چند حکایات
1۔ تواضع سے عزّت ہوتی ہے، نہ کہ ذلّت:
فرمایا کہ میں طالبِ علمی کے زمانہ میں ایک مرتبہ طلبہ کے ساتھ باہر تفریح کو گیا، آم کا زمانہ تھا، طلبہ چونکہ آزاد ہوتے ہیں ایک باغ میں درخت پر چڑھ کر آم توڑنے لگے۔ باغ والا آ گیا تو وہ لڑنے لگا، اور طلبہ بھی لڑنے لگے، میں اکیلا چپ کھڑا رہا کیونکہ باغ والا حق پر تھا، اور یہ ساتھی تھے۔ میری خاموشی کا اس باغ والے پر اتنا اثر ہوا کہ شرمندہ ہو کر معذرت کرنے لگا، اور سب آم توڑے ہوئے دے دیئے اور کہا کہ آپ لوگوں کو ایسا نہ چاہیے، اور گو باغ آپ کا ہے مگر دریافت تو کر لینا چاہیے۔ پھر جب تک آموں کی فصل رہی وہ مجھے آم بھیجتا رہا۔
2۔ تقویٰ کلابی:
ایک شخص نے کسی عورت سے زنا کیا اسے حمل رہ گیا، لوگوں نے ملامت کی کہ کم بخت عَزل ہی کر لیا ہوتا۔ کہا خیال تو مجھے بھی آیا تھا، مگر علماء نے اس کو مکروہ لکھا ہے اس لیے نہ کیا۔ خوب! تو کیا زنا کو جائز لکھا ہے؟ اسی کو تقویٰ کلابی کہتے ہیں۔ یعنی کتّوں کا سا تقویٰ، کہ موتتے وقت تو ٹانگ اٹھا کر موتتا ہے (کہ چھیٹ نہ پڑے ٹانگ پر) اور کھانے کو گوہ بھی کھا لیتا ہے۔
3۔ دل میں جو بسا ہوتا ہے، ہر موقع پر وہی یاد آتا ہے:
(1) فرمایا: مجھے ریل میں ایک بنیا ملا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے یہاں گیہوں کا کیا نرخ ہے، میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں۔ وہ تعجب سے کہنے لگا، کہ گیہوں کا نرخ معلوم نہیں۔ سچ فرمایا ؎
بس کہ در جانِ فگار وچشمِ بیدارم توئی
هر کہ پیدا می شود از دور پندارم توئی
(2) فرمایا کہ ایک مرتبہ شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہوئے تھے، ایک ککڑی والے نے آواز لگائی: ''اَلْخِیَارُ الْعَشَرَةُ بِدَانِقٍ''، بس آپ چیخ مار کر بے ہوش ہو گئے کہ جہاں دس دس خِیار کی یہ قیمت ہے، وہاں ہم اَشرار کی کیا قیمت ہو گی۔
4۔ شیخ کے ساتھ عقیدت کی ضرورت ہے:
فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ڈاکو کی حکایت بیان فرمائی، کہ وہ کسی بستی میں لب دریا اپنا بھیس بدل کر جھونپڑی ڈال کر اللہ اللہ کرنے لگا۔ لوگوں کو اس سے عقیدت ہوئی، اس کے پاس آنے لگے، بعضے مرید ہو کر وہیں ذکر و شغل میں مشغول ہو گئے۔ خدا کی قدرت کہ بعضے ان میں صاحبِ مقام بھی ہو گئے۔ ایک دن ان پیر صاحب کے بعض مرید مُراقِب ہوئے کہ دیکھیں اپنے پیر کا مقام کیا ہے، مگر وہاں کچھ نظر نہ آیا۔ ہر چند مراقبہ کیا، مگر کچھ ہو تو نظر آئے۔ نا چار ہو کر اپنے پیر سے کہا۔ پیر میں چونکہ ذکرُ اللہ کی برکت سے صِدق کی شان پیدا ہو چکی تھی، سب قصّہ صاف کہہ دیا کہ میں تو کچھ نہیں ایک ڈاکو ہوں۔ پھر انہوں نے سب نے مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے پیر کو بھی صاحب مقام بنا دیا۔ دیکھئے یہاں صرف عقیدت ہی عقیدت تھی، باقی میدان صاف تھا۔ اس حکایت سے عقیدت کے نفع کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔
5۔ مقبول بندہ کا احترام بھی جاذبِ رحمتِ الٰہی ہے:
فرمایا کہ احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ کسی نہر پر وضو کرنے بیٹھے اور ان سے قبل اوپر کی طرف ایک اور شخص وضو کر رہا تھا۔ وہ ادباً امام صاحب کے پائیں جا کر بیٹھ گیا۔ کسی شخص نے مرنے کے بعد اسے خواب میں دیکھا، پوچھا کیا حال ہے؟ کہا: اللہ تعالیٰ نے اس پر مغفرت فرمائی کہ جا تجھ کو محض اس بات پر بخش دیا کہ تو نے ہمارے ایک مقبول بندہ کا احترام کیا۔ ہمارے حضرت نے فرمایا کہ جب ایسے بہانوں سے مغفرت ہو جاتی ہے، تو اب کسی کو کیا حقیر سمجھئے۔ میرے خیال میں عذاب تو ایسے متمرد کو ہو گا جو کسی طرح پسیجے نہیں، اور خود چاہے کہ مجھے عذاب ہو۔ سچ ہے ؎
رحمتِ حق بہانہ می جوید
رحمتِ حق بہا، نمی جوید
6۔ شُماتت سے کسی کے فعل پر نکیر کرنا:
گوالیار کی فوج میں ایک شخص داڑھی منڈاتا تھا، لوگ ہر چند ملامت کرتے لیکن باز نہ آتا تھا۔ اس کے بعد اتفاقاً راجہ نے قانون نافذ کر دیا کہ فوجی آدمی سب داڑھی منڈایا کریں۔ اس پر سب لوگوں نے اس سے کہا کہ بھائی خوش ہو جاؤ ہم تو تجھے ملامت کرتے تھے، اب سب کو تجھ جیسے ہی ہونے کا حکم ہو گیا۔ اس نے کہا پہلے تو میں شرارتِ نفس سے ایسا کرتا تھا، اب ایک کافر راجہ کا حکم ہے۔ تو اس کے کہنے سے شریعت کو نہ چھوڑوں گا، اور داڑھی نہ منڈاؤں گا، گھانس کھود کر یا اور کسی ذریعہ سے گذر کر لوں گا، چنانچہ اس نے فوراً نوکری چھوڑ دی۔ اور جو لوگ اس پر ملامت کیا کرتے تھے، انہوں نے داڑھی منڈائی۔ اب بتلایئے اس کے قلب کی حالت کسے معلوم تھی، اور حق تعالیٰ زیادہ قلب ہی کو دیکھتے ہیں۔ "إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلٰى صُوَرِكُمْ وَ أَمْوَالِكُمْ وَ لٰكِنْ يَّنْظُرُ إِلٰى قُلُوبِكُمْ وَ أَعْمَالِكُمْ" (ابن ماجه، الرقم: 3359)۔ سچ ہے ؎
دِیر کو مسجد کرے، مسجد کو دِیر
غیر کو اپنا کرے، اپنے کو غیر
سب سے ربطِ آشنائی ہے اُسے
دل میں ہر اک کے رسائی ہے اُسے
زوجۂ فرعون ہووے طاہرہ
اہلیۂ لُوط نبی، ہو کافرہ
زادۂ آذر خلیلُ اللہ ہو
اور کنعاں نوح کا، گمراہ
کچھ نہیں دم مارنے کا ہے مقام
پہنچے اس نکتہ کو کب فہمِ عوام
7۔ اختیاری کوتاہی کا علاج باعثِ مغفرت:
فرمایا کہ ایک صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک تحصیلدار صاحب جو ڈاڑھی منڈاتے تھے اور مونچھیں بڑی بڑی رکھتے تھے، شکار میں کسی گولی سے مر گئے۔ مرنے کے وقت کہنے لگے، بڑے شرم کی بات ہے کہ خدا کے سامنے یہ صورت لے کر کیسے جاؤں۔ فوراً انہوں نے قینچی منگائی اور مونچھیں ترشوائیں اور کہا کہ داڑھی کا بڑھانا تو میرے اختیار میں نہیں ہے، مگر مونچھیں تراشنا تو میرے اختیار میں ہے۔
8۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خوش طبعی:
فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ و حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان چل رہے تھے (حضرت علی رضی اللہ عنہ چھوٹے قد کے تھے، اور حضراتِ شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دراز قد تھے) حضرت علی رضی اللہ عنہ شاعر بھی تھے اور بڑے خوش مزاج بھی تھے، اور عموماً شاعر خوش مزاج ہوتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "عَلِيٌّ بَیْنَنَا کَالنُّوْنِ فِيْ لَنَا"۔ ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان ایسے ہیں جیسے (لفظ) نون ''لَنَا'' کے درمیان۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فی البدیہہ جواب دیا: "لَوْ لَا کُنْتُ بَیْنَکُمَا لَکُنْتُمَا لَا"۔ ترجمہ: اگر میں تمہارے درمیان نہ ہوتا تو تم ''لَا'' ہوتے (یعنی کچھ بھی نہ ہوتے)۔
9۔ صحابہ رضی اللہ عنھم خوش مزاج تھے:
فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ میں مزاح نہ ہوتا تو میں اپنی حیات ہی میں ان کو خلیفہ بنا دیتا۔ مزاح سے وقار جاتا رہتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خوش مزاج بہت تھے، اکثر ہنستے بولتے رہتے تھے۔ اور یوں سب ہی حضرات صحابہ رضی اللہ عنھم خوش مزاج تھے۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو شعر بھی دیکھے ہیں؎
اَبُوْبَکْرٍ حُبًّا فِي اللہِ مَاًلا
وَ أَعْتَقَ مِنْ ذَخَائِرِہٖ بِلَالًا
وَ قَدْ وَاسَی السَّبِيَّ بِکُلِّ فَضْلٍ
وَ أَسْرَعَ فِيْ إِجَابَتِہٖ بِلَالًا
10۔ حکومت بڑی ذمہ داری کی چیز ہے:
فرمایا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وفات سے دو برس کے بعد خواب میں دیکھا کہ پیشانی کا پسینہ صاف کر رہے ہیں۔ پوچھا یا امیر المؤمنین آپ کا کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مغفرت کی، ابھی حساب سے فارغ ہوا ہوں، قریب تھا کہ عمر کا تخت لوٹ جائے، مگر میں نے اللہ کو بڑا رحیم کریم پایا۔ حضرت نے فرمایا کہ دیکھ لیجئے! یہ حکومت ایسی چیز ہے، جس کی لوگ ہوس کرتے ہیں۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا انصاف کسی میں ہو سکتا ہے، اور پھر بھی ان کا یہ واقعہ ہے۔
11۔ سلف اور ہم میں فرق:
فرمایا: امام نخعی رحمۃ اللہ علیہ کی حکایت ہے کہ آپ ایک مرتبہ کسی کرایہ کے گھوڑے پر سوار جا رہے تھے، راستہ میں کوئی چیز گر گئی، گھوڑا ذرا آگے بڑھ گیا، جب معلوم ہوا تو گھوڑے کو وہیں روک کر خود اتر کر وہ چیز اٹھا لائے اور پھر گھوڑے پر سوار ہوئے کسی نے عرض کیا کہ گھوڑے ہی کو لوٹا کر اس کو اٹھا لیتے۔ فرمایا کہ یہ مسافت عقد میں نہ ٹھہری تھی، اس لیے ایسا کرنا جائز نہ تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ سلف میں اور ہم میں یہ فرق ہے کہ اگر ہم ہوتے تو اس کے جائز کرنے کے لیے ہزار بہانے نکال لیتے۔
12۔ رات بھر جاگنا:
فرمایا کہ ایک پنجابی درویش مجھ سے جب ملتے تو فرماتے، خواجہ رات کا سونا چھوڑ دے، جو کچھ کسی کو ملا ہے رات کے جاگنے ہی سے ملا ہے۔ میں نے ہنس کر کہا کہ سونا تو نہیں چھوڑا جاتا، رانگ ہو تو چھوڑ دوں۔
13۔ بزرگوں کا سوال و جواب بھی لطیف ہوتا ہے:
فرمایا کہ حضرت صابر رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ شمس الدین ترکی رحمۃ اللہ علیہ کو پانی پت کی خدمت سپرد کی۔ اس زمانہ میں حضرت شاہ بو علی قلندر رحمۃ اللہ علیہ زندہ تھے، انہوں نے اپنا ایک پیالہ جو پانی سے بالکل لبریز تھا، شاہ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں روانہ کیا۔ آپ نے اس پر ایک پھول رکھ کر واپس فرما دیا۔ شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مقصود تھا کہ جیسے یہ کٹورا پانی سے لبریز ہے اور اس میں اور پانی کی گنجائش نہیں، اسی طرح یہ پانی پت میری ولایت سے لبریز ہے، اس میں آپ کے قیام کی حاجت نہیں۔ شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ نے پانی کے پیالہ پر پھول رکھ کر یہ کہہ دیا کہ کچھ حرج نہیں، میں مثل پھول کے رہوں گا، جیسا کہ اس پیالہ میں پھول سما گیا۔
14۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی عجیب عجیب طرح حفاظت کرتا ہے:
فرمایا کہ مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ قصہ بیان کرتے تھے کہ ایک مقام پر دو میاں بیوی نہایت خوشحال تھے، ان کی کوئی اولاد نہ تھی، آرام سے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک کوٹھڑی کے اندر سو رہے تھے، اسی کوٹھڑی میں چوروں نے نقب لگائی کیونکہ اس کوٹھری میں روپیہ نکلنے کا گمان تھا، پھر احتیاط کے لیے ان کی چارپائی وہاں سے پکڑ کر باہر صحن میں کر دی کہ جاگ کر غُل نہ مچا دیں، جوں ہی چارپائی باہر رکھ کر آئے ہیں کہ یکایک چھت گر گئی، سولہ وہیں دب کر رہ گئے۔ جب میاں بیوی صبح کو اٹھے تو دیکھا کہ ہماری چارپائی باہر ہے اور چھت گری پڑی ہے۔ خدا کا بڑا شکر ادا کیا، مٹھائی تقسیم کی، اور سمجھے کہ ضرور ہماری چارپائی فرشتوں نے اٹھا کر باہر کی ہے۔ جب مزدورں کو بلا کر وہاں سے مٹی اٹھائی گئی تو سولہ نعشیں نکلیں، اس وقت سمجھ میں آیا کہ چارپائی اٹھانے والے یہ سولہ شیطان یعنی چور ہیں۔ ہمارے حضرت نے فرمایا: دیکھئے تو ان میاں بیوی کی تو حیات، اور ان چوروں کی موت مقدر تھی۔ ان کے دل میں کیا مال کی محبت ڈالی کہ فلاں جگہ نقب لگاؤ مال ملے گا اور کیسے چارپائی باہر رکھوائی۔
15۔ طمع بُری بلا ہے:
طمع بُری بلا ہے۔ فرمایا کہ میرے دوست، مارہرہ کے رہنے والے کہتے تھے کہ ایک سرائے میں ہم چند آدمی کھانا کھا رہے تھے کہ سامنے سے ایک کتّا آیا، ایک نے بہت ادب سے سلام کیا۔ لوگوں نے ملامت کی تو اس نے کہا کہ جنّ بھی کتے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، سو ممکن ہے یہ جنّ ہو، اور جنوں میں بھی جنوں کا بادشاہ ہو، اور ممکن ہے کہ مجھ سے راضی ہو کر مجھے کچھ دیدے۔ دیکھئے اس نے کتنے بعید احتمالات اور امکانات نکالے۔
16۔ والئ کابل عبد الرحمٰن خان کا عدل:
فرمایا کہ میرے پیر بھائی محمد خان صاحب خورجہ والے، ایک واقعہ امیر عبد الرحمٰن خان والیٔ کابل کا بیان کرتے تھے کہ ان کی بیوی کے ہاتھ سے ایک قتل ہو گیا، ایک ماما کو پستول سے مار ڈالا۔ امیر عبد الرحمٰن خان سے ماما کے ورثہ نے فریاد کی۔ حکم فرمایا کہ قاضئ شرع کی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا جائے، اور بعد تحقیقِ شرعی کے جو حکم ہو اس پر عمل کیا جائے۔ چنانچہ وہاں دعویٰ دائر ہوا، قاضی نے کہلا بھیجا کہ مجرم کی حراست کی ضرورت ہے۔ مگر شاہی محل کا معاملہ ہے، وہاں تک رسائی کیسے ہو سکتی ہے۔ فوراً فوج کو حکم دیا کہ قاضی صاحب کے ماتحت کام کریں، با ضابطہ محل سے گرفتاری ہوئی اور بیانات لیے گئے، مقدمہ شروع ہو گیا، امیر صاحب کے صاحبزادے امیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا کہ والدہ کے متعلق کیا ہو گا؟ فرمایا کہ بیٹا میں اس میں مجبور ہوں جو حکمِ شرعی ہو گا وہ ہو گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تمہاری تو ماں ہے اس لیے تمہیں اس کا خیال ہے، اور میری بیوی ہے اس لیے مجھ کو بھی خیال ہے، مگر حکمِ شرعی کے سامنے چون و چرا کی کیا گنجائش ہے۔ اور تعجب ہے کہ تم کو اپنی بڑھیا ماں کا تو خیال ہے، اور بوڑھے باپ کا خیال نہیں کہ رعایت کرنے سے میدان محشر میں خدا کے سامنے گھِسٹا گھِسٹا پھرے گا۔ غرض مقدّمہ ہوا، اور قاتلہ کے اقرار سے قتل ثابت ہو گیا۔ قاضئِ شرع نے حکم قصاص کا صادر کر دیا، صاحبزادوں نے امیر صاحب سے عرض کیا کہ اگر مقتول کے ورثاء کو کچھ دے کر راضی کر لیں اور وہ اپنا حق معاف کر دیں تو اس میں تو کوئی حرج نہیں۔ فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، شریعت میں اس کو دیت کہتے ہیں۔ مگر یہ شرط ہے کہ وہ طیبِ خاطر سے اس پر رضا مند ہوں۔ کوئی حکومت کا اثر یا دباؤ ان پر نہ ڈالا جائے۔ غرض کہ کوشش کر کے ان کو راضی کیا، انہوں نے بہ خوشی معاف کر دیا، تب بیگم صاحبہ کی جان بچی۔ یہ ہے عدل۔ ایسے شخص کو حکومت کرنا جائز ہے۔ اور اگر بادشاہ ہو کر اس میں عدل نہ ہو، بلکہ ظلم ہو، بے حد قبیح ہے۔
17۔ والئ کابل عبد الرحمن کی فراست:
فرمایا کہ وہی محمد خان راوی ہیں، (وہ چند روز امیر صاحب کے مہمان بھی رہے ہیں) کہتے تھے کہ میں نے ایک شب میں خلوت میں فلاحِ ملک کے متعلق کچھ اصلاح یادداشت بطور نوٹ کے لکھی تھیں، اس خیال سے کہ صبح دربار میں امیر صاحب کو مشورہ دوں گا کہ ان چیزوں کی ملک میں ضرورت ہے۔ وہ یادداشت جیب میں رکھ کر امیر صاحب کے دربار میں گیا۔ موقع کا منتظر رہا کہ موقع ملے تو وہ اصلاحی نوٹ پیش کر دوں کہ دفعۃً خود بولے کہ بعض احباب ملک کی اصلاحات کے متعلق یہ مشورہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں چیزیں ملک کی ترقی کے لیے مفید ہیں، اور اس کے بعد نمبر وار ہر نمبر کے جوابات دینے شروع کئے، کہ اس میں اگر یہ مفاد ہے تو یہ مضرت ہے۔ منجملہ اور نوٹوں کے ایک نوٹ یہ بھی تھا کہ ملک سے ہوشیار اور سمجھدار نو عمر لوگ منتخب کر کے جرمن وغیرہ بھیجے جائیں، تاکہ صنعت و حِرفت سیکھ کر آئیں، اور پھر دوسرے لوگوں کو ملک میں آ کر سکھلائیں۔ اس پر فرمایا کہ مشورہ تو بالکل ٹھیک ہے، لیکن طریقِ کار غلط ہے۔ اس لیے کہ جو لوگ یہاں سے بھیجے جائیں گے وہ وہاں جا کر آزاد ہو جائیں گے، دوسری جگہ کے جذبات اور خیالات کا ان پر اثر ہو گا، پھر جب ملک میں آئیں گے تو ان کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ اوروں کے اندر بھی وہی جذبات اور خیالات پیدا ہو جائیں گے۔ اس لیے اس کی دوسری مفید صورت یہ ہے کہ اہلِ کمال لوگوں کو، جو صنعت و حِرفت میں کامل و ماہر ہیں، باہر سے یہاں بلایا جائے۔ اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کو سکھلایا جائے۔ تو چونکہ وہ محکوم ہوں گے اور ہر قسم کی ان کی نگرانی ہو گی، اس سے وہ اندیشہ نہ ہو گا۔ راوی بیان کرتے تھے کہ مجھ کو حیرت ہو گئی، ان کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ نوٹ لکھ کر لایا ہے اور اس ترتیب سے نوٹ ہیں۔
کہتے تھے کہ میں نے دربار برخواست ہونے پر امیر صاحب سے دریافت کیا، کیا آپ کو کشف ہوتا ہے، یہ تو میں لکھ کر لایا تھا اور کسی کو اطلاع ہی نہ تھی۔ فرمایا کہ کشف تو بزرگوں کو ہوتا ہے، میں ایک گنہگار شخص مجھ کو کیا کشف ہوتا۔ لیکن حق تعالیٰ نے عقل عطا فرمائی ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جہاں تک کشف کی رسائی ہوتی ہے وہیں تک عقل کی بھی رسائی ہوتی ہے۔ اور اس پر ایک مثال بیان فرمائی، کہ دیکھو دو چیزیں ہیں، ایک ٹیلیفون اور ایک ٹیلی گراف، سو کشف ٹیلیفون کے مشابہ ہے کہ جس میں صاف صاف گفتگو ہوتی ہے، اور عقل ٹیلیگراف ہے اس میں کچھ اشارات ہوتے ہیں قدرے خوض کی ضرورت ہوتی ہے۔ عجیب تحقیق بیان کی۔ یہی تو ہے مؤمن کی فراست جو ایک نور ہے اور عطائے خداوندی ہے۔ اور یہ اکثر پیدا ہوتا ہے تقویٰ و طہارت سے۔
18۔ اودھ کا تکلّف:
(1) فرمایا کہ دو شخص اودھ کے تھے، ریل میں سفر کا ارادہ تھا، مگر عین سوار ہونے کے وقت تکلّف کی مشق ہو رہی تھی۔ ایک کہتا تھا قبلہ آپ سوار ہوں، دوسرا کہتا تھا کہ کعبہ آپ سوار ہوں، اسی میں ریل چھوٹ گئی۔
(2) ایسے دو شخص کیچڑ میں گر گئے، اب آپس میں ایک دوسرے کو کہہ رہا ہے کہ قبلہ آپ اٹھیئے، کعبہ آپ اٹھیئے۔
19۔ انگریزوں میں ظاہری تہذیب بہت ہے:
فرمایا ایک شخص بیان کرتے تھے کہ ایک نواب زادے ایک جہاز میں سوار تھے اور ان کے چند دوست احباب ہمراہ تھے، ایک انگریز بھی بڑے درجہ کا اسی جہاز میں سفر کر رہا تھا، اور ان کو رئیس سمجھ کر ان کے پاس ملنے آیا تھا اور انگریزی میں بات چیت کرتا تھا۔ یہ یوں سمجھے کہ یہ اردو نہیں جانتا انہوں نے مذاق میں اس کا نام ”الّو کا بچہ“ رکھا تھا اور یہی سمجھتے تھے کہ یہ اس کو نہیں سمجھتا۔ اور وہ با وجود سمجھنے کے کبھی چیں بہ بجبیں نہ ہوا۔ جب جہاز سے اتر کر چلنے لگے تو وہ نواب زادے سے رخصت ہونے کے لیے کہتا ہے کہ الو کا بچہ آداب بجا لاتا ہے، اور اودھ کا سا سلام کیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ یہ اردو اعلیٰ درجہ کی جانتا ہے۔ مگر غضب یہ کیا کہ سارے راستہ ان کو محسوس ہونے نہیں دیا کہ میں اس کو سمجھتا ہوں۔ برابر اس کہنے پر بھی بولتا رہا، اور کوئی ناگواری نہیں ہوئی۔ نواب زادہ کی تو یہ حالت ہوئی کہ مارے شرمندگی کے پسینے پسینے ہو گئے، اور بے حد محجوب اور شرمندہ ہوئے اور وہ کہہ کر چل دیا۔ اس ضبط کو ملاحظہ فرمائیے۔ یہ ایسی قوم ہے، مگر دین نہ ہونے کے سبب اخلاق کی نقل ہے اصل نہیں۔
20۔ مہمانی کا ادب:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے، ایک اعرابی بدوی آپ کے دستر خوان پر کھانا کھا رہا تھا، اور بڑے بڑے لقمے کھا رہا تھا۔ آپ انتظام و نگرانی فرما رہے تھے، آپ نے شفقت سے فرمایا کہ بھائی اتنا بڑا بڑا لقمہ مت لو، بعض دفعہ تکلیف ہو جاتی ہے۔ وہ بدوی فوراً دستر خوان سے اٹھ گیا اور کہا کہ آپ نگرانی کرتے ہیں مہمانوں کے لقموں کی، یہ دسترخوان اس قابل نہیں کہ کوئی بھلا آدمی اس پر کھانا کھائے، یہ کہا اور دسترخوان سے اٹھ کر چلا گیا۔ ہر چند امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوشش کی، لیکن نہیں رکا چلا گیا۔ مجھ کو تو حیرت ہو گئی کہ بدوی بھی اصولی ہیں، جن کا یورپ کے بڑے بڑے مہذب مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جہلاء کہتے ہیں کہ اسلام میں انتظام نہیں، اسلام میں تو وہ انتظام ہے کہ دوسروں نے بھی اسی سے لیا ہے۔ اسلام کا انتظام اور اسلام کے اصول تو وہ ہیں کہ آج دنیا کی اقوام کا اقرار ہے کہ ہم نے اسلام ہی سے لیے ہیں۔
21۔ ترغیبِ احتیاط:
دو شخص حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بغرضِ بیعت حاضر ہوئے۔ وہ کہیں آپس میں کہہ رہے تھے کہ ہمارے وطن کی مسجد میں جو حوض ہے وہ یہاں کے حوض سے بہت بڑا ہے، یہ بات سلطان جی نے بھی سن لی۔ فوراً طلب فرمایا اور پوچھا کہ کیا تم نے دونوں حوضوں کی پیمائش کر لی ہے؟ عرض کیا پیمائش تو نہیں کی اندازے سے کہا ہے۔ فرمایا اندازہ کا کیا اعتبار، بلا تحقیق بات کیوں کہی۔ اچھا جاؤ ناپ کر آؤ۔ چنانچہ وہ ڈرتے ڈرتے گئے کہ کہیں ہماری بات غلط نہ نکلے، لیکن خیر جب وہاں جا کر ناپا تو واقعی وہ حوض ایک بالشت بڑا ہی نکلا۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے کہ ہماری بات غلط نہ نکلی۔ اور جب حاضر ہوئے تو اپنے نزدیک سرخرو بن کر عرض کیا کہ حضرت ناپنے پر بھی وہی حوض بڑا نکلا۔ فرمایا کہ تم نے تو کہا تھا کہ وہ حوض اس حوض سے بہت بڑا ہے، کیا صرف ایک بالشت بڑے ہونے پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہت بڑا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے اندر احتیاط کا مادہ نہیں ہے، لہٰذا ہمارے یہاں تمہارا کام نہیں، اور کہیں جاؤ۔ چنانچہ ان کو بیعت میں قبول نہیں فرمایا۔
22۔ حسب و نسب کی بعض خاصیّتیں فطری ہیں:
(1) ایک پیر کے مرید راجپوت تھے۔ اس نے اپنے پیر سے کہا کہ اپنے لڑکے کو جو آپ وصیتیں کر رہے ہیں ایک وصیت یہ بھی کر دیجئے کہ کسی راجپوت کو مرید نہ کرے۔ پیر نے کہا یہ کیا بات ہے، دیکھو تم راجپوت ہو اور کیسے مخلص ہو۔ کہنے لگا بارہا میرے دل میں آیا کہ تمہاری بھینس کھول لے جاؤں۔ میں تو ضبط کرتا رہا، لیکن سب ضبط نہیں کر سکتے۔
(2) ایک رئیس خاں صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک شخص نے ایک پٹھان بزرگ کی تعریف کی۔ مخاطب نے کہا کہ بے دیکھے ہم نہ مانیں گے، چنانچہ دونوں ان کی خدمت میں گئے اور مخاطب نے ان کو جوش دلانے کے لیے کہا کہ آپ جنگل میں تنہا رہتے ہیں جہاں شیر بھیڑیئے رہتے ہیں، آپ کو تو بہت ڈر لگتا ہوگا۔ بزرگ کو جوش آ گیا کہ بزدلی کی نسبت ان کی طرف کی۔ کہنے لگے میں شیر بھیڑیے سے کیا ڈرتا، میں خدا تک سے تو ڈرتا نہیں۔ اسی طرح ایک بار حضرت مولانا یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ شیخ زادہ کی قوم بڑی خبیث ہے، ایک شخص نے اسی مجلس میں کہا کہ حضرت آپ بھی تو شیخ زادہ ہیں۔ بے ساختہ فرمایا کہ میں بھی خبیث ہوں۔ حضرت نے فرمایا: میں یہ کہا کرتا ہوں کہ شیخ کی قوم فطرتی خبیث ہوتی ہے۔
23۔ فیضی اور ایک شاعر:
فیضی اور ابو الفضل وغیرہ شاہی دربار میں کسی اور دوسرے اہلِ کمال کو نہیں آنے دیتے تھے۔ ایک روز ایک شاعر جو نَو وارد تھا، بوسیدہ لباس پہنے شکستہ حالت میں فیضی کو سڑک پر نظر آیا۔ فیضی کی سواری اس شاعر کے سامنے نظر آئی تو اس نے اٹھ کر سلام کیا اور گاڑی روک لینے کا اشارہ کیا۔ فیضی نے اس کو مسافر سمجھ کر کہا کون؟ کہا کہ ماعر ہستم۔ پوچھا: ماعر کدام باشد؟ کہا: ہر کہ معر گوید۔ پوچھا: معر کرا گویند؟ اس نے کہا؎
رفتم در بازار، خریدم یک گنا
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّا، مَلِکِ النَّا، اِلٰہِ النَّا
فیضی نے یہ سمجھا کہ کوئی مسخرہ ہے دربار میں نقلِ مجلس ہو گا۔ دربار میں حاضر کیا، اس حالت کو دیکھ کر کسی نے ان کی طرف التفات نہ کیا۔ وہ شاعر جا کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اور سب اپنے اپنے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ شاعر بے تکلّف بادشاہ کی طرف متوجّہ ہو کر کہتا ہے ؎
گر فروتر نشست خاقانی
نے مرا ننگ و نے ترا ادب است
قُلْ هُوَ اللهُ کہ وصفِ خالق است
زیرِ تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَهَب است
مثال عجیب دی کہ جو مسخرہ سمجھ کر لے گئے تھے زرد پڑ گئے۔ بادشاہ نے اس شاعر کا بڑا احترام کیا اسی وقت حمام بھیج کر غسل دلوا کر جوڑا بدلوایا اور دربار میں جگہ دی۔
محبتِ حق پیدا کرنے کی ترکیب:
اوّل تو یہ کہ نیک عمل میں بہ نیتِ ازدیادِ محبّت استقامت کے ساتھ مشغول رہو۔ دوم یہ کہ اللہ کا نام لو تو جی لگا کر یعنی تھوڑا تھوڑا اللہ اللہ بھی کرو۔ سوم یہ کہ اہلِ محبّت کی صحبت اختیار کرو اور وہ جو کہیں وہ کرو۔ پھر تو تھوڑے دنوں میں دل نور سے معمور ہو جائے گا، اور خدا کی قسم اس قدر محظوظ ہو گے کہ تمہاری نظر میں پھر سلطنت کی بھی کچھ حقیقت اور وقعت نہ رہے گی۔
اصلاح کا طریقِ مؤثّر:
ایک بار فرمایا کہ اعمال میں ہمت کر کے شریعت کے پابند رہو ظاہراً بھی باطناً بھی۔ اور اللہ اللہ کرو، اور کبھی کبھی اہل اللہ کی صحبت میں جایا کرو۔ اور ان کی غَیبت میں، جو کتابیں وہ بتائیں ان کو پڑھا کرو۔ بس جی، یہ چار چیزیں ہیں۔ میں ٹھیکہ لیتا ہوں کہ جو ان چار پر عمل کر کے دکھلا دے گا، وہ ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کا مصداق، یعنی اللہ تعالیٰ کا محبوب اور محب ہو جائے گا۔ ضرور ہو جائے گا، ضرور بالضّرور ہو جائے گا۔
کام کرنے سے ہی اس طریق میں کام چلے گا:
فرمایا کہ: حضور رسولِ مقبول ﷺ تو غایتِ شفقت سے بہت چاہتے تھے کہ پکی پکائی ہی کھلائیں، مگر غیرتِ حق اور مصلحتِ دین کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت نہ دی۔ تو بھائی خوب سمجھ لو کہ کام کرنے ہی سے اس طریق میں کام چلے گا۔ بس طریق یہی ہے کہ کام کرو، محنت کرو، خدا برکت دے گا۔ اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو، تو بجز اس کے کوئی صورت نہیں۔ جیسا کہ ﴿یُجَاھِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللہِ﴾ (المائدۃ: 54) سے ثابت ہوتا ہے۔
عمل اور محبّت لازمِ طریق ہیں:
فرمایا کہ دو چیزیں لازم طریق ہیں: ایک عمل، دوسری محبّت۔ اوّل میں ہمّت کی ضرورت ہے، دوسرے میں اہل اللہ کی صحبت اور ان کے اتّباع کی۔
طریقِ تفہیمِ مؤثّر:
جو بات مخاطب کی قوّتِ فکریہ پر بوجھ پڑنے کے بعد سمجھ میں آتی ہے یا بتائی جاتی ہے، وہ اس قدر پختگی کے ساتھ ذہن نشین ہوتی ہے کہ پھر کبھی ذہن سے نہیں نکلتی۔ اور اسی نافعیّت کی بناء پر حضرت والا تمام دورانِ تربیّت اصلی طریقِ تفہیم کا بکثرت اہتمام فرماتے رہتے ہیں۔
ملفوظات متعلّق بیعت:
شیخ و مرید میں مناسبت پیدا کرنے کا طریقہ: مناسبت کے لیے نِری بیعت کافی نہیں، بلکہ اور چیزیں بھی ضروری ہیں، مثلاً کچھ دن پاس رہنا، خصوصیّاتِ مزاج کا تتبّع اور ان کی رعایت کرنا، چندے تعلیمی خط و کتابت جاری رکھنا وغیرہ، بلکہ شیخ کو تو طالب کے ساتھ زیادہ تر اس کے برتاؤ سے مناسبت پیدا ہوتی ہے۔
صرف بیعت کافی نہیں:
فرمایا کہ بیعت میں جس چیز کا مجھے انتظار رہتا ہے وہ باہمی مناسبت اور صحّتِ عقیدہ ہے۔ فرمایا کہ حصولِ مقصود کا مدار بیعت پر نہیں، بلکہ نِری تعلیم تو حصولِ مقصود کے لیے بالکل کافی ہے، لیکن نِری بیعت ہرگز کافی نہیں۔
صورتِ بیعت کا درجہ:
فرمایا کہ صورت بیعت کا محض وہ درجہ ہے جو پھولوں کی کیاری میں گھاس کا ہوتا ہے کہ اس سے ایک خوشنمائی تو ضرور پیدا ہو جاتی ہے اور پھولوں کی رونق بڑھ جاتی ہے، لیکن پھولوں کے نشو و نما میں گھاس کا کچھ بھی دخل نہیں۔
بیعت کی صورت و حقیقت:
فرمایا کہ بیعت کی ایک صورت ہوتی ہے، ایک حقیقت۔ اس کی صورت مطلوب نہیں، حقیقت مطلوب ہے۔ چنانچہ بیعت کی حقیقت ہے اعتقاد و اعتمادِ جازم اپنے تعلیم کرنے والے پر۔ یعنی اس کو یہ یقین ہو کہ یہ میرا خیرخواہ ہے اور جو مشورہ دے گا وہ میرے لیے نہایت نافع ہوگا۔ غرض اس پر پورا اطمینان ہو اور اپنی رائے کو اس کی تجویز و تشخیص میں مُطلق دخل نہ دے، جیسا کہ طبیبِ حاذق و مُشفق کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے، بس ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔ باقی رہی بیعت کی صورت، وہ اوّلِ وَہلہ میں خواصّ کے لیے نافع نہیں۔ عوام کے لیے البتہ اوّل وہلہ میں بیعت کی صورت بھی نافع ہوتی ہے، کیونکہ اس سے ان کے قلب پر ایک عظمت اور شان اس شخص کی طاری ہو جاتی ہے، جس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ اس کے قول کو با وقعت سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ خواصّ کے لیے کچھ مدّت کے بعد بیعت نافع ہوتی ہے، کیونکہ اس کا خاصّہ ہے کہ جانبین میں ایک خلوص پیدا ہو جاتا ہے۔
بیعت کا لطف کب ہے:
ایک بار فرمایا کہ بیعت کا لطف تو جبھی ہے جب پہلے تعلیم حاصل کر لے اور پھر بیعت ہو، کیونکہ ظاہر ہے کہ جب اس کو تعلیم سے نفع ہو گا تو اپنے معلّم سے محبّت پیدا ہو جانے کے بعد بیعت میں جو لطف ہو گا وہ اس کے مِثل کہاں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک تو عقد کی یہ صورت ہے کہ ماں باپ نے جس کے ساتھ چاہا نکاح کر دیا پھر اس کے بعد تعلّق پیدا ہوا۔ اور ایک صورت یہ ہے کہ اتّفاقاً اضطراراً کسی پر عاشق ہو گئے، پھر حُدود و عِفّت میں نہایت سختی کے ساتھ رہ کر اس کی کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح نکاح ہو جائے۔ چنانچہ جدّوجہدِ بسیار اور شدید کلفتِ انتظار اور بڑی تمنّاؤں کے بعد خدا خدا کر کے اس میں کامیابی ہوئی اور نکاح ہو گیا۔ تو اب دیکھ لیجئے کہ نکاح کی ان دونوں صورتوں کے لطف میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا۔
تاخیرِ بیعت کی ایک مصلحت:
ایک بار تاخیرِ بیعت میں یہ مصلحت بیان فرمائی کہ امیدِ بیعت میں طالب اپنی اصلاح کی اور مناسبت پیدا کرنے کی بہت کوشش کرتا ہے۔ ورنہ اگر درخواست پر فوراً بیعت کر دیا جائے تو پھر بے فکر ہو جاتا ہے۔
جہاں ضرورت ہو وہاں انتظام ہی مناسب ہے:
بارہا فرمایا کہ مجھے انتظامات کا خواہ مخواہ شوق نہیں ہے، بلکہ مجھے تو ان قصوں سے وحشت ہے، کیونکہ میری طبیعت فطری طور پر آزاد ہے۔ مگر جہاں ضرورت ہو اور بدون انتظامات کے کام ہی نہ چلے وہاں منتظم ہونا ہی پڑتا ہے اور وہاں منتظم ہونا ہی ضروری ہے۔ بلکہ جہاں ضرورت ہو وہاں تو انتظامات میں مجھے بجائے مشقّت اور وحشت کے، نہایت مسّرت اور دلچسپی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میرا مقصود ان قواعد سے صرف یہ ہے کہ نہ مجھے کوئی اذیّت ہو، نہ دوسروں کا کوئی کام اٹکے۔
اصلاح کے لیے مناسبتِ شیخ کی ضرورت ہے:
فرمایا کہ ہر شخص کو ہر شخص اچھا نہیں بنا سکتا اور اصلاح کا دار و مدار ہے مناسبت پر۔ ممکن ہے کہ ایک شخص کو مجھ سے مناسبت نہ ہو اور دوسرے سے مناسبت ہو، لہٰذا ہر شخص کو اپنی اصلاح کے لیے اسی کے پاس جانا چاہیے جس سے مناسبت ہو، لیکن وہ ہو محقّق۔
حد مقرّر کرنے کی ضرورت اور طرزِ سیاست:
اپنے طرزِ سیاست کے سلسلہ میں بیان فرمایا کہ بعض لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اپنے اور حضرات کا تو یہ طرز تھا۔ میں نے کہا کہ یہ بات تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلّق بھی کہی جاسکتی ہے کہ حدِّ خمر نہ حضور اقدس ﷺ کے زمانہ میں تھی، نہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھی، صرف تعزیر تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بجائے تعزیر کے یہ حد کیوں مقرر کر دی، بس جو وہاں جواب ہے وہی یہاں بھی ہے۔ یعنی پہلے طبائع میں سلامتی تھی، اس لیے واقعات میں قلت تھی لہٰذا صرف تعزیر کافی تھی، حد مقرر کرنے کی ضرورت نہ تھی، بعد کو طبائع کا رنگ بدل گیا اور واقعات زیادہ ہونے لگے اس لیے حد مقرر کرنے کی ضرورت واقع ہوئی۔ تو جو فاروق رضی اللہ عنہ نے کیا وہی ایک فاروقی نے کیا۔
اصلاح کن کن امور کی شیخ کے ذمہ ہے:
فرمایا کہ میرے ذمہ ساری باتوں کی اصلاح نہیں ہے، بلکہ صرف ان ہی باتوں کی ہے جو تمہاری سمجھ سے باہر ہوں، اور ایسی باریک ہوں کہ سوچنے سے بھی سمجھ میں نہ آئیں۔
غیر مقلّد کی حدِّ غنیمت:
فرمایا کہ اگر کوئی اہلِ حدیث تقلید کو حرام نہ سمجھے اور بزرگوں کی شان میں بد زبانی اور بد گمانی نہ کرے تو خیر یہ بھی بعضِ سلف کا مسلک رہا ہے، اس میں بھی میں تنگی نہیں کرتا ہوں۔ ہاں دل کا پوری طرح ملنا نہ ملنا اور بات ہے۔
تربیّت کی ذمہ داری کب لینی چاہیے:
فرمایا کہ کسی کی تربیّت اپنے ذمہ اس وقت تک نہ لینی چاہیے جب تک اپنے دل کو اس سے اتنا کھلا ہوا نہ پائے کہ اگر خود اس کی ذات کو نالائق نہ کہہ سکے تو کم از کم اتنا تو کہہ سکے کہ آپ کی یہ حرکت بڑی نالائق تھی، ورنہ پھر اس کو اس تعلّق سے فائدہ ہی کیا پہنچ سکتا ہے۔
طریقۂ برتاؤ حضرت والا کا، امراء کے ساتھ:
فرمایا کہ میرا معمول ہے کہ میں امراء کے ساتھ نہ تملّق کا برتاؤ کرتا ہوں نہ اِہانت کا، بلکہ متوسّط درجہ کا برتاؤ کرتا ہوں جس میں ان کی امتیازی شان اور حفظِ مراتب کی بھی رعایت کرتا ہوں، کیونکہ جس برتاؤ کے وہ عادی ہوتے ہیں اور عام طور سے متوقّع رہتے ہیں اس کا بھی بقدرِ ضرورت لحاظ رکھنا ضروری ہے تاکہ دل شِکنی نہ ہو۔ لیکن اگر ان کی طرف سے کوئی برتاؤ نازیبا ہوتا ہے، بالخصوص ایسا برتاؤ جس سے اہلِ دین کا استخفاف مترشّح ہو، تو پھر میں ان کی بالکل رعایت نہیں کرتا۔
اذیّتِ مالی و بدنی سے سخت تحرّز:
فرمایا کہ سب سے زیادہ اہتمام مجھ کو اپنے لیے اور اپنے دوستوں کے لیے اس امر کا ہے کہ کسی کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائی جائے خواہ بدنی ہو جیسے مار پیٹ، خواہ مالی ہو جیسے کسی کا حق مار لینا یا نا حق کوئی چیز لے لینا، خواہ آبرو کے متعلق ہو جیسے کسی کی تحقیر، کسی کی غیبت۔ خواہ نفسانی ہو جیسے کسی کو تشویش میں ڈال دینا، یا کوئی نا گوار و رنج دِہ معاملہ کرنا۔ اور اگر غلطی سے کوئی بات ایسی ہو جائے تو معافی چاہنے سے عار نہ کرنا۔
عورتوں کے ساتھ بیعت کا طرز:
حضرت والا مریضوں کو بوجہ ترحّم اور مستورات کو اس وجہ سے کہ وہ ذی رائے نہیں ہوتیں، بیعت فرمانے میں تنگی نہیں فرماتے، لیکن بہت سی مصالح کی بناء پر مستورات کا محض اس غرض کے لیے تھانہ بھون آنا پسند نہیں فرماتے، کیونکہ بعض عورتیں سفر میں نماز قضا کر دیتی ہیں اور پردہ کا بھی اہتمام مشکل ہوتا ہے۔ پھر عورتوں کا ہجوم بھی خلافِ مصلحت ہے۔ لہٰذا حضرت والا اکثر یہ ارشاد فرما کر بے بیعت فرمائے ہی واپس فرما دیتے ہیں کہ یہ کام تو خط کے ذریعہ سے بھی ہو سکتا تھا۔ اب بھی اگر جی چاہے تو واپس پہنچ کر خط ہی کے ذریعہ سے درخواست کرنا، جو مناسب ہو گا وہ جواب دیا جائے گا۔
حضرت والا مستورات کو اس وقت تک بیعت نہیں فرماتے جب تک کہ وہ اپنے شوہروں کی یا بے شوہر ہونے کی صورت میں اپنے کسی محرم سرپرست کی صریح اجازت حاصل کر کے پیش نہیں کرتیں۔ اس میں علاوہ بہت سی مصالح، مثلاً انسدادِ آزادی وغیرہ کے لیے، یہ بھی مصلحت ہے کہ اگر شوہر یا سرپرست مختلفُُ المشرب ہوا تو گھر میں ہمیشہ لڑائی ہی رہنے لگے اور بیچاری عورت کی عافیت ہی تنگ ہو جائے۔
حضرت والا نے ایسی بوڑھیوں کو بھی جو حضرت والا سے پردہ نہیں کرتی تھیں بیعت کرتے وقت پردہ میں بٹھلایا۔ اس کا منشا بھی تحفّظِ ادبِ طریق ہے۔
سارے طریق کا خلاصہ ادب ہے:
فرمایا کہ اس راہ میں نا شکری بہت ہی مضرّ ہے، یہ طریق بس بالکل ادب ہی ادب ہے، سارے طریق کا خلاصہ بس ادب ہے۔ بے ادبی سے بڑھ کر اس طریق میں کوئی چیز مضرّ نہیں، یہاں تک کہ بعض حیثیتوں سے معصیت بھی اتنی مضرّ نہیں۔ کیونکہ معصیت کا تعلّق ایسی ذات سے ہے جو انفعال سے پاک ہے اور بے ادبی کا تعلّق شیخ سے ہے جو بشر ہے۔ اور جس کو بے ادبی سے تکدّر ہوتا ہے، جو مرید کے حق میں سمِّ قاتل ہے۔
بیعت نام کی نہیں بلکہ کام کی ہونی چاہیے:
حضرت والا کے یہاں محض نام کی بیعت نہیں ہوتی، بلکہ کام کی بیعت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اس امر میں عجلت کو ہرگز گوارا نہیں فرماتے۔ اور فرمایا کرتے ہیں: بیعت کرنا تو مُتبنّٰی کرنا ہے، جب تک باہمی مناسبت و موافقت کا پورا اطمینان نہیں کر لیا جاتا کسی کو بیٹا نہیں بنایا جاتا۔ کیونکہ عمر کے لیے تعلّق پیدا کرنا ہوتا ہے۔ البتہ مٹھائی بانٹنے میں اس کی تحقیق نہیں ہوتی کہ بیٹوں ہی کو دیا جائے، بلکہ سب لڑکوں ہی کو دی جاتی ہے۔ اسی طرح میرے یہاں تعلیم تو عام ہے لیکن بیعت مقید ہے۔
فرمایا کہ سلسلۂ تعلیم و تلقین میں قلوب کے اندر ادنیٰ حجاب ہونا بھی حاجِب عنِ المقصود ہو جاتا ہے، اس لیے اختلافِ مسلک کی صورت میں بیعت مناسب نہیں۔
حضرت والا کسی گمراہ سے گمراہ مُعتقَد فیہ کے متعلق بلا ضرورتِ شرعیہ ایک حرف بھی زبان پر نہیں لاتے، اور بلا وجہ کسی کی دل آزاری کو نہایت نا پسندیدہ اور نازیبا حرکت سمجھتے ہیں۔
بزرگوں کے ساتھ سوءِ ظن سے احتمال سوءِ خاتمہ کا ہے:
فرمایا کہ بزرگوں کے ساتھ سوءِ ظن بعض اوقات سوءِ خاتمہ کا سبب ہو جاتا ہے، ورنہ برکات سے محرومی تو ضرور ہو جاتی ہے۔
شیخ کا سب سے پہلا کام:
فرمایا کہ شیخ کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ سالک کو طریق کی حقیقت بتائے اور صحیح راستہ پر ڈال دے، تاکہ پھر صرف چلنا رہ جائے۔ اور بلا اِدھر اُدھر بھٹکے چلتا رہے اور بسہولت منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔
فرمایا کہ پیر اور مرید کا تعلق بالکل طبیب اور مریض کا سا ہے، کیونکہ یہ مثال اس تعلّق کی سینکڑوں جزئیات پر منطبق ہوتی ہے۔
وصول الی اللہ کا طریق اصلاحِ اعمال ہے:
فرمایا کہ طالب کے اندر اصلاحِ اعمال کا اہتمام پیدا کر دینے کے قبل اس کو اذکار و اشغال میں مشغول کر دینا اکثر مضرّ ثابت ہوتا ہے، کیونکہ پھر وہ اپنے کو بزرگ سمجھنے لگتا ہے۔ خاص کر اگر کہیں اتفاقاً اذکار و اشغال سے یکسوئی ہو کر اس پر کیفیات کا بھی ورود ہونے لگا، تب تو گویا اس کے نزدیک بزرگی کی رجسڑی ہو گئی۔ حالانکہ اس قسم کی کیفیات کا بزرگی سے کیا تعلّق۔ ایسی کیفیات تو بعض ریاضات اور مشق سے فسّاق و فجّار بلکہ کفّار کو حاصل ہو جاتی ہے۔ اور جب وہ ان کیفیات ہی کو بزرگی سمجھ لیتا ہے تو پھر اصلاحِ نفس و اصلاحِ اعمال کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔ اس لیے ہمیشہ جہل میں مبتلا رہتا ہے اور اصل مقصود یعنی وصول الی اللہ سے محروم رہتا ہے۔ جس کا طریقِ تحصیل نُصوص نے صرف اصلاحِ اعمال ہی کو بتلایا ہے۔
اصلاح کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے:
فرمایا کرتے ہیں کہ محض اذکار و اشغال اصلاح اعمال کے لیے ہرگز کافی نہیں۔ اصلاح کے لیے تو ہمّت اور بہ تکلّف استعمالِ اختیار اور تدابیرِ استحضار اور ان کے تکرار کی ضرورت ہے۔ البتہ اذکار و اَشغال مُعینِ اصلاح ضرور ہو جاتے ہیں۔ اذکار و اشغال کا اصلاحِ نفس میں اتنا ہی دخل ہے جتنا عرقِ بادیان کا مُسہِل میں۔
حضرت والا کا طرز ابتدائی طالب کے ساتھ:
ابتداء میں حضرت والا کی تمام تر توجہ اسی بات پر رہتی ہے کہ اصلاحِ اعمال کی اہمیت طالب کے اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ جب اصلاح اعمال کی اہمیت اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے اور طالب اپنی اصلاحِ اعمال میں خاص اہتمام کے ساتھ مشغول بھی ہو جاتا ہے پھر بلا تامّل اذکار و اشغال بھی تعلیم فرما دیتے ہیں۔ پھر اس کا انتظار نہیں فرماتے کہ جب اصلاحِ اعمال کی تکمیل ہو جائے اس وقت اذکار و اشغال شروع کرائے جائیں۔
طریق میں اصل چیز اصلاحِ اعمال ہے:
ایک طالب نے لکھا کہ میرے معمولات فلاں فلاں ہیں، ان سب میں جو کچھ کمی ہو اس سے سرفراز فرمائیں۔ حضرت والا نے جواب تحریر فرمایا کہ یہ تو اپنی فرصت اور عمل پر ہے۔ اصل چیز جس میں کمی بیشی دیکھی جاتی ہے وہ اصلاحِ اعمال ہے۔
ادنیٰ بے تمیزی پر بھی روک ٹوک چاہیے:
حضرت والا کا مطمحِ نظر چونکہ اصلاح کے درجات کی تکمیل ہے، اس لیے طالب کی ادنیٰ بے تمیزی یا بے التفاتی کی روک ٹوک فرماتے اور فوراً صاف صاف تنبیہ فرماتے۔ چنانچہ ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ تمہارے خط میں ایک جملہ ہے "کہ اس کے پہلے بھی ایک بار مستغنٰی عنہ ہو کر جواب سے محروم ہوں"۔ کیا اس جملہ میں مجھ پر اعتراض نہیں اور کیا وہ اعتراض بلادلیل نہیں، اور کیا اعتراض بلادلیل سے اذیت نہیں ہوتی اور کیا اذیت کی حالت میں کوئی خدمت لی جا سکتی ہے، پھر اپنے کو مرید اور معتقِد لکھتے ہو، یہ جمع بین المتضادَّین کیا۔ افسوس اھ۔
قصدِ عدمِ ایذاء ضروری ہے، عدمِ قصدِ ایذاء کافی نہیں:
اکثر فرمایا کہ بعض لوگ قصداً ایذاء نہیں پہنچاتے، لیکن محض قصدِ عدمِ ایذاء ضروری ہے۔
تدبیرِ تحصیل و تدبیرِ تسہیل:
فرمایا کہ گو سہولت کی تدبیر بتانا مُصلِح کے ذمہ نہیں، لیکن تبرّعاً بتلاتا ہوں۔ وہ یہ کہ بہ تکلّف نفس کی مخالفت کرتے رہنے سے رفتہ رفتہ داعیہ ضعیف ہو جاتا ہے۔ اور اس کی مقاوَمت سہل ہو جاتی ہے، غرض جو تدبیرِ تحصیل ہے وہی تدبیرِ تسہیل ہے۔ لیکن یہ قاعدہ اکثری ہے کلی نہیں۔ بعض کو عمر بھر مجاہدہ ہی کرنا پڑتا ہے، اور مجاہدہ ہی سے تو اجر و قرب بڑھتا ہے۔ اور جن کو بعد مجاہدات کے سہولت ہو جاتی ہے، ان کو بھی برابر مجاہدہ کا اجر ملتا رہتا ہے۔ کیونکہ یہ سہولت مجاہدات ہی سے تو مسبَّب ہوتی ہے۔
عقلی امور اور طبعی امور:
فرمایا کہ انسان عقلی امور کا مکلّف ہے، کیونکہ وہ اختیاری ہیں۔ اور طبعی امور کا مکلّف نہیں، کیونکہ وہ غیر اختیاری ہیں۔
اعمال مقصود ہیں، احوال مقصود نہیں:
فرمایا کہ اعمال مقصود ہیں احوال مقصود نہیں۔ کیونکہ اعمال اختیاری ہیں اور احوال اختیاری نہیں۔
انفعالات کا اعتبار نہیں:
فرمایا کہ اس طریق میں افعال کا اعتبار ہے انفعالات کا اعتبار نہیں۔ لہٰذا افعال کا اہتمام چاہیے جو اختیاری ہیں، انفعالات کے درپے نہ ہونا چاہیے جو غیر اختیاری ہیں۔
مقصود مقامات ہیں:
اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ مقصود مقامات ہیں، یعنی اعمالِ اختیاریہ، نہ کہ احوالِ غیر اختیاریہ۔
احوالِ محمودہ بھی مقصود نہیں:
اکثر فرمایا کہ گو احوالِ محمودہ محمود ہیں، لیکن مقصود نہیں۔ کیونکہ وہ اختیاری نہیں، نہ ان کا حصول لازم نہ ان کا بقاء دائم۔ اگر حاصل ہوں شکر کرے کمال نہ سمجھے، اگر نہ حاصل ہوں یا حاصل ہو کر زائل ہو جائیں، تو غم بھی نہ کرے۔ ''وَ ھُوَ مَعْنٰی قَوْلِ الرُّوْمِیِّ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ ؎
روزها گر رفت گو، رو باک نیست
تو بمان اے آنکہ چوں تو پاک نیست
ثمرات کی روح:
فرمایا کہ ثمرات کی روح اجر و قرب ہے، بس اس ثمرہ پر نظر رکھنا چاہیے اور کسی ثمرہ کا منتظر نہ رہنا چاہیے۔
ثمرات و کیفیات کے لیے بھی یکسوئی کی ضرورت ہے:
فرمایا کہ اگر ثمرات و کیفیات کی تمنّا بھی ہو، تب بھی ان سے یکسو ہی رہنا ضروری ہے، کیونکہ کیفیات پیدا ہوتی ہیں یکسوئی سے، اور جب کیفیات کے وُرود کی جانب توجہ رہی، تو یکسوئی کہاں رہی۔
وُرودِ کیفیات کا سبب مع مثال:
اگر کوئی اپنی کیفیات کی اطلاع دیتا ہے تو اکثر بس یہی فرماتے ہیں کہ ان کی طرف التفات نہ کیا جائے، اپنے کام میں لگا جائے اور کام ہی کی طرف ہمہ تن متوجّہ رہا جائے، ورنہ غیر مقاصد میں مشغول ہو کر طالب اپنے اصل کام سے بھی رہ جاتا ہے۔ اور پھر کیفیات بھی منقطع ہو جاتی ہیں، کیونکہ ان کا ورود بھی تو کام ہی کی برکت سے ہوتا ہے۔ جیسے چراغ میں روشنی اسی وقت تک رہتی ہے جب تک بتّی میں تیل پہنچتا رہتا ہے، اگر تیل ہی ڈالنا چھوڑ دیا جائے، رفتہ رفتہ روشنی کم ہو کر چراغ گل ہو جائے گا۔
صاحبِ احوال و غیر صاحبِ احوال کی مثال:
ایک بار فرمایا کہ کشف اور احوال و مواجید وغیرہ راہ سلوک میں کوئی چیز نہیں، بلکہ یہ چیزیں اکثر موانعِ طریق ہو جاتی ہیں، ان کا نہ ہونا زیادہ اچھا اور بے خطر ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص تو سواری گاڑی میں سفر کر رہا ہے، جو ہر اسٹیشن پر ٹھہرتی ہوئی دلّی پہنچتی ہے اور جس کی کھڑکیاں بھی کھلی ہوئی ہیں، وہ شخص خوب سیر کرتا ہوا راستہ کے مناظر دیکھتا ہوا ٹونڈلہ، اٹاوہ وغیرہ بیچ کے اسٹیشنوں پر ٹھہرتا اور اترتا ہوا دلّی پہنچا۔ اور دوسرا اسپیشل ٹرین میں سوار، کھڑکیاں بند، کانپور سے جو چلا تو دھڑ دھڑ سیدھا دلّی میں آ کر اترا۔ سواری گاڑی والے کے لیے یہ بھی خطرہ ہے کہ وہ کسی بیچ والے اسٹیشن کے نقش ونگار دیکھ کر وہیں اتر نہ پڑے اور عمر بھر دلّی پہنچنا ہی نصیب نہ ہو۔ بس بِلا کشف و کیفیات وغیرہ کے جو سلوک ہوتا ہے، وہ زیادہ اسلم ہے۔ کشف وغیرہ بعض صورتوں میں خطرناک ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حجابِ نورانی حجابِ ظُلمانی سے اشدّ ہوتا ہے۔ کیونکہ حجابِ ظلمانی میں تو سالک کو اس وجہ سے کوئی دھوکا نہیں ہوتا کہ اس کا مخلِّ مقصود ہونا بالکل ظاہر ہے، بخلاف حجابِ نورانی کے کہ اس کی نورانیت سے دھوکہ کھا کر سالک اسی کو مقصود سمجھنے لگتا ہے۔
اصل طریقِ عمل ضبط ہے:
حضرت والا کا ارشاد ہے کہ کیفیات کے طَریان کے وقت اصل طریقِ عمل تو یہی ہے کہ ضبط کرے، لیکن اگر غلبہ ہو اور ضبط کرنے میں تکلّف ہو تو پھر یہی مناسب ہے کہ اس کیفیت کا اتباع کرے تاکہ غلبہ فرو ہو۔ اور جب غلبہ فرو ہو جائے اور کیفیات حدِ ضبط کے اندر آ جائیں تو پھر ضبط کرے۔ اور جو یہ بزرگوں کا ارشاد ہے کہ وارِد کو مہمانِ عزیز سمجھے، اس کا حق ادا کرے، ورنہ وہ ادنیٰ بے التفاتی سے رخصت ہو جائے گا۔ تو وارِد کو مہمان جبھی کہیں گے جب اس وارِد کا غلبہ ہو، غلبہ سے پہلے پہلے نہ وہ مہمان ہے، نہ اس کا کوئی حق قائم ہوتا ہے۔ قبل غلبہ کے اگر اس کا حق ادا کیا جائے، تو یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کوئی راہ چلتے مسافر کو زبردستی اپنا مہمان بنائے، اور خواہ مخواہ اس کے سر ہو جائے کہ تُو تو میر ا مہمان ہے۔ آ میں تیرا حق ادا کروں۔
امیتازی شان اور کثرتِ ضِحک و تکلّم سے تحرّز کی ترغیب:
فرمایا کہ تقویٰ اور دینداری کا اہتمام تو بہت رکھے، لیکن اپنی طرف سے حتّی الامکان کوئی ایسی امتیازی صورت نہ پیدا ہونے دے جس سے شہرت ہو جائے۔ جب لوگوں سے ملنے جلنے کا اتفاق ہو، کبھی کبھی کسی قدر ہنس بول بھی لے، تاکہ لوگوں کو خواہ مخواہ بزرگی کا گمان نہ ہو، لیکن ہنسنے بولنے کی کثرت ہر گز نہ کرے، کیونکہ کثرت سے ہنسنا بولنا مضر ہے۔ چنانچہ حدیث ہے: "اِیَّاکَ وَ کَثْرَةَ الضِّحْکِ فَاِنَّهٗ یُمِیْتُ الْقَلْبَ"۔ (شعب الإیمان للبیھقي، رقم الحدیث:4592) یعنی "اپنے آپ کو زیادہ ہنسنے سے بچاؤ، کیونکہ ہنسنے کی کثرت قلب کو مُردہ کر دیتی ہے۔" واقعی زیادہ بولنے سے دل بے رونق ہو جاتا ہے۔ جیسے اگر ہانڈی میں اُبال آئے اور اس کی روک تھام نہ کی جائے، تو بس سارا مصالحہ نکل جائے گا اور ہانڈی پھیکی رہ جائے گی۔ اگر اچھی اچھی باتیں بھی بلا ضرورت کی جائیں تو ان کا بھی یہی اثر ہوتا ہے۔
مباحات میں شرطِ اعتدال:
فرمایا کہ جو شخص فضولیات میں مشغول ہو گا، عادةً وہ ضروریات میں ضرور کوتاہی کرے گا۔ اور صرف ہنسنا بولنا ہی نہیں بلکہ جتنے بھی مباحات ہیں، ان سب کی کثرت مضر ہے۔ لیکن اگر کثرت نہ ہو بلکہ مباحات میں اعتدال کے ساتھ اشتغال ہو تو پھر وہ بجائے مضر ہونے کے نافع ہیں۔ خصوصاً جب وہ اشتغال کسی مصلحت پر مبنی ہو، کیونکہ اس اشتغال سے طبیعت میں نشاط ہوتا ہے اور نشاط سے طاعات میں اعانت و سہولت ہو جاتی ہے۔
اشتغال بہ مباحات کا درجۂ مضرّت:
فرمایا کہ جس وقت مباحات کے اشتغال سے قلب کے اندر کدُُورت پیدا ہونے لگے تو سمجھ لے اب مضرّت کا درجہ پہنچ گیا ہے، فوراً الگ ہو جائے۔ لیکن یہ معیار اس کے لیے ہے جس کے قلب کے اندر صحبتِ شیخ اور التزام و اہتمامِ ذکر و طاعات سے احساس پیدا ہو گیا ہو۔ باقی مبتدی اپنے لیے بطورِ خود کچھ تجویز نہ کرے، بلکہ شیخ سے اپنی ہر حالت کی فرداً فرداً اطلاع کر کے ہر حالت کے متعلق جزئی طور پر طریقِ عمل دریافت کرتا رہے اور جس حاجت کے متعلق جو طریقِ عمل وہ تجویز کرے اسی پر کار بند رہے۔
صرف اطفالِ طریق کی تربیّت کی جاتی ہے:
فرمایا کہ کیفیات کا درجہ تو بس ایسا ہے جیسے شروع میں بچوں کو پڑھانے کا شوق دلانے کے لیے مٹھائی دیتے ہیں۔ یہی مراد ہے حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے: ''تِلْکَ خِیَالَاتٌ تُرَبّٰی بِھَا أَطْفَالُ الطَّرِیْقَۃِ'' یعنی بعض مبتدیوں کو جو اطفالِ طریق ہیں، راہ پر لگانے کے لیے ذوق و شوق وغیرہ کی کیفیات عطا فرما دی جاتی ہیں۔
رسوخ سے مقصود عمل ہے:
اگر عمل بلا رسوخ ہوتا رہے، مقصود حاصل ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ رسوخ حال ہے اور استقامت مقام۔ رسوخ اصلاح کا طبعی درجہ ہے، جو ایک کیفیتِ غیر اختیاریہ ہے اور استقامت اس کا عقلی درجہ ہے جو اختیاری ہے۔ استقامت مقصود ہے، رسوخ مقصود نہیں گو محمود ہے۔
کبھی کیفیات کا منشا معدہ کی خرابی ہوتی ہے:
اکثر فرمایا کہ اس طریق میں جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں وہ سب باطنی ہی نہیں بلکہ بطنی بھی ہوتی ہیں، جو پیٹ کی خرابی اور معدہ کی تبخیر وغیرہ سے پیدا ہو جاتی ہیں۔
حُبِّ شیخ و اتّباعِ سنّت:
حضرت والا حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے اس ملفوظ کو نہایت تاکید اور اہتمام کے ساتھ نقل فرماتے ہیں کہ: "حُبِّ شیخ اور اتّباعِ سنت کے ہوتے ہوئے اگر لاکھ ظلمات بھی ہوں تو وہ سب انوار ہیں اور اگر ان میں سے ایک چیز بھی کم ہو تو پھر لاکھ انوار ہوں وہ سب ظلمات ہیں۔"
ذکر و طاعات میں مشغولیت:
حضرت والا فرمایا کرتے ہیں کہ ذکر و طاعات میں بتکلّف مشغول رہنا چاہیے۔ نہ سہولت کا متمنّی رہے، نہ یہ دیکھے کہ مجھے کچھ نفع ہو رہا ہے یا نہیں۔ ذکر و طاعات میں مشغول رہنا ہی اصل مقصود ہے اور اصل نفع ہے۔
روحِ سلوک:
ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ مقصد کے حصول کا قلب میں تقاضا اور انتظار نہ رکھیں کہ یہ بھی حجاب ہے۔ کیونکہ اس سے تشویش ہوتی ہے اور تشویش برہم زنِ جمعیّت و تفویض ہے اور جمعیّت و تفویض ہی وصول کی شرطِ عادی ہے۔ اس کو خوب راسخ کر لیں کہ روحِ سلوک ہے۔
شیخ کی صحبت اعمال میں مناسبت پیدا کرتی ہے:
فرمایا کہ طالب شیخ کے پاس رہ کر دُزدِیدہ طور پر اس کے اخلاق و عبادت کا اخذ اور کمالات کو جذب کرتا رہتا ہے اور اس طرح روز بروز شیخ کا رنگ چڑھتا چلا جاتا ہے۔ جیسے مِثل مشہور ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ نیز صحبتِ شیخ میں بدون معتد بہٖ مدت تک رہے شیخ سے مناسبت نہیں پیدا ہوتی، اور شیخ کی مناسبت ہی اس طریق میں نفع کی عادةً موقوف علیہ ہے۔
شیخ کی اطاعت و اتّباع کافی ہے:
فرمایا کہ: حُبِّ شیخ (جو مُرادِف ہے مناسبتِ کاملہ کی) کلیدِ کامیابی ہے اور کلیدِ جملہ سعادات و برکات ہے، لیکن حُبِّ عقلی اطاعت و اتّباع کو بالکل کافی وافی قرار دیتے ہیں، کیونکہ حُبِّ طبعی اختیاری نہیں، اور عبد غیر اختیاری امور کا مکلّف نہیں۔ چنانچہ ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ توجہ الی اللہ اصل مقصود ہے اور شیخ کی محبت اسی مقصود کا ذریعہ ہے۔ پس اگر کسی کو خدا تعالیٰ یہ مقصود نصیب کر دے اور شیخ سے ذرا بھی متعارف محبّت نہ ہو مگر اطاعت اور اتّباع ہو تو وہ شخص سراسر حق پر فائز ہے۔
واسطۂ شیخ کی مثال:
فرمایا کہ دراصل تو کام ذکر و شغل ہی بناتا ہے، لیکن شیخ کا واسطہ بھی ضروری ہے۔ جیسے کاٹ تو تلوار ہی کرتی ہے، لیکن اس کا کسی کے قبضہ میں ہونا شرط ہے۔