظیر کے ماننا پڑے گا۔ تو معلوم ہوا کہ ہر واقعہ کے ماننے کے لیے نظیر کی ضرورت نہیں، لہٰذا اس کو ہی بِلا نظیر کے مان لیجئے۔ جو کام آخر میں جا کر کرنا پڑے گا وہ شروع ہی میں کر لیجئے۔
انگریزی پڑھنا ضروری ہے یا نہیں:
فرمایا کہ ایک صاحب نے خط میں دریافت کیا ہے۔ میں نے جواب میں لکھ دیا ہے: (1) انگریزی پڑھنے سے نیّت کیا ہے؟ (2) انگریزی پڑھنے کے قواعد کیا ہیں؟ (3) کورس کیا ہے؟ (4) بادشاہِ وقت کے حامی ہوتے ہوئے اس کی ضرورت کیا ہے؟
تقوٰی کی برکت کا اثر:
فرمایا کہ ذہن کے بڑھنے کا کوئی طریقہ نہیں، اور حافظہ کی قوّت کے لیے تقویتِ دماغ کی ضرورت ہے۔ پھر فرمایا کہ تقوٰی کی برکت سے علومِ صحیحہ ذہن میں آ سکتے ہیں، مگر خود ذہن تقوٰی سے نہیں بڑھتا ہے، جیسے کسی شخص کی بینائی کمزور ہو تو تقوٰی سے نہیں بڑھتی۔
مقصودِ طریق رضائے حق ہے:
فرمایا کہ طریق سے لوگوں کی عدمِ مناسبت کا سبب اس کی حقیقت سے بے خبری ہے، رسوم کا نام ان جاہلوں نے تصوّف رکھ لیا ہے، حالانکہ طریق کی حقیقت اعمال ہیں، اور مقصودِ طریق رضائے حق ہے۔ اس سے آگے یا تو بے تعلّق چیزیں ہیں، یعنی ان کو طریق سے کوئی تعلق نہیں، یا ان کا درجہ مثل تدابیرِ طبّیہ کے، تدابیر کا درجہ ہے۔ یا اگر وہ غیر اختیاری کیفیات ہیں تو یہ مقصود نہیں، گو محمود ہیں، اور مقصود میں معین بھی ہیں۔ ان تدابیر کو بدعت کہنا اصول سے نا واقفی ہے۔ جیسے طبیبِ جسمانی کی تدابیر کو بدعت نہیں کہہ سکتے۔
ایک صاحب کا خط آیا جو نہایت ہی بد خط تھا، اور اصلاح اور نفس کی اصلاح چاہی تھی۔ تحریر فرمایا کہ نفس کی اصلاح سے پہلے ضرورت ہے اصلاحِ خط کی، کہ اس کا تعلّق دوسرے کی راحت و کلفت سے ہے۔ اگر اس میں شبہ ہو تو لفافہ پر جو پتہ لکھا ہے اسی کو دیکھ لو۔ غالب یہی ہے کہ ڈاک خانے والے بھی پریشان ہوئے ہوں گے۔
فرمایا: اس طریق میں سب سے بڑا مجاہدہ یہی ہے کہ کسی کامل کے سامنے اپنے کو پامال کردے، مٹا دے، فنا کر دے ؎
حال را بگذار مردِ حال شو
پیشِ مردِ کاملے پامال شو
جائے بزرگاں بجائے بزرگاں سے مراد برکت ہے:
اور یہ واقعہ ہے کہ اس میں برکت ضرور ہے، چنانچہ مولانا شیخ محمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جگہ پر بیٹھ کر جب ذکر کرتا ہوں تو زیادہ انوار و برکت محسوس کرتا ہوں۔ فرمایا کہ کثرتِ تکلّم کا منشا کِبر ہے کہ اور لوگ یہ سمجھیں گے کہ اسے کچھ نہیں آتا اس لیے بولتا ہے۔
مشورہ حضرت والا برائے مدرسہ دیوبند:
فرمایا کہ میں نے مشورہ یہ دیا تھا کہ مدرسہ کو ایک دم مقفّل کر دیا جائے، اور ملک میں اعلان کر دیا جائے کہ ان وجوہ سے مدرسہ کو بند کئے دیتے ہیں۔ فضا خوش گوار ہونے پر کھول دیں گے اور سب مفسدوں کو نکال باہر کر دیا جاتا۔ اور پھر جو داخل ہوتا وہ ایک تحریری معاہدہ کے ساتھ داخل کیا جاتا کہ اگر ان شرائط کے خلاف کیا تو مدرسہ سے خارج کر دیئے جاؤ گے، اور یہی شرائط مدرّسین کے ساتھ ہوں، باقی اب تو مدرسہ کو اکھاڑہ بنا رکھا ہے۔ میں نے مہتمم صاحب سے صاف کہہ دیا تھا کہ مدرسہ کی حالت یہ ہے کہ جیسے بے روح کے جسم ہوتا ہے، اب اگر اس صورت میں مدرسہ کو ترقّی بھی ہوئی تو یہ ترقّی ایسی ہو گی جیسے مر جانے کے بعد لاش پھول جاتی ہے اور اندیشہ ہوتا ہے کہ اس صورت میں پھول کر جب پھٹے گی تو محلّہ، بستی کو بھی مارے بدبو کے سڑا دے گی۔ اس پر مہتمم صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اب سنا جاتا ہے کہ طلبہ کا تو بالکل ہی طرز بدل گیا، یہی پتہ نہیں چلتا دیکھنے سے کہ یہ علی گڑھ کالج ہے یا دینی مدرسہ۔ اپنے بزرگوں کا طرز چھوڑ دیا۔ پھر نور و برکت کہاں۔ یہ سب اسی کمبخت نیچریت کی نحوست ہے۔ طلبہ کے لباس میں، طرزِ معاشرت میں، نیچریت کی جھلک پیدا ہو گئی۔ منتظمین، اساتذہ سب کے سب طلباء سے مغلوب ہیں۔ محض اس وجہ سے کہ اگر یہ نہ رہے تو ہماری مدرّسی بھی جاتی رہے گی۔
اصولِ صحیحہ:
فرمایا کہ لوگوں نے اصولِ صحیحہ کو چھوڑ دیا ہے، جس سے ایک عالَم کا عالَم پریشانی میں مبتلا ہے۔ حتّٰی کہ حکومت اپنی رعایا سے، باپ اپنے بیٹے سے، استاد اپنے شاگرد سے، پیر اپنے مرید سے، خاوند اپنی بیوی سے، آقا اپنے نوکر سے۔ اور اگر اصولِ صحیحہ کا اتّباع کیا جائے اور ہر چیز کو اپنی حد پر رکھا جائے، تو کوئی پریشانی یا تکلیف نہیں ہو سکتی۔
خادمانِ دین کے لیے چند تجربہ کی باتیں:
فرمایا کہ خادمانِ دین یعنی جن کے متعلق افتاء و تبلیغ و تعلیم و تربیّت کا کام سپرد ہو، وہ کسی کی گواہی نہ دیں۔ نیز کسی کے معاملہ میں حَکَم یعنی فیصلہ کنندہ بھی نہ بنیں۔ کیونکہ ایسے کرنے سے وہ ایک جماعت سے شمار کر لیا جائے گا، اور دوسری جماعتوں کے مسلمان اس کے فیوض اور برکات سے محروم رہ جائیں گے۔ غرض ایسے خادمانِ دین کو ہرگز ایسے معاملات میں نہ پڑنا چاہیے۔ اس میں بڑی مضرّت کا اندیشہ ہے، خصوصاً دین کا ضرر۔ کیونکہ اس زمانہ میں ہر شخص آزاد ہے۔ نہ کسی کا کسی پر اثر، نہ کسی کے اعتقاد اور محبّت کا اعتماد، صرف مطلب اور اغراض تک سب کچھ ہے، اور ان کے خلاف کوئی بات پیش آ جائے اسی وقت اثر اور اعتقاد و محبّت سب ختم ہو جائے۔ یہ تجربہ کی باتیں ہیں۔
فرمایا کہ اکثر جھگڑے کے جب استفتاء آتے ہیں تو یہاں سے یہ جواب آتا ہے کہ دونوں فریق جمع ہو کر آؤ، اور دونوں زبانی واقعہ بیان کرو، سننے کے بعد حکمِ شرعی ظاہر کر دیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس سے کون خوش رہ سکتا ہے۔
''سَلْوَةُ الْکَئِیْبِ بِخَلْوَةِ الْحَبِیْبِ'':
ایسا شخص تلاش کیا جائے جس میں یہ صفات ہوں۔
(1) دل سے اپنا خیر خواہ و محبّ و ہمدرد ہو۔ (2) عاقل ہو، اور اگر صاحبِ تجربہ بھی ہو تو سونے پر سہاگہ۔ (3) راز دار، یعنی حافظِ اَسرار ہو۔ (4) بے تکلّف ہو کہ اگر اس کی رائے میں آپ کی کوئی غلطی ہو تو اس کو محبّت سے ظاہر کر دے۔ (5) اور اگر دیندار ہو تو ''نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ''۔
ایسے شخص کے مل جانے کے بعد کسی غم و فکر کا بوجھ اپنے دل پر نہ رکھا جائے۔ بلکہ ہر واقعہ کو، جس سے خلجان بڑھنے لگے، اس پر ظاہر کر دیا جایا کرے۔ خود اس اظہار ہی میں خاصیت ہے کہ غم خفیف ہو جائے گا۔ اور اگر وہ کچھ تسلّی کر دے یا کوئی مناسب تدبیر بتلا دے تو اور اَخفّ ہو جائےگا۔ اگر ایسے شخص سے روزانہ ملاقات ممکن ہو تو غم بڑھنے ہی نہ پائے، اور کسی فصل سے ملاقات ہو سکے تو بڑھنے کے بعد گھٹ جائے گا۔ یہ تو مادی تدبیر ہے اور اگر اس کے ساتھ روحانی علاج کو اس سے زیادہ اہم سمجھ کر اس کا التزام کیا جائے، اور درود و استغفار کی کثرت ہے، خصوصاً یہ دعا: ﴿رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ...﴾ (البقرة: 286) تو اس سے یا غم کا وقوع ہی نہ ہوگا یا وہ مؤثر نہ ہوگا۔ اور اگر بقدرِ تحمّل و سہولت اجزاءِ ذیل کو بھی منضم کر لیا جائے تو قوی اور مقوّئ بدرقہ کا کام دے گا۔
(الف) غیر ضروری تعلّقات کی تقلیل (ب) دوسروں کے مصالح کے اہتمام میں اعتدال یعنی ترک (ج) افعالِ غیر مقدّر یا غیر کے مقدور کی عدمِ تعدّی (د) اجمالی مراقبہ خدا کے حاکم اور حکیم ہونے کا (س) کوئی شغل، تفریح کا جس میں کچھ قوّتِ دماغیہ کا بھی صرف ہو مگر تعب کا درجہ نہ ہو، اور اپنے اختیار کا ہو، اور سب سے بہتر تصنیف ہے۔
نوٹ: ایک شخص نے اپنے ضیق و پریشانیوں کا حال لکھا تھا کہ (1) جس سے نفع کی توقّع ہے وہ نقصان و اذیّت کے درپے ہوتا ہے۔ (2) نوکروں، چاکروں کی سخت دِقّت ہے، اور اوسطاً 12، 15 آدمیوں کا کھانا رہتا ہے (3) والدہ دائمُ المرض ہیں، بیماری میں کوئی پانی اٹھا کر دینے والا نہیں (4) معلّم کوئی ڈھنگ کا ملتا نہیں، لڑکے خراب، خستہ، مارے مارے پھرتے ہیں (5) نہ گھر میں کسی کو راحت نصیب، نہ مجھ کو فکر و تردّد۔ میں ہر وقت گرفتار رہتا ہوں (6) خواجہ صاحب پر بڑا رشک آتا ہے۔
فرمایا کہ عمل کے لیے دعا اہم ہے و اکسیر۔ شریعت کو چھوڑ کر طبیعت کے اقتضاء پر عمل کرنا ایسا ہے جیسا سونا چھوڑ کر تانبے کو لینا۔ کیا یہ خسارہ نہیں؟
ضیاعِ نعمت پر بالکل رنج نہ ہونا بھی مذموم نہیں، بلکہ ﴿لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَكُمْ...﴾ (الحديد: 23) سے اس کا مطلوب ہونا معلوم ہوتا ہے۔ نعمت کی بے قدری کا شبہ ہو تو بے قدری نعمت کی یہ ہے کہ اس کو غیرِ مصرف میں صرف کیا جائے۔
بھائی کے انتقال سے قلب پر وحشت تھی اس کے متعلق علاج دریافت کیا گیا تھا۔ فرمایا کہ طبعی وحشت کوئی معصیت نہیں، جس کی تدبیر بتلائی جائے، لیکن تبرّعاً لکھتا ہوں، وہ دو جز سے مرکّب ہے ایک مرحوم کا بلا ضرورت تذکرہ نہ کرنا نہ سننا، دوسرے اپنے کو کسی جائز کام میں لگائے رکھنا، خواہ دنیوی کام ہو یا دینی، اپنے کو فارغ نہ رکھنا۔
ایک شخص نے معاصی شہوانیہ کا علاج پوچھا۔ فرمایا: بجز ہمت و مقاوَمتِ نفس کے اور کوئی علاج نہیں۔ اس معاملہ میں تکلیف ضرور ہوتی ہے، مگر دوزخ کی تکلیف سے کم ہے۔
فرمایا کہ بے تکلّفی کا مدار مناسبت پر ہے۔ بعض سے پہلی ہی ملاقات میں بے تکلّفی ہو جاتی ہے، بعض سے عمر بھر بھی نہیں ہوتی۔ اس کی کوئی خاص تدبیر نہیں۔
فرمایا کہ سالک کے لیے یہ مبارک اعتقاد ہے کہ مجھے دنیا میں اپنا دشمن کوئی نظر نہیں آتا سوا اس کے کہ میں خود اپنا دشمن ہوں، نیز اس کا استحضار رحمت ہے۔
فرمایا کہ پھل آنے سے پہلے باغ بیچنے میں دو گناہ ہیں: ایک عقدِ باطل جس کا تدارک بجز فسخِ عقد اور استغفار کے اور کچھ نہیں۔ دوسری چیز حرمتِ ثمر ہے، جس کا تدارک یہ ہے کہ بائع زبانی کہے کہ میں نے موجودہ پھل اتنی قیمت کو فروخت کیا اور مشتری کہے کہ میں نے قبول کیا۔
فرمایا کہ ذکر کے برکت کی شرط توجّہ ہے اور توجّہ عام ہے، چاہے ذکر کا تصوّر کرے یا مذکور کا، یا ذاکر (یعنی قلب کا)۔
مبتدی کو اس کی ضرورت ہے کہ جس قدر چیزیں قلب کو مشوّش اور پریشان کرنے والی ہیں ان سے حتّی الامکان اجتناب کرے، یعنی اپنے اختیار سے اپنے قلب کو ایسی باتوں میں نہ پھنسائے۔
عمل کے نفع کا مدار نیت پر ہے۔ دیکھئے نماز بدون نیت کے نہیں ہو سکتی، زکٰوة بدون نیّت کے ادا نہیں ہو سکتی۔ ایمان، جو سب کی جڑ ہے، بدون نیّت کے نہیں ہو سکتا۔
فرمایا کہ جو متواضع ہو اور اپنے متواضع ہونے پر اس کو نظر ہو وہ متواضع نہیں متکبّر ہے۔