حصہ 2 باب 1 ملفوظ 8: ذکر و شغل

ذکر و شغل کے متعلق

صحبتِ شیخ کے نفع کی شرط:

فرمایا کہ غالب حصّہ وقت کا ذکر و شغل کا ہونا چاہیے، تب صحبتِ شیخ نافع ہوتی ہے۔ اور اگر بزرگوں سے ملے جلے تو ہمیشہ، اور کرے دھرے کچھ نہیں، یا زیادہ وقت تو صحبتِ شیخ میں گزارے، اور تھوڑا سا وقت نکال کر کچھ الٹا سیدھا ذکر و شغل بھی کرے، تو یہ کافی نہیں۔

مقدارِ ذکر کا معیار نفع:

حضرت والا ذکر کے متعلق فرمایا کرتے ہیں نہ اتنی زیادہ مقدار ہو کہ بہت زیادہ تعب ہو، اور نہ اتنی کم کہ کچھ تعب ہی نہ ہو۔ بلکہ اتنی مقدار ہونی چاہیے جس میں تعب تو ہو، لیکن جس کی مداومت قابلِ عمل ہو۔ کیونکہ تھوڑا تعب بھی ہونا نفع کے لیے ضروری ہے، تاکہ نفس کو کسی قدر مجاہدہ بھی کرنا پڑے۔

مقدارِ ذکر کے متعلّق یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے ذمّہ تو صرف اتنی مقدار رکھے جس پر دوام ہو سکے، باقی جب فرصت و نشاط دیکھے تو زیادہ کرے۔ اس میں یہ مصلحت ہے کہ ناغہ کی بے برکتی اور قَلق سے حفاظت رہے گی، اور یہ دونوں چیزیں مضرّ ہیں۔ اور جب کبھی زیادہ کی توفیق ہو گی مسرّت اور ہمّت بڑھے گی۔

ذکر کا طرزِ نافع:

کیفیتِ ذکر کے متعلّق فرمایا کرتے ہیں کہ جس طرز میں دلچسپی ہو وہی اختیار کرے، کیونکہ دعا کا طرز زیادہ نافع وہی ہوتا ہے جس میں زیادہ دل لگے، لیکن اس کا خاص خیال رکھے کہ قلب میں وِرد کے جلدی پورا کرنے کا تقاضا نہ پیدا ہونے دے۔ ہاں اگر کسی کا طرز ہی روانی کے ساتھ ذکر کرنے کا ہو تو اس کا مضائقہ نہیں۔

ذکر کا صحیح طریق:

فرمایا کہ ذکر کے وقت قلب اور زبان دونوں کو شریک رکھنا ہی طریقِ صحیح ہے، اگر کوئی نہایت موزوں رفتار سے چلتا ہو، اور دوسرا غیر موزوں سے، تو اصل مقصود منزل پر پہنچنا ہے، جو دونوں رفتار سے حاصل ہو جاتا ہے۔ آگے رہی موزونیت، اس میں اور مصالحِ زائدہ ہیں جس پر منزل کی رسائی موقوف نہیں۔

قیودِ ذکر، لطائفِ ستّہ کی فکر موجبِ تشویش ہے:

قیودِ ذکر کے متعلق یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اس زمانہ کی طبائع چونکہ ضعیف ہیں، اس لیے اکثر یہ قیود موجبِ تشویش و تشتّت ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا ان کے اہتمام میں نہ پڑے۔ اسی طرح لطائفِ ستّہ کی فکر میں بھی نہ پڑے، کہ یہ بھی موجبِ تشویش ہے۔ اصل چیز لطیفۂ قلب ہے، بس ساری توجّہ اسی پر رکھے۔

ذکر میں توجّہ کا طریق:

فرمایا کہ ذکر کے دوران میں اگر بسہولت ہو سکے تو مذکور کی طرف، ورنہ ذکر کی طرف توجہ رکھے۔

توجّہ میں زیادہ کاوِش مضرّ ہے، معتدل توجّہ کافی ہے:

حضرت والا ذکر کرتے وقت تصوّرِ ذاتِ حق کو سارے مراقبات سے افضل و اَنفع بلکہ اصل مقصود قرار دیتے ہیں، بشرطیکہ بسہولت ہو سکے۔ لیکن اس کی تاکید فرماتے رہتے ہیں کہ توجّہ کے استحضار میں زیادہ کاوش نہ کی جائے، ورنہ قلب و دماغ ماؤف ہو جائیں گے، اور یکسوئی فوت ہو جائے گی۔ زیادہ کاوش سے تعب و پریشانی ہوتی ہے، جس سے نفع بند ہو جاتا ہے۔ بس معتدل توجّہ کافی ہے۔ اسی سے شدہ شدہ مَلکہ تامّہ حاصل ہو جاتا ہے۔ غرض زیادہ کاوش مضرّ ہے، بس اتنی توجّہ کافی ہے جیسے کچّا حافظ سوچ سوچ کر قرآن سناتا ہے۔

برکاتِ ذکر سے محرومی کی وجہ:

فرمایا کہ لوگ اکثر برکاتِ ذکر سے محروم رہتے ہیں، اس کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ نفع اور برکت کی نیت سے ذکر نہیں کرتے۔

اعمال سے محبّتِ حق پیدا نہ ہونے کی وجہ:

فرمایا کہ اعمال سے جو محبّتِ حق پیدا نہیں ہوتی اس کا سبب یہ ہے کہ محبّتِ حق کی نیّت سے اعمال نہیں کئے جاتے، خالی الذّہن ہو کر کئے جاتے ہیں۔

ذکر میں جہر و ضرب کی حد:

حضرت والا ذکر میں خفیف جہر و ضرب تعلیم فرمایا کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیتے ہیں کہ اگر بعد کو جوش میں آواز بلند ہونے لگے تو بلند ہونے دے، طبیعت کو گھونٹنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر سونے والوں یا مصلّیوں کو تکلیف یا تشویش ہو تو بالکل خفی کی تاکید فرماتے ہیں۔

ذکرِ لسانی ضروری ہے، ذکرِ قلبی کافی نہیں:

حضرت والا محض ذکرِ قلبی پر اکتفا نہیں فرماتے، کیونکہ اس میں اکثر ذہول ہو جاتا ہے۔ اور طالب اسی دھوکہ میں رہتا ہے کہ میں ذکرِ قلبی میں مشغول ہوں۔ اس لیے ذکرِ لسانی بھی اس کے ساتھ ضروری ہے۔

اورادِ معمولِ قدیمہ و اذکار و اشغالِ معمولہ:

فرمایا کہ مختصر اوراد کو بھی معمولی نہ سمجھا جائے، اور جن اوراد پر پہلے سے مداومت ہو ان سے طالب کو دلچسپی بھی ہوتی ہے۔ اور دلچسپی کی وجہ سے وہ سہولت اور جمعیت کے ساتھ ان پر مداومت رکھ سکتا ہے۔ جس سے بہت نفع ہوتا ہے، بہ نسبت نئے اوراد کے۔ لہٰذا ان ہی کو برقرار رکھنا مصلحت ہے۔ لیکن اگر پچھلے اوراد اتنے زیادہ ہوں کہ اگر ان سب کو برقرار رکھا جائے تو افکار و اشغالِ معمولۂ مشائخ کے لیے (جو ذکر کے لیے زیادہ معین ہیں) وقت ہی نہیں بچتا۔ تو بجائے بعض کو بالکل حذف کرانے کے ان کی مقدار میں بضرورت کمی کرا دیتا ہوں، اور کمی کا معیار بفحوائے آیتِ کریمہ: (مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ أَمْثَالِهَا) (الانعام: ١٦٠) یہ تجویز کر رکھا ہے کہ دسواں حصہ باقی رکھتا ہوں تاکہ کم از کم اصل ثواب تو بدستور قائم رہے، بالکل حذف کرانے کو جی نہیں چاہتا۔

معمولات کے ناغہ میں بڑی بے برکتی ہوتی ہے:

حضرت والا بتاکید فرمایا کرتے ہیں کہ: اپنے معمول کو ضرور پورا کر لینا چاہیے، خواہ عذر کی حالت میں بے وضو ہی سہی، یا چلتے پھرتے ہی سہی۔ کیونکہ معمول کو مقرر کر لینے کے بعد ناغہ کرنے میں بڑی بے برکتی ہوتی ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی اس کی تاکید ہے۔ حضورِ اقدس کا ارشاد ہے: "یَا عَبْدَ اللهِ! لَا تَکُنْ مِّثْلَ فُلَانٍ، كَانَ يَقُوْمُ مِنَ اللَّيْلِ ، فَتَرَكَ قِيامَ اللَّيْلِ"۔(الجامع الصغير، رقم الحدیث: 7945)۔ یہ ایسا ہے جیسے کسی نے اپنے حاکم کے پاس آنا جانا شروع کیا اور خصوصیّت کا تعلق قائم کرنے کے بعد پھر آنا جانا موقوف کر دیا، تو حاکم کو بہت نا گوار ہوگا۔ اور جو خصوصیّت کا تعلّق پیدا ہی نہیں کرتا اس سے کوئی شکایت نہیں ہوتی، بشرطیکہ غائبانہ طاعت کا تعلّق قائم رکھا جائے، جو بہرحال ضروری ہے۔ اھ۔

طالبِ علم کو ذکر و شغل سے ممانعت:

حضرت والا عموماً ان کو جو تحصیل علومِ دینیہ میں مشغول ہیں، ذکر و شغل تعلیم نہیں فرماتے، تاکہ تعلیم میں حرج واقع نہ ہو۔ کیونکہ علاوہ وقت صرف ہونے کے، ذکر و شغل سے ایسی دلچسپی ہو جاتی ہے کہ پھر تحصیلِ علوم سے دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اصلاحِ اعمال بہرحال فرض ہے، اور اس میں کوئی حرجِ اوقات نہیں بلکہ ترکِ فضولیات کی وجہ سے وقت اور بچ جاتا ہے، اس لیے اس کے متعلق خط و کتابت کی اجازت، بلکہ کبھی ابتداءً مشورہ بھی دے دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک خصوصیّت کی جگہ فرماتے ہیں کہ چاہے مشوروں پر عمل بھی نہ کرنا، لیکن اپنی اصلاح کے متعلق مجھ سے ضرور مشورے حاصل کرتے رہنا۔ اس سے بھی ان شاء الله تم دیکھو گے کہ بہت نفع ہو گا۔

اس طریق کا اوّل قدم اور آخر قدم فنا ہے:

حضرت والا نہایت اہتمام کے ساتھ فرمایا کرتے ہیں کہ اس طریق کا اوّل قدم فنا ہے یعنی اپنے کو شیخ کے سپرد کر دینا۔ جس میں یہ صفت پیدا نہ ہوئی، بس سمجھ لو کہ اس کو طریق کی ہوا بھی نہیں لگی۔ اور جو بزرگوں کا قول ہے کہ طریق کا آخر قدم فنا ہے، وہ بھی بالکل صحیح ہے۔ اس سے مراد کمالِ فنا ہے کیونکہ فنا کے بھی تو آخر درجات ہوتے ہیں۔

سارے طریق کا حاصل فنا و عبدیّت ہے:

فرمایا کہ میں نے جو اپنی اس تمام عمر میں سارے طریق کا حاصل سمجھا ہے وہ فنا و عبدیّت ہے۔ پس جہاں تک ممکن ہو اپنے آپ کو مٹایا جائے۔ بس اسی کے لیے سارے ریاضات و مجاہدے کئے جاتے ہیں۔ اور بس اپنی ساری عمر فنا اور عبدیّت کی تحصیل ہی میں گذار دینی چاہیے، بالخصوص چشتیہ کے یہاں تو بس یہی ہے۔

افروختن و سوختن و جامہ دریدن

پروانہ زِ مَن، شمع زِ مَن، گل زِ مَن آموخت

تو درُو گم شو، وصال این ست و بس

گم شدن گم کن، کمال این است و بس

تخلیہ و تحلیہ دونوں میں بہ تکلّف عمل کی ضرورت ہے:

حضرت والا تخلیہ (یعنی رذائل دور کرنا) اور تحلیہ (یعنی اخلاق حمیدہ پیدا کرنا) دونوں کے متعلّق بہ تکلّف عمل کرنے پر بہت زور دیا کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک طالب نے لکھّا کہ بدنظری سے بچنا نفس پر بہت شاق ہوتا ہے، کوئی تدبیر ایسی ارشاد فرما دیجئے کہ جس پر عمل کرنے سے اس فعلِ شنیع سے طبعاً نفرت پیدا ہو جائے۔

جواب تحریر فرمایا کہ بجز ہمّت اور تحمّل مشاق کے کوئی تدبیر نہیں۔ اور مُعین اس کی دو چیزیں ہیں: استحضارِ عقوبت اور ذکر کی کثرت۔ یہ تو تخلیہ کے متعلق ہوا۔

دولتِ یقین سے آراستہ ہونے کا طریقہ:

اور تحلیہ کے متعلّق یہ ہے کہ ایک طالب نے لکھا کہ حصولِ یقین کا طریقہ ارشاد فرمایا جائے۔ جواب تحریر فرمایا کہ اوّل بہ تکلّف عمل کرنا۔ اس کی برکت سے یقین پیدا ہو جاتا ہے۔ بجز اس کے اور کوئی طریقہ نہیں۔ اور یہ اشعار بکثرت تحریراً و تقریراً فرمایا کرتے ہیں: ''لِلْعَارِفِ الرُّوْمِيِّ''

اندریں رہ می تراش و می خراش

تا دمِ آخر، دمے فارغ مباش

تا دمِ آخر، دمے آخر بود

کہ عنایت با تو صاحبِ سر بو د

دوست دارد دوست، ایں آشفتگی

کوشش بیہودہ بہ از خفتگی

کارِ کے می کن تو و کاہل مباش

اندک اندک خاک چہ را می تراش

چوں زِ چاہی می کنی ہر روز خاک

عاقبت اندر رسی در آبِ پاک

''وَ لِلْحَافِظِ الشِّیْرَازِيِّ'':

چوں نشینی بر سرِ کوئے کسے

عاقبت بینی تو ہم روئے کسے

دست از طلب ندارم تا کارِ من بر آید

یا تن رسد بجاناں یا جاں زِ تن بر آید

(حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

یابم او را یا نیابم، جستجوئے می کنم

حاصل آید یا نیاید آرزوئے می کنم

(شیخ سعدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

کار کن کار، بگذر از گفتار

اندریں راہ، کار باید کار

قدم باید اندر طریقت نہ دم

کہ اصلے نہ دار و دم بے قدم

متعلّق طرزِ مکاتیب

علاجِ متردّد بوقتِ کتابتِ عیوب:

علاج یہ ہے کہ ایک کاغذ پر اپنی سب برائیاں لکھ لو، اور جو یاد آتی رہیں اس میں لکھتے رہو، اور ان کا علاج بھی کرتے رہو۔ اور علاج سے جو بالکل زائل ہو جائیں ان کا نام کاٹ دو، اور جو رہ جائیں، پوری یا ادھوری ان کو لکھا رہنے دو۔ پھر جب خط لکھنے بیٹھو، ان برائیوں کے تعیّن کے لیے قرعہ ڈال لو، جس کا نام نکل آئے، خط میں وہی لکھ دو۔ اگر اس کا کچھ علاج کیا ہو اس کی بھی اطلاع کر دو۔ بس اس طرح خط لکھتے وقت تشویش نہ ہوگی۔ باقی دعا کرتا ہوں۔

سالک کو تحریر فرمایا: بلا رعایت کسی خاص قاعدہ و ضابطہ کے، بے تکلّف جو دل میں آئے لکھئے۔ صرف دو تین باتوں کا خیال کافی ہے: ایک تو واقعہ صاف لکھا جائے، تکلّف یا عبارت آرائی نہ ہو۔ دوسری بلا ضرورت طُول نہ ہو۔ تیسری ایک خط میں متعدّد مضامین نہ ہوں، لیکن اگر اس میں ارتباط ہو تو وہ ایک ہی مضمون شمار ہو گا۔

ایک بے تہذیبی سے تعرّض:

فرمایا کہ جس کو آدمی بڑا سمجھے، گو وہ واقع میں بڑا نہ ہو، اس کے لکھے ہوئے پرچہ پر جواب لکھنا خلافِ تہذیب و خلافِ ادب ہے۔

معتقَد فیہ کی عظمت کا حق ادا کرنا ضروری ہے:

فرمایا کہ جب کسی نے ایک شخص کو اپنے اعتقاد میں معظّم سمجھ لیا ہے، تو پھر وہ اب اپنے اعتقاد و عظمت کا حق کیوں نہیں ادا کرتا۔ اپنے اعتقاد کے خلاف اس کے ساتھ کیوں معاملہ کرتا ہے۔ مجھ کو تو واللہ اس تصحیحِ معاملہ کی تعلیم کرتے ہوئے بھی نہایت خجلت ہوتی ہے۔ مگر بضرورت اصلاح کرنا پڑتی ہے۔

ڈاک کا اہتمام:

حضرت والا اس امر کا اہتمامِ بلیغ رکھتے ہیں کہ ڈاک والوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ نہ خط کے ضائع ہو جانے کا احتمال رہے، نہ خط پانے والے کی کوئی مصلحت فوت ہو۔

حضرت والا کی طبعِ مبارک کا اصول:

چونکہ حضرت والا کی طبعِ مبارک بفضلہٖ تعالیٰ فطری طور پر نہایت بااصول ہے، اس لیے جہاں واقعی ضرورت ہوتی ہے پس سخت سے سخت تعب بھی موجبِ پریشانی نہیں ہوتی، اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ذرا سا تعب بھی برداشت نہیں کر سکتے۔

خلافِ احتیاط کام کرنا خلافِ شریعت بھی ہے:

چونکہ حضرت والا بلا ضرورتِ شرعیہ خلافِ احتیاط کام کرنا، جس میں اپنی آبرو کا یا کسی قسم کے ضرر کا اندیشہ ہو۔ خلافِ مصلحت، بلکہ خلافِ شریعت سمجھتے ہیں۔ اس لیے مشکوک ٹکٹ ہرگز نہیں لگاتے، بلکہ جن مستعمل ٹکٹوں پر مہر کا نشان بہت کم یا بالکل نہیں ہوتا ان کو فوراً چاک فرما دیتے ہیں، تاکہ کوئی آدمی اسے نکال کر مکرّر استعمال نہ کر سکے۔

مشورہ کے جواز کی مصلحت:

فرمایا کہ آجکل لوگ عموماً مشورہ کی حقیقت ہی نہیں سمجھتے، اور اس کے مضرّ ہونے پر یا مفید ہونے پر خود مُشیر کو ذمّہ دار قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ مشورہ تو محض دوسرے کی اعانت کے لیے ہوا کرتا ہے کہ رائے قائم کرنے میں سہولت ہو۔

مشورہ کے متعلق غلوّ فی الاعتقاد:

فرمایا کہ آج کل مشورہ دینے میں یہ بھی خرابی ہے کہ معتقدین بوجہ غلو فی الاعتقاد، مشورہ کے متعلق یہ غلط عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیخ کے قلب میں مضرّ یا غلط بات آ ہی نہیں سکتی۔ اور اس میں یقینی خیر سمجھتے ہیں، اور اس کے خلاف کرنے میں یقینی ضرر سمجھتے ہیں۔ یہ سب غلو فی الاعتقاد ہے۔ اس کی اصلاح ضروری ہے۔

مشورہ میں طرزِ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ:

اگر مواقعِ خصوصیّت میں حضرت والا کوئی مشورہ دیتے بھی ہیں، تو اکثر اس عنوان سے کہ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو یہ کرتا۔

عملیات کی ناپسندیدگی کے وجوہ:

حضرت والا تعویذ گنڈوں کے شغل کو بہت ہی نا پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ اوّل تو اس میں عوام کا اور دنیا داروں کا بہت ہجوم ہو جاتا ہے۔ جس سے دینی ضرر اور تضییعِ اوقات کا قوی اندیشہ ہے۔ دوسرے اس کے متعلق لوگوں نے عقیدہ میں بہت غلو کر رکھا ہے اور اس کو اس کے درجہ سے بھی آگے بڑھا رکھا ہے، چنانچہ اس کے برابر نہ دعا کو مؤثّر سمجھتے ہیں نہ ان تدابیر کو جو ایسے مقاصد کے لیے موضوع ہیں۔ اور اگر اثر ہو جائے تو اس کو بزرگی کی علامت سمجھتے ہیں، حالانکہ عملیات کا اثر زیادہ تر قوّتِ خیالیہ کا ثمرہ ہے۔

وسعتِ رزق کا وظیفہ:

ایک صاحب نے وسعتِ رزق کے لیے کوئی وظیفہ پوچھا، فرمایا کہ پانچوں نمازوں کے بعد یا باسط بہتّر بار پڑھ لیا کرو۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر اور کوئی وظیفہ اسی مقصد کے لیے پوچھا، فرمایا کہ دواؤں میں تو یہ بات ہوتی ہے کہ اگر ایک دوا نافع نہ ہو تو دوسری دوا نافع ہو جاتی ہے، لیکن دعاؤں میں یہ تفصیل نہیں۔ وہی پہلی دعا کافی ہے، اس کو معمول رکھا جائے۔ جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا قبول فرما لیں گے۔

تشویشات کا علاج وظیفہ نہیں:

فرمایا کہ تشویشات کا علاج وظیفہ پڑھنا نہیں، بلکہ تدابیر میں ہے۔ اور ہر تشویش کی تدبیر جدا ہے۔ جب کوئی خاص تشویش آئے اس کے متعلق دریافت کیا جائے۔

کسی پر کسی قسم کا بار ڈالنا پسند نہیں:

چونکہ حضرت والا اس امر کا انتہاء درجہ کا لحاظ رکھتے ہیں کہ کسی پر ایسا بار نہ ڈالا جائے جو اس کے ذمہ نہ ہو، اس لیے خود بھی کسی کا بے جا طور پر ڈالا ہوا بار اٹھانا حضرت کا معمول نہیں۔

دلائل الخیرات پر درودِ مأثور کی فضیلت:

بعضوں کو جن کا معمول دلائل الخیرات کی منزلیں تھیں، یہ تجویز فرمایا کہ ایک منزل پڑھ کر یہ دیکھا جائے کہ اس میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے۔ بس روزانہ اتنی ہی دیر کوئی مأثور درود شریف پڑھنا زیادہ افضل ہے۔

جھگڑنے کے معاملہ میں جوابی رجسٹری کو واپس کر دینا:

اگر کوئی جوابی رجسڑی بھیجتا ہے تو اس کے متعلق حضرت والا کا یہ معمول ہے کہ اگر قرائن سے معلوم ہو کہ کوئی جھگڑے کا معاملہ ہے، اور بھیجنے والا اس لیے رسید طلب کرتا ہے کہ مرسل الیہ خط پانے سے انکار نہ کر سکے، تو واپس فرما دیتے ہیں۔ فرمایا: کسی مسلمان پر بلا دلیلِ شرعی کاذب ہونے کا احتمال معصیت ہے۔

عریضہ بدیر بھیجنے پر معذرت کرنے کا جواب:

اگر کوئی طالب اپنے عریضہ میں اس کی معافی طلب کرتا ہے کہ بہت دن سے حضرت والا کی خدمت میں عریضہ نہیں لکھا، تو اس کو تحریر فرما دیتے ہیں کہ میں کسی کے خط کا منتظر نہیں رہا کرتا، معافی چاہنے کی ضرورت نہیں۔ اور ایسے مواقع پر حاضرین سے یہ بھی فرما دیا کرتے ہیں کہ اگر کوئی خط نہ لکھے گا تو میرا کیا نقصان کرے گا، خود اپنا نقصان کرے گا۔ مجھ سے معافی مانگنے کی کیا ضرورت۔ فرمایا کہ قرآن خود پڑھنے میں ثواب زیادہ ہے، اور دوسرے سے سننے میں لطف اور اثر زیادہ ہے۔

صحبتِ شیخ کے فوائد:

فرمایا کہ پاس رہنے سے اصلاح نہیں ہوتی، بلکہ مناسبت پیدا ہوتی ہے۔ اور اپنے امراض کو پیش کرنے اور میرے جوابات سمجھ کر ان پر عمل کرنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔

اصلاح کی نیت سے شیخ کے پاس جانا:

فرمایا کہ اگر محض ملاقات کے لیے آئیں تو جس طرح چاہیں چلے آئیں، لیکن اگر اور کچھ ارادہ ہو (یعنی اصلاح کا) تو مجموعی طور پر نہ آئیں، بلکہ ہر شخص تنہا آئے۔ ورنہ نفع نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اس کے مناسبِ حال برتاؤ کرنا چاہیے۔ اور اگر سب ایک ساتھ آئے تو سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا پڑے گا۔ اگر کسی کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنا مناسب ہوا تو اس کو اپنے ساتھیوں سے شرمندگی ہو گی۔ بس ہر شخص کا الگ الگ آنا ہی ٹھیک ہے۔

بیعت یا تعویذ و دعا کے لیے سفر مناسب نہیں:

حضرت والا محض بیعت کے لیے سفر کی نہ اجازت دیتے ہیں، نہ بوجہ غیر ضروری ہونے کے، محض اس غرض کے لیے کسی کا آنا پسند فرماتے ہیں۔ کیونکہ بیعت بذریعہ خط کے بھی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح محض دعا یا تعویذ کے لیے بھی کسی کا آنا پسند نہیں فرماتے۔

انتظامات کو دوسروں کے سپرد کرنا:

فرمایا کہ انتظامات کو دوسروں کے سپرد کر کے مطمئن ہو جانے کو ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے کافی نہیں سمجھتا۔ بلکہ کام سپرد ہونے کے بعد یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ آیا وہ کام اچھی طرح ہوا بھی یا نہیں۔

دوسروں پر اعتماد کرنا:

فرمایا کہ جب تک کسی کام کو خود کر سکے اس وقت تک تو کرے، اور جب اپنے قابو کا نہ رہے تو بجائے اس کے کہ دوسروں کے ذریعہ سے اس کو کرائے، اس کو بالکل ہی چھوڑ دے۔ کیونکہ میرا تجربہ ہے محض دوسروں کے اعتماد پر کام چھوڑ دینے سے وہ کام اکثر مکمّل نہیں ہوتا۔

مہمانوں کے ساتھ برتاؤ:

حضرت والا کے یہاں صرف بقدرِ ضرورت و مصلحت ہی مہمانداری ہوتی ہے، ضرورت سے زیادہ جھگڑا اپنے سر نہیں لیتے۔ بلکہ جو خاص مہمان ہوتے ہیں ان کی مہمانداری میں بھی اپنا معتد بہ حرجِ اوقات نہیں ہونے دیتے۔ کچھ دیر خصوصیت کے ساتھ متوجّہ رہ کر، اور راحت و آرام کے سب ضروری انتظامات کر کے، اور اجازت لے کر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ جب کسی خاص مہمان کی آمد ہوتی ہے تو معمول سے زیادہ تَعب برداشت فرما کر پہلے ہی ضروری کام سے فارغ ہو لیتے ہیں، تاکہ ان کی جانب متوجّہ ہونے کے لیے کافی وقت مل سکے۔ محض خاص مہمانوں سے بات چیت کرنے کے لیے، جو ہر روز واپس جانے والے ہوتے ہیں، اپنا قیلولہ بھی ناغہ فرما دیتے ہیں، اور ڈاک کا کام بھی کچھ دیر کے لیے ملتوی فرما دیتے ہیں۔ ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ جب کم قیام کرنے والے جمع ہو جاتے ہیں، تو بہت زیادہ وقت افادات میں صرف فرما دیتے ہیں۔ اور بہت جوش و خروش اور سرگرمی کے ساتھ نہایت عجیب و غریب اور نافع حقائق و معارف دیر دیر تک (یہاں تک کہ بعض اوقات کھانے کا وقت بھی بہت مؤخر ہو جاتا ہے) زبانِ فیض ترجمان سے ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔ تاکہ آنے والوں کی تسلّی بھی ہو جائے، بشرطیکہ سچے طالبین کا مجمع ہو۔ یہ فن کا مُسلّم مسئلہ ہے کہ شیخ کو اشاعتِ طریق کا حریص ہونا چاہیے۔

مدد و اعانت میں حضرت والا کی نظر کسی پر نہیں:

فرمایا کہ الحمد للہ میں کسی کو اپنا معاون و مدد گار نہیں سمجھتا۔ اللہ کے سوا کسی پر میری نظر (کہنے کی بات تو نہیں لیکن اس وقت ذکر ہی آ گیا تو کہتا ہوں کہ) میں دنیا میں اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہوں۔ سوائے اللہ تعالیٰ کی اکیلی ذات کے کسی کو اپنا نہیں سمجھتا، بس یہ سمجھتا ہوں کہ میں دنیا میں بالکل اکیلا ہوں، اور ایک اکیلے شخص کے ساتھ ایک اکیلی ذات ہے اور کوئی نہیں۔ لوگوں کو تو اپنے خدّام پر اور محبّین پر نظر ہوتی ہے، میری کسی پر نظر نہیں۔ میں کسی کو اپنا محبّ اور مُعین و مددگار نہیں سمجھتا۔ یہ بھی ایک وجہ ہے میری خشکی کی، کہ میں کسی کو اپنا محبّ بنانا یا رکھنا نہیں چاہتا۔ جیسے مرنے کے وقت ہر شخص اکیلا ہی جائے گا، میں مرنے سے پہلے ہی اپنے آپ کو بالکل اکیلا سمجھتا ہوں، کسی کو اپنا ساتھ نہیں سمجھتا۔ اور مبنیٰ اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے میری اس وضع کو محض اپنے فضل و کرم سے نباہ رکھا ہے، کیونکہ وہ عین وقت پر غائب سے میری ہر حاجت پوری فرما دیتے ہیں۔ ورنہ اگر احتیاج ہوتی تو سارا استغناء دھرا رہ جاتا۔

ابتدائی ملاقات کا طریقہ:

ابتدائی ملاقات کے لیے اصولاً پہونچنے کے بعد جلد ہی ملاقات کر لینی چاہیے، ورنہ اجنبی شخص کو دیکھ کر حضرت والا تعارف کے منتظر رہتے ہیں، لیکن سلام و مصافحہ کے وقت اس کا لحاظ کر لینا چاہیے کہ حضرت والا باتوں میں مشغول نہ ہوں، اور ہاتھ بھی مصافحہ کے لیے خالی ہوں۔ آرام نہ فرما رہے ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ غرض موقع و محل دیکھ کر ملنا بہرحال ضروری ہے۔ اگر مشغول دیکھیں، بیٹھ جانا چاہیے۔ انتظار میں کھڑا نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ یہ اعتقاد کی صورت ہے جس سے قلب پر بار ہوتا ہے۔ اگر قبل حاضری حضرت والا سے خط و کتابت ہو چکی ہو، تو سب سے اخیر کا خط بھی پیش کر دیا جائے۔ گفتگو بیٹھ کر کی جائے، اور صاف اور اتنی آواز سے کہ بآسانی سنائی دے سکے، بات پوری کہی جائے۔ اگر کوئی غلطی ہو جائے تو بلا تاویل اور بلا تامّل اس کا اقرار کر لینا چاہیے۔

حضرت والا کی ایک خاص امتیازی صفت:

کہ ہر شئ کو اپنی جگہ پر رکھتے ہیں اور جس حالت اور جس وقت کا جیسا مقتضا ہوتا ہے اس کے مطابق عمل فرماتے ہیں، طبیعت کو مصلحت اور عقل پر غالب نہیں ہونے دیتے۔ فرمایا کہ حضرت شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ کو چاہیے کہ مریدین کو آپس میں بھی اپنی مجلس کے علاوہ جمع نہ ہونے دے، اور جو شیخ اس میں مسامحت کرے وہ مریدین کے حق میں برا کرتا ہے۔

صفتِ استغنائے حضرت والا:

چونکہ حضرت والا نہایت استغناء کے ساتھ رہتے ہیں اس لیے چاہتے ہیں کہ میرے اہل تعلّق بھی نہایت استغناء کے ساتھ رہیں۔ امراء سے میل جول پیدا نہ کریں، لیکن خشونت اور بد اخلاقی کی اجازت نہیں۔

حریّتِ حضرت والا:

فرمایا: سب اپنے اپنے کام میں لگے رہیں، خواہ مخواہ میری خدمت کے لیے مجھ پر مسلّط نہ ہوں، تاکہ وہ بھی آزاد رہیں اور میں بھی آزاد رہوں۔ خلاصہ میرے مذاق کا حریّت ہے، چاہے اہانت ہو چاہے تعظیم۔ جس سے آزادی میں فرق آئے اپنی یا دوسرے کی، اس سے مجھ کو اذیت ہوتی ہے۔ اور ہر مسلمان کا یہی مذاق ہونا چاہیے کہ غیر اللہ سے بالکل آزاد رہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی عبدیّت مخلوق کی عبدیّت کے ساتھ کیسے جمع ہو سکتی ہے۔

وظیفہ میں خلل اندازی سے احتیاط:

فرمایا کہ میں اس کی احتیاط رکھتا ہوں کہ کسی کے وظیفہ میں خلل انداز ہُوں، کیونکہ بزرگوں نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بڑی غیرت آتی ہے کہ جو بندہ اس کے ذکر میں مشغول ہو اس کو دوسری طرف متوجّہ کیا جائے۔

شیخ کے سامنے تسبیح لے کر بیٹھنا:

فرمایا: جس کو آدمی اپنے سے بڑا سمجھے، اس کے سامنے نمایاں طور پر تسبیح لے کر بیٹھنا خلاف ادب ہے، کیونکہ یہ ایک دعویٰ کی صورت ہے۔ اس لیے حضرت والا کے مواجہہ میں تسبیح لے کر نہ بیٹھیں۔ یا رومال اوپر سے ڈال کر پڑھیں یا محض زبان سے پڑھتے رہیں۔

شیخ کی مجلس میں باتیں کرنا خلافِ ادب ہے:

مجلس میں بیٹھ کر آپس میں بات چیت کرنا خلافِ آدابِ مجلس ہے۔ اس کی حضرت والا ممانعت فرماتے رہتے ہیں، کہ اگر بات چیت کرنی ہو تو مجلس سے باہر جا کر کریں۔ اگر کسی سے بہت ضروری اور مختصر، مجلس ہی میں کہنے کی مجبوری ہو، تو چپکے چپکے نہ کہیں، بلکہ اس طرح کہیں کہ حضرت والا بھی سن سکیں۔ نہ تو سرگوشی کریں نہ بہت پکار کر کہیں، متوسّط آواز سے اور ذرا کھُل کر کہیں۔

آدابِ تخاطب:

حضرت والا عام ارشادات میں صرف اہلِ خصوصیت کو اپنا مخاطب بناتے ہیں۔ مخاطب کو چاہیے کہ وہ خاص طور سے حضرت والا کی جانب متوجّہ رہے، اور جو قابلِ تحسین باتیں ہوں ان پر بَشرہ سے، اور اگر موقع ہو تو زبان سے اظہارِ بشاشت کرے۔ کیونکہ حسبِ ارشاد حضرت والا یہ آدابِ تخاطب میں سے ہے، ورنہ بے حِس و حرکت اور ساکت و صامت بیٹھنے رہنے سے خطاب کرنے والے کو یہی پتہ نہیں چلتا کہ میرا مخاطب بات کو سمجھتا بھی ہے یا نہیں۔ اور پھر مضامین کی آمد ہی بند ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حسبِ ارشاد حضرت والا آدابِ تخاطب میں سے یہ بھی ہے کہ سنی ہوئی بات کو بھی اس طرح سنے کہ جیسے پہلے سے سنی ہوئی نہیں ہے۔ تاکہ بات کہنے والے کا دل افسردہ نہ ہو جائے۔ اور جن کو مخاطبت کی اجازت بھی ہو وہ بھی بلا ضرورت نہ بولیں، زیادہ تر حضرت والا ہی کو کلام فرمانے دیں۔ تاکہ سب حاضرین کو، جو زیادہ تر اسی غرض سے مجلس شریف میں حاضر ہوتے ہیں، حضرت والا کی زبانِ فیض ترجمان سے مضامینِ نافعہ سننے کا زیادہ سے زیادہ موقع نصیب ہو۔ نیز حضرت والا کے دورانِ کلام میں دخل در معقولات نہ کریں، نہ بے جوڑ سوالات کریں، نہ اس وقت کوئی اشکال پیش کریں۔ کہ ان سب باتوں سے کلام کا لطف جاتا رہتا ہے اور مضامین کی آمد بند ہو جاتی ہے۔ اگر کسی تقریر کے متعلق ضروری بات پوچھنی ہو تو ختم مضمون کے بعد سلیقہ کے ساتھ پوچھیں، بشرطیکہ مخاطَبت کی اجازت بھی پہلے سے حاصل ہو۔

پُشت کی جانب سے خطاب:

فرمایا کہ راستہ چلتے وقت پُشت کی جانب سے کسی قسم کا تخاطب نہایت بد تہذیبی ہے۔ چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کو وصیّت فرمائی تھی کہ اگر تم کو کوئی پُشت کی طرف سے خطاب کرے تو اس کا جواب مت دو، کیونکہ اس نے تمہاری بڑی اہانت کی، اور تم کو اس نے گویا جانور سمجھا۔ جانوروں ہی کو پشت کی طرف سے خطاب کیا جاتا ہے۔

اخلاص کی زیادتی بھی مانع قبول ہدیہ ہے:

فرمایا کہ اخلاص کی کمی تو ہدیہ قبول کرنے کی مانع ہوتی ہی ہے، میرے یہاں اخلاص کی زیادتی (یعنی زیادہ جوشِ محبت) بھی منجملہ موانع کے ہے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تو جوشِ محبت میں کچھ نہیں سوجھتا، جب جوش ٹھنڈا ہوگا تب حساب کتاب کا ہوش آئے گا، کہ دس تو پیر ہی کو دیدیئے۔

شیخ کی عزّت، دین کی عزت سے ہے:

فرمایا کہ ہماری طرف جو کچھ لوگوں کی توجّہ ہے وہ سب دین ہی کی بدولت ہے، پس ہم کو اس دین کی عزّت قائم رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اگراس کی عزّت نہ رہے تو پھر ہمیں کون پوچھتا ہے۔

ہدیہ کے آداب:

(1) فرمایا کہ ہدیہ اس طرح پیش کرے کہ جس کو ہدیہ پیش کیا جا رہا ہے اس کو کسی قسم کی مؤونت نہ اٹھانی پڑے۔

(2) فرمایا کہ ہدیہ پیش کرنے والے کو ادب تو یہ ہے کہ دوسروں سے چھپا کر دے، بلکہ دے کر خود بھی علیحدہ ہو جائے۔ اور ہدیہ لینے والے کا ادب یہ ہے کہ اس کو دوسروں پر ظاہر کر دے۔

(3) فرمایا کہ در حقیقت ہدیہ وہ ہے جو محض محبّت سے ہو۔ اور اس کا قبول کرنا سنّت ہے۔

(4) فرمایا کہ بعض لوگ پہلے ہدیہ پیش کرتے ہیں پھر اپنا کوئی کام بتلاتے ہیں، یہ نہایت ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ میں کام تو کر دیتا ہوں لیکن ہدیہ واپس کر دیتا ہوں۔

بزرگوں کے اصل برکات کیا ہیں:

فرمایا کہ بزرگوں کی اصل برکات تو ان حضرات کے اقوال و اعمال و احوال ہیں، ان سے برکت حاصل کرنی چاہیے، لیکن بزرگوں کی شان میں ادنیٰ بے ادبی بھی موجبِ محرومئ برکاتِ باطنی ہے۔ اس لیے باوجود عدمِ شغف کے، بزرگوں کی برکاتِ ظاہری کا بھی بہت ادب کرنا چاہیے۔

ف: عدمِ شغف سے مراد یہ ہے کہ جو آج کل لوگوں نے برکات کے متعلق اعتقاد اور عمل میں غلو کر رکھا ہے اس کو نا جائز سمجھے۔

برکات حاصل کرنے کا طریقہ:

فرمایا کہ بزرگوں سے برکات حاصل کرنے کا سہل طریقہ (جس میں ان کو کوئی تردّد نہیں کرنا پڑتا) یہ ہے کہ اپنی کوئی چیز ان کو عاریۃً دے کر یہ عرض کر دیا جائے، کہ کچھ دیر اس کو استعمال فرما کر واپس فرما دیں۔

نو زائیدہ بچوں کے لیے تبرّک کا طریقہ:

چونکہ نو زائیدہ بچوں کے کُرتوں کے لیے اکثر حضرت والا سے کپڑا بطور تبرّک مانگا جاتا ہے۔ اس لیے حضرت والا اپنے کُہنہ مستعمل کُرتوں میں سے، ایسے بچوں کے ناپ کے چند چھوٹے چھوٹے کُرتے قطع کرا کر ایسے موقعوں کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ تاکہ وقت پر تردّد نہ کرنا پڑے۔

عقیدت سے زیادہ مجھے محبّت پسند ہے:

فرمایا کہ مجھ کو بہ نسبت عقیدت کے محبّت زیادہ پسند ہے۔ چونکہ عقیدت خیالی چیز ہے، ذرا میں زائل ہو جاتی ہے۔ اور محبّت زائل نہیں ہوتی ہے۔

اصلاحِ اعمال، ذکر و شُغل پر مقدّم ہے:

فرمایا کہ کوئی ذکر و شغل کرتا ہو تو مجھے اس وقت تک اس کی قدر نہیں ہوتی جب تک کہ اس کے اعمال درست نہ ہوں۔ عمل تو وہ ہے کہ جس میں کوفت ہو اور پھر بھی رضا حاصل کرنے کے لیے اسے کرے۔ اسی طرح چاہیے کہ خود تنگی اٹھائے اور دوسروں کے حقوق ادا کرے۔

تہذیبِ اخلاق و دیانت مقدّم ہے، تعلیمِ ظاہری پر:

فرمایا کہ مجھ کو علم کے پڑھانے لکھانے کا زیادہ اہتمام نہیں ہے، جس قدر تہذیبِ اخلاق و دیانت کا۔ کیونکہ لکھنے پڑھنے کا اہتمام تو ہر جگہ ہوتا ہے، لیکن اخلاق کی طرف کسی کو خیال بھی نہیں ہے۔ مثلاً میں اس پر زیادہ نظر نہیں کرتا کہ کس نے جماعت سے نماز پڑھی، کس نے نہیں پڑھی۔ اوّل تو عذر کا احتمال ہے، دوسرے اس میں صرف فاعل کا حرج ہے، کسی دوسرے کو اذیّت نہیں۔ بخلاف اس کے کہ کسی سے کوئی حرکت خلافِ تہذیب سرزد ہو، اس کا اس لیے اچھی طرح تدارک کیا جاتا ہے کہ اس میں اوروں کو تکلیف ہوتی ہے۔

تجسّس سے حضرت والا کی نفرت:

حضرت والا تجسّس ہرگز نہیں فرماتے، البتّہ جب کسی کی بے عنوانی ظاہر ہو جاتی ہے، تو پھر تسامح بھی نہیں فرماتے۔ سبحان اللہ یہی طریق شریعت کے مطابق بھی ہے۔

اسلام میں انتظام:

فرمایا کہ آج کل لوگوں کو دوسرے کی راحت و تکلیف کا ذرا خیال نہیں، اب اگر کوئی انتظام کرنے لگے تو اسے قانون ساز کہتے ہیں۔ ایک صاحب نے تو میرے منہ پر کہا کہ تمہارے مزاج میں تو انگریزوں کا سا انتظام ہے۔ افسوس! گویا اسلام میں انتظام نہیں، بس اسلام تو ان کے نزدیک بے انتظامی کا نام ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ انگریزوں میں مسلمانوں کا انتظام ہے تو ایک درجہ میں صحیح ہو سکتا ہے۔

انتظام کی ترغیب:

فرمایا کہ ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے تمام کاموں کو انتظام کے ساتھ کرے، اس سے اپنے کو بھی راحت ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی۔

آنے والی چیز آتی ہے، چاہے اس کو لاکھ واپس کیا جائے:

حضرت والا اکثر بڑے بڑے بیموں اور منی آرڈروں کو خلافِ اصول ہونے کی بناء پر واپس فرماتے رہتے ہیں۔ اور جب وہی واپس کردہ رقم اصول کے مطابق مکرّر موصول ہوتی ہے، (جیسا کہ اکثر ہوتا ہے) تو اس وقت حضرت والا حاضرین سے یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ دیکھئے جو چیز آنے والی ہوتی ہے وہ آتی ہی ہے، چاہے اس کو لاکھ واپس کیا جائے۔ پھر کیوں نیت خراب کی جائے اور خلافِ اصول کا ارتکاب کیا جائے۔

بدگمانی کا علاج اِستفسارات سے:

ایک طالب نے بد گمانی کا علاج پوچھا تھا۔ تحریر فرمایا کہ وہ بد گمانی اختیار سے ہوتی ہے یا بلا اختیار؟ اور صرف بد گمانی ہوتی ہے یا اس کے موافق عمل بھی ہوتا ہے؟ اور کیا ہوتا ہے؟ مع ایک دو مثال کے لکھو۔

کسی کو مسلسل دیکھنا:

اکثر نو واردین حضرت والا کی نشست و برخاست کو اس طرح تکا کرتے ہیں کہ حضرت والا کو بھی اس کا علم ہو جاتا ہے، جو نہایت نا زیبا حرکت ہے۔ کیونکہ اس سے دوسروں کی آزادی میں فرق آ جاتا ہے اور قلب پر بڑا بار ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر اکثر اظہارِ ناراضی میں یہ فرمایا کرتے ہیں کہ کیا کوئی تماشہ ہو رہا ہے جو اس طرح مجھے تَک رہے ہو۔ اگر دیکھنے ہی کا شوق ہو تو اس طرح دیکھو کہ حضرت والا کو یہ محسوس نہ ہو کہ فلاں شخص مجھ کو مسلسل تَک رہا ہے، یا اہتمام کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔

سچائی و صفائی و حریّتِ حضرت والا:

فرمایا کہ مجھ میں نہ تواضع ہے نہ تکبّر۔ سچائی اور صفائی ہے، اور طبیعت میں بے ساختگی اور سادگی ہے، جس کا سبب آزاد مزاجی ہے۔

''اَلنِّظَامُ فِي الْکَلَامِ'':

بارہا فرمایا کہ گو میں متقی و پرہیز گار تو نہیں، لیکن ''اَلْحَمْدُ لِلہِ'' اپنی اصلاح سے غافل بھی نہیں۔ ہمیشہ یہی اُدھیڑ بُن لگی رہتی ہے کہ فلاں حالت میں فلاں حالت تغیّر کرنا چاہیے۔ غرض مجھ کو اپنی کسی حالت پر قناعت نہیں۔

اندریں رہ می تراش و می خراش

تا دمِ آخر دمے فارغ مباش

چنانچہ سہولتِ استحضار کے لیے خود ہی ایک شعر تصنیف فرما کر اور اس کو جَلی قلم سے ایک موٹی دفتی پر لکھوا کر اپنے ڈیسک پر رکھ چھوڑا ہے، جس کی نقل یہ ہے: ''النِّظَامُ فِي الْکَلَامِ''۔

اعمالِ باطنہ اور سالک:

کثرتِ ذکر و قلّتِ تِبیان

وقتِ ہیجانِ طبع کفِّ لِسان

سیرِ عابد هر شئی یک روزہ راہ

سیرِ عارف ہر دمے تا تختِ شاہ

اعمال باطنہ سالک کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں۔ حضرت والا اب تک بھی ہر وقت اپنے نفس کی نگرانی اور دیکھ بھال ہی رکھتے ہیں، اور بوجہ دائمی مجاہدۂ نفس دائمی ترقّی فرما رہے ہیں۔ اور یہ وہ ترقّی ہے جو ہر وقت ہو رہی ہے، اور جس کا کسی کو عام طور سے پتہ بھی نہیں چلتا۔ اور یہی وہ اعمالِ باطنہ ہیں جن کے بارے میں حضرت والا فرمایا کرتے ہیں کہ وہ سالک کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں۔ اور دوسروں کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کو قلندر کہتے ہیں۔ اس کو عبادتِ نافلہ کا اتنا اہتمام نہیں ہوتا جتنا اپنے قلب کی نگہداشت کا اور اعمال قلبیہ کا۔ مثلاً جب کوئی واقعہ پیش آیا تو فوراً اس کے قلب نے اس واقعہ کے متعلق حق تعالیٰ کے ساتھ کوئی معاملہ صبر و شکر، تفویض، عبدیت وغیرہ کا کیا۔ پس وہ ایک مستقل باطنی عمل ہو گیا اور اس درجہ کا ہوا کہ اس کی بدولت کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ اور چونکہ حوادث بکثرت پیش آتے ہی رہتے ہیں اور وہ ہر وقت اپنے قلب کی نگہداشت میں رہتا ہے اور اس شخص سے بڑھ جاتا ہے جس کو عباداتِ نافلہ کا اہتمام تو بہت ہے، لیکن قلب کی نگہداشت کا اہتمام نہیں۔ بمصداقِ ارشادِ حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ ؎

سیرِ عابد ہر شبے یک روزہ راہ

سیرِ عارف ہر دمے تا تخت شاہ

معیارِ درویش:

فرمایا کہ ایک شیخ کا قول ہے کہ جو درویش اپنی باطنی زیادتی کمی کو ہر دم نہ محسوس کرتا رہے وہ درویش نہیں۔

دوامِ اطاعت اور کثرتِ ذکر کی عادت:

حضرت شیخِ اکبر ''قُدِّسَ سِرُّہٗ'' فرماتے ہیں کہ جب شیخ ہر روز اپنے حالات کی نگرانی اس طریق سے نہ کرے جس سے اس کو یہ تمکین (یعنی دوام اطاعت اور کثرت ذکر کی عادت) حاصل ہوئی، تو (عجب نہیں) کہ وہ دھوکہ میں پڑ جائے اور آہستہ آہستہ طبیعت اور عادتِ قدیمہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے۔ اور پھر وہ خلوت میں بھی رہنا چاہے تو اُنس حاصل نہ ہو، بلکہ خلوت سے وحشت ہونے لگے۔ اور یہی حال ہے ان تمام حالات و کیفیات کا جو نفس کی طبیعت و جبلّت کے موافق ہیں، کہ ان حالات کے حصول پر اعتماد نہ کرنا چاہیے، کیونکہ وہ بہت سریعُ الزوال ہوتے ہیں۔ اور ہم نے بہت سے مشائخ کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے درجہ سے گر گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ان کو عافیت عطا فرمائے (آمین) حق تعالیٰ نے فرمایا ہے: (إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا وَ إِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا) (المعارج: 19-21) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے کہ جتنے فضائل نفس کو حاصل ہیں وہ اس کے جِبلّی اور طبعی نہیں، اس لیے ان کا تحفّظ واجب ہے۔

بد نظری کا علاج:

ایک صاحبِ علم کو، جو حسن پرستی میں مبتلا تھے، اس سے اجتناب کی اس عنوان سے ممانعت فرمائی، کہ چاہے جان نکل جائے لیکن نظر نہ ڈالی جائے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ مجھ میں اس قدر حُسن پسندی ہے کہ معمولی اشیاء کو بھی نہایت قرینے اور خوش ترتیبی کے ساتھ رکھتا ہوں۔ اسی طرح حُسنِ صورت کی طرف بھی بے حد کشش ہو جاتی ہے حظ فاصل ہوتا ہے۔ اس پر بزبانِ عربی یہ فصیح و بلیغ جواب اِرقام فرمایا: '' بَعْضُہٗ خَیْرٌ فَاشْکُرُوْا عَلَیْھَا، وَ بَعْضُہٗ شَرٌّ فَاصْبِرُوْا عَنْھَا اَيْ غَضُّوا الْبَصَرَ حَیْثُ اَمَرَ الشَّارِعُ بِالْغَضِّ وَ لَوْ بِتَکَلُّفٍ شَدِیْدٍ تَحْتَمِلُ زُھُوْقَ الرُّوْحِ، فَإِنَّ اللہَ غَیُّوْرٌ وَّ تَشْتَدُّ غَیْرَتُہٗ عَلَی النَّظْرِ اِلٰی مَا یَنْھَی اللہُ أَنْ یُّنْظَرَ إِلَیْہِ۔ فَالْحَذَرُ أَنْ یَّسْخَطَ الْمَحْبُوْبُ الْاَکْبَرُ''۔

عشق کی لذّت و کلفت کی مثال:

فرمایا کہ اس طریق میں تو عمر بھر لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں، اور گویا جنم روگ لگ جاتا ہے ؎

بڑی عشق میں ہیں بہاریں، مگر ہاں

گھری خار زاروں سے پھُلواریاں ہیں

تعلق مع اللہ کے بعد طریق کی دشواریوں کا خاتمہ:

ایک صاحب سے فرمایا کہ اس وقت تو دشواری نظر آرہی ہے، لیکن جب قلب میں تعلق مع اللہ پیدا ہوجائے گا تو پھر کوئی دشواری نہ رہے گی۔ قلب میں خود ہی اصلاح کا تقاضا اور اس وقت اپنی حالت میں تغیّراتِ ضروریہ کرنے کو خود ہی نہایت خوشی کے ساتھ جی چاہے گا۔ یہ جو قبل از وقت دشواری نظر آ رہی ہے وہ محض خیالی ہے ؎

بس چلا چل قطعِ راہِ عشق اگر منظور ہے

یہ نہ دیکھ اے ہم سفر، نزدیک ہے یادور ہے

مشکلیں عاشق کو ہیں، بس قبل از دیوانگی

کچھ دنوں غم سہہ لیا، پھر عمر بھر مسرور ہے

بلکہ پھر تو ایسا ہو جاتا ہے کہ اگر کبھی فکرِ باطنی اور نگرانئ نفس میں کمی محسوس ہونے لگتی ہے تو سالک غم نہ ہونے کے غم میں گھلنے لگتا ہے۔ بمصداق ارشادِ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ:

بر دلِ سالک ہزاراں غم بود

گر زِ باغِ دل خلابے کم شود

غرض یہ باطنی مجاہدات جو حضرت والا کے یہاں کے سلوک میں ہیں، بعد چندے، دارومدارِ زندگی اور غذائے روح ہو جاتے ہیں۔ جن کے بغیر سالک کو چین ہی نہیں پڑتا، اور جن کے فقدان کو وہ اپنی موت سمجھتا ہے۔ اور فی الواقع حقیقہ الامر بھی یہی ہے۔ کیونکہ یہی مجاہداتِ باطنہ تو اسباب و علاماتِ حیاتِ قلب اور موجِبِ ترقّیاتِ باطنہ دائمہ ہیں ؎

غم گیا قلب کی حیات گئی

دل گیا ساری کائنات گئی

حضرت والا کا سلوک تو شاہی سلوک ہے:

کیونکہ حضرت والا نہ ریاضت کراتے ہیں نہ مجاہدات، نہ ترکِ تعلّقات کراتے ہیں نہ ترکِ لذّات و مباحات۔ بلکہ یہ تاکید فرماتے ہیں کہ خوب راحت و آرام سے رہو، تاکہ اللہ تعالیٰ کی محبّت قلب میں پیدا ہو، اور طبیعت میں نشاط رہے، جو مُعینِ عبادت ہو۔ البتّہ معصیت کے پاس نہ پھٹکو، اور نفس کی ہر وقت نگرانی رکھو، اور ہمّت سے کام لو، اور بقدر تحمّل و فرصت کچھ ذکر و شغل بھی کرتے رہو۔ بس ان شاء اللہ مقصود کا حصول یقینی ہے۔ نہ کم کھانے کی ضرورت، نہ کم سونے کی ضرورت، یہ دونوں مجاہدے آج کل متروک ہیں۔ کیونکہ طبائع میں پہلے ہی سے ضعف غالب ہے۔ البتّہ کم بولنا، کم ملنا جلنا ضروری ہے، لیکن نہ اتنا کم کہ جس سے قلب میں اِنقباض پیدا ہو جائے۔ لیجئے! یہ شاہی سلوک نہیں تو کیا ہے۔ چنانچہ خود حضرت والا فرمایا کرتے ہیں کہ درویشی کے لیے کمبل اور گڈری کی ضرورت نہیں، بلکہ اگر اللہ تعالیٰ دے تو دو شالہ اور شاہی میں بھی درویشی حاصل ہو سکتی ہے، بشرطیکہ طریقہ سے حاصل کی جائے۔ سبحان اللہ! حضرت والا نے طریق کو اس قدر آسان فرما دیا ہے کہ کوئی دشواری ہی نہیں رہی ؎

اتنا کیا ہے آپ نے آساں طریق کو

کہہ سکتے ہیں کہ راہ کو منزل بنا دیا

البتّہ اگر بے اصول چل کر اس طریق کو خود ہی دشوار کر لیا جائے، تو یہ طریق کا نقص نہیں، بلکہ چلنے والے کا بے ڈھنگا پن ہے ؎

جو آسان سمجهو تو ہے عشق آساں

جو دشوار کر لو تو دشواریاں ہیں

فرمایا کہ راستہ تو بالکل صاف اور ہموار ہے، لیکن لوگ خود ہی اس کو اپنے سُوءِ استعمال اور اَوہام سے دشوار کر لیتے ہیں۔ اور خود اپنے ہاتھوں پریشانیوں میں پڑتے ہیں۔ چنانچہ ایک مولوی صاحب جو بڑے عالم فاضل اور فہیم شخص ہیں، وہ بھی اس پریشانی میں مبتلا تھے کہ اب تک تہجّد کے وقت بِلا الارم (جگانے والی گھڑی) آنکھ ہی نہیں کھلتی، افسوس کہ ابھی تک ان خارجی چیزوں کی احتیاج باقی ہے، اب تک قلب میں اتنا بھی تقاضا پیدا نہ ہوا کہ الارم کی حاجت نہ رہے، اور خود بہ خود تہجّد کے وقت آنکھ کھل جایا کرے۔ حضرت والا نے ان کی تسلّی کی کہ آخر کس کس خارجی چیز کی احتیاج سے بچو گے، کیونکہ ایک الارم ہی کیا سینکڑوں خارجی چیزوں کی احتیاج ہے، لباس کی احتیاج ہے، مکان کی احتیاج ہے، اور سینکڑوں ضروریاتِ زندگی کی احتیاج ہے۔ اور یہ سب خارجی چیزیں ہیں، ان سب چیزوں سے بچو۔ جب اتنی ساری خارجی چیزوں کی احتیاج سے نہیں بچ سکتے، تو ایک الارم کی احتیاج بھی سہی، کس فکر میں پڑے ہو۔ جب خود اللہ میاں ہی نے ہمیں اپنی نعمتوں کا محتاج بنایا ہے تو پھر ہم ان نعمتوں سے کیوں استغناء کی تمنا کریں ؎

گر طمع خواہد زِ من سلطانِ دیں

خاک بر فرقِ قناعت بعد ازیں

عیوبِ نفس کی اصلاح کا طریقہ:

ایک سالک کو تحریر فرمایا کہ اپنے نفس کی ہر وقت نگرانی رکھیں، اور عیوبِ نفس کے اصلاح کے لیے استحضار و ہمّت سے برابر کام لیتے رہیں۔ اور گو شروع میں قدرے تعب ہو لیکن تکرارِ مخالفتِ نفس سے پھر ان شاء اللہ سہولت ہونے لگے گی۔

تکرارِ عمل سے عمل میں سہولت:

حضرت والا فرمایا کرتے ہیں کہ تکرارِ عمل ہی سے عمل میں سہولت بھی ہونے لگتی ہے۔ لیکن سہولت کے منتظر نہ رہیں، عمل بہرحال کرتے رہیں چاہے عمر بھر سہولت نہ ہو۔

ہمت ہی سے کامیابی ممکن ہے:

فرمایا کہ وہ ہمّت ہی نہیں جس کے بعد کامیابی نہ ہو، وہ تو ہمّت کی محض نیّت ہے۔ کیونکہ اختیاری کوتاہیوں سے بچنے کے لیے اگر پوری ہمّت سے کام لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی نہ ہو۔

کم ہمّتی سے عمل میں کوتاہی:

فرمایا کہ کم ہمّتی سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو فوراً توبہ کرے، پھر ہمّت سے کام لینے لگیں اور مایوس نہ ہوں۔ نہ اس غم میں پڑیں کہ کوتاہی کیوں ہو گئی۔ کوتاہی کا تدارک بھی عمل سے ہی ہو جائے گا۔ مکتوب نمبر 118 ملقّب بہ "تَسْہِیْلُ الطَّرِیْقِ" میں طریق کا مکمل دستور العمل مذکور ہے دیکھ لیں۔

ذکر کے تعیّن کا طریقہ اور ناغہ سے ضرر:

جب ذکر و شغل کی اجازت شیخ سے حاصل کر لی جائے تو ذکر کی مقدار بقدرِ تحمّل و فرصت مقرر کریں۔ نہ اتنی کم ہو کہ کچھ مشقّت ہی نہ ہو، نہ اتنی زیادہ ہو کہ نِبھا نہ سکے، حتّی الامکان اپنے معمولات میں ناغہ نہ ہونے دیں، ناغہ سے بڑی بے برکتی ہو جاتی ہے۔ چلتے پھرتے اور فارغ اوقات میں بھی کوئی ذکر اپنا معمول رکھیں۔

دوامِ ذکر کی ترغیب:

فرمایا کہ اپنا اصل کام ذکر کو سمجھیں۔ جب ضرورت ہو بول لیں، اور پھر مشغول ہو جائیں۔ جیسے درزی کپڑا سیتا رہتا ہے اور ضرورت میں بول بھی لیتا ہے، لیکن اس کی اصل توجّہ کپڑا سینے ہی کی طرف رہتی ہے۔

قلّتِ کلام کی تدبیر:

قلّتِ کلام کی ایک تدبیر یہ ہے کہ ابتداء بکلام نہ کریں الّا بضرورت۔ اگر کوئی دوسرا کوئی بات پوچھے تو بقدرِ ضرورت جواب دے کر پھر ذکر میں مشغول ہو جائیں۔ اسی طرح بلا ضرورت کسی کے پاس نہ جائیں۔

سالک کو بلا ضرورت میل جول بڑھانا نہ چاہیے:

حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ بلا ضرورت لوگوں سے میل جول نہ بڑھائیں۔ اگر ذکر و خلوت سے جی اکتا جائے تو بال بچوں میں یا ہم مشرب احباب میں کچھ دیر دل بہلا لیں۔ جب نشاط پیدا ہو جائے پھر اپنے کام میں لگ جائیں۔ حضرت والا مباحات کے انہماک اور بالکلیہ ترک دونوں کو باعتبار نتائج کے مضر فرماتے ہیں۔

محبّتِ الٰہی پیدا کرنے کا طریقہ:

اوراد و اذکار، نماز، تلاوت وغیرہ جو نیک عمل کرے، اسی نیّت سے کرے کہ اللہ تعالیٰ کی محبّت قلب میں پیدا ہو، اور اس کی رضا حاصل ہو۔ خالی الذّہن ہو کر بطور عادت کے نہ کرے۔ اور جو کیفیت حضورِ حق کی اس عمل سے پیدا ہو، اس کو بعد فراغ بھی محفوظ رکھنے کا برابر خیال رکھے۔ ذھن اور دھیان کی اس طریق میں سخت ضرورت ہے۔

فرمایا کہ جمیع مشوّشاتِ قلب سے اپنے آپ کو بچائے رکھے، جس میں صحت کی حفاظت بھی داخل ہے۔ کیونکہ جمعیّتِ قلب اس طریق میں مدارِ نفع ہے۔

خود رائی، خود بینی مانعِ طریق ہے:

حضرت والا اس طریق میں خود رائی اور خود بینی کو سب بڑا مانع سمجھتے ہیں اور اس شعر کو اکثر فرمایا کرتے ہیں ؎

فکرِ خود و رائے خود در عالمِ رندی نیست

کفر است دریں مذہب خود بینی و خود رائی

اپنی رائے و تجویز کو فنا کر دینا چاہیے:

فرمایا کرتے ہیں کہ: کوئی اپنی رائے اور تجویز کو فنا کر کے تو دیکھے، پھر اللہ تعالیٰ وہ دولتیں عطا فرماتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتیں۔ اسی میں اتّباعِ شیخ بھی داخل ہے جس کی سخت ضرورت ہے۔ اپنی رائے سے کچھ نہ کرے۔ علاوہ ادبِ طریق کے، شیخ کے اتّباع میں ہر قسم کی سہولت اور راحت اور بے فکری بھی تو ہے۔ لہٰذا بہت جلد اپنے حالات کی اطّلاع اور شیخ کی تجویز کی اتّباع کا سلسلہ جاری رکھے۔ اور شیخ جس امر میں جو تجویز کرے اس کو بے چون و چرا مان لے، اور اسی کے مطابق کامل اعتماد کے ساتھ عمل میں مشغول رہے، خواہ کتنا ہی نفس کو ناگوار ہو۔ بس اصل چیز کام میں مشغول رہنا ہے۔ ثمرات جو اس کے مناسبِ استعداد ہوں گے، وہ خود ہی مرتّب ہوتے رہیں گے۔ حضرت والا اس کے متعلق حافظ رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اشعار اکثر فرمایا کرتے ہیں ؎

تو بندگی چو گدایاں بشرطِ مزد مکن

کہ خواجہ خود روشِ بندہ پروری داند

در طریقت ہر چہ پیشِ سالک آید خیر اوست

بر صراطِ مستقیم اے دل کسے گمراہ نیست

فنا اس طریق کا اوّل قدم ہے اور آخر قدم بھی:

فنا کے متعلق حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اس طریق کا اوّل قدم ہے، جیسا کہ فنا آخر قدم بھی ہے۔ اگر کسی کو حاصل نہیں تو سمجھ لو کہ اس کو اس طریق کی ہوا بھی نہیں لگی۔ حضرت والا کے یہاں اس صفت کے پیدا کرنے کا سب سے زیادہ اہتمام ہے۔

حقوق العباد کی نگہداشت:

حضرت والا کے یہاں حقوق العباد کی نگہداشت کی سخت تاکید ہے۔ بالخصوص وہ حقوق جن میں کوتاہی کرنے سے کسی کو اذیّت ہو۔ لہٰذا اس کا بہت خصوصیّت کیساتھ اہتمام رکھیں کہ اپنے کسی قول یا کسی فعل سے کسی کو کسی قسم کی ایذاء نہ پہونچے۔

طریقۂ اصلاحِ عیوب:

ہر طالبِ اصلاح کو اپنے عیوب کی اصلاح کرانے کے لیے حسبِ ذیل طریقہ عمل اختیار کرنا چاہیے، وہ حسبِ ارشادِ حضرت والا یہ ہے کہ ایک کاغذ پر اپنی سب برائیاں لکھ لیں، اور جو جو یاد آتی رہیں اس میں لکھتے رہیں، اور ان کا علاج بھی استحضار اور استعمالِ اختیار و ہمّت سے کرتے رہیں، اور علاج سے جو بالکل زائل ہو جائیں ان کا نام کاٹ دیں، اور جو رہ جائیں، پوری یا ادھوری ان کو لکھا رہنے دیں۔ پھر حضرت والا کی خدمت میں اپنی اصلاح کے متعلق خط لکھنے بیٹھیں تو ان برائیوں میں سے جو اپنے نزدیک سب سے زیادہ اہم ہو پہلے اس کو لکھیں، اگر تعیّن میں تشویش ہو تو قرعہ ڈال لیں، جس عیب کا نام نکل آئے وہی لکھ دیں۔ اور اگر اس کا کچھ علاج کیا ہو اس کی بھی اطلاع کر دیں۔ ایک عیب سے زیادہ ایک بار نہ لکھیں اور اس کی چند مثالیں لکھیں۔ اور جب تک اس عیب کے علاج میں رسوخ نہ ہو جائے برابر اسی کے متعلق خطوط بھیجتے رہیں۔ اور جب رسوخ ہو جائے اور حضرت والا بھی اس رسوخ کی تصدیق فرما دیں اور دوسرا عیب پیش کرنے کی اجازت عطا فرما دیں، اس وقت دوسرا عیب پیش کریں۔ بس اسی طرح سارے عیوب کی اصلاح کرائیں۔

حضرت والا کا سلوک جو تتمّہ ہے نمبر 2 کا:

حضرت والا نے خود اپنے سلوک کی حقیقت نہایت واضح اور لطیف عنوان سے بیان فرمائی ہے، کہ یہاں تو مُلّا پَن ہے، ہم نہیں جانتے کہ درویشی کیا چیز ہے۔ طالب علم ہیں صاحب علم بھی نہیں، بس قرآن و حدیث پر عمل کرنا بتلاتے ہیں، پھر اسی میں جو کچھ ملنا ہوتا ہے مل جاتا ہے، اور ایسا مل جاتا ہے کہ ''مَا لَا عَیْنٌ رَّأَتْ وَ لَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ مِّنْ أَمْثَالِھَا'' یعنی ہم جیسوں میں سے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی کے قلب میں اس کا خطرہ تک گذرا۔ مگر ظاہر میں نہ تو حق ہے نہ وجد و کیفیت ہے، نہ کشف و کرامت ہے، پھیکا پھاکا طرز ہے۔ جیسے سمندر کی مچھلی کہ خود اس کے اندر نمک ہوتا ہے اوپر سے نمک ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اسی کے اندر کا نمک پکنے کے بعد کھلتا ہے۔ پس یہاں بھی اوپر کا نمک نہیں ہے، مگر اندر ہے جو پکنے کے بعد کھلتا ہے، لہٰذا پکانا شرط ہے۔ یعنی عمل میں کوتاہی نہ کرنا، اور حضرت والا کے ارشاد فرمودہ اصول کے مطابق کرنا، کیونکہ اس طریق میں حسب الارشاد حضرت والا کا ہی کام چلتا ہے ؎

کار کُن کار بگزر از گفتار

کاندریں راہ کار باید کار

قدم باید اندر طریقت نہ دم

کہ اصلے ندارد دمِ بے قدم

سعئ ناکردہ دریں راہ بجائے نرسی

مزد اگر می طلبی، طاعتِ استاد بہ بر

حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اگر قاعدے سے کام کیا جائے تو حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں وصول بطریقِ جذب ہوتا ہے، بطریق سلوک نہیں ہوتا۔ اور یہ جذب برکت ہے اتّباعِ سنت کی، کیونکہ اتّباعِ سنّت کا ثمرہ بوجہ تشبیہ بالمحبوب کے، محبوبیّت عند اللہ ہے، اور محبوبیّت کے لیے جذب لازم ہے۔

مناسبتِ شیخ پیدا کرنا:

فرمایا کہ شیخ سے مناسبت پیدا کرنے کا طریقہ اس کے افعال و احوال کا تتبّع اور استحضار اور اتّباع ہے اور مناسبت پیدا ہونے کے بعد پھر شیخ کو خود اظہارِ اَسرار کا جوش ہوتا ہے۔

انسدادِ سوءِ ظنّ، و غلو در حُسنِ ظنّ:

فرمایا: فہرستِ اجازت سے کسی کو خارج کرنے کی بناء انقطاعِ خبر کے سبب انتفاءِ علمِ اہلیّت ہے، نہ کہ علمِ انتفاءِ اہلیّت۔ اور کسی کو داخل کرنے کی بناء ظنِّ غالب ان اوصاف کے درجۂ ضروریہ کا وقوع، یعنی رسوخِ تقویٰ و صلاحِ مناسبت کا طریق۔ اہلیّتِ اصلاح اور اوصافِ مذکورہ درجۂ کاملہ کی توقّع ہے۔ جیسے علومِ درسیہ کی سند کی بِناء اسی کی نظیر ہے۔

اجازت کا مطلب:

ف۔ مطلب یہ کہ جیسے علومِ درسیہ میں سندِ فراغ دی جاتی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ابھی اسی وقت اس کو ان علوم میں کمال کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ بلکہ محض اس ظنِّ غالب پر سند دی جاتی ہے کہ اس کو ان علوم سے ایسی مناسبت پیدا ہو گئی ہے کہ اگر وہ برابر درس و مطالعہ میں مشغول رہے تو قوی امید ہے کہ رفتہ رفتہ اس کو کمال کا درجہ بھی حاصل ہو جائے گا۔ پھر اگر وہ اپنی غفلت و ناقدری سے خود ہی اپنی اس مناسبت اور استعداد کو ضائع کر دے، تو اس کا الزام سند دینے والوں پر ہرگز نہیں، بلکہ خود اسی پر ہے۔ اسی طرح جو کسی کو اجازت دی جاتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ فی الحال ہی اس کو ان اوصاف میں کمال کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ بلکہ محض اس ظنِّ غالب پر اجازت دی جاتی ہے کہ اس کو فی الحال تو ان اوصاف میں درجۂ ضروریہ حاصل ہو گیا ہے۔ اور اگر وہ برابر ان کی تکمیل کی فکر اور کوشش میں رہا تو قوی امید ہے کہ رفتہ رفتہ اس کو آئندہ ان اوصاف میں کمال کا درجہ بھی حاصل ہو جائے گا۔

حضرت والا کی اجازت کا طریقہ:

حضرت والا ''کَیْفَ مَا اتَّفَقَ'' کسی کو مجاز نہیں بناتے، بلکہ جب کسی کے متعلّق قرائنِ حالیہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے تو پھر اس کے حالات کا خاص طور سے بغور تتبّع فرمانے لگتے ہیں، بلکہ اس تتبّعِ حالات کے لیے بعض کا نام بھی پہلے سے بطور یادداشت کے لکھ کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں، اور جب اس کی اہلیّت کے متعلّق اپنا ظاہری اطمینان اور باطنی شرح صدر بھی ہو جاتا ہے اس وقت اجازت عطا فرماتے ہیں۔

بعد اجازت بھی شیخ سے استغناء نہ چاہیے:

فرمایا کہ شیخ کے ہوتے ہوئے اس سے استغناء بعد تکمیل بھی نہ چاہیے۔ کیونکہ گو مجاز ہو جانے کے بعد شیخ سے سلسلۂ استفادہ جاری رکھنا درجہ ضرورت میں نہ رہے، لیکن ترقیات کے لیے تو پھر بھی اس کی حاجت رہتی ہے۔بلکہ اکثر احوال میں یہ استفادہ درجۂ ضرورت میں بھی رہتا ہے، لہٰذا شیخِ حق سے استغناء کسی حال میں نہیں چاہیے۔ اور جنہوں نے اپنے کو مستقل سمجھ لیا ان کی حالت ہی متغیّر ہوگئی۔

امورِ دینیہ میں مشورہ ضروری ہے:

حضرت والا تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے سر پر پڑا رہے تو سلامتی اسی میں ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں ہی کو بڑا سمجھنے لگے۔ اور ان سے ملا جلا رہے۔ بلکہ امورِ دینیہ میں بوقتِ ضرورت ان سے مشورہ بھی لیتا رہے۔ چنانچہ حضرت والا کا اسی پر عمل ہے۔