علاجِ کِبر:
ایک طالب نے لکھا کہ حضور جب کسی شخص میں فی الواقع خداداد فضیلتیں موجود ہیں۔ تو اب ان موجودہ فضیلتوں کو کس طرح اپنے میں معدوم سمجھ کر اپنے آپ کو دوسروں سے ادنیٰ سمجھے؟ اس کا جواب تحریر فرمایا کہ اکمل سمجھنا جائز ہے، مگر افضل بمعنی مقبولِ حق اور اس کو مردود و مطرود سمجھنا جائز نہیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ فی الحال اس کا کوئی عملِ صالح ایسا ہو کہ اس کے تمام اعمال سے زیادہ پسندیدہ ہو اور اس میں کوئی رذیلہ ایسا ہو کہ اس کے سب رذائل سے زیادہ ناپسندیدہ ہو۔ یا فی الحال نہ ہو تو فی المآل اس کا احتمال ہے۔ بس ان دونوں احتمالوں کا مستحضر رکھنا علاجِ کِبر کے لیے کافی ہے۔ انسان اس سے زیادہ کا مکلّف نہیں۔
غصّہ کا علاج:
1۔ ایک طالب کو غصّہ کا یہ علاج تحریر فرمایا کہ مغضوب علیہ کو اپنے پاس سے جدا کر دیا جائے یا اس کے پاس سے خود جدا ہو جائیں اور فوراً کسی شُغل میں لگ جائیں۔
2۔ اسی طرح ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ اس کا التزام کریں کہ جب ایسا ہو جائے، مغضوب علیہ کو کچھ ہدیہ دیا کریں۔ گو قلیل ہی مقدار میں ہو۔
3۔ اسی طرح ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ جس پر غصّہ کیا جائے۔ بعد غصّہ فرو ہو جانے کے، مجمع میں اس کے سامنے ہاتھ جوڑے، پاؤں پکڑے، بلکہ اس کے جوتے سر پر رکھے۔ ایک دو بار ایسا کرنے سے نفس کو عقل آ جائے گی۔
4۔ اسی طرح ایک طالب کو غصّہ کا یہ تدارک تحریر فرمایا کہ ایسے بے جا اور بیحد غصہ پر دو وقت کا فاقہ کرو۔
5۔ ایک طالب نے جو افسر پولیس ہیں، اپنی بیوی کی شکایت لکھی کہ آئے دن مجھ سے لڑتی رہتی ہے، روز کے طعنوں اور لڑائی جھگڑے سے سخت پریشان ہوں اور خوف ہے کہ کوئی بری راہ نہ اختیار کر بیٹھوں۔ اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ ایسا نہ کیجئے، ممکن ہے کہ ان کے نہ ہونے سے اس سے زیادہ تکلیف ہو۔ اور مشورہ کے متعلق فرمایا کہ مشورہ تو اہلِ تجربہ دیتے ہیں، میں خود اس شعر کا مصداق ہوں؎
آں را کہ عقل و ہمّت و تدبیر و رائے نیست
خوش گفت پرده دار، کہ کَس در سرائے نیست
البتہ بجائے تجربہ کے جذبات رکھتا ہوں، ان جذبات کی بناء پر رائے دیتا ہوں کہ بی بی کو ایسے وقت شیطان کی مینا سمجھ کر نقال اور تماشہ سمجھ لیا کیجئے، غیظ نہ ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے لکھا کہ اس فقرے سے بہت لطف آیا اور بجائے غیظ کے رحم آنے لگا۔
روحُ الطّریق:
مقصود تو رضائے حق ہے۔ اب دو چیزیں رہ گئیں: طریق کا علم اور اس پر عمل۔ سو طریق صرف ایک ہے، یعنی احکامِ ظاہرہ و باطنہ کی پابندی۔ اور اس طریق کی مُُعیِن دو چیزیں ہیں: ایک ذکر جس پر دوام ہو سکے، دوسرے صحبت اہل اللہ کی، جس کثرت سے مقدور ہو۔ اور اگر کثرت سے فراغ نہ ہو تو بزرگوں کے حالات و مقالات کا مطالعہ اس کا بدل ہے۔ اور دو چیزیں طریق یا مقصود کی مانع ہیں: معاصی اور فضول میں مشغولی۔ اور ایک امر ان سب کے نافع ہونے کی شرط ہے یعنی اطلاعِ حالات کا التزام۔ اس کے بعد اپنی استعداد ہے، حسبِ اختلافِ استعداد مقصود میں اویر سویر ہوتی ہے، میں سب کچھ لکھ چکا۔
فتوحُ الطّریق:
ایک طالب نے لکھا کہ بزرگوں سے حاصل کرنے کی کیا چیز ہے اور اس کا کیا طریقہ ہے؟ جواب تحریر فرمایا کہ کچھ اعمال مامور بہا ہیں ظاہرہ بھی باطنہ بھی۔ کچھ اعمال منہی عنہا ہیں ظاہرہ بھی باطنہ بھی۔ ہر دو قسم میں کچھ علمی و عملی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔
مشائخِ طریق طالب کے حالات سن کر ان عوارض کو سمجھ کر ان کا علاج بتلا دیتے ہیں، ان پر عمل کرنا طالب کا کام ہے۔ اور اعانتِ طریق کے لیے کچھ ذکر بھی تجویز کر دیتے ہیں۔ اس تقریر سے مقصود اور طریق دونوں معلوم ہو گئے۔
وضوحُ الطّریق:
ایک طالب نے پوچھا کہ میں ایک اناڑی آدمی ہوں، حضور مطّلع فرمائیں کہ بزرگوں سے کیا چیز حاصل کی جاتی ہے، اور اس کے مطابق مجھ عامی مشغول کو طریقِ تعلیم ارشاد فرمائیں۔ اس کا جواب حسبِ ذیل تحریر فرمایا:
نفس میں کچھ امراض ہوتے ہیں، ان کا علاج کتابوں میں لکھا ہے۔ مگر جیسے جسمانی امراض کا علاج گو کتابوں میں لکھا ہے، لیکن پھر بھی طبیب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی درجہ میں نفسانی امراض کے معالجہ میں شیخ یعنی معلّم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آ گئی ہو تو پھر امراض بتلاؤں گا، پھر اس کے سمجھ جانے کے بعد علاج بتلاؤں گا۔
تسہیل الطّریق:
ایک صاحب نے لکھا کہ اپنا حال ابتر ہی پاتا ہوں، سوائے ادھیڑ بن کے اور کچھ نہیں۔ اس کا جواب تحریر فرمایا: خود مشقت میں پڑنے کا شوق ہی ہو تو اس کا علاج ہی نہیں۔ باقی راستہ بالکل صاف ہے کہ غیر اختیاری کی فکر میں نہ پڑیں، اختیاری میں ہمت سے کام لیں۔ اگر کوتاہی ہو جائے ماضی کا استغفار سے تدارک کر کے، مستقبل میں پھر تجدیدِ ہمت سے کام لیں، اور استعمالِ ہمت کے ساتھ دعا کا بھی التزام رکھیں، اور بہت لجاجت کے ساتھ۔
اَلْیَمُّ فِیْ السَّمِّ:
ایک طالب نے اپنے خط میں کوئی ایسا وظیفہ یا طریقہ پوچھا تھا جس سے طاعات میں ترقّی اور معاصی سے اجتناب میسّر ہو۔ جواب تحریر فرمایا کہ طاعات اور معاصی دونوں امورِ اختیاریہ ہیں، جن میں وظیفہ کو کچھ دخل نہیں۔ رہا طریقہ، سو طریقہ امورِ اختیاریہ کا بجز استعمالِ اختیار اور کچھ بھی نہیں۔ ہاں سہولتِ اختیار کے لیے ضرورت ہے مجاہدہ کی، جس کی حقیقت ہے مخالفتِ (یعنی مُقاوَمت) نفس، اس کو ہمیشہ عمل میں لانے سے بتدریج سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔ میں نے تمام فن لکھ دیا۔ آگے شیخ کے دو کام رہ جاتے ہیں: اول بعض امراضِ نفسانیہ کی تشخیص، دوسرے بعض دفعہ ترکِ مجاہدہ کی تجویز، جو کہ ان امراض کا علاج ہے۔
الطَّمُّ فِي السَّمِّ:
ایک طالب نے اپنے حالات لکھ کر اصلاح چاہی تھی۔ جواب ارقام فرمایا کہ غیر اختیاری میں درپے نہ ہونا، اختیاری میں ہمت کرنا، اس میں جو کوتاہی ہو جائے اس پر استغفار اور اس کا تدارک اور توفیق کی دعا کرنا۔ یہی اصلاح ہے۔
توکّل و تفویض کا فرق:
فرمایا کہ توکّل بعض کے لیے مطلق تدبیرِ ظنّی کو ترک کرنا ہے، کہ تدبیرِ غیر مباح کو اور انہماک فی التدبیرِ المباح کو ترک کر دے۔ اور تفویض یہ کہ اس کے بعد اگر تدبیر میں ناکامی ہو یا وہ واقعہ تدبیر سے تعلق ہی نہ رکھتا ہو، جیسے غیر اختیاری مصائب، تو حق تعالیٰ پر اعتراض نہ کرے۔ حقیقت تفویض کی توکّل کا اعلیٰ درجہ ہے اور اس درجہ کا علیا کا اثر رضا ہے۔
اصلی مطلوب دُعا:
فرمایا کہ دعا سے اصل مطلوب حق تعالیٰ کی توجّہِ خاص ہے اور عبد نے جو طریقِ معین اختیار کیا ہے یہ مقصود نہیں ہے، بلکہ مقصود کا محض ایک طریق ہے۔ جیسے اس مقصود کے اور بھی طریق ہیں۔ لہٰذا وہ جس طریق سے توجّہِ خاص فرمائیں وہ اجابتِ دعا ہی ہے، خواہ وہ عبد کا مجوّزہ طریق ہو یا حق تعالیٰ کا مجوّزہ طریق ہو۔
ف: جو شخص صرف حاجت پورا کرنے کو نعمت سمجھتا ہے وہ محجوب ہے۔ بلکہ اصل نعمت مولےٰ کی توجّہ اور التفات، اور اس کا جواب و خطاب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے کلام و سلام اور سوال و جواب اور رضا ہی کا نام تو وصول ہے۔ ہاں وصول کے درجات میں کسی کو اعلیٰ درجہ حاصل ہے اور کسی کو ادنیٰ، مگر کوئی مؤمن وصول سے محروم نہ رہے گا۔ یہی وہ ولایتِ عامّہ ہے جو ہر مسلمان کو حاصل ہے۔ ﴿اَللهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۔۔۔﴾ (البقرة: 257)
کِبر کی حقیقت اور ماتحتوں کیساتھ وقوعِ کِبر کا علاج:
ایک صاحب نے کِبر کی حقیقت کے متعلق سوال کیا اور یہ بھی لکھا کہ اپنے ماتحتوں پر اگر زیادتی ہو جائے تو ان سے معافی مانگنے میں مصالح فوت ہوتے ہیں۔ اس کا جواب حسب ذیل ارقام فرمایا:
کِبر کی حقیقت ہے اپنے کو دوسرے سے بڑا سمجھنا، اس طرح سے کہ اس دوسرے کو حقیر سمجھے۔ پھر اس بڑے سمجھنے میں دو درجے ہیں: ایک بے اختیار بڑائی کا آنا اور ایک بالاختیار ایسا خیال کرنا۔ پھر اوّل میں دو درجے ہیں: ایک تو یہ کہ اس خیال کے مُقتضا پر عمل نہ کرنا، یہ مذموم نہیں۔ دوسرے اس پر عمل کرنا، یہ مذموم و معصیت ہے۔ اسی طرح قصداً بڑا سمجھنا، یہ بھی علی الاطلاق مذموم ہے۔ گو اس کے مُقتضا پر عمل بھی نہ ہو۔ امرِ ثانی کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر ہم صریح الفاظ سے معافی مانگیں گے تو یہ گستاخ ہو کر زیادہ نافرمانی کرے گا، بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ شرمندہ ہوگا۔ یہ اس وقت تک عذر ہے جب اس سے تعلّق رکھنا چاہیں۔ ان صورتوں میں تو صرف اس کو خوش کر دیا، امید ہے کہ قائم مقام معافی کے ہو جائے گا۔ اور اگر اس سے تعلّق ہی رکھنا نہیں، مثلاً ملازم کو موقوف کر دیا یا وہ خود چھوڑ کر جانے لگا۔ اس وقت ضروری ہے کہ زیادتی ہو جانے کی صورت میں اس سے صریح معافی مانگی جائے۔ کیونکہ یہاں دونوں عذر نہیں، اس میں اگر رکاوٹ ہو تو میرے نزدیک اس کا سبب ضرور کِبر ہے۔ گو اپنے کو بڑا نہ سمجھے، لیکن کِبر کے مُقتضا پر عمل تو ہوا۔ غایت سے غایت کِبرِ اعتقادی نہ ہوگا مگر کِبرِ عملی ضرور ہے۔ اور اگر کِبر کی تقسیم کو کوئی قبول نہ کرے، تب بھی ظلم تو ہوا، جس سے معافی مانگنا واجب ہے۔ تو معافی نہ مانگنے میں اگر کِبر کا گناہ نہ ہو، تو ظلم کا تو ہوا۔
فرمایا کہ جو تشتّت تحصیلِ جمعیّت میں ہو وہ اثر میں جمعیت ہی ہے، مضرّ نہیں۔
تعلّقِ غالب کی تعریف:
فرمایا کہ تعلّقِ مغلوب مذموم نہیں، بلکہ ایسا تعلّق مذموم ہے کہ محلِّ تعلّق کے بُعد یا اس کے فوت سے قلب پر ایسا اثر ہو کہ قلب کو ایسا بے چین کر دے کہ اسی کے تصوّر و حسرت میں اشتغال ہو جائے۔ اور اس اشتغال سے طاعات میں قلّت و ضعف آ جائے۔ اگر یہ نوبت نہ پہنچے تو محض حُزن کا اثر مانع نہیں ہے۔ کیا حضرت یعقوب علیہ السّلام کے حُزنِ شدید کا کوئی انکار کر سکتا ہے؟ اور کیا ان کی حالت کو کوئی مانع عن الحق کہہ سکتا ہے؟
علاجِ حُبِّ جاہ:
ایک طالب نے لکھا کہ میرے اندر حُبِّ جاہ ہے، جی چاہتا ہے کہ لوگ میری تعریفیں اور ثنائیں بیان کریں۔ اور تعریف سے ایک فرحت اور خوشی ہوتی ہے، اگر کوئی تعریف یا مذمت سے خاموش رہے تو یہ نفس پر نہایت ناگوار گزرتا ہے الخ۔ اس کا جواب تحریر فرمایا کہ ہر علاج میں مجاہدہ کی ضرورت ہے، یعنی داعیۂ نفس کا اِستحضار اور داعیہ کی عملی مخالفت۔ اس مرض کا علاج بھی مرکّب ہے ان ہی دو جز سے: اول اس رذیلہ کی جو مذمّتیں اور وعیدیں وارد ہیں ان کا ذہن میں حاضر کرنا، بلکہ زبان سے بھی انکار بتکرار، بلکہ ان مضامین سے اپنے نفس کو زبان سے خطاب کرنا کہ تجھ کو ایسا عقاب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح سے عیوب کا استحضار اور نفس کو خطاب کہ اگر لوگوں کو ان رذائل کی اطلاع ہو جائے تو کتنا ذلیل و حقیر سمجھیں، تُو یہی غنیمت سمجھ کہ لوگ نفرت و تحقیر نہیں کرتے، نہ کہ ان سے توقّع تعظیم و مدح کی رکھی جائے۔ اور عملی جزو یہ ہے کہ مدّاح کو زبان سے منع کیا جائے اور اس میں ذرا اہتمام سے کام لیا جائے، سرسری لہجہ سے کہنا کافی نہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی جو لوگ ذلیل شمار کئے جاتے ہیں ان کی تعظیم کی جائے، گو نفس کو گراں ہو۔ اس پر عمل کر کے ایک ہفتہ کے بعد پھر اطلاع دی جائے۔
علاجِ ترفّع:
اوّل میں یہ اعتقاد رکھیں کہ میں سب سے کمتر ہوں۔ اور اس اعتقاد کے لیے اپنے معائب کا استحضار مُعین ہو گا، اور جن کی بے وقعتی ذہن میں آئے ان کی خوب تکریم کی جائے، اور تکلّف سے ان سے سلام کیجئے، گو نفس کو نا گواری غیر اختیاری ہے اس پر مؤاخذہ نہیں ہے، لیکن معاملہ اختیاری ہے، اس میں اِخلال مُوجبِ مؤاخذہ ہے۔ ان شاء اللہ اس سے منشائے فساد بھی ضعیف ہو جائے گا۔ وَاللہُ الْمُوَفِّقُ۔
ایک طالب نے لکھا کہ رضا بالقضاء کے حصول کے لیے کوئی علاج تحریر فرمایا جائے۔ اور اس کا معیار اور مقدار بھی، کہ انسان اس کے متعلّق کس قدر کا مکلّف ہے۔
جواب تحریر فرمایا کہ رضا بالقضاء کی حقیقت ترکِ اعتراض علی القضاء ہے۔ اگر الم کا احساس ہی نہ ہو تو رضائے طبعی ہے، اور اگر الم کا احساس باقی رہے تو رضائے عقلی ہے۔ اول حال ہے جس کا عبد مکلّف نہیں، اور ثانی مقام ہے جس کا عبد مکلّف ہے۔ تدبیر اس کے تحصیل کی استحضارِ رحمت و حکمتِ الٰہیہ ہے۔ واقعات خلافِ طبع ہیں۔
نسبت کی حقیقت:
نسبت کے لغوی معنیٰ ہیں لگاؤ و تعلّق، اور اصطلاحی معنی ہیں بندہ کا حق تعالیٰ سے خاص تعلّق، یعنی ”اطاعتِ دائمہ و ذکرِ غالب“ اور حق تعالیٰ کا بندہ سے خاص قسم کا تعلّق یعنی قبول و رضا۔ جیسا عاشق مطیع، اور وقار معشوق میں ہوتا ہے۔ اور صاحبِ نسبت ہونے کی یہ علامت تحریر فرمائی کہ اس شخص کی صحبت میں رغبت الی الآخرة و نفرت عن الدنیا کا اثر ہو۔ اور اس کی طرف دینداروں کی زیادہ توجّہ اور دنیا داروں کی کم۔ مگر یہ پہچان، خصوصا اس کا جزوِ اوّل عوام محجوبین کو کم ہوتی ہے۔ اہلِ طریق کو زیادہ۔
ف: جب نسبت کے معنی معلوم ہو گئے تو ظاہر ہو گیا کہ فاسق و کافر صاحبِ نسبت نہیں ہو سکتا۔ بعض لوگ غلطی سے نسبت کے معنی خاص کیفیات کو (جو ثمرہ ہوتا ہے ریاضت و مجاہدہ کا) سمجھتے ہیں۔ یہ کیفیت ہر مُرتاض (ریاضت کرنے والے) میں ہو سکتی ہے، مگر یہ اصطلاح جہلاء کی ہے۔
مکتوب مفرّحُ القلوب:
پورا کامل بجز انبیاء کے کوئی نہیں، اور وہ کاملین بھی اپنے کو کامل نہیں کہتے۔ سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں خواہ وہ نقص حقیقی ہوں یا اضافی۔ اور نقص نظر آنے سے مغموم بھی ہیں۔ اور مغموم بھی ایسے کہ اگر ہم جیسوں پر وہ غم پڑ جائے تو کسی طرح جاں بر نہیں ہو سکتے۔ کمال کی تو توقّع ہی چھوڑ دینا واجب ہے۔ ہاں سعئ کمال کی توقّع، بلکہ عزمِ واجب سے نجات، بلکہ قُرب بھی کمال پر موقوف نہیں۔ فکرِ تکمیل پر موعود ہے۔
بس اسی طرح سے عمر ختم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے۔ ''وَ ھٰذَا مَعْنٰی مَا قَالَ الرُّوْمِیُّ'':؎
اندریں ره می تراش و می خراش
تا دمِ آخر، دمے فارغ مباش
تا دم آخر دم آخر بود
کہ عنایت با تو صاحبِ سِرّ بود
یہ بھی تحریر فرمایا کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں مگر اس کو مبارک سمجھتا ہوں، جس کا اثر یہ ہے کہ یہ نہیں سمجھ سکتا کہ خوف کو غالب کہوں یا رجاء کو۔ مگر مضطر ہو کر اس دعا کی پناہ لیتا ہوں، جس سے کچھ ڈھارس بندھتی ہے: "اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّيْ وَ اجْعَلْنِيْ لَکَ"۔