حصہ 2 باب 1 ملفوظ 9: معمولات

معمولات

مشورہ کی حقیقت:

حضرتِ والا عموماً امورِ مباحہ میں کسی کو رائے بھی نہیں دیتے، اور فرمایا کرتے ہیں کہ رائے تو اہلِ تجربہ سے لی جائے، میں دعا کرتا ہوں۔ اور یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ آج کل لوگ رائے دینے والے کو نتیجہ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اگر نتیجہ مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو الزام دیتے ہیں۔ حالانکہ رائے اور مشورہ دینے کی حقیقت تو صرف یہ ہے کہ دوسرے کو اس امر کے متعلق رائے قائم کرنے میں اعانت اور سہولت ہو جائے، باقی رائے اس کو خود ہی قائم کرنا چاہیے۔

غیر ماہر کا علاج جائز نہیں:

جب تک کوئی ماہر طبیب امتحان لے کر مہارتِ مناسبتِ فن کی تصدیق نہ کر دے میں کسی طبیب کے لئے تحریک نہیں کرتا۔ کیونکہ غیر ماہر کو علاج کرنا جائز نہیں۔

بلا ضرورت مشقت:

حضرت والا ضرورت میں تو دوسروں کیلئے بہت کچھ تعب برداشت فرما لیتے ہیں، لیکن بلا ضرورت اپنے کو مشقت میں نہیں ڈالتے۔

زائد از حاجت چیزوں سے وحشت ہوتی ہے:

حضرت والا وقتاً فوقتاً اپنی مملوک چیزوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اس میں سے جو چیزیں ضرورت سے زائد نکلتی ہیں ان کو اپنی مِلک سے خارج فرماتے رہتے ہیں۔ اور فرمایا کرتے ہیں کہ مجھ کو زائد از حاجت چیزوں کا اپنی مِلک میں ہونا بھی موجبِ وحشت ہوتا ہے۔

اصولِ صحیحہ کی پابندی کی ترغیب:

حضرت والا فرمایا کرتے ہیں کہ قواعدِ ضروریہ اور اصولِ صحیحہ کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ حضور سرورِ عالم نے خود اپنے آپ کو ان کا ہمیشہ پابند بنائے رکھا۔

تعویذ دینے کا طریقہ:

حضرت والا جس تعویذ میں کوئی آیت تحریر فرماتے ہیں، اس کے اوپر سادہ کاغذ بھی لگا دیتے ہیں تاکہ اس کا بے وضو چھونا جائز ہو جائے اور کسی کو تنگی یا گناہ نہ ہو۔

آمدنی کا چوتھائی حصہ صدقاتِ نافلہ ہیں:

حضرت والا کا یہ معمول ہے کہ علاوہ صدقاتِ واجبہ کے، اپنی آمدنی کا چوتھائی حصہ ہمیشہ مصارفِ خیر میں بطور صدقاتِ نافلہ صرف فرما دیتے ہیں۔

؎ ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند

کسی پر بیجا بار ڈالنا یا عہدے کے اثر سے کام لینا:

فرمایا کہ کسی پر بے جا بار ڈالنا یا عہدے کے اثر سے کام لینا شرعاً جائز نہیں۔ اگر کسی مسافر عہدہ دار کے لیے ٹھہرنے کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو تو اس کو مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے۔ وہ بہت سے بہت یہ کرے کہ چلتے وقت مسجد کے مصارف کے لیے کچھ دیدے۔ اس صورت میں مسجد کا بھلا بھی ہو جائے گا اور مسافر کے قلب پر مسجد کے اندر ٹھہرنے سے گرانی بھی نہ ہو گی۔

سائل کو دینے کا طرز:

جب کوئی سائل آتا ہے اور حضرت والا کی نیت دو آنے دینے کی ہوتی ہے تو یہ فرماتے ہیں: "دو پیسے دے سکتا ہوں" تاکہ اس کو پھر دو آنے کی قدر ہو۔ اور جب تک وہ دو پیسے ہی پر اپنی رضا مندی ظاہر نہیں کر دیتا، نہیں دیتے۔ بعضے بدوں لیے چلے گئے تو فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے حاجت مند ہی نہیں ورنہ دو پیسے کو بھی غنیمت سمجھتے۔ کیونکہ دو پیسے قبول کرنے میں کچھ نقصان تو تھا نہیں، کچھ نہ کچھ نفع ہی تھا چاہے تھوڑا ہی سہی۔

مالی اعانت کا طرز:

حضرت والا جب کسی کی مالی اعانت کرتے ہیں تو اس کا بہت لحاظ رکھتے ہیں کہ اس کو حرص یا مفت خوری کی عادت نہ پڑنے پائے۔ اور جب وہ اپنی سب تدبیریں ختم کر چکتا ہے اور پھر بھی اس کو احتیاج باقی رہتی ہے، اس وقت اعانت فرماتے ہیں۔ اور وہ بھی داشتہ داشتہ، تاکہ ایک ساتھ بے فکری نہ ہو جائے اور جو کچھ ہے اس کی دل سے قدر ہو۔ کیونکہ بے فکری سے نفس کے اندر بہت سے رذائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن خود ہمیشہ اس کا خیال رکھتے ہیں کہ بقدرِ حاجت اس کے پاس پہونچتا رہے۔ چنانچہ اگر وہ کبھی کچھ قرض مانگتا ہے تو اسی مقدار سے کسی قدر کم دے کر فرما دیتے ہیں کہ یہ ہبہ ہے، اس کے ادا کرنے کی فکر نہ کرنا۔ کسی موقع پر کمی کو بھی اسی طرح پورا فرما دیتے ہیں۔

دین کا عقل پر غلبہ:

حضرت والا مصالح کے مقابلہ میں رد و قبولِ خلق، یا رسمی لحاظ و مروت کا ذرہ برابر خیال نہیں کرتے۔ غرض حضرت عقل کو ہمیشہ اپنی طبیعت پر غالب رکھتے ہیں اور اسی طرح دین کو عقل پر۔ اور یہ وہی کر سکتا ہے جو بڑا صاحبِ تمکین اور ابو الحال ہو۔

مصارفِ خیر:

اگر کوئی بڑی رقم مصارفِ خیر کیلئے آتی ہے تو اس کا حساب بھی رقم بھیجنے والے کے پاس ارسال فرما دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی خود حساب طلب کرتا ہے تو خود اس رقم ہی کو یہ تحریر فرما کر واپس فرما دیتے ہیں کہ جس کو ہم پر اطمینان نہیں وہ ہم سے یہ خدمت ہی کیوں لے۔

مدارسِ دیوبند و سہارنپور:

حضرت والا کا کئی سال سے یہ بھی معمول ہے کہ اختیاری رقوم میں سے بشرطِ گنجائش کتابیں خرید کر مدارسِ دیوبند و سہارن پور میں بھجوا دیتے ہیں۔

استعدادِ عملی پیدا کرنا:

طلباء کے نفع کے لیے یہ بھی فرمایا کرتے ہیں: "بس تین چیزوں کا التزام کر لیں پھر چاہے کچھ یاد رہے یا نہ رہے، میں ٹھیکہ لیتا ہوں کہ استعداد علمی پیدا ہو جائے گی۔ اول تو سبق کا مطالعہ کریں، پھر استاد سے سمجھ کر پڑھیں، پھر ایک مرتبہ اپنی زبان سے تقریر کر لیں۔ اور ایک چوتھی بات درجۂ استحسان میں ہے، وہ یہ کہ آموختہ بھی بالالتزام پڑھتے رہا کریں۔ بس پھر نہ رٹنے کی ضرورت، نہ محنت کرنے کی"۔

نظافت کا طرزِ اہتمام:

اگر کسی کپڑے یا انگلی وغیرہ پر سیاہی وغیرہ کا کوئی ذرا سا بھی داغ دھبہ پڑ جاتا ہے تو حضرت والا کو وہ اس قدر بد نما معلوم ہوتا ہے کہ اس کو فوراً خاص اہتمام کے ساتھ دھوتے ہیں۔ اسی طرح جس زمانہ میں زکام ہوتا ہے، رومال کے ایک گوشہ میں گرہ لگا لیتے ہیں اور جب ضرورت ہوتی ہے اس طرف کے گوشہ میں ناک صاف فرماتے رہتے ہیں تاکہ کُل رومال آلودہ نہ ہو۔ جو گوشہ آلودہ ہوا بس وہی آسانی کے ساتھ دھو لیا جائے۔

تناسب اور ترتیب کا اہتمام:

فرمایا کہ مجھ کو تناسب اور ترتیب کا اتنا اہتمام ہے کہ استنجا کے ڈھیلوں میں بھی جو سب سے بڑا ہوتا ہے پہلے اس کو استعمال کرتا ہوں پھر اس سے چھوٹا پھر اس سے چھوٹا۔

کھانے پینے کا طرز:

اگر کوئی آبخورے میں بہت سا پانی بھر کر لاتا ہے تو جب اس کو کم کرا دیتے ہیں تب پیتے ہیں، ورنہ ایسی وحشت ہوتی ہے کہ تھوڑا بھی نہیں پیا جاتا۔ کسی کا جھوٹا کھانا نہیں کھا سکتے، جھوٹا پانی نہیں پی سکتے۔ البتہ ساتھ کھانے میں انقباض نہیں ہوتا۔

کسی کے معمولات کی تفتیش کا عبث ہونا:

کسی صاحبِ معمولات کے معمولات کی تفتیش عبث ہے کیونکہ اتباع امتی کے افعال کا نہیں ہوتا صرف انبیاء علیہم السلام کے افعال و اقوال متبوع ہیں، تا وقتیکہ کوئی تخصیص کی دلیل قائم نہ ہو۔ یا جس کے افعال کے اتباع کا سنت میں امر وارد ہوا ہو، جیسے حضرات خلفاء راشدین یا اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مثلاً۔ غرض باستشناءِ مذکور غیرِ نبی کی تعلیماتِ قولیہ کا اتباع ہوتا ہے، نہ کہ اس کے معمولات فعلیہ کا۔ کیونکہ ممکن بلکہ غالب ہے کہ اس کے معمولاتِ فعلیہ اس کی خصوصیات میں سے ہوں اور وہ اتباع کرنے والے کے مناسبِ حال نہ ہوں۔

حضرت والا کی زیادہ نظر اصلاحِ ملکات پر ہے:

فرمایا کہ میری نظر ملکات پر ہوتی ہے، افعال پر نہیں ہوتی۔ کیونکہ افعال تو ارادہ بدلنے پر ایک منٹ میں درست ہو سکتے ہیں، لیکن ملکات کی اصلاح برسوں میں بھی ہونا مشکل ہے۔ مثلاً بے نمازی تو ارادہ بدلنے پر ایک منٹ میں نمازی ہو سکتا ہے، لیکن کبر کا برسوں کے مجاہدوں میں بھی زائل ہونا مشکل ہے۔

حضرت والا کی نصیحت کا منشا:

فرمایا کہ میں جو کچھ کسی کو کہتا ہوں الحمد للہ دل سوزی اور خیر خواہی سے کہتا ہوں، تحقیر یا نفرت سے نہیں۔ اس کے افعال کو تو برا سمجھتا ہوں، لیکن اس کی ذات کو برا نہیں سمجھتا۔

خاتمہ بالخیر:

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کی یہ برکت ہے کہ جو بلا واسطہ یا بالواسطہ حضرت سے بیعت ہو اس کا بفضلہٖ تعالیٰ خاتمہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض متوسلین گو مرید ہونے کے بعد دنیا دار ہی رہے، لیکن ان کا بھی خاتمہ بفضلہٖ تعالیٰ اولیاء اللہ کا سا ہوا۔

ازواج محترمات کے متعلق عدل:

فرمایا کہ میں تو ایک کی باری میں دوسری کا خیال لانا بھی خلافِ عدل سمجھتا ہوں، کیونکہ اس سے اس کی طرف توجہ میں کمی ہو گی جس کی باری ہے، اور یہ اس کی حق تلفی ہے۔

ازواج کے ساتھ برتاؤ کا طریق:

فرمایا کہ اگر عورت مہر معاف بھی کر دے تب بھی مرد کی غیرت کا مقتضٰی یہی ہونا چاہیے کہ وہ پھر بھی مہر ادا کر دے۔ اپنی بیویوں کے ساتھ خود ہی احسان کرنا زیبا ہے، نہ کہ الٹا ان کا احسان لینا۔

حسنِ معاشرت:

حضرت والا اپنے گھروں میں بہت ہی نرمی اور لطف و بے تکلفی کا برتاؤ فرماتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات پیرانی صاحبہ حضرت والا کے گھر میں تشریف لانے کے وقت اگر کسی کام میں مشغول ہوئیں تو حضرت والا نے نہایت لطف آمیز لہجہ میں فرمایا کہ ہم تو دن بھر کے کام کے بعد تھکے تھکائے تھوڑی دیر کے لیے اپنے دماغ کو راحت دینے کی غرض سے تمہارے پاس آتے ہیں اور تم اس وقت بھی اپنے کام میں لگی رہتی ہو۔

تواضع

ایک بار حضرت والا نے فرمایا کہ میں تو بعض اوقات چولہے ہی کے پاس بیٹھ کر کھانا کھا لیتا ہوں اور بوقتِ ضرورت پانی کا گھڑا بھی اٹھا کر رکھ دیتا ہوں۔

حسنِ معاشرت و بے تعلقی:

حضرت والا جب تک گھروں میں رہتے ہیں بے تکلف اور ہشاش بشاش رہتے ہیں۔ مخدومیت کی شان سے نہیں رہتے ہیں۔ اور گھر والوں کی طرف ایسے ملتفت رہتے ہیں جیسے ان کے ساتھ بہت زیادہ تعلق ہو۔ لیکن جب تھوڑی دیر بعد پھر خانقاہ میں تشریف لا کر مشغول بمشاغلِ دینیہ ہو جاتے ہیں تو پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی سے کچھ تعلق ہی نہیں۔

ہر محل کا پورا پورا حق ادا کرنا:

حضرت والا ہر موقع اور محل کا پورا پورا حق ادا فرماتے ہیں، لیکن اصل تعلق صرف اپنے محبوبِ حقیقی ہی سے ہے۔ چنانچہ کسی خاص غلبہ میں ایک بار بطورِ راز کے فرمایا کہ بعض اوقات تو تعلقات سے اس قدر وحشت ہونے لگتی ہے کہ گو محض وسوسہ اور خطرہ ہی کے درجہ میں ہوتا ہے، لیکن یہ خیال ہونے لگتا ہے کہ یہ جو تھوڑا بہت تعلق گھر والوں کا لگا ہوا ہے یہ بھی ختم ہو جائے۔ لیکن میں اس وسوسہ کے آتے ہی فوراً ان کی درازیٔ حیات کی بہ تکلف دعا کرنے لگتا ہوں تاکہ اس کا تدارک ہو جائے اور کسی ضرر کا احتمال بھی نہ رہے، کیونکہ بعض اوقات قوتِ خیالیہ سے بھی دوسرے کو ضرر پہونچ جاتا ہے۔

اہل کے ساتھ حسنِ معاشرت کی تاکید:

حضرت والا بیویوں کے ساتھ سلوک کرنے کی عام طور سے بہت تاکید کرتے رہتے ہیں کہ عورتیں بیچاریاں ہر طرح بس شوہر کے رحم پر ہوتی ہیں۔ سوائے شوہر کے اور ان کا کون ہوتا ہے؟ لہٰذا بہرحال رحم ہی کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اور ہندوستان کی عورتیں تو عموماً اپنے شوہر کی فدائی ہوتی ہیں ان کے اوپر تشدد تو اور بھی بے رحمی ہے اور عموماً عفیف بھی ایسی ہوتی ہیں جیسے حوریں، جن کی صفت قرآن مجید میں ﴿قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ (الرحمن: 56) فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ مردوں میں تو نا محرم کے وسوسوں سے شاید ہی کوئی بچا ہوا ہو اور شریف عورتیں قریب قریب سب ہی ایسی ہیں کہ ان کو کبھی عمر بھر کسی غیر مرد کا وسوسہ تک نہ آیا۔

اہل کی راحت و عافیت کا بے حد خیال:

حضرت والا کو اپنے دونوں گھروں کی راحت و عافیت کا بہت ہی زیادہ خیال رہتا ہے۔ چنانچہ دونوں کی بیماریوں کے علاج کے لیے متعدد بار ہر قسم کی تکلیفیں اور اخراجات برداشت فرما کر دور دور کے شہروں میں خود اپنے ہمراہ لے گئے۔ اور بعض دفعہ زنانے شفا خانوں میں بھی ٹھہرا کر ان کا علاج کرایا اور باہر میدان میں خیمہ نصب کر کے اس میں قیام فرمایا۔

ادائے حقوقِ اہل و حفظِ حدود:

ایک بار حضرت بڑی پیرانی صاحبہ مد ظلہا چھت پر سے گر پڑیں۔ اس وقت حضرت والا خانقاہ میں فجر کی سنیتں پڑھ رہے تھے اسی دوران اطلاع ہوئی۔ حضرت والا نے فورا نیت توڑ دی اور گھر تشریف لے جا کر ان کی تیمارداری فرمائی۔ جب سب ضروری انتظامات فرما چکے اس وقت واپس تشریف لا کر نمازِ فجر ادا کی۔ ایسی حالت میں نیت توڑ دینا واجب تھا۔ "کَمَا فِي الدُّرِّ الْمُخْتَارِ: بَابُ إِدْرَاکِ الْفَرِیْضَةِ: یَجِبُ الْقَطْعُ لِنَحْوِ إِنْجَاءِ غَرِیْقٍ أَوْ حَرِیْقٍ"۔ (الدر المختار شرح تنویر الأبصار، باب: إدراک الفریضۃ، صفحہ:95، دارالکتب العلمیۃ )

ف: سبحان اللہ! کیا ادائے حقوق اور حفظِ حدود ہے، ورنہ زاہدانِ خشک تو نماز تو در کنار، ایسے مواقع پر وظیفہ بھی چھوڑنا خلافِ زہد سمجھتے ہیں جو سراسر حدودِ شرعیہ سے تجاوز ہے۔

بیویوں کی آسائش کی فکر:

حضرت والا نے اس بناء پر کہ اپنے بعد بھی بیویوں کی آسائش سنت ہے، چنانچہ (ترمذی کی ایک حدیثِ مرفوع میں اس کی تصریح بھی ہے اور نیز امر طبعی بھی ہے) اپنے بعد اپنی دونوں ازواجِ محترمات کی کفالت کے لیے اپنے بہت ہی خاص مخصوصین کو بعنوانِ عام وصیت بھی فرمائی ہے۔

حفظِ حقوق، صفائی معاملات اور امانات کا تحفظ:

حضرت والا کو دوسرے کے حفظِ حقوق کا غایت درجہ اہتمام ہے اور یہ حضرت والا کی خصوصیاتِ خاصہ میں سے ہے۔ چنانچہ اگر کبھی تھوڑا سا بھی مسجد کا گرم پانی وضو سے بچ جاتا ہے تو اس کو بھی سقاوہ ہی میں جا کر ڈال آتے ہیں، تاکہ مسجد کا اتنا سا مال بھی ضائع نہ جائے۔ اسی طرح حضرت والا کو صفائی معاملات اور امانات کو خلط سے محفوظ رکھنے کا بڑا اہتمام ہے۔

تعلیمِ دین کی وصیت:

وصیت فرمائی کہ میں اپنے دوستوں کو خصوصاً اور سب مسلمانوں کو عموماً تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ علمِ دین کا خود سیکھنا اور اولاد کو تعلیم کرانا ہر شخص پر فرض عین ہے۔ خواہ بذریعہ کتاب ہو یا بذریعہ صحبت۔ بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ فتنِ دینیہ سے حفاظت ہو سکے جن کی آج کل بے حد کثرت ہے۔ اس میں ہرگز غفلت یا کوتاہی نہ کریں۔

طلبا کو وصیتِ خدمت و اہل اللہ کی صحبت:

وصیت فرمائی کہ طلباء کو وصیت کرتا ہوں کہ نری درس و تدریس پر مغرور نہ ہوں، اس کا کار آمد ہونا موقوف ہے اہل اللہ کی خدمت و صحبت و نظر عنایت پر، اس کا التزام نہایت اہتمام سے رکھیں۔

؎ بے عنایتِ حق و خاصانِ حق

گر ملک باشد سہ ہستش ورق

وصایا عامہ:

فرمایا کہ دینی و دنیوی مضرتوں پر نظر کر کے ان امور سے خصوصیت کے ساتھ احتیاط رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔

(1) شہوت و غضب کے مقتضا پر عمل نہ کریں۔ (2) بے مشورہ کوئی عمل نہ کریں۔ (3) کثرت اختلاطِ خلق بلا ضرورتِ شدیدہ و بلا مصلحتِ مطلوبہ اور خصوصاً جب کہ دوستی کے درجہ تک پہونچ جائے۔ پھر خصوصاً جب کہ ہر کس و ناکس کو راز دار بھی بنا لیا جائے، نہایت مضر چیز ہے۔ (4) اسی طرح کثرتِ کلام اگرچہ مباح کے ساتھ ہو، سخت مضر ہے۔ (5) غیبت قطعاً چھوڑ دیں۔ (6) بدوں پوری رغبت کے کھانا ہر گز نہ کھائیں۔ (7) بدوں سخت تقاضا کے ہمبستر نہ ہوں۔ (8) بدوں سخت حاجت کے قرض نہ لیں۔ (9) فضول خرچی کے پاس نہ جائیں۔ (10) غیر ضروری سامان جمع نہ کریں۔ (11) سخت مزاجی و تندخوئی کی عادت نہ ڈالیں، رفق اور ضبط اور تحمل کو اپنا شعار بنائیں۔ (12) ریا و تکلّف سے بہت بچیں، اقوال و افعال میں بھی، طعام و لباس میں بھی۔ (13) مقتدا کو چاہیے کہ امراء سے نہ بد خُلقی کرے اور نہ زیادہ اختلاط کرے اور نہ ان کو حتی الامکان مقصود بنائے، بالخصوص دنیوی نفع حاصل کرنے کے لیے۔ (14) معاملات کی صفائی کو دیانات سے بھی زیادہ مہتم بالشان سمجھیں۔ (15) روایات و حکایات میں بے انتہا احتیاط کریں۔ اس میں بڑے بڑے دیندار فہیم لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں، خواہ سمجھنے میں یا نقل کرنے میں۔ (16) بلا ضرورت بالکلیہ اور ضرورت میں بلا اجازت و تجویزِ طبیبِ حاذق شفیق کے، کسی قسم کی دوا ہرگز استعمال نہ کریں۔ (17) زبان کی غایت درجہ ہر قسم کی معصیت و لا یعنی باتوں سے احتیاط رکھیں۔ (18) حق پرست رہیں، اپنے قول پر جمود نہ کریں۔ (19) تعلقات نہ بڑھائیں۔ (20) کسی کے دنیوی معاملہ میں دخل نہ دیں۔ (21) حتی الامکان دنیا و ما فیہا سے جی نہ لگائیں اور کسی وقت فکرِ آخرت سے غافل نہ ہوں۔ (22) ہمیشہ ایسی حالت میں رہیں کہ اگر اسی وقت پیامِ اجل آ جائے تو کوئی فکر اس تمنا کا مقتضٰی نہ ہو: ﴿لَوْ لَاۤ أَخَّرْتَنِیْۤ إِلٰۤى أَجَلٍ قَرِیْبٍۙ فَأَصَّدَّقَ وَ أَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (المنافقون: 10) اور ہر وقت یہ سمجھیں کہ شاید ہمیں نفس نفس واپسیں بود۔ اور علی الدوام دن کے گناہوں سے قبل رات کے اور رات کے گناہوں سے قبل دن کے استغفار کرتے رہیں اور حتی الوسع حقوق العباد سے سبکدوش رہیں۔ (23) خاتمہ بالخیر ہونے کو تمام نعمتوں سے افضل و اکمل اعتقاد رکھیں اور ہمیشہ خصوصاً پانچوں نمازوں کے بعد نہایت لجاجت و تضرّع سے اس کی دعا کیا کریں اور ایمانِ حاصل پر شکر کیا کریں۔ حسبِ وعدہ ﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّكُمْ (ابراهيم: 7) یہ بھی اعظم اسبابِ خاتمۃ بالخیر سے ہے۔

ترکِ فضول کا معیار:

ایک صاحب نے دریافت کیا کہ ترکِ فضول کا معیار کیا ہے؟ فرمایا کہ یہ امر اجتہاد سے دیکھا جائے کہ اگر یہ بات ہم نہ کہیں گے تو اس سے اپنا یا دوسرے کا خفیف یا شدید دنیوی یا دینی ضرر ہو گا، ایسی بات تو کہی جائے اور جو ایسی نہ ہو نہ کہی جائے۔ ابتدا میں یہی معیار ہے۔

تفریحِ طبع کے لیے کلام کرنا فضولیات میں داخل ہے:

انہی صاحب نے دریافت کیا کہ احباب سے تفریحِ طبع کے لیے کلام کرنا یہ بھی فضولیات میں داخل ہے یا اس کی اجازت ہے؟ اگر اجازت ہے تو کس حد تک؟ فرمایا کہ اوپر کے معیار سے تو ظاہراً خارج ہے، لیکن اس کے بالکلیہ ترک سے اکثر طبائع میں ملال و کلال کی کیفیت پیدا ہونے سے فتور و کسل کا احتمال قریب ہو سکتا ہے جو ایک خفیف سا ضرر ہے۔ باقی حد اس کی یہ ہے کہ ایسے وقت اس کو چھوڑ دیا جائے کہ اس کا کسی قدر اشتیاق طبیعت میں رہ جائے۔

زوائدِ تصوف کی طرف التفات نہ ہو:

ایک سالک نے ذکر کا اثر و تصورِ شیخ کے عدمِ استقلال کی شکایت لکھی تھی۔ تحریر فرمایا کہ ان چیزوں کو مقصود سے وہ نسبت ہے جیسے باغ کی گھاس کو پھولوں سے، کہ اگر بالکل بھی نہ ہو تو باغ کی روح میں کوئی کمی نہیں، بلکہ بعض اوقات جب بڑھ جاتی ہے تو کاٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کام میں لگے رہیئے اور ان زوائد کی طرف اصلاً التفات نہ کیجئے۔

ارادۂ غیبت کے وقت کفِ لسان مطلقاً احسن ہے:

ایک سالک نے لکھا کہ اب کسی مجلس میں کسی کی نسبت کوئی ایسی بات کہنے کا ارادہ پیدا ہوتا ہے جو غیبت میں داخل ہو سکتی ہے تو فوراً یہ تصور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس سے معاف کرانا پڑے گا۔ یہ تصور آتے ہی زبان رک جاتی ہے۔ بسا اوقات بولنا شروع کرتا ہوں ساتھ ہی وہ تصور بھی پیدا ہو جاتا ہے اور بجائے اس بات کے کوئی دوسری بات کہہ دیتا ہوں۔ فرمایا کہ یہ عمل حسن ہے اور اس سے احسن یہ ہے کہ دوسری بات بھی نہ کہی جائے بلکہ خاموش ہو جائیں۔ اس میں نفس کا زجر بھی زیادہ ہے، نیز دوسروں کے لیے تنبیہ ہے کہ جب کلام کا نامناسب ہونا مستحضر ہو جائے اس طرح سے رک جانا چاہیے۔ دوسری بات کی طرف منتقل ہونے میں یہ تنبیہ نہیں جو نفع متعدی ہے۔

غائبین کی غیبت کا تدارک:

ایک سالک نے دریافت کیا جن لوگوں کی غیبتیں پہلے ہو چکی ہیں اور ان میں سے بہتوں کے متعلق اب یاد بھی نہ ہو گا اور بہت سے لوگ دوسری جگہ کے ہوں گے یا ان کی وفات ہو چکی ہو گی، اس کے متعلق کیا کروں؟ فرمایا اپنے ساتھ ان کے لیے استغفار ایک حدیث میں وارد ہے، غالباً ابو داؤد کی روایت ہے۔

فرمایا کہ سالک کو ہمت سے کام لینا چاہیے، نرے ندم و تمنی سے کچھ نہیں ہوتا۔

یکسوئی کی تحصیل میں دو غلطیاں:

ایک سالک نے لکھا کہ میں تمنا کرتا ہوں کہ یکسوئی و دلجمعی کے ساتھ نماز پڑھنے کی توفیق ہو جائے۔ تحریر فرمایا کہ گو حضور اختیاری نہیں، لیکن احضار اختیاری ہے، جس قدر وسع میں ہو خواہ اس پر حضور مرتب ہو یا نہ ہو۔ اس میں دو غلطیاں ہوتی ہیں: ایک احضار کا قصد نہ کرنا، دوسرے حضور کا قصد کرنا۔

عارف کبھی دعا کی اجابت سے نا امید نہیں ہوتا:

حضرات صوفیہ کا یہ خاص مذاق ہے کہ وہ دعا کی اجابت سے کبھی نا امید نہیں ہوتے۔ بعض اہل اللہ بعض امور کے لیے تیئیس سال تک برابر دعا کرتے رہیں، 23 سال کے بعد اجابت کا ظہور ہوا۔ ان کو اجابت دعا کا یقین تھا اس لیے برابر دعا میں لگے رہیں۔ مگر عام لوگوں کی عادت یہ ہے کہ چند روز دعا کر کے جب قبول کے آثار نہیں دیکھتے، گھبرا کر دعا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں سمجھ لیتے ہیں کہ ہم قبولِ دعا کے اہل نہیں۔ مسلمانوں نے جہاں اپنی کامیابی کے دوسرے طریقوں سے تغافل برتا ہے، افسوس ہے کہ وہ دعا جیسی سہل چیز سے بھی تغافل برت رہے ہیں۔ اگر کم از کم ہر مسلمان عزت اسلام و مسلمین و غلبہ اسلام کے لیے دعا ہی کرتا رہے اور برابر اس میں لگا رہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ دنوں کے بعد آثارِ قبول نظر آ جائیں گے۔ ﴿فَاعْتَبِرُوْا یٰاُوْلِی الْأَبْصَارِ (الحشر: 2)۔

دعا کا طریقہ:

حضرات فقہاء اور صوفیہ دونوں نے فرمایا ہے کہ اگرچہ دعا میں ادعیۂ ماثورہ کا اختیار کرنا افضل ہے، مگر اس کی پابندی کی ضرورت نہیں۔ اگر کسی وقت کسی بات کے لیے اپنی زبان میں اپنے محاورہ میں دعا کرنے کا دل چاہے تو بے تکلف جس لفظ سے چاہے دعا کرے۔ بس اتنی بات کی رعایت ہے کہ حرام چیز کی دعا نہ ہو اور حدود سے تجاوز نہ ہو۔

محبوب کا خطاب:

واصل کو اصل فرحت محبوب کے خطاب سے ہوتی ہے۔

عارف طالبِ دنیا نہیں ہوتا:

عارف طالبِ دنیا نہیں ہوتا۔ زہد اس طریق کا پہلا قدم ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دل سے دنیا کی محبت اور طلب نکل جائے۔ عارف طالبِ دنیا نہیں ہوتا طالبِ آخرت ہوتا ہے۔ اور بقدر ضرورت کسبِ دنیا زہد کے خلاف نہیں بلکہ مامور بہ ہے۔ اور بلا طلب کے زیادہ مل جائے تو اس کا لے لینا بھی زہد کے خلاف نہیں۔ کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں بعض اغنیاء بھی تھے جن کے پاس ضرورت سے زیادہ مال تھا۔ مگر وہ طالب دنیا نہ تھے، خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا تو انہوں نے اس کو قبول کر لیا اور مصارفِ خیر میں صرف کیا۔ کَمَا جَاءَ فِی الْحَدِیْثِ مِنْ أَیُّوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ حِیْنَ خَرَّ عَلَیْہِ رِجْلُ جَرَادٍ مِّنْ ذَھَبٍ فَجَعَلَ یَحْثِيْ فِیْ ثَوْبِہٖ فَنَادَہُ رَبُّہٗ: يَا أَيُّوْبُ! أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَيْتُكَ عَمَّا تَرٰى؟ قَالَ: "بَلٰی یَا رَبِّ وَ لٰکِنْ لَّا غِنٰی لِیْ عَنْ بَرَکَتِکَ"(الصحیح للبخاری، کتاب: أحادیث الأنبیاء صلوات اللہ علیہم، باب: قول اللہ تعالٰی: و أیوب إذ نادی ربہ، رقم الحدیث: 3391)

دین میں ایجاد کی دو قسمیں ہیں:

ایک اِحداث فی الدین اور ایک اِحداث للدین، اول بدعت ہے اور دوسری قسم کسی مامور بہ کی تحصیل و تکمیل کی تدبیر ہے، خود مقصود بالذات نہیں لہذا بدعت نہیں۔ سو طریق میں جو ایسی چیزیں ہیں، یہ سب تدابیر کے درجہ میں ہیں۔ سو اگر طبیبِ جسمانی کی تدابیر کو بدعت کہا جائے تو یہ بھی بدعت کہلائی جا سکتی ہیں ورنہ نہیں۔

غلو فی الادب جانبین کا ایذا دہ ہے:

فرمایا کہ بعض کو ادب میں بھی بہت غلو ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ سب بے تکلف ہو کر رہیں اور اس کے ساتھ اپنی راحت کا بھی خیال رکھیں اور میری راحت کا بھی، اس سے آگے بڑھنا اچھا نہیں معلوم ہوتا اور جانبین کو تکلیف بھی ہوتی ہے۔

صحبتِ کامل اکسیرِ اعظم ہے:

فرمایا کہ کامل کی صحبت اکسیرِ اعظم ہے، دیکھ لیجئے حضور کی صحبت کی برکت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیا کچھ ہو گئے۔

حضور آئینہ بھی ہیں:

فرمایا: حضور کو جو شخص خواب میں دیکھے وہ حضور ہی ہوتے ہیں، مگر ہیئات و حالات کا اختلاف اس لیے ہوتا ہے کہ حضور آئینہ بھی ہیں۔ ایک شخص نے حضور کو خواب میں حقہ پیتے دیکھا۔ میں نے کہا تم نے اپنی حالت دیکھی حضور چونکہ آئینہ ہیں اپنی ہی حالت تم کو نظر آئی۔

حضور کی زیارت خاتمہ بالخیر کی علامت ہے:

فرمایا کہ حضور کی زیارت جس کو خواب میں ہو جاتی ہے اس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ پس حضور کی زیارتِ مثالی علامت خاتمہ بالخیر کی ہے۔

فرمایا کہ کامل اجتماعِ خاطر تو ذکر اللہ ہی سے ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ توفیق بخشے۔

قرآن مجید ایک بڑے حاکم کا کلام ہے:

بعض مقامات پر قرآن مجید میں ربط کا نہ ہونا، تصنیفات کا سا رنگ نہ ہونا، متعارف مناظرہ کا رنگ نہ ہونا، کفار کے ساتھ مؤمنین و مطیعین کا ذکر ہونا اور دونوں کا رنگ بالکل مختلف ہونا، ایک کا اثر دوسرے پر نہ ہونا دلیل ہے کہ قرآن مجید شفیق اور بڑے حاکم کا کلام ہے جو انفعال سے منزہ ہیں۔ کسی مصنف اور ناقص القدرت کا کلام نہیں۔

اہل اللہ کے احوال:

اہل اللہ کو چونکہ نعمت کی حقیقت زیادہ معلوم ہے (کہ وہ محض عطائے خداوندی ہے ہمارے کسب کو کچھ دخل نہیں) اس لیے ان کو نعمت پر شکر زیادہ ہوتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ جس قدر تعلق ان کو نعمت سے ہے اس سے زیادہ منعم سے تعلق ہوتا ہے، ان کی زیادہ نظر منعم پر ہوتی ہے۔ نیز وہ ہر نعمت کو اپنے استحقاق سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ موجود پر راضی رہتے ہیں، مقصود پر نظر نہیں کرتے۔ چنانچہ ایک شخص نے ایک بزرگ سے شکایت کی کہ مجھے افلاس زیادہ ہے۔ فرمایا اگر دل میں امن و اطمینان ہو، بدن میں کوئی مرض نہ ہو، ایک دن کا کھانے کو ہو، اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟ اسی لیے اہل اللہ کی یہ شان ہے کہ اگر مل گیا تو شکر، نہ ملا تو اس کو بھی نعمت سمجھ کر صبر۔ اور عبدیت کی وجہ سے وہ حاجت کی ہر چیز مانگتے ہیں، لیکن اگر کوئی چیز نہ ملے تو اس پر بھی راضی رہتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے نعمت ہے۔ ان حضرات کو کسی نعمت کی طلب ہوتی ہے تو وہ بھی اسی کے واسطے کہ جمعیتِ قلب میسر ہو، قلب کو پریشانی نہ ہو تاکہ اطمینان کیساتھ کام میں لگیں۔ اسی لیے ان حضرات کے یہاں جمعیتِ قلب کا بڑا اہتمام ہے۔

اتباعِ سنت بھی دین ہے:

حضور سرور عالم کو جمعیتِ قلبِ امت کا اہتمام تھا۔ حضور سال بھر کا سامان ازواج کو عطا فرما دیتے تھے۔ گو حضور کی جمعیت اس پر موقوف نہ تھی مگر حضور نے اپنے مذاق مبارک کے خلاف صرف ہماری رعایت کی اور ایسا کر کے اس فعل کو جائز سے آگے بڑھا کر سنت بنا دیا کہ میری امت کو دنیا میں بھی دین کا ثواب ہے، کیونکہ اتباعِ سنت تو دین ہے۔ کیا انتہا ہے شفقت کی کہ ہم نالائقوں کی رعایت سے سال بھر کا خود انتظام فرمایا جس سے مقصود یہ تھا کہ امت کو ایسا کرنے سے جمیعتِ قلب حاصل ہو۔ اور حضور کے ہر فعل میں یہی شفقت ہے۔ کیا یہ شفقت نہیں ہے کہ آپ ساری ساری رات کھڑے ہو کر امت کی سفارش کر رہے ہیں حتیٰ کہ قدم مبارک پر ورم بھی آ گیا۔

ہر نعمت کی قدر کرنا چاہیے:

فرمایا کہ میں خود مال کو خدا کی نعمت سمجھ کر اس ہاتھ میں جوتا نہیں لیتا جس میں روپیہ ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ نعمت کی تحقیر کا کسی کو کیا حق ہے۔ نعمت وہ چیز ہے کہ ہمارے یہ سارے لمبے چوڑے دعویٰ کمالات کے اور سارا طنطنہ جبھی تک ہے جب تک کہ انہوں نے اپنی نعمت سے نواز رکھا ہے، ورنہ ایمان کا سنبھلنا بھی مشکل تھا۔

گھر علیحدہ بنا لینا مناسب ہے:

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خود مجھ سے فرمایا تھا کہ گھر علیحدہ بنا لینا مناسب ہے، اس کی ضرورت ہے کہ اپنا کوئی جدا ٹھکانا ہو۔

دوزخ مؤمن کے لیے موجبِ تطہیر ہو گی:

تطہیرِ مؤمن کا طرز مختلف ہو گا کفار سے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ساتھ ایسے رحیم و کریم ہیں کہ اگر کوئی مؤمن دوزخ میں بھی جائے گا تو وہ دوزخ بھی دوسرے نوع کی ہو گی۔ یعنی کفار کے لیے تو وہ جیل خانہ ہے اور مسلمان کے لیے حمام ہے۔ اور بعض مؤمنین کا نور ایمان تو اتنا قوی ہو گا کہ پل صراط پر ان کے گزرنے کے وقت آگ کہے گی: "أَسْرِعْ یَا مُؤْمِنُ! فَإِنَّ نُوْرَکَ أَطْفَأَ نَارِيْ" (إحیاء العلوم، باب: بیان معنی سوء الخاتمۃ، جلد: 4، صفحہ: 174، دار المعرفۃ بیروت) اے مؤمن! جلدی گذر جا کیونکہ تیرے نورِ ایمان کی وجہ سے میں ٹھنڈی ہوئی جاتی ہوں۔ اگر تو ذرا ٹھہر گیا تو میں پٹ ہو جاؤں گی۔ اور بعض ضعیف الایمان جو دوزخ میں جائیں گے بھی تو ان کا جانا تزکیہ و تطہیر کے لیے ہو گا۔ یعنی کفار تو دوزخ میں تعذیب کے لیے بھیجے جائیں گے اور مسلمان تہذیب کیلئے۔ جب یہ ہے تو تم میلے کچیلے ہو کر کیوں جاتے ہو، پاک صاف ہو کر جاؤ۔ پھر حمام کی صورت بھی دیکھنے میں نہ آئے گی۔ نیز ایک تفاوت دوزخ میں مؤمن اور کافر کا کشفی ہے۔ یہ کشفِ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ ہے کہ مؤمن دوزخ میں سوئیں گے بھی اور خواب میں دیکھیں گے کہ جنت ہے، حور ہیں، قصور ہیں۔ اور یہ کرنا ایسا ہو گا کہ جیسے "کلورا فام" سنگھا کر اپریشن کیا جاتا ہے۔ اس لیے دوزخ میں مؤمن کو موت کی سی حالت دے دی جائے گی۔ البتہ جنت میں نیند نہ ہو گی کیونکہ یہ نیند مشابہ موت کے ہے اور جنت میں موت ہے نہیں۔ بہرحال دوزخ مؤمن کیلئے مطہر ہے تو بعض اوقات تطہیر مؤلم بھی ہوتی ہے۔ دیکھیے! بعض میل تو ایسا ہوتا ہے کہ ٹھنڈے پانی سے دور ہو جاتا ہے اور بعض گرم پانی سے اور بعض بدوں صابن لگائے دور نہیں ہوتا اور بعض بدوں بھٹی پر چڑھائے نہیں جا سکتا۔ ٹھنڈے پانی سے مراد توبہ ہے، گرم پانی سے مراد بیماری و حوادث ہیں، صابن سے مراد موت ہے، بھٹی سے مراد دوزخ ہے۔ بس مؤمن کا دوزخ میں جانا میل کچیل، داغ دھبہ سے پاک صاف ہونا ہے۔ یہاں کی آگ میں بھی تطہیر کی خاصیت رکھی گئی ہے۔ دیکھئے جیسے گوبر ناپاک مگر جل کر راکھ ہو کر پاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم بھی خدا کی محبت اور عشق میں جل کر فنا ہو جاؤ مٹ جاؤ، سوختہ افروختہ ہو جاؤ، پس پاک صاف ہو کر پہنچو۔ اسی کو فرماتے ہیں:

؎ افروختن و سوختن و جامہ دریدن

پروانہ ز من شمع ز من گل ز من آموخت

جنت میں داخلہ:

فرمایا کہ نفسِ ایمان پر بھی دخولِ جنت ہو جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ دخول ادنیٰ نہ ہو۔

کالجوں کے مدرسین:

فرمایا کہ اکثر اسکولوں اور کالجوں کے مدرسین اور ماسڑوں کی عقلیں لڑکے ہی چھین لیتے ہیں۔

خدا کی نعمتیں:

فرمایا کہ یہ نعمتیں بھی خدا کی ہیں۔ ان کا طبعاً محبوب ہونا برا نہیں، مگر منعم‏ِ حقیقی اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے احب یعنی زیادہ محبوب ہونا برا ہے۔

فرحِ شکر و فرحِ بطر کا تفاوت:

فرمایا کہ نعمتوں پر شکر کے طور پر خوش ہونا یعنی خدا کے فضل و رحمت ہونے کی حیثیت سے اس پر خوش ہونا، یہ حق ہے منعم کا۔ جس کے متعلق ارشاد ہے: ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا (يونس: 58) یہ فرحِ شکر ہے جو محمود ہے۔ اور ایک فرحِ بطر ہے یعنی خود ذاتِ نعمت پر ناز کرنا، یہ نا شکری ہے منعم کی۔ اور اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ قلب میں نعمت کے زوال کے احتمال کا استحضار نہیں رہتا۔ اسی کے متعلق ارشاد ہے: ﴿لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ (القصص: 76) دیکھو! قارون بالذات مال سے خوش ہوتا تھا، کیا درگت بنی؟ اور اس استحضارِ زوال کے بعد جو فرح کی کیفیت قلب میں رہ جائے گی وہ عین شکر ہے۔

فرحِ بطر کو فرحِ شکر بنانے کا طریقہ:

فرمایا کہ جس وقت نعمت پر ناز کا وسوسہ ہو تو اس وقت اس کا مراقبہ کرو کہ اس پر ہماری کیا قدرت ہے۔ تو اس مراقبہ سے فرحِ بطر جاتا رہے گا فرحِ شکر باقی رہے گا۔

بے نتیجہ خیالات طریق میں رہزن ہیں:

فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ کام میں لگا رہے کہ بے نتیجہ فکروں میں نہ پڑے۔ مثلاً یہ کہ معصیت ہو گئی تھی اس سے توبہ بھی کر لی تھی معلوم نہیں وہ قبول ہوئی یا نہیں، آخر اس سے کیا فائدہ؟ اگر کسی وقت زیادہ پریشانی ہو تجدیدِ توبہ کرے اور پھر کام میں لگ جائے۔ مطلب یہ کہ آگے چلنے کی فکر کرے، بے نتیجہ خیالات میں وقت صرف نہ کرے، اعمال میں وقت صرف کرے اس طرح یہ خیالات مضر ہیں کہ میں کامل ہوا یا نہیں، میں کچھ ہوا یا نہیں۔ غرض بے نتیجہ خیالات اس طریق میں رہزن ہیں۔ کام کرنے والے ایسی چیزوں کو کب دیکھتے ہیں، ان کی تو شان ہی جدا ہوتی ہے۔

تعویذ میں عقیدہ کی خرابی:

ایک شخص نے عرض کیا روزگار کے لیے ایک تعویذ دیدیجئے! فرمایا کہ روز گار کے لیے تعویذ نہیں ہوتا۔ اگر کچھ پڑھ سکو تو اللہ کا نام بتلا دوں؟ عرض کیا بتلا دیجئے۔ فرمایا کہ بعد نماز عشاء ''یَا وَھَّابُ'' چودہ تسبیح اور چودہ دانے پڑھ لیا کرو۔ اول آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف۔ اس شخص نے مری ہوئی زبان سے کہا بہت اچھا۔ اس پر فرمایا: طبیعت خوش نہیں ہوئی؟ یہ اعتقاد کی خرابی ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ تعویذ سے نعوذ باللہ خدا پر قبضہ ہو جاتا ہے جس سے وہ خلاف نہیں کر سکتے، خواہ مشیت ہو یا نہ ہو۔ اور پڑھنے پڑھانے سے یا دعا کرانے سے کیا ہوتا ہے، وہ ان کی مرضی پر ہوتا ہے، قبول کریں یا نہ کریں۔

اونی کپڑے کی نا پسندیدگی کی وجہ:

فرمایا کہ میں ہدیہ میں اونی کپڑے سے جو خوش نہیں ہوتا تو اس لیے کہ اس میں کیڑا لگ جاتا ہے اور میرے یہاں حفاظت کا اہتمام نہیں ہو سکتا، میں کثیر المشاغل ہوں، دوسرے ایسے کاموں میں توجہ اور وقت دونوں صرف ہوتے ہیں اور مجھ کو اس سے گرانی ہوتی ہے۔

ہدیہ لینے دینے کے آداب:

ہر چیز اور ہر کام میں رسوم کا اس قدر غلبہ ہو گیا ہے کہ حقائق قریب قریب بالکل مٹ ہی گئے۔ کتنا سہل نسخہ ہے کہ ہدیہ دینا چاہو تو مجھ سے پوچھ لو۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ میں ضرورت کی چیز بتلاؤں گا تو دینے والے کی جو نیت ہے کہ اس کو میں ہی استعمال کروں وہ اس صورت میں بالکل محفوظ ہے، نہ فروخت کرنے کی ضرورت نہ کچھ۔ ایک حکمت یہ ہے کہ ہدیہ دینے سے مقصود خوش کرنا ہوتا ہے، وہ بھی اس صورت میں زیادہ قریب ہے کہ جی چاہی چیز آئی۔ اور جو مروجہ صورت دینے کی ہے اس میں تو دینے والے کا جی خوش ہوتا ہے جو ہدیہ کے مقصود کے خلاف ہے۔ مقصود تو جس کو ہدیہ دیا جائے اس کا خوش کرنا ہے، مگر خود ہدیہ لینے والے کو دینے والے کی خوشی کی بھی رعایت ضروری ہے، ایسا نہ کرے کہ اسی کے سامنے اس ہدیہ کو دوسرے کو دیدے کیونکہ اس میں اس کی افسردگی ہے۔

بے تکلفی اور دل کا ملنا شرطِ اعظم ہے:

فرمایا کہ جس قدر الفت اور محبت بڑھتی ہے اسی قدر تکلف جاتا رہتا ہے۔ اور بے تکلفی اور دل کا ملنا شرطِ اعظم ہے نفعِ باطن کیلئے مگر اکثر لوگوں کو ان باتوں کی خبر نہیں۔

ہدیہ کا منشا خلوص و محبت ہونا چاہیے:

فرمایا کہ ہدیہ دینا محبت و خلوص سے ہونا چاہیے خواہ وہ کسی درجہ کی چیز ہو۔ خواہ وہ فلوس ہی ہو، بڑھیا چیز نہ ہو۔

زینت مردوں کے لئے زیبا نہیں:

فرمایا کہ میں سب کو تو منع نہیں کرتا لیکن ہاں! اگر اکثر لوگ قیمتی کپڑا تکلف اور زینت کی وجہ سے پہنتے ہیں، ان کو تو ضرور منع کیا جائے گا، اس کا اثر طبیعت پر برا ہوتا ہے۔ ایسے تکلف کی زینت تو عورتوں کے لئے ہے، نہ مردوں کے لئے۔

کھانے کی رغبت:

فرمایا کہ کسی چیز کے لینے یا کھانے سے عذر کر دینا حالانکہ ضرورت ہو تو ابتلاء اور کفرانِ نعمت ہے۔ اگرچہ فتویٰ سے عذر کی اجازت ہے (مثلاً رغبت اس کے کھانے کی ہے ہی نہیں)۔

اصولِ اسلام راحت بخش ہیں:

فرمایا کہ جس قدر غیر مسلم اقوام ہیں سب نے اسلام کے اصول لیے ہیں، راحت اٹھا رہے ہیں اور مسلمانوں نے چھوڑ دیئے ہیں، پریشان ہیں، تکلیف اٹھا رہے ہیں۔

صفائی روح کی مطلوبیت کی دلیل:

حدیث شریف میں ہے: "نَظِّفُوْا أَفْنِیَتَکُمْ" (سنن ترمذي رقم الحديث: 2799) یعنی گھر سے باہر جو اس کے سامنے میدان ہے، اس کو صاف رکھو۔ سو ظاہر ہے کہ جب مکان سے باہر کی صفائی کا اس قدر اہتمام ہے تو خود گھر کی صفائی کس قدر مطلوب ہو گی؟ پھر کپڑے کی اس سے زیادہ اور جسم کی اس سے زیادہ اور روح کی تو کس قدر مطلوب ہو گی۔

مہمان کو بے تکلف کرنے کی تدبیر:

فرمایا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سماعِ حدیث کے لیے امام مالک صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مہمان ہوئے، کھانے کے وقت خادم نے اطلاع کی کہ کھانا تیار ہے۔ اما م مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا لے آؤ۔ وہ ہاتھ دھلانے کے لیے پانی لایا اور پہلے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ دھلانے چاہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ پہلے ہمارے ہاتھ دھلاؤ۔ اسی طرح کھانا رکھتے وقت فرمایا کہ کھانا پہلے ہمارے سامنے رکھو، اس کے بعد خود پہلے کھانا شروع کر دیا۔ یہ ترتیب اس وقت کے رسم و تکلف کے خلاف ہے، لیکن اس میں ایک بہت بڑے دقیقہ پر امام کی نظر گئی۔ اس لیے کہ مہمان کو پیش قدمی کرتے ہوئے شرم دامنگیر ہوتی ہے، خصوصاً کھانے میں ابتدا کرتے ہوئے مہمان شرماتا ہے۔ آپ نے یہ ترتیب مہمان کو بے تکلف کرنے کے لئے اختیار فرمائی۔

اسلام تمام اخلاقِ حمیدہ کی جڑ ہے:

فرمایا کہ کفر جڑ ہے تمام اخلاقِ رذیلہ کی اور اسلام جڑ ہے تمام اخلاق حمیدہ کی۔ اس لیے کفر کے ہوتے ہوئے اتفاق ہونا نہایت عجیب ہے۔ اور اسلام کے ہوتے ہوئے نا اتفاقی ہونا عجیب ہے۔ ان دونوں کا سبب کچھ عوارض ہوتے ہیں۔

ہدیہ تطہیرِ قلب کا ذریعہ ہے:

فرمایا کہ ہدیہ دے کر کسی عنایت کی توقع نہایت ہی منکر و قبیح ہے۔ مجھ کو تو یہ پسند نہیں کہ ہدیہ دے کر دعا کے لئے کہا جائے۔ اس لیے کہ ہدیہ تو محض طیبِ قلب سے اور تطہیرِ قلب کے لیے ہوتا ہے۔

مولانا قاسم صاحب کا قبولیتِ ہدیہ:

فرمایا مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر یہ شبہ ہو جائے کہ یہ شخص ہم کو غریب سمجھ کر ہدیہ دے رہا ہے، لینے کو جی نہیں چاہتا۔ ہم غریب ہی سہی مگر اس کو کیا حق ہے کہ وہ غریب سمجھ کر دے۔ غرض یہ کہ مولانا رفعِِ حاجت کی مصلحت کی آمیزش کو بھی نہیں پسند فرماتے تھے۔ اور ایک یہ بھی معمول تھا کہ سفر میں ہدیہ لینا پسند نہ فرماتے تھے۔ بعض اوقات پہلے سے آمادگی نہیں ہوتی منہ دیکھ کر خیال ہو جاتا ہے تو طیبِ قلب سے نہ ہوا۔

مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قبولیتِ ہدیہ:

فرمایا کہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ پر غالب حالت مجذوبیت کی تھی مگر کوئی شخص رخصت کے وقت ہدیہ پیش کرتا تو قبول نہ فرماتے تھے۔ اور جو شخص آتے ہی دیتا، لے لیتے تھے۔ جانے کے وقت دینے کے متعلق فرماتے کہ بھٹیارا سمجھا ہے کہ حساب لگا کر دیتا ہے کہ آٹھ آنے کا کھایا ہو گا لاؤ روپیہ دیدو۔ دیکھئے ہدیہ میں یہاں بھی دوسری مصلحت یعنی ادائے عوض کی مل گئی، طیبِ قلب سے نہ ہوا۔

مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا قبولیتِ ہدیہ:

حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ زیادہ مقدار میں ہدیہ نہ لیتے تھے، کم مقدار میں لیتے تھے اور لینے کے وقت بے حد شرماتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میری اتنی بڑی حیثیت نہیں۔ اپنے کو ہیچ در ہیچ سمجھتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ بھائی زیادہ سے زیادہ ایک روپیہ دیدو۔ اس میں بھی یہ راز ہے کہ بعض اوقات زیادہ مقدار میں طیبِ قلب نہیں ہوتا، قلیل مقدار سے شرما کر زیادہ دیتا ہے۔

خاصانِ حق کی صحبت:

فرمایا کہ اہل اللہ اور خاصانِ حق کی صحبت میں، ان کی دعا میں، ان کی نصیحت میں، سب میں نور و برکت ہے۔ دہلی میں جو حکیم نابینا ہیں ان کی نباضی مشہور ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا تھا کہ حضرت میں نابینا ہوں، بجز نبض کے اور علامات کا مشاہدہ نہیں کرتا نبض شناسی کی دعا کر دیجئے۔ آپ نے نبض کے لیے دعا فرما دی جس میں اس کا کمال شاہد ہے یہ اسی دعا کی برکت ہے۔

باطنی تعلقات کے نفع کا مدار بشاشت پر ہے:

خصوصاً اگر بیعت کے وقت انقباض ہو تو یہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ پھر ساری عمر اس کا اثر رہتا ہے۔

انگریزی دوا کا استعمال:

فرمایا کہ انگریزی دوا باستثناء نادر میں خود تو استعمال نہیں کرتا مگر دوسروں کے لئے برا نہیں سمجھتا کیونکہ ضرورتِ شدیدہ میں جائز ہے۔

طریق کی حقیقت و مقصود:

فرمایا کہ اس طریق کی حقیقت یہ ہے کہ اعمال مامور بہا طریق ہیں اور رضاءِ حق اس طریق کا مقصود ہے۔ اس کے آگے جو شیخِ کامل تجویز کرتا ہے یا سلف کا معمول رہا ہے وہ سب تدابیر کا درجہ ہے۔ فنِ طب کی طرح اس طریق میں بھی تدابیر ہیں۔

حصولِ نسبت کا موقوف علیہ:

فرمایا کہ وہ نسبتِ حقیقی کہ بندہ کو خدا کے ساتھ عشق کا تعلق ہو جائے اور حق تعالیٰ کو بندہ کے ساتھ رضا کا تعلق ہو جائے یہ موقوف ہے دوامِ طاعت و کثرتِ ذکر پر۔ یہ بدوں اس کے نصیب نہیں ہو سکتی۔ اور نسبت بمعنی کیفیت مطلوب نہیں ہے۔

وقتِ رحلت کا استحضار:

فرمایا کہ ''اَلْحَمْدُ لِلہِ، اَلْحَمْدُ لِلہِ، اَلْحَمْدُ لِلہِ'' مجھ کو اپنے وقتِ (رحلت) کا کافی استحضار ہے، لیکن زبان پر اس لیے نہیں لاتا کہ دوستوں کو رنج ہو گا۔

فلاح کی صورت:

مسلمانوں کے فلاح اور بہبود کی صورت اسی میں ہے کہ ہر جگہ انجمن قائم ہو جائیں تاکہ ایک دوسرے کی خبر گیری کر سکیں۔

تصدیق کے درجے:

فرمایا کہ تصدیق کے دو درجے ہیں: ایک اختیاری اور ایک اضطراری۔ سو ایمان مامور بہ اختیاری ہوتا ہے۔ اور اضطراری میں اکتساب و اختیار کو دخل نہیں اس لیے وہ ایمان نہیں، بلکہ جو تصدیق اختیاری ہو وہ ایمان ہے۔ اور اختیاری یہ ہے کہ اس پر اپنے جی کو جمانا، سمجھانا۔ غرض ایمان وہ ہے جو اختیاری ہو۔ اور گاندھی کو تصدیقِ اضطراری حاصل ہے ورنہ نماز پڑھا کرے۔ یہ نہ سہی، مگر کم از کم اس کو فرض ہی سمجھے۔ اس کو ایک دوسرے عنوان سے سمجھو کہ ایک ہے جاننا اور ایک ہے ماننا۔ جیسے قیصر ولیم، جارج کو بادشاہ جانتا ہے اور جارج، قیصر ولیم کو بادشاہ جانتا ہے، مگر ایک کو ایک مانتا نہیں دونوں کی فوجیں لڑتی ہیں۔ جیسے یہاں فقط جاننے سے اطاعت کا حکم نہیں کیا جاسکتا ایسے ہی گاندھی جانتا ہے مانتا نہیں۔ اس سے ایمان کیسے ہو سکتا ہے؟ اب میں اس سے آگے کہتا ہوں کہ دو طریق ہیں، ایک یہ کہ حاکمانہ طریق پر مانتا ہے۔ یعنی جس کو مانتا ہے اس کو اپنے اوپر حاکم مانتا ہے۔ سو بعض لوگ حکیمانہ طریق پر اسلام کی بعض باتوں کو اچھا سمجھتے ہیں مگر وہ بھی ایمان نہیں۔ ایمان کے لیے اس کی ضرورت ہے کہ حاکمانہ طریق پر مانے۔ ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ ایک یورپین عورت پانچوں وقت کی نماز پڑھتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم کو نماز اچھی اور پیاری معلوم ہوتی ہے مگر رسول اللہ کو اپنے اوپر حاکم نہیں سمجھتی۔ تو اس سے ایمان اور اسلام تھوڑا ہی ثابت ہو سکتا ہے؟ یہ تو ایک حکیمانہ طرز پر تسلیم کرنا ہے جو ایمان کیلئے کافی نہیں۔ حاصل یہ کہ ہر ماننا اسلام نہیں۔

ذکر دوا سمجھ کر کرنا چاہیے:

فرمایا کہ بعض طالب شکایت کرتے ہیں ذکر میں لذت نہیں آتی، جی نہیں لگتا، وسوسے آتے ہیں۔ تو وہ یہ سمجھ لیں کہ ذکر لذت کے لیے یا جی لگنے کے لیے یا وسوسے نہ آنے کے لیے موضوع نہیں، دوا ہی سمجھ کر کئے جاؤ تب بھی نفع ہو گا۔

طاعات میں اعتبارِ دوا اور اعتبارِ غذا:

طاعات میں لذت ہونے نہ ہونے کا ذکر تھا، فرمایا کہ ایک لذت ہوتی ہے اور ایک ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً دوا میں لذت نہیں ہوتی ضرورت کے لئے مستعمل ہوتی ہے، سو طاعات بعض کے اعتبار سے دوا ہوتی ہے جس میں لذت نہیں ہوتی اور بعض طبائع کے اعتبار سے غذا ہوتی ہے جس میں لذت بھی ہوتی ہے۔

ایک نے عرض کیا کہ حضرت قرآن شریف جو یاد کرنا شروع کرے اور کامیاب نہ ہو، کیا بروزِ قیامت اندھا اٹھے گا؟ فرما یا کہ اگر یہ وعید ثابث ہے تو اندھا وہ اٹھے گا جو کوشش چھوڑ دے (یہ شبہات ادھورے علم سے ہوتے ہیں) اور جو کوشش میں لگا رہتا ہے وہ اس وعید کا مستحق نہیں، وہ ایسا ہی اٹھے گا جیسے یاد والے اُٹھیں گے۔

شیطانی وسوسہ سے بچنے کی تدبیر:

ایک صاحب جو مبتلائے وساوس تھے، ان کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ شیطانی وساوس سے بچنے کی تدبیر یہ ہے کہ ہمت سے شیطان کا مقابلہ کرو اور مقابلہ یہی ہے کہ اس کی طرف التفات مت کرو۔ جیسے کھٹکانا، کتا بھونکتا ہے بھونکنے دو، بھاگنے سے اور زیادہ بھونکے گا۔

خدا پر بھروسہ رکھنا:

خلافت کی شورش کے زمانے کا قصہ ہے کہ یہاں پر ایک شخص تھا ہندو راجپوت، پرانا آدمی تھا۔ میں صبح کو جنگل سے آ رہا تھا وہ مل گیا۔ کہنے لگا کہ کچھ خبر بھی ہے تمہارے لیے کیا کیا تجویزیں ہو رہی ہیں؟ اکیلے مت پھرا کرو۔ میں نے کہا جس چیز کی تم کو خبر ہے مجھ کو اس کی بھی خبر ہے اور ایک چیز کی بھی خبر ہے جس کی تم کو خبر نہیں۔ پوچھا وہ کیا؟ میں نے کہا وہ یہ کہ بدوں خدا کے حکم کے کسی سے کچھ ہو نہیں سکتا۔ کہنے لگا پھر تو جہاں چاہو پھرو تمہیں کچھ جوکھم (یعنی اندیشہ) نہیں۔ دیکھئے ایک ہندو کا خیال کہ خدا پر بھروسہ رکھنے والے کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔

معاشرت میں حضرت والا کی تعلیم:

فرمایا کہ معاشرت کے متعلق میری تمام تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ میں ہمیشہ یہ چاہتا ہوں کہ کسی کی طبیعت پر میری وجہ سے بار یا گرانی نہ ہو۔

زنا، شراب پینے سے اشد ہے:

فرمایا کہ خلافت کمیٹی کے زمانہ میں اچھے برے کی تو کوئی تمیز ہی نہ تھی۔ اغراض پرستی، نفس پرستی، ہوا پرستی، دنیا پرستی کا بازار گرم تھا۔ ایک شخص نے ایک حامیٔ تحریک سے کہا کہ شراب پر تو پیکٹنگ اور پہرہ لگاتے ہو، مگر رنڈیوں پر بھی تو پیکٹنگ اور پہرہ لگاؤ، یہ بھی تو برا کام ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر دین کی وجہ سے برے کاموں کو روکتے ہو تو جو بھی برے کام ہوں سب کو بند کر دو، بلکہ شراب پینے سے تو زنا اشد ہے۔ چنانچہ شراب کے نہ پینے پر اگر ظالم حاکم وغیرہ قتل کی دھمکی دے شراب کا پی لینا ایسے وقت جائز ہے، اور اگر زنا پر قتل کی ایسی دھمکی دے تو ایسے وقت میں زنا کرنا جائز نہیں، تو آپ لوگوں نے زنا کو کیوں نہیں روکا؟ اس پر پیکٹنگ ہوا نہ پہرا لگا۔ پس معلوم ہوا اور بعض نے اس کی تصریح کی کہ یہ دین اس کا سبب تھوڑا ہی تھا، بلکہ سبب اِس کا صرف انگریزوں سے دشمنی تھی، اس لیے کہ شراب کی آمدنی انگریزوں کو پہنچتی ہے اور رنڈیوں کی آمدنی انگریزوں کو نہیں پہنچتی۔

خطا معاف کر دینا اور عذر قبول کر لینا:

فرمایا کہ کسی کی خطا معاف کر دینے پر اور عذر قبول کر لینے پر یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے دوستی اور خصوصیت بھی رکھے۔ بعض اوقات اس پر قدرت نہیں ہوتی اور بعض اوقات بعد تجربہ کے اس کی مصلحت نہیں ہوتی۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اگر اتفاق سے ملاقات ہو جائے تو باہم سلام کر لیں اور اگر ایک طرف سے کوئی ضرورت بات چیت کی ہو تو دوسرا اس کا مناسب جواب دیدے، گو مختصر ہی ہو۔ اور اگر ضرورت سے زیادہ بات چیت کا سلسلہ ہونے لگے جس سے بے تکلفی پیدا ہونے کا احتمال ہو، عذر کر دے۔ اور جس سے دین کے سبب قطع تعلق کیا ہو وہ اس سے مستثنٰی ہے۔ چنانچہ حاشیہ علی المؤطا میں ہے: "وَ مَنْ خَافَ مِنْ مُّکَالَمَةِ أَحَدٍ وَّ صِلَۃِ مَا یُفْسِدُ عَلَیْہِ دِیْنَہٗ وَ یُدْخِلُ مَضَرَّةً فِيْ دُنْیَاہٗ، یَجُوْزُ لَہٗ مُجَانَبَتُہٗ وَ الْبُعْدُ عَنْہٗ وَ دَبُّ ھَجَرٍ جَمِیْلٍ خَیْرٌ مِّنْ مُّخَالَطَۃٍ مُؤْذِیَةٍ وَّ أَمَّا مَا کَانَ مِنْ جِھَةِ الدِّیْنِ وَ الْمَذْھَبِ فَھِجْرَانُ أَھْلِ الْبِدَعِ وَ الْأَھْوَاءِ وَاجِبٌ إِلٰی وَقْتِ ظُھُوْرِ التَّوْبَةِ" (تنویر الحوالک حاشیۃ علی المؤطا للإمام مالک، باب: المھاجرۃ، جلد: 3، صفحہ: 99، دار إحیاء الکتب العربیۃ مصر)

دلسوزی، ترحم و حفظِ حدودِ حضرت والا:

حضرت والا بہار کے قیامت خیز زلزلوں کے حالات سن کر اس درجہ متاثر ہوتے تھے کہ بے چین ہو جاتے تھے اور پُر درد لہجہ میں دعائیہ الفاظ "اے اللہ! رحم فرما، اے اللہ! رحم فرما" بار بار بے اختیار منہ سے نکلنے لگتے تھے۔ نیز فرماتے: بڑا مشکل معاملہ ہے، اگر دل برا نہ ہو تو شفقت علی الخلق میں کمی ہوئی جاتی ہے، اگر دل برا کرتے ہیں تو اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شکایت کی حد تک نہ پہنچ جائے۔ واقعی حدود کے اندر رہنا بس پلِ صراط پر چلنا ہے، اور پلِ صراط بعض اہل ذوق کے قول پر در اصل رعایت حدود ہی کی صورتِ مثالی ہو گی، جو تلوار سے بھی تیز اور بال سے بھی باریک ہو گی۔ بس اللہ تعالیٰ ہی اعانت فرماتے ہیں ورنہ حدود کے اندر رہنا نہایت ہی دشوار امر ہے، لیکن اگر بندہ اس کی کوشش اور فکر میں رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ سب آسان فرما دیتے ہیں۔

اہل باطل کا اثر مٹانا:

فرمایا کہ مناظروں اور جوابی رسالوں نے اہل باطلِ کو بہت فروغ دے دیا ہے، ورنہ اگر بے پروائی برتی جاتی، ان کے رد کی جانب کچھ التفات ہی نہ کیا جاتا تو ان کو اتنی اہمیت حاصل نہ ہوتی جتنی اب حاصل ہو گئی ہے۔ مناظروں سے تو اہلِ باطل کو فروغ ہوتا ہے اور نتیجہ کچھ نہیں ہوتا۔ البتہ اہلِ باطل کا اثر مٹانے کے لئے حق کی تقریر و اشاعت بار بار اور جا بجا کرنا نافع ہے۔

فرمایا کہ میری طبیعت میں تأثر بہت ہے۔ ذرا سے احسان کا بھی میرے اوپر بے حد اثر ہوتا ہے۔

حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک:

فرمایا کہ مسائل مختلف فیہا میں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اصل مسلک ترک اور تحرز تھا، ''إِلَّا بِعَارِضٍ قَوِیٍّ''۔ اور فاعل خوش عقیدہ اور خوش نیت پر نکیر نہ فرماتے تھے۔

حضرت والا کا مسلک:

فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ عمل تو ہو مضبوط اور رائے میں ہو نرم۔

اعتراضات کا ایک جواب:

ایک شخص نے واہی تباہی اعتراضات لکھ کر حضرت والا کی خدمت میں بھیجے تھے۔ تحریر فرمایا کہ مجھ میں اس سے زیادہ عیوب ہیں مگر مجھے اپنے عیوب کی اشاعت کی توفیق نہیں ہوتی۔ تم ان کو مشتہر کر دو تاکہ لوگ دھوکے میں نہ رہیں۔

آج کل جواب دینا قاطعِ اعتراضات نہیں:

فرمایا کہ آج کل جواب دینا قاطعِ اعتراضات نہیں ہوتا، بلکہ اور زیادہ مطوّلِ کلام ہو جاتا ہے، تو وقت بھی ضائع ہوا اور غایت بھی حاصل نہیں ہوئی۔

فرمایا کہ تقلیلِ منافعِ مالیہ یا فوتِ جاہ یہ کوئی معتدّ بہ ضرر نہیں جس کے لئے بڑا اہتمام کیا جائے۔

حق تعالیٰ کے حکیم اور حاکم ہونے کا مراقبہ:

فرمایا کہ الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے بس یہ مراقبہ اچھی طرح ذہن میں جما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حاکم بھی ہیں اور حکیم بھی۔ حاکم ہونے کی حیثیت سے تو انہیں اپنی مخلوق محکوم کے ظاہر اور باطن میں ہر طرح کے تصرفات فرمانے کا ہر وقت کامل اختیار اور پورا حق حاصل ہے، کسی کو مجالِ چون و چرا نہیں۔ اور حکیم ہونے کے اعتبار سے ان کا ہر تصرف حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ گو ہماری سمجھ میں وہ حکمت نہ آئے۔ چونکہ بفضلہٖ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کا حاکم اور حکیم ہونا اچھی طرح ذہن نشین ہو گیا ہے اس لیے بڑے بڑے حادثہ میں بھی جس کو پریشانی کہتے ہیں، وہ الحمد للہ مجھ کو کبھی نہیں ہوتی۔ طبعی اثر ہونا اور بات ہے۔

حضرت والا کا طبعی تأثر:

حضرت والا میں طبعی تأثر اتنا ہے کہ جب حضرت والا کے خواہر زادہ جناب مولانا سعید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا (جن سے حضرت والا کو اتنا تعلقِ شفقت تھا کہ اس کو حضرت والا تعشّق کے درجہ تک پہونچا ہوا فرمایا کرتے ہیں) تو اسی زمانہ میں خود فرماتے تھے کہ قلب میں بار بار بے اختیار تقاضا پیدا ہوتا ہے کہ کام چھوڑ کر قبر پر جاؤں، لیکن میں بتکلف اس تقاضا کو روکتا ہوں اور اس کے مقتضا پر عمل نہیں کرتا اور اپنے آپ کو کاموں میں برابر مشغول رکھتا ہوں، کیونکہ میں خوب جانتا ہوں کہ اگر کہیں ایک بار بھی ایسے تقاضے پر عمل کر لیا تو بس پھر علت ہی لگ جائے گی۔

تحریکاتِ گزشتہ کے متعلق حضرت والا کی رائے:

تحریکات کے زمانہ میں چاروں طرف سے ہر قسم کے زور یہاں تک کہ نا جائز زور تک شرکت کے لیے ڈالے گئے، لیکن صاف فرما دیا کہ علاوہ اس کے کہ اعتقاد کے خلاف عمل کرنا تدیّن کے بھی خلاف ہے، ایک قوی مانع یہ بھی ہے کہ میرے ساتھ مسلمانوں کی ایک جماعت کی جماعت وابستہ ہے، جب تک مجھ کو شرح صدر نہ ہو جائے میں شریک ہو کر اتنے سارے مسلمانوں کی ذمہ داری کس طرح اپنے سر لے لوں؟ کیا قیامت میں میری گردن نہ ناپی جائے گی؟ میں تو ان تحریکات کو مسلمانوں کے لیے سراسر مضر اور اس سلسلہ میں اکثر عوام میں جو طریقِ عمل اختیار کئے جا رہے ہیں ان کو ناجائز سمجھتا ہوں۔ نیز میرے نزدیک نتیجہ سوائے ضرر کے اور کچھ نہیں۔ سچ ہے:

؎ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید

بوجہِ مجاہدہ وسوسہ پر مؤاخذہ نہیں:

ہمارے خواجہ صاحب نے ایک بار لکھا کہ بعض اوقات تو اپنے خیالات، وساوس کو بالکل کفریہ سمجھ کر سخت مایوسی اور یاس کے عالم میں ہو جاتا ہوں۔ جواب میں تحریر فرمایا کہ کفر کیا، وہ تو معصیت بھی نہیں، ذرا اندیشہ نہ کریں، وسوسہ پر ذرا مواخذہ نہیں، بلکہ اس میں ایک گونہ مجاہدہ ہے جس سے قرب بڑھتا ہے۔ اور شیطان اس راز سے نا واقف ہے، ورنہ کبھی وسوسہ نہ ڈالے۔

ناشکری مذموم کی تعریف:

ایک نے لکھا کہ چوری ہو گئی ہے اس کا افسوس سوچنے سے بھی نہیں ہوتا، کہیں حق تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری و ناشکری تو نہیں؟ تحریر فرمایا کہ چوری کا حال سن کر چوری کا افسوس اور آپ کے استقلال پر مسرور ہوا۔ ناشکری کا احتمال عجیب ہے، ناشکری جو مذموم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناشی ہے منعم کی بے تکلفی سے۔ اور جو چیز منعم کی غایتِ تعلق سے ناشی ہو وہ محمود ہے۔ اگر اس کا نام کسی کی اصطلاح میں ناشکری ہو، وہ حقیقتاً ناشکری نہ ہو گی گو صورتاً ہو۔

خطرات کا علاج:

ان کے دفع کا قصد نہ کیا جائے بلکہ اپنے کام میں زیادہ متوجہ ہونے سے سب ازخود دفع ہو جائیں گے۔

آلہ مستلزمِ فعل نیست:

ایک طالب نے بذریعہ عریضۂ فارسی بغرضِ حفاظت بندوق رکھنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت والا نے استفسار فرمایا کہ اجازت گرفتن چہ مصلحت است؟ انہوں نے لکھا کہ قبل ازیں مریضِ کبر و زیرِ علاجِ حضرت بودم، بندوق آلۂ کبر معلوم می شود۔ اس پر یہ جواب تحریر فرمایا: "مگر آلہ مستلزمِ فعل نیست، چنانچہ آلۂ زنا نزدِ ہر کس است و قطعش واجب نیست"۔

ف: چونکہ ان حضرات کے دل پاک صاف ہوتے ہیں اور طبیعت میں بے تکلفی اور سادگی ہوتی ہے اس لیے انہیں ایسی باتوں کے کہہ ڈالنے میں کچھ تأمل نہیں ہوتا۔

ایک ذی علم مولوی نے لکھا: "جناب کے بعض مطبوعہ وعظ اور تصانیف پڑھیں جن سے بیعت کے شوق میں زیادتی ہوئی"۔ تحریر فرمایا: "مبنیٰ نہایت ضعیف ہے، تصنیف کا صحیح ہونا مصنف کے صالح ہونے کی بھی دلیل نہیں، نہ کہ مصلح ہونے کی"۔

بیعت کیلئے مناسبت شرطِ بیعت ہے:

ان ہی صاحب نے لکھا ہے کہ میں شیروانی، قمیض، ڈھیلی مہری کا پاجامہ، بوٹ جوتا اور ترکی ٹوپی پہنتا ہوں۔ داڑھی فی الحال دو ڈھائی انگل لمبی ہے بڑھانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔

جواب: میں صدق سے بہت خوش ہوا، میں اس کی جزاء میں صدق ہی سے کام لیتا ہوں۔ وہ یہ کہ آپ کا ظاہر خراب، میرا باطن خراب۔ ایسی حالت میں مناسبت مفقود، اور خدمتِ مزعومہ (تعلیم بیعت) کیلئے مناسبت شرط ہے۔

شیخ کے خادم بننے کا شرف:

ان ہی صاحب نے لکھا کہ میں اس قابل نہیں کہ حضور کا خادم بننے کا شرف حاصل کر سکوں۔ تحریر فرمایا: "میں تو مخدوم بنانے کو تیار ہوں، مگر مناسبت جو شرطِ طریق ہے، میرے اختیار سے خارج ہے۔

دعا کے لیے داعی کی قبولیت شرط نہیں:

اعمالِ حسنہ کی توفیق کی دعا فرمائیں۔ تحریر فرمایا: "البتہ دعا کے لیے ہر حال میں حاضر ہوں، کیونکہ دعا کے لئے داعی کی قبولیت کی شرط نہیں"۔

امیر و غربا کی ملاقات کا طرز:

فرمایا کہ غُرَباء و اُمَراء کی ملاقات میں دلجوئی کی رعایت تو امرِ مشترک ہے۔ مگر کیفیت دلجوئی کی ہر شخص کی جدا ہے، اس کی حالت و طبیعت و عادت کے تفاوت سے۔ یعنی اُمَراء کی مجموعی حالت طبیعت و عادت کی ایسی ہے کہ جب تک زیادہ توجہ ان کی طرف نہ کی جائے وہ خوش نہیں ہوتے۔ اور غُرَباء تھوڑی توجہ سے راضی ہو جاتے ہیں۔ اس لیے دونوں کی دلجوئی کے طریق میں ایسا تفاوت مذموم نہیں۔ البتہ غُرَباء کو اٹھایا نہ جائے، خود اُٹھ جائیں کسی بہانہ سے۔ اور اگر اٹھانا ہی پڑے تو بہت نرمی سے۔ مثلاً یہ وقت میرے آرام یا کام کا ہے، آپ بھی آرام کیجئے و مثل ذالک۔

ترکِ عمل و کسل و تعطل عبدیت نہیں:

ایک طالب کو تحریر فرمایا: "ترکِ عمل و کسل و تعطل کو عبدیت نہ سمجھا جائے۔ عبدیت کے لیے حرکت فی العمل لازم ہے۔ ''وَ ھٰذِہٖ مَذَلَّۃُ أَقْدَامٍ کَثِیْرۃٌ مِّنْ أَھْلِ الطَّرِیْقِ حَتّٰی وَقَعُوْا فِیْ فِتْنَۃِ الْجَبْرِ وَ إِلَّا لَحَادَزَ عَمَّا مِنْھُمْ بِأَنَّھُمْ أَطْوَعُ الْعِبَادِ''۔

عمل کے وقت تحمل، مشقت بغایت راحت بخش ہے:

فرمایا کہ اگر اعتماد ہو بتلانے والے پر اور فہم ہو تو اللہ کا راستہ اس قدر صاف اور آسان ہے کہ دس منٹ کے اندر سمجھ میں آ سکتا ہے۔ دیر اور مشقت جو کچھ ہے وہ عمل میں ہے، اور وہ بھی رسوخ میں۔ اور مشقت عین عمل کے وقت ہوتی ہے۔ مثلاً نیند کا غلبہ ہے اور نماز پڑھنی ہے تو اس وقت مشقت ہوتی ہے، لیکن اگر اس کو برداشت کر لیا تو نماز پڑھ کر فوراً ایسی راحت میسر ہوتی ہے کہ سبحان اللہ! مشقت کا بدل ہو جاتا ہے۔

بعض نفسانی ملکات:

نفسانی ملکات کے مقتضا پر عمل نہ کیا جائے، ہم اسی کے مکلّف ہیں، بلکہ مسرت کی بات ہے کہ ان سے اجر بڑھتا ہے عمل کا۔ ایک طالب نے اپنے بعض نفسانی ملکات کا ظاہر کر کے حضرت والا سے ان کی اصلاح چاہی اور ان کے ہونے پر سخت غم و اندوہ کا اظہار کیا کہ وہ مجھ میں کیوں ہیں۔ حضرت والا نے فوراً تسلی فرمائی اور اس تسلی بخش عنوان سے کہ ”ایسے ملکات سے کون خالی ہے، یہ تو مجھ میں بھی ہیں، ان کے زائل کرنے کی فکر بیکار ہے، کیونکہ یہ جبلی ہیں اور جبلت بدلا نہیں کرتی، نہ انسان جبلی امور کا مکلّف ہے۔ کیونکہ ان کا بدلنا غیر اختیاری ہے۔ البتہ ان کے مقتضا پر عمل کرنا جبلی نہیں، نہ غیر اختیاری ہے۔ لہٰذا بیعت کر کے اختیار سے کام لیا جائے اور ان ملکات کے مقتضا پر عمل نہ ہونے دیا جائے۔ باقی نفس ملکات چاہے جیسے فاسد ہوں، وہ اس وقت تک مطلق قابل افسوس نہیں جب تک ان پر عمل نہ ہو۔ بلکہ ایک معنیٰ میں قابلِ مسرت ہیں، کیونکہ ان کی وجہ سے عمل میں مشقت ہوتی ہے جس سے عمل کا اجر بڑھتا ہے اور نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ اسی کو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

؎ شہوتِ دنیا مثالِ گلخن است

کہ از و حمام تقویٰ روشن است

پھر فرمایا کہ ایسا شخص دوسروں کی خوب تربیت کر سکتا ہے اور نفس کی باریک باریک چوریاں بھی پکڑ سکتا ہے، کیونکہ اس کو نفس کے اتار چڑھاؤ کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے۔

جبلی صفات سب محمود ہیں:

ملکاتِ رذیلہ کے متعلق حضرت والا، اعلیٰ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد بھی نقل فرمایا کرتے ہیں کہ انسان کے اندر جتنی جبلی صفات ہیں وہ سب محمود ہیں۔ البتہ ان کا بے موقع استعمال کرنا مذموم ہے۔ شیوخ کاملین ملکاتِ رذیلہ کا ازالہ نہیں کرتے، نہ ان کا ازالہ ہو سکتا ہے، بلکہ امالہ کر دیتے ہیں۔ جیسے اگر انجن الٹا چل رہا ہو تو اس کے اندر جو بھاپ ہے اس کو تو باقی رکھنا چاہیے، کیونکہ بھاپ تو فی نفسہ بڑے کام کی چیز ہے۔ ہاں انجن کی کل کو موڑ دینا چاہیے تاکہ بجائے الٹا چلنے کے وہ سیدھا چلنے لگے۔

غصہ کا علاج:

ایک طالب کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا کہ غصہ غیر اختیاری ہے، وہ عیب یا گناہ نہیں۔ البتہ اس کا بے موقع صرف کرنا گناہ ہے۔ سو اس کی تدبیر یہ ہے کہ غصہ کے وقت کوئی کارروائی نہ کی جائے، جب غصہ ہلکا ہو جائے سوچ کر مناسب اور معتدل کارروائی کی جائے۔

غصہ کے اسباب اور اس کا علاج:

ایک صاحب نے غصہ کے آثار منکرہ کو بہت بسط سے لکھ کر اس کا علاج چاہا تھا۔ یہ علاج تحریر فرمایا کہ یہ حالت یا واقعہ دو سبب سے مسبّب ہو سکتا ہے، ایک یہ کہ غصہ کے وقت اس کے تبعات یاد نہ رہیں۔ دوسرا یہ کہ با وجود یاد رہنے کے قوت و ہمت ضبط کی نہ ہو۔ اگر اول سبب ہے تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ ایک پرچہ غصہ مفرطہ کی وعیدوں کا لکھ کر کلائی پر باندھ لیا جائے تو اس پر نظر پڑتے ہی یاد آ جائے گا۔ اور اگر دوسرا سبب ہے تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ فوراً وہاں سے خود علیحدہ ہو جائیں یا مغضوب علیہ کو جدا کر دیں۔ جب ہیجان بالکل فرو ہو جائے، اس وقت اطمینان سے سوچا جائے بلکہ کسی عاقل سے مشورہ لیا جائے کہ اس جرم کی کیا سزا مناسب ہے۔ بعد تأمّل یا مشورہ جو طے ہو اس کو بلا کر اس سزا کو جاری کر دیا جائے، مگر ہرحال میں اتنی ہمت کی ضرور ضرورت ہے کہ تدبیر کو اختیار کیا جائے۔

غصہ اور اس کے ہیجان کا علاج:

فرمایا کہ غصہ کے وقت کلام بالکل نہ کیا جائے۔ جب ہیجان بالکل ضعیف ہو جائے اس وقت ضروری خطاب کا مضائقہ نہیں۔ اور اگر اس خطاب کے دوران میں پھر ہیجان عود کر آئے پھر ایسا ہی کیا جائے۔

قواعدِ شرعیہ کا مکلّف ہونا:

ایک صاحب نے سوال کیا: "عرفہ کا روزہ جو ہم لوگوں نے رکھا ہے تو کیا اس روزہ کا ثواب ہم کو وہی ملے گا جو واقعی عرفے کے دن کا ہوتا ہے؟ کیونکہ دوسری جگہ سے ذی الحجہ کے چاند کی جو خبریں آئی ہیں ان سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ذی الحجہ کا چاند انتیس کا نظر آیا تھا، ان کے حساب سے تو پرسوں عرفہ تھا، کل نہ تھا تو اس حساب سے کل جو روزہ رکھا گیا وہ عرفہ کے دن کا روزہ ہوا؟" فرمایا کہ یہاں کا عرفہ کل ہی تھا پرسوں نہ تھا اور کل جو روزہ رکھا گیا وہ عرفے ہی کا روزہ ہے، اور اس روزے کا ثواب ہم کو وہی ملے گا جو عرفہ کے روزہ کا ملتا ہے۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ شریعت نے ہم کو واقعہ پر عمل کرنے کا مکلّف نہیں فرمایا، بلکہ صرف اس بات کا مکلّف کیا ہے کہ جو بات قواعدِ شرعیہ سے ہم کو تحقیق ہو جائے اس پر عمل کریں، خواہ واقع میں وہ بات ہو یا نہ ہو۔

اختلافات کا اثر:

فرمایا کہ پرانے زمانے کے لوگوں میں اختلافات کا اثر نفرت اور انقطاع کی حد تک نہیں تھا۔

فرمایا کہ زیادہ اذیت تو بے فکری اور عدمِ اہتمام سے ہوتی ہے، توسیع دینے سے قوتِ عملیہ بڑھتی ہے۔

فرمایا کہ مصلح کو تدبیر اور تربیت و اصلاح کا حق ہے، چنانچہ خود حضور کی خدمت میں بنی ثقیف کا ایک وفد آیا اور عرض کیا کہ ہم لوگ اسلام لانے کو تیار ہیں مگر دو شرطیں ہیں: ایک تو ہم زکوٰة نہ دیں گے، دوسرے جہاد میں شریک نہ ہوں گے۔ فرمایا: "منظور"۔ دیکھئے ایسی شرطیں قبول کر لیں جو خلافِ اسلام تھیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا بھی کہ حضور یہ کیسا اسلام ہے کہ نہ جہاد، نہ زکوٰة؟ فرمایا: "میاں اسلام میں آنے تو دو، وہ تو پھر سب کچھ کریں گے، زکوٰة بھی دیں گے، جہاد بھی کریں گے۔ ایمان کی برکت سے ایک نور قلب میں پیدا ہو گا جس سے سب اعمالِ واجبہ کی توفیق ہو جائے گی" تو دیکھئے حضور نے اس وقت سختی نہیں فرمائی۔ ایک مثال اور لیجئے، ایک بی بی کو حضور نے نوحہ سے توبہ کرائی تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ایک نوحہ میرے اوپر قرض چڑھا ہوا ہے اسے اتارنے کی اجازت دیدیجئے، پھر توبہ کر لوں گی، اور پھر کبھی نوحہ نہ کروں گی۔ کوئی عورت ان کے کسی عزیز کے مرنے پر آ کر روئی ہو گی اس کے بدلے میں رونے کی اجازت چاہی۔ حضور نے اجازت مرحمت فرمائی۔ اس اجازت کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ اٹھ کر چلی گئیں تو راستہ ہی سے لوٹ آئیں اورعرض کیا یا رسول اللہ! میں اس سے بھی توبہ کرتی ہوں۔

مرید و شیخ کے انشراح سے نفع ہوتا ہے:

فرمایا کہ سب اقوال و افعال کی تاویل کی اجازت نہیں۔ تاویل یا سکوت وہاں ہے جہاں شاذ و نادر ایسے اقوال و افعال صادر ہوں اور غالب حالت صلاح کی ہو۔ اور جہاں ایسے ہی منکرات کا غلبہ ہو اور اس کا ہر قول و فعل محتاجِ تاویل ہو اس سے تعلق تو چھوڑ دینا واجب ہے، لیکن اس میں پھر ایک تفصیل ہے، وہ یہ کہ اگر اس زمانہ کے بزرگ اس کے ساتھ ادب کا معاملہ کرتے ہوں تو باوجود تعلق نہ رکھنے کے، اعتراض نہ کرے ورنہ اس پر نکیر واجب ہے۔ باقی ہر حال میں چھوڑ دے کیونکہ اگر تعلق رکھے گا تو دل تنگ رہے گا اور نفع ہوتا ہے انشراح سے۔ اور اگر ہر حال میں تاویل ایسی ہی سستی ہو تو ہندؤوں کی بت پرستی کی بھی تاویل ہو سکتی ہے کہ وحدت الوجود کے غلبہ میں بتوں کو پوجنے لگتے ہیں لہٰذا ان سے تعرض نہ کیا جائے۔ یہ تو مرید کیلئے حکم ہے۔ اور پیر پر بھی واجب ہے کہ بلا ضرورت ایسا کوئی فعل نہ کرے جس سے مرید کو شبہ ہو خلاف شرع ہونے کا۔ واقعی اس کا اہتمام تو نہیں چاہیے کہ سب ہمارے معتقد رہیں، لیکن اس کا اہتمام ضروری ہے کہ بلا ضرورت ایسا کام نہ کرے جس سے خلافِ شرع ہونے کا شبہ ہو اور دوسرے لوگ سوءِ ظن، غیبت و بہتان کے گناہ میں مبتلا ہوں۔ دلیل حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے جو زیارت کے لیے حاضر ہوئی تھیں جب حضور اعتکاف میں تھے۔

مخصوص بننے اور بنانے کی خرابیاں:

فرمایا کہ کسی کو نہ مخصوص بنانا چاہیے، نہ کسی کو مخصوص بننا چاہیے، بس خادم رہنا چاہیے۔ آج کل یہ باعتبارِ نتائج کے بہت ہی برا ہے، اس میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اہلِ تعلق کو رنج ہوتا ہے کہ ہم سے خصوصیت نہیں۔ دوسری خرابی خود اس کے حق میں یہ ہے کہ اور لوگ اس کے اضرار کے درپے ہو جاتے ہیں۔ تیسری خرابی یہ ہے کہ لوگ اس کو واسطہ حاجات کا بناتے ہیں جس سے اس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔

ہمت کے لئے کامیابی لازم ہے:

عرض کیا گیا ہے کہ ہمت تو اصلاحِ نفس کی کی جاتی ہے مگر کامیابی نہیں ہوتی۔ فرمایا: "وہ ہمت ہی نہیں ہوتی، ہمت کی نیت ہوتی ہے۔ ہمت کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیاب فرماتے ہیں خود ارشاد ہے: ﴿كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا (بنی اسرائیل :19) ورنہ ﴿لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: 286) کے خلاف ہوتا ہے"۔

شریعت کی رعایت مقدم ہے:

ایک بار حضرت والا نے فرمایا کہ باطنی مقام سے محرومی اچھی بہ نسبت اس کے خلافِ شریعت ہونے کا اندیشہ ہو۔ سالک کو چاہیے کہ جو حالت قرآن و حدیث پر منطبق نہ ہو اس سے در گذرے۔ مثلاً ہم نے اعلیٰ درجہ کا دودھ برف ڈال کر رکھا، لیکن شبہ ہو گیا کہ اس میں سے کچھ دودھ سانپ آ کر پی گیا ہے تو اسلم یہ ہے کہ اس دودھ ہی کو چھوڑ دے۔